Pages

Wednesday, 30 August 2017

فضائل و مسائل قربانی حصّہ اوّل

فضائل و مسائل قربانی حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سرور عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا ”  یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں، اور (قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کهروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبولیت کے مقام  پر پہنچ جاتا ہے۔ لہذا اس (قربانی) کو خوش دلی سے کرو “۔ (جامع الترمذی کتاب الاضاحی)

حضور جان عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا “جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ (قربانی) جہنم کی آگ سے حجاب (روک) ہوجائے گی”۔ ( معجم کبیر رقم الحدیث 2736 جلد 3)

رسول مکرم شفیع اعظم ﷺ  نے ارشاد فرمایا  ” جو  پیسہ  عید (عیدالاضحیٰ) کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی  پیسہ  پیارا نہیں”۔ (معجم کبیر رقم الحدیث 10894)

سیدعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے “۔(سنن ابن ماجہ کتاب الاضاحی)

سیدالعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا ” افضل قربانی وہ ہے جو با اعتبار قیمت اعلی ہو، اور خوب فربہ ہو “۔ (مسند امام احمد، جلد 5)

رسول مکرم رحمت عالم ﷺ نے سیدہ مخدومہ کائنات بتول زهرا صلی اللہ تعالیٰ علی ابیہا وعلیہا وبارک وسلم سے ارشاد فرمایا “کهڑی ہوجاؤ  اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ کہ اس(قربانی کے جانور) کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو گناہ ہیں سب کی مغفرت ہوجائے گی”۔  راویِ حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہﷺ یہ (فضیلت) آپ کی آل کےلئے خاص ہے یا آپ کی آل کےلئے بهی ہے اور عامہ مسلمین کےلئے بهی، فرمایا کہ ” میری آل کےلئے خاص بهی ہے، اور تمام مسلمین کےلئے عام بهی ہے”۔( مجمع الزوائد للهیثمی، کتاب الاضاحی،  باب فضل الاضحیہ و شهود ذبحها، جلد4 صفحہ 4)

قربانی واجب ہونے کی شرائط :(1)غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں  (2)  اقامت یعنی مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں (3) تونگری، یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے (4) حریت، یعنی آزاد ہونا، جو آزاد نہیں اس پر قربانی واجب نہیں۔

قربانی واجب ہونے کےلئے مرد ہونا شرط نہیں- عورتوں پر بهی واجب ہوتی ہے جس طرح مردوں پر واجب ہے۔  نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔  اور نہ  ہی نابالغ کے باپ پر واجب کہ وہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرے۔( درمختار ، کتاب الاضحیہ جلد 9)

قربانی کے مسائل:حنش روایت کرتے ہیں کہ میں نے شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دیکها کہ وہ  دو  مینڈهوں  کی قربانی کرتے ہیں، میں نے عرض کی یہ کیا؟ فرمایا   “رسول اللہ ﷺ  نے مجهے وصیت فرمائی کہ میں حضور ﷺ کی طرف سے قربانی کروں، لہٰذا میں سرکار ﷺ  کی طرف سے (یہ دوسری) قربانی کرتا ہوں”۔(جامع الترمذی،  کتاب الاضاحی)

رحمت عالمﷺ  نے ارشاد فرمایا ” قربانی میں گائے سات (7) کی طرف سے اور اونٹ سات (7افراد) کی طرف سے ہے “۔( معجم کبیر رقم الحدیث 10026 جلد10: مجمع الزوائد للهیثمی  کتاب الاضاحی باب فی البقرہ والبدنہ جلد 4 صفحہ 9)

سرور عالم ﷺ  نے ارشاد فرمایا ” جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا  اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرلے بال اور ناخنوں سے نہ لے،  یعنی بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ ترشوائے “۔
( صحیح مسلم،  کتاب الاضاحی)

امام المسلمین سیدنا اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ   کے پاس اسی سے متعلق ایک سوال آیا کہ   اگر کسی قربانی کرنے والے نے ذی الحجہ کا چاند دیکهنے کے بعد بال کٹوائے یا ناخن ترشوائے تو اس کی قربانی ہوجائے گی یا نہیں، اور ایسا کرنا حکم عدولی کہلائے گا؟   اس کے جواب میں فرمایا ” یہ حکم صرف استحبابی ہے، کرے تو بہتر نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عذر کے سبب  خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشےہوں نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکهتا ہو اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں (ذی الحجہ)  تک رکهے گا  (یعنی بال زیر ناف و تحت بغل اور ناخن)  تو ناخن  و  خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا،  اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے،  فعل مستحب کےلئے گناہ نہیں کرسکتا “۔(فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 353)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سرور عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ”  چار قسم کے جانور قربانی کےلئے درست نہیں۔ (1) کانا جس کا کانا پن ظاہر ہے۔  (2) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو۔  (3) لنگڑا جس کا لنگ ظاہر ہو۔  (4) اور ایسا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو”۔(سنن ابوداؤد کتاب الاضاحی،  باب مایکرہ من الضحایا)

