قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
26جولائی 1943ء کو حضرت قبلہ عالم امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ حیدر آباد دکن میں قیام فرما تھے ۔ حضرت شمس الملت (سجادہ نشین دوم) کے ہمراہ جوہر الملت پیر سید اختر حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ بھی حاضر خدمت ہوئے تو بخشی مصطفےٰ علی خان صاحب(مہاجر ، مدنی اور خلیفہ مجاز) پہلے سے حضور کی فرودگاہ یعنی قاری شہاب الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر موجود تھے ۔چند روز بعد اخباروں میں خبر شائع ہوئی کہ کسی بد بخت نے قائد اعظم محمد علی جناح پر چاقو سے حملہ کر کے آپ کو زخمی کر دیا ۔ حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے پیر سید اختر حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ کو حکم دیا کہ تم بخشی مصطفےٰ علی خان صاحب کے ہمراہ جا کر محمد علی جناح صاحب کی میری طرف سے مزاج پرسی کر آؤ۔ پیر سید اختر حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ اور بخشی مصطفےٰ صاحب کا ٹکٹ خرید لیا گیا تھا ۔حضرت قبلہ عالم نے بیمار پرسی کے لئے ایک خط بھی قائد اعظم کے نام تحریر فرمایا اور بہت سے تحائف جناح صاحب کیلئے عطا فرمائے بعد میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ اختر حسین تم مت جاؤ بخشی صاحب اکیلے ہی جائیں۔
قائد اعظم کے نام مکتوب و تحائف:حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا:’’قوم نے مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے اور پاکستان کیلئے جو کوشش آپ کر رہے ہیں، وہ میر اکام ہے ،لیکن میں اب سو سال سے زیادہ عمر کا ضعیف و ناتواں شخص ہوں ، میرا بوجھ جو آپ پر پڑا ہے ۔اس میں آپ کی امداد کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں، آپ مطمئن رہیں ۔ نمرود کی دشمنی حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دین کی ،فرعون کے دشمنی حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے دین کی ، ابو جہل کی دشمنی ہمارے نبی اکرم ﷺ کے دین کی ترقی ثابت ہوئی ہے ۔ اب آپ پر جو حملہ ہوا ہے ،آپ کی کامیابی کیلئے نیک فال ہے ۔آپ کو میں مبارک دیتا ہوں کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ آپ کو حصول مقصد میں کتنی بھی دشواریوں کا سامنا ہو ، آپ بالکل پرواہ نہ کریں ، اور نہ پیچھے ہٹیں ۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کامیاب فرمانا چاہتا ہے اس کے دشمن پیدا کر دیتا ہے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے ۔ میں اور میرے تمام یارانِ طریقت آپ کے حکم کے تابع رہیں گے ۔ آپ اپنے مقصد سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔‘‘
نوٹ:تحفوں میں قرآن شریف ،تسبیح ، جانماز ،شال ، دھسہ اور دوسری قیمتی چیزیں شامل تھیں۔ پیر سید اختر حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ ،قاری صاحب اور بخشی صاحب نے مشورہ کیا کہ تحفوں میں سے قرآن شریف ، تسبیح اور جانماز نکال دی جائے اور خط میں یہ الفاظ ’’میں اور میرے تمام یاران طریقت آپ کے حکم کے تابع رہیں گے ‘‘محذوف کر دیئے جائیں۔ حضور نے ہمارے مشورے کو قبول نہ فرمایا۔ اگلے دن ہم سب ایک ہی موٹر پر کسی جگہ دعوت پر شرکت کرلئے جا رہے تھے ، راستے میں ہم نے پھر اپنی بات دہرائی تو آپ نے کمال شفقت سے فرمایا :ایک بات تم میری مانو اور ایک بات میں تمہاری مانتا ہوں ۔ تحائف تو اسی طرح رہنے دو اور بتا ؤ خط میں کیا لکھو گے ؟ میں نے عرض کیا : اس جملے کو یوں بدل دیا جائے کہ ہم آپ کے معاون و مددگار رہیں گے ۔ فرمایا : بہت اچھے ! ہم سب اس حدیث شریف کے مضمون کے ’’اِتَّقُوْ ا فِرَاسَۃَ الْمُوْمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ‘‘(’’مومن کی فراست اور زیر کی سے ڈرو ، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘)سے غافل ہو گئے تھے ، اس لئے ہم سے گستاخی سرزد ہوئی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قائد اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی جانب سے شکریہ کا خط:بخشی صاحب خط اور تحفے لیکر بمبئی پہنچ گئے اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فرو دگاہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے ملاقاتیوں پر بالکل قدغن لگا رکھی ہے ۔ وہ محترمہ فاطمہ جناح رحمۃ اللہ علیہا سے مل کر خط اور تحائف ان کو دے آئے ۔ واپس آکر تفصیل اور مزاج سے حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو مطلع کیا ۔ چند روز بعد جناح صاحب کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ : جب آپ جیسے بزرگوں کی دعا میرے شامل حال ہے تو میں اپنے مقصد میں بھی کامیاب ہوں اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میری راہ میں کتنی ہی تکلیفیں کیوں نہ آئیں،میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ پھر لکھا کہ آپ نے قرآن شریف اس لئے عنایت فرمایا کہ میں مسلمانوں کا لیڈر ہوں ، جب تک قرآن اور دین کا علم نہ ہو کیا لیڈری کر سکتا ہوں ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھوں گا اور انگریزی ترجمے منگوا لیے ہیں ۔ ایسے عالم کی تلاش میں ہوں جو مجھے انگریزی میں قرآن کریم دے سکے ۔ جانماز آپ نے اس لئے عطا کی کہ جب میں اللہ کا حکم نہیں مانتا تو مخلوق میرا کیا حکم مانے گی ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ نماز پڑھوں گا اور تسبیح آپ نے اس لئے ارسال کی کہ میں اس پر درود شریف پڑھا کروں ،جو شخص پیغمبر اعظم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب نہیں کرتا اس پر اللہ کی رحمت کیسے نازل ہو سکتی ہے ۔میں اس اشارے کی بھی تعمیل کروں گا۔
جب حیدر آباد دکن میں قائد اعظم کے انگریزی خط کا مذکورہ بالا ترجمہ حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو سنایا گیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’میں حیدر آباد میں بیٹھا ہوں اور جناح صاحب بمبئی میں ہیں ۔اتنی مسافت پر ان کو مافی الضمیر کی خبر کیسے ہو گئی ۔ حالانکہ اس کامیں نے کسی سے تذکرہ بھی نہیں کیا ۔ بیشک جناح صاحب ولی اللہ ہیں۔
مسلم لیگ کی تائید و اعانت:اس کے بعد حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اور زیادہ انہماک سے مسلم لیگ کیلئے کام کرنا شروع کر دیا ۔اپنے تبلیغی دورے اور عام اجتماعات میں خصوصیت سے یہ پیام عام مسلمانوں تک پہنچاتے تھے ۔ آپ سادہ الفاظ میں کہتے ’’لوگو! دو پرچم ہیں ۔ایک مسلمانوں کا اور دوسرا کافروں کا ، بتاؤ کس پرچم کے سائے میں رہنا چاہتے ہو؟ آپ کی زبان سے یہ بات نکلتی تھی تو فوراً اثر دکھا تی اور لوگ جوق در جوق مسلم لیگ میں آتے اور اس کی حمایت پر مستعد اور کمر بستہ ہو جاتے تھے ۔
حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کرام اور مشائخ عظام کو خاص طور پر توجہ دلائی اور بتایا کہ یہ دین کا کام ہے آپ سب خدمت قوم اور حمایت دین پر مستعد ہو جائیں ۔صوفیاء کرام کو آپ خاص طور پر کہتے کہ آپ نے تمام عمر گوشہ نشینی میں گزار دی ہے اب دین کی خدمت کا وقت آگیا ہے ،اس لئے میدان عمل میں آجائیے اور اپنا فرض ادا کیجئے ۔ اس سلسلہ میں آپ نے اشتہار بھی شائع کیے اور بے شمار بزرگوں کو بھی خط لکھوائے ۔ چنانچہ اطراف و اکناف سے آپ کو تار کے ذریعے پیغامات موصول ہوئے اور علماء و مشائخ نے تعاون عمل کا وعدہ کیا۔
