میرے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم جیسا نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے اپنی تمام عمریں حضور ختمی المرتبت صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے در دولت پر وار دیں اور اسے اپنی سعادت جانا۔ سفر و حزر میں حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ رہے اور ایسا اکتساب فیض کیا کہ آج آنے والے عشّاقانِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم ان کے مقدس در پر سوالی بن کر کھڑے ہیں اور ان کے ارشادات کی روشنی میں حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات مبارکہ، آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات و کمالات، آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کریمہ اور شمائل و خصائل سے رہنمائی پاتے ہیں۔ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے سراپا باکمال کے متعلق جو معروف ارشادات حضور صلی اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے بیان فرمائے، ان میں سے چند چیدہ چیدہ (کیونکہ اس بے مثل و بے مثال سراپائے اقدس کا احاطہ تو ممکن ہی نہیں) نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں کہ ماہِ میلاد ربیع النور شریف کی ان مبارک ساعتوں میں ہم بھی اس چوکھٹ سے فیض پانے والوں میں شامل ہوں۔ بارہویں کی نسبت سے سراپائے باکمال و بے مثال کے بارہ نکات پر منتخب روایات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔
جسم اطہر:حضرت ابوہریرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 2) حضرت انس رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیبا وحریر کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا ۔ اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔ (بخاری جلد1، صفحہ 503، صفتہ النبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم) حضرت کعب بن مالک رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اس کیفیت سے حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی شادمانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔
جسمِ انور کا سایہ نہ تھا : آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی میں رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (حکیم ترمذی، نوادر الاصول، متوفی 255 ھ) امام ابن سبع رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ جب دھوپ یا چاندی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا (کیونکہ سایہ کثیف کا ہوتا ہے لطیف کا نہیں اور سورج و چاند کی کرنیں کیونکہ آپ کا سایہ بناتی کہ جب ان کا نور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کا ہی صدقہ ہے) ۔ عبد اللّه بن مبارک اور ابن الجوزی رحمتہ اللّه علیھما نے بھی حضرت عبد اللّه بن عباس رضی اللّه تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔ (المواھب الدنیہ مع شرح الزرقانی، الفصل الاول فی کمال خلقته، جلد 5، ص 524)
چونکہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے خود کے لئے اپنے رب سے جو دعا مانگی اس کا اختتام "واجعلنی نورا" پہ فرمایا تو اس کا اظہار یوں ہوا کہ جسمِ اطہر کے تو کیا ہی کہنے، حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے کپڑوں پر بھی کبھی نہ جوئیں پڑیں، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا۔ (شفاء الصدور فی اعلام نبوة الرسول، ابو الربیع سلیمان بن سبع)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مہر نبوت : حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر "مہرِ نبوت" تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل ابھرا ہوا گوشت تھا۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 3) اور اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ
اللّه وحده لا شریك له بوجه حیث کنت فانك منصور
یعنی ایک اللّه ہے اس کا کوئی شریک نہیں (اے رسول!) آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی ۔ (حاشیہ جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب ماجاء فی خاتم النبوة، حاشیة:2، جلد 2، صفحہ 206) (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قد مبارک : حضرت انس رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا، جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 1) اور مولائے کائنات مولا مشکل کشا جناب علی المرتضیٰ کرم اللّه تعالیٰ وجھه الکریم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نہ طویل قامت تھے نہ پستہ قامت تھے۔ بوقتِ رفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے دیکھا نہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد۔ (شمائل ترمذی صفحہ 1)
قد بے سایہ کے سایۂ مرحمت
ظل ممدود رافت پہ لاکھوں سلام
طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں
اس سہی سروِ قامت پہ لاکھوں سلام
سر مبارک اور گیسو مبارک : حضرت علی رضی اللّه تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "ضخم الراس" یعنی آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا (جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے)۔ (شمائل ترمذی)
حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھر دار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے تھے مگر حجتہ الواداع کے موقع پر آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب منظر کشی کی
گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو
آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو
آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 4-5)
رُخِ انور : حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ، پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔ ( الشمائل المحمدیه، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث 9، صفحہ 64) حضرت علی رضی اللّه تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : من راٰہ بدیھة ھابه ومن خالطه معرفة احبه ۔
ترجمہ : جو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو اچانک دیکھتا وہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے رعب داب سے ڈر جاتا اورپہچاننے کے بعد آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرنے لگتا تھا۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 2) (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگ پہ لاکھوں سلام
محراب ابرو : آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابر جاتی تھی۔ (شمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 7، صفحہ 21) پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دو ابرو قوس مثال دسن
جتھوں نوک مژہ دے تیر جھٹن
لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن
چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں
اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ گویا ہوئے تو حد کمال کو پہنچے
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
نورانی آنکھیں : آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک ڈورے تھے۔ (الشمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 6، صفحہ 19) آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (زرقانی علی المواہب جلد 5، صفحہ 246) پھر آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا دیکھنا محسوسات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو بھی جو آنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ "واللّه ما یخفی علی رکوعکم ولا خشوعکم" (بخاری جلد 1، صفحہ 59) یعنی خدا کی قسم! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔
گوش مبارک : آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں کی طرح آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ "انی اری مالا ترون و اسمع مالا تسمعون" (خصائص کبریٰ، جلد 1، صفحہ 67) یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔ (الخصائص الکبری للسیوطی، باب الایة فی سمعه الشریف، جلد 1، صفحہ 113)
آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے حلیف بنی خزاعہ نے تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ "لا بعد فی سمآعه صلی اللّه تعالی علیه وسلم فقد کان یسمع اطیط السمآء"یعنی اگر حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوة الفتح الاعظم، جلد 3، صفحہ 381)
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام
دہن شریف اور لعابِ دہن : حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا منہ مبارک فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔ (الشمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 7، 14، صفحہ 1،2،26) آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کی خاصہ ہے کہ ان کو کبھی بھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیاء علیھم السلام شیطان کے تسلط سے مخفوظ و معصوم ہیں۔ (المواھب اللدنیة و شرح الزرقانی، الفصل الرابع ما اختص به ۔ ۔ ۔ الخ، جلد 7، صفحہ 98)
آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا لعابِ دہن زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ حضور سرور کائنات صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے لعابِ دہن کے بے شمار معجزات ہیں وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا پاؤں ہو کہ سیدنا علی المرتضیٰ کے لئے آشوبِ چشم ہو، رفاعہ بن رافع رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی آنکھ ہو کہ ابو قتادہ رضی اللّه تعالیٰٰ عنہ کا چہرہ ہو سب نے شفا پائی۔ حضرت انس رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی شیریں ہوگیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جس کے پانی سے شاداب جان و جناں
اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنوئیں شیرۂ جاں بنے
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام
آواز مبارک : یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضور سید المرسلین صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑٖھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے، خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، الفصل الاول فی کمال خلقته ۔ ۔ ۔ الخ، جلد 5، صفحہ 444، 445)
جس میں نہریں ہیں شیر و شکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام
دستِ رحمت : آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُر گوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔ (الشمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 7، صفحہ 21) جس شخص سے آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبودار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم اپنا دست اقدس پھیرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دستِ رحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طیب رائحة النبی صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم ۔ ۔ ۔ الخ، الحدیث: 2329، صفحہ 1271)
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کر دیا
موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