شیر خدا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے کان کٹے ہوئے، اور سینگ ٹوٹے ہوئے (جانور) کی کی قربانی سے منع فرمایا”۔(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب مایکرہ من الضحایا)

سیدالعالمینﷺ نے ارشاد فرمایا ”  جانوروں کے کان اور آنکهیں غور سے دیکھ لیں اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچهلا حصہ کٹا ہو، نہ اس کی جس کا کان پهٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو”۔(جامع الترمذی،  کتاب الاضاحی،  باب مایکرہ من الاضاحی)

ام المؤمنین سیدہ صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنهما سے مروی ہے کہ سرورِ عالم ﷺ نے حکم فرمایا کہ ” سینگ والا مینڈها لایا جائے جو سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی بیٹهتا ہو اور سیاہی میں نظر کرتا ہو، یعنی اس کے پاؤں پیٹ اور انکهیں سیاہ ہوں”۔ وہ قربانی کےلئے حاضر کیا گیا۔  حضور ﷺ  نے ارشاد فرمایا ،   عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنها چهری لاؤ،  پهر فرمایا اسے پتهر پر تیز کرلو پهر حضور ﷺ  نے چهری لی اور مینڈهے کو لٹایا اور اسے ذبح کرنے لگے اور فرمایا، بسم اللہ اللهم تقبل من محمد وآل محمد ومن امت محمد (ﷺ)۔
ترجمہ:  اے اللہ (عزوجل) تو اس کو محمد  (ﷺ ) کی طرف سے اور ان کی آل کی طرف سے اور امت کی طرف سے قبول فرما”۔( صحیح مسلم، کتاب الاضاحی باب استحباب استحساالضحیہ)

ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حدیث پاک میں یہ کلمات بهی ہیں؛ اللھم منک ولک عن محمد و امتہ بسم اللہ واللہ اکبر ۔
ترجمہ: اے اللہ (عزوجل) یہ تیرے لئے ہی ہے محمد (ﷺ) اور امت کی طرف سے ۔
(سنن ابوداؤد کتاب الضحایا،  باب مایستحب من الضحایا:  سنن ابن ماجہ،  ابواب الاضاحی، باب اضاحی رسول اللہﷺ)
نیز حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی  سے مروی ایک حدیث پاک میں یہ کلمات ہیں ” بسم اللہ واللہ اکبر هذا عنی وعمن لم یضح عن امتی”۔
ترجمہ: اے اللہ (عزوجل ) یہ میری طرف سے ہےاور میری امت میں سے اس کی طرف سے ہے جو قربانی نہ کرسکے”۔( سنن ابوداؤد،  کتاب الضحایا،  باب فی الشاتہ یضحی بہا عن جماعتہ)

خلیفہ اعلی حضرت صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں “یہ حضور ﷺ کے بے شمار الطاف میں سے ایک خاص کرم ہے کہ اس موقع پر بهی امت کا خیال فرمایا اور جو لوگ قربانی نہ کر سکے ان کی طرف سے خود ہی قربانی ادا فرمائی”۔

یہ شبہ کہ ایک مینڈها ان سب کی طرف سے کیونکر ہوسکتا ہے یا جو لوگ ابهی پیدا ہی نہ ہوئے ان کی قربانی کیونکر ہوئی اس جواب یہ ہے کہ یہ حضور اقدس ﷺ  کے خصائص سے ہے- جس طرح حضور ﷺ  چھ  مہینے کے بکری کے بچہ کی قربانی حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کےلئے جائز فرمادی اوروں کےلئے اس کی ممانعت کردی ۔(صحیح بخاری کتاب العیدین، باب کلام الامام والناس فی الخطبہ: صحیح مسلم کتاب الاضاحی، باب وقتها)اسی طرح اس میں خود حضور ﷺ کی خصوصیت ہے۔(بہارشریعت حصہ 15)

متفرق مسائل و سوالات

صاحب نصاب کسے کہتے ہیں ؟

جس کے پاس حاجت اصلیہ سے زائد ساڑهے سات تولے سونا یا ساڑهے باون تولے چاندی یا اتنی چاندی کی قیمت کے برابر روپے پیسے یا مال تجارت ہو وہ صاحب نصاب ہوگا۔ ( بہارشریعت حصہ 15)

حاجت اصلیہ سے کیا مراد ہے؟

حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان اور سواری کا جانور ( موجودہ دور میں کار، موٹر سائیکل وغیرہ) اور خادم اور پہننے کے کپڑے، طالب علم کےلئے کتابیں، پیشہ ور کے آلات ، مشینری، موبائل ، کاروبار یا تعلیم وغیرہ کےلئے کمپیوٹر،  کسانوں کے زرعی آلات یہ سب حاجت اصلیہ میں داخل ہیں۔

اگر کسی کے پاس مکان سکونت یعنی جس میں وہ رہتا ہے  اس کے علاوہ دوسرا مکان ہو تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی؟

جواب:  امام المسلمین الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں، ایسے شخص پر قربانی واجب ہے،  اگرچہ وہ مکان کرایہ پر دیا ہو یا خالی پڑا ہو یا سادی زمین ہو بلکہ مکان سکونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصہ جاڑے گرمی کی سکونت کے لئیے  کافی ہو، اور دوسرا حصہ حاجت سے زائد ہو، اور اس کی قیمت تنہا یا اسی قسم کے مال سے ملکر نصاب تک پہنچے جب بهی قربانی واجب ہے، اسی طرح صدقہ فطر بهی(واجب ہے)۔(فتاویٰ رضویہ جلد20 صفحہ 361)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اگر صاحب نصاب کے پاس ایام قربانی میں نقد رقم نہ ہو تو کیا وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اسے معاف ہے؟

جواب:  جس پر قربانی واجب ہے اور نقد رقم اس کے پاس نہیں تو وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اپنا کچھ مال جیسے سونا، چاندی، وغیرہ بیچ کر حاصل شدہ رقم سے قربانی کرے، اسے قربانی معاف نہیں۔
( تفصیل کےلئے دیکهئے فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 370)

ایک شخص صاحب نصاب نہیں تها اور قربانی کےلئے جانور خرید لیا بعدمیں معلوم ہوا کہ مجھ پر قربانی واجب نہیں، تو کیا ایسا شخص خریدہ ہوا جانور بیچ کر رقم استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ اس پر قربانی واجب نہیں؟

جواب:  جو صاحب نصاب نہ ہو اسے فقہی بولی میں فقیر کہتے ہیں اور صاحب نصاب کو غنی،  فقیر پر شرعا قربانی واجب نہ تهی، مگر جب اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس نیت کی وجہ سے اسی جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگئی۔(بہارشریعت حصہ 15)

اور اب یہ اس جانور کو فروخت کرکے رقم استعمال نہیں کرسکتا ، فروخت کرنا تو کجا اب یہ اس جانور کو دوسرے سے بدل بهی نہیں سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 20 صفحہ 372)

مسافر اگر قربانی کرے تو کیا اسے ثواب ملے گا ؟

جواب:   مسافر پر اگرچہ قربانی واجب نہیں مگر نفل کے طور پر قربانی کرے تو کر سکتا ہے ثواب پائے گا ۔ (بہارشریعت حصہ 15)

اگر کوئی شخص قربانی کے پہلے دن صاحب نصاب نہیں تها، عیدالاضحیٰ کے دوسرے یا تیسرے دن غنی ہوگیا، اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟

جواب:  قربانی کے واجب ہونے کو پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ قربانی کےلئے جو وقت (تین دن) مقرر ہے اس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا قربانی واجب ہونے کےلئے کافی ہے،  یہ شخص پہلے دن فقیر تها مگر دوسرے یا تیسرے دن وقت کے اندر مالدار ہوگیا، یا مسافر تها مقیم ہوگیا یا غلام تها اب آزاد ہوگیا حتی کہ کافر تها اب مسلمان ہوگیا  ان تمام صورتوں میں قربانی واجب ہے۔
( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ )

مالک نصاب نے قربانی کےلئے جانور خریدا ، وہ گم ہوگیا، یا چوری ہوگیا اب یہ مالک نصاب نہ رہا تو کیا وہ نیا جانور خریدےگا ؟

جواب:  اس صورت میں اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں کہ وہ صاحب نصاب نہ رہا، بلکہ اگر قربانی کے دنوں میں گمشدہ  یا چوری ہوا جانور مل گیا اور یہ اب بهی صاحب نصاب نہیں تو اس پر قربانی واجب نہیں۔( بہارشریعت حصہ 15 بحوالہ فتاوی ہندیہ کتاب الاضحیہ باب اول)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