سنی کانفرنس(جمعۃ العلماء ہند) میں علمائے کرام کے عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مسلم لیگ کی حمایت کا زور و شور سے اعلان کیا تھا ۔ اسی طرح ہر اجتماع میں بلا خوف و خطر آپ حق کی حمایت میں آواز بلند فرماتے اور اس کا خاطر خواہ اثر ہوتا ۔ ایک دفعہ اکتوبر1946ء میں امر تسر کی مسجد میاں جان محمد میں جلسہ ہو رہا تھا ،آپ کی تقریر کے دوران بعض مخالفین نے سوال کیا کہ جناح کافر ہے یا مسلمان؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ جواب دیا تم نے اس کے ساتھ کونسی رشتہ داری کرنی ہے جو اس کا مذہب دریافت کرتے ہو؟ پھر ارشاد فرمایا :ہم نے جناح صاحب کو اپنا قاضی یا نکاح خواں مقرر نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے وکیل ہیں یہ ہم سب کا کام ہے جس کو وہ کر رہے ہیں ۔یہ پوچھنے سے کیا حاصل کہ ان کا مذہب و مسلک کیا ہے ؟ اہل جلسہ اس اسلوب بیان سے مطمئن ہو گئے ۔ حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑھ کر آپ کے پاؤں پکڑ لئے اور اعتراف کیا کہ اب مسئلہ صاف ہو گیا ہے ۔حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :مولوی صاحب! وہ پاکستان بنانے کی کوشش کر رہا ہے اسے کامیابی حاصل ہو گی ۔پھر آپ نے فرمایا : پاکستان کے مخالفین کان کھول کر سن لیں کہ پاکستان بن کر رہے گا ۔بارگاہ رب العزت سے اس کی منظوری ہو چکی ہے ۔پاکستان ہم سب کا ہے ۔اکیلے جناح صاحب کا نہیں ۔وہ ہمارا کام کر رہے ہیں اور ہمارے وکیل ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت پیر مانکی شریف کی آمد:حضور کی دعوت کے جواب میں حضرت پیر مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہ کا علی پور سیداں شریف آنے کا واقعہ یاد گار ہے ۔اس لیے محفوظ کیے دیتے ہیں کہ سردیوں کی رات تھی ، بارش ہو رہی تھی ایسے میں پیر صاحب قبلہ معہ رفقاء جو سب کے سب رائفلوں پستولوں سے مسلح تھے ، علی پور سیداں شریف وارد ہوئے ۔اسٹیشن پر جس نے اس جماعت کو دیکھا وہ بھی حیران ہوااور جنہوں نے آتے دیکھا وہ بھی ۔اس لیے کہ پنجاب میں اسی طرح رائفلوں اور پستولوں سے مسلح ہو کر چلنے کا رواج نہیں تھا۔
حضرت پیر صاحب باب رحمت میں داخل ہوئے تو حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے آہٹ سن کر پوچھا کون ؟ پیر صاحب نے جواباً کہا : مانکی کا فقیر۔ حضور کھڑے ہو گئے ۔معانقہ کیا اور فرمایا :فقیر کے گھر بادشاہ آگیا ہے ۔ پھر شکوہ کیا کہ ’’آپ نے اطلاع دی ہوتی ، اس سردی میں اور تاریکی میں اسٹیشن سے یہاں تک پہنچنے میں آپ کو بڑی زحمت ہوئی ہو گی ۔پیر صاحب نے فرمایا:چھوٹوں کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ بزرگوں کو اطلاع دیں ،چھوٹوں کا کام حاضر ہونا ہے ۔حضرت نے فرمایا اختر کو بلاؤ! وہ حاضر ہوئے تو حکم دیا کہ پیر صاحب کیلئے کھانا لگاؤ! پیر صاحب مانکی نے فرمایا :میں رات کو نہیں کھاتا ۔ قبلہ عالم نے فرمایا :آج تو کھانا ہو گا۔پیر صاحب نے فرمایا :’’چالیس سال سے میری یہ عادت ہے کہ میں رات کو مطلق نہیں کھاتا ۔ حضور قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔میری سو سال سے عادت ہے کہ مہمان کو کبھی بھوکا نہیں سونے دیتا ۔ انہی مزے مزے کی باتوں میں کھانا لگ گیا اور سب نے کھایا بعد میں حضرت کے دستور کے مطابق سبز چائے کا قہوہ پیا گیا ۔
غرض تین دن حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے پیر صاحب کو مہمان رکھا او رپر تکلف دعوتیں ہوئیں ،انواع و اقسام کے کھانے پکتے رہے ، چوتھے دن حضرت نے دریافت کیا کہ آپ نے خود کیوں تکلیف فرمائی ۔ پیر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ میں آپ کے مراسلہ کے جواب میں خود حاضر ہو گیا ہوں ،آج جو حکم ہو گا تعمیل کروں گے ۔ حضرت نے فرمایا :اب دین و ملت کی خدمت کی ضرورت ہے ۔یہ کام جو جناح صاحب کر رہے ہیں ہم سب کا ہے ۔ آپ بھی ان کی اعانت فرمائیں۔ پیر صاحب نے وعدہ کیا ۔ اس طرح چوتھے دن سب ان کو اسٹیشن تک رخصت کرنے گئے اور یہ پر لطف اجتماع ختم ہوا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت پیر صاحب مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح مسلم لیگ کی خدمت کی سب کو معلوم ہے ۔انہوں نے 24نومبر1945ء کو جناح صاحب کو مانکی شریف میں دعوت کی اور ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد فرمایا ۔ حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس جلسے میں شرکت کیلئے مانکی شریف بلایا تھا ۔ لیکن آپ ناسازئ مزاج کے باعث نہ جا سکے اور اپنے صاحبزادے سراج الملت پیر سید محمد حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی جگہ بھیج دیا اور آپ کے ہاتھ جناح صاحب کیلئے ایک سونے کا تمغہ ، تین سو روپے کی تھیلی اور کئی دوسرے تحائف ارسال کئے ۔حضرت پیر صاحب مانکی شریف نے حضرت سراج الملت کی بڑی عزت کی اور انہی سے جلسے کی صدارت کروائی ۔ جب جناح صاحب جلسے میں آئے اور حضرت پیر سید محمد حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے کہا کہ حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی کامیابی کیلئے تمغہ بھیجا ہے تو قائد اعظم بہت خوش ہوئے ۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور سینہ تان کر فرمایا :پھر تو میں کامیاب ہوں ، آپ تمغہ میرے سینے پر آویزاں کیجئے۔
حضرت پیر صاحب مانکی شریف نے ہزاروں لاکھوں روپے اپنی جیب سے خرچ کیے اور ریفرنڈم میں کانگرسی حکومت سے ٹکرلی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لاکھوں مرید ہیں اور سب نے اس وقت بڑا کام کیا تھا ۔ حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے یارانِ طریقت نے ریفرنڈم میں بھر پور محنت کی ، ریفرنڈم کی کامیابی میں ان اسباب کا بہت بڑا حصہ تھا ۔
کشمیر میں قائد اعظم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شاہانہ دعوت :اس سے پہلے کا واقعہ 1944ء میں حضرت قبلہ عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کا کشمیر کا آخری دورہ تھا ۔ انہی دنوں رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کی دعوت پر قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ سری نگر تشریف لائے ۔چوہدری صاحب حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے غلام اور مسلم لیگ کے بہت بڑی کارکن اور کشمیر کے عظیم سربراہ تھے ۔حضرت کو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ڈاکٹر عبد الاحد کی معرفت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت کی ، انہوں نے جواباً کہلوایا کہ یہاں آپ بھی مسافر ہیں ۔دعوت کی کیا ضرورت ہے ؟ البتہ ملاقات کیلئے حاضر ہو جاؤں گا۔ آپ نے عذر قبول نہ کیا اور نہایت وسیع پیمانے پر دعوت کی تیاریوں کا حکم دے دیا اور آپ اس وقت خواجہ عبد الاحد کے مکان پر قیام پذیر تھے ،وہیں سارے مہمان جمع ہوئے تھے ،بہت بڑا حال تھا سارے حال میں قیمتی قالینوں کا فرش تھا اور انہی پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھلایا گیا تھا ۔ایک یار غلام محمد صاحب کو حکم ہوا کہ تم باورچی کا انتظام کرو، انہوں نے سارا انتظام کیا اور چوبیس گھنٹے کھانے پکتے رہے ۔ پینتالیس قسم کے کھانے تیار کرائے گئے تھے۔
مقرر وقت پر قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ چوہدری غلام عباس کے ہمراہ تشریف لائے دونوں قائدین کے دوسرے رفقاء اور حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے یارانِ طریقت جو کثیر تعداد میں مدعو تھے جمع ہو گئے ۔ قائد اعظم سے حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے کھڑے ہو کر معانقہ کیا اور اپنے بستر پر بیٹھنے کی فرمائش کی تو قائد اعظم نے انکار کر دیا ۔ آپ نے پھر اصرار فرمایا تو انہوں نے کہا بے ادب اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا کرتا ،میرا مقصد پاکستان بنانا ہے ،مجھے اس مقصد سے محروم نہ کریں ۔ اس پر حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ فوراً بیٹھ گئے اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کہا :آپ جہاں پسند کریں تشریف رکھیں ۔ بابائے قوم آپ کے پاس ہی قالین پر بیٹھ گئے ذرا سے وقفے کے بعد ہاتھ دھلائے گئے اور دستر خوان بچھادئیے گئے ۔ حضرت نے قائد اعظم کے سامنے ایک خالی پلیٹ رکھواد اور اس میں تھوڑا تھوڑا نکال کر دیتے رہے ۔ قائد اعظم ماکولات کی کثرت سے حیران تھے اور کہتے تھے :بس اور نہ لاؤ، میں سیر ہو گیا ۔حضور نے فرمایا:’’آپ صرف تھوڑا تھوڑا چکھتے جائیے تاکہ آپ کو کشمیری کھانوں کا علم ہو جائے ۔‘‘ہر چیز خوب لذیزتھی مگر قائد اعظم بہت کم خوراک شخص تھے ۔ پھر بھی آپ نے ہر چیز تھوڑی تھوڑی ضرور چکھی ۔ آخر میں گوشتابہ آیا ۔ حضرت نے فرمایا:یہ بہت لذیذ ہوتا ہے اور یہاں کی رسم کے مطابق اسے سب سے آخر میں پیش کیا جاتا ہے ۔قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سب کھانوں کو پسند کیا اور کہا کہ میں نے ایسی پر تکلف دعوت عمر بھر نہیں کھائی ۔ اگر میرا بس چلے تو میں باورچی کو اڑالے جاؤں ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قائد اعظم کو کامیابی کا مژدہ:آخر میں پاکستان کے متعلق دیر تک باتیں ہو تی رہیں ۔ حضور نے قائد اعظم کو دو جھنڈے عطاء کئے ، سبز اور دوسرا سیاہ، اور نقد روپیہ عطا کیا ۔ پاکستان کی کامیابی کے لئے دعا فرمائی ۔رخصت کے وقت دوبارہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے اٹھ کر معانقہ کیا اور اس طرح یہ تاریخی ملاقات اور دعوت اختتام پذیر ہوئی ۔ حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان سے کئی سال قبل لاہور کے ایک جلسہ عام میں کئی لاکھ کے مجمع سے کہا تھا۔’’میرا ایمان ہے کہ پاکستان ضرور بنے گا، کیونکہ امیر ملت مجھ سے فرما چکے ہیں کہ پاکستان ضرور بنے گا اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبان مبارک کو ضرور سچا کر یں گے۔
1946ء کے انتخابات:1946ء کے انتخابات کو تحریک پاکستان میں بڑی حیثیت اور اہمیت حاصل تھی۔ کانگرس کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ۔ انگریز اور کانگرس ۔ قائد اعظم بار بارڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرما چکے تھے کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ کانگرس صرف ہندوستانیوں کی نمائندہ جماعت ہے ۔مسلمانوں کی نمائندگی صرف مسلم لیگ ہی کرتی ہے ۔ ہندوستان میں اسی لیے تین طاقتیں مسلمان ،ہندو اور انگریز ہیں ۔ دسمبر1945ء کے مرکزی اور فروری 1946ء کے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو اسی لیے انتہائی اہمیت حاصل تھی ۔ حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی ترغیب و تحریک پر بیشتر علماء کرام و مشائخ عظام نے پوری تندہی سے مسلم لیگ کیلئے کام کیا اور ان کے معتقدوں اور حامیوں نے کامل جوش اور خلوص سے انتخابات کی کامیابی میں حصہ لیا۔
حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے بنفس نفیس ہندوستان کے دورے کئے ۔حضور کے خلفاء نے بھی اتباع شیخ میں اپنے حلقوں کے دورے کیے اور سب تک حضور کا پیغام پہنچادیا کہ ہر شخص مسلم لیگ کو ووٹ دے ۔ حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اشتہارات چھپوائے اور ایک فتویٰ اخبارات میں شائع کیا کہ جو شخص مسلم لیگ کا ساتھ نہ دے اس کا جنازہ مت پڑھو اور اسے اپنے قبرستان میں دفن بھی مت ہونے دو۔سفر ، جلسے ،جلوس سب کا خرچہ آپ خود برداشت فرماتے تھے ۔ جو خلفاء اور یارانِ طریقت اپنے حلقوں میں جلسے جلوس نکالتے تھے ۔ ان کا صرفہ و ہ خود اٹھاتے تھے ۔ غرض دامے درمے ، قدمے سخنے آپ نے اور آپ کے خلفاء و یارانِ طریقت نے اس سلسلے میں جو کارنامے انجام دیئے ان کے تفصیل کیلئے دفتر درکار ہے۔
قائد اعظم نے الیکشن کیلئے قابل اور موزوں حضرات کو ٹکٹ دئیے تھے ۔ کچھ علماء حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور التماس کی کہ ہم کو بھی محمد علی جناح صاحب سے ٹکٹ دلوائیے۔ آپ نے ہر ایک سے کہا :مولوی صاحب میں نے خود اپنے لیے کوئی ٹکٹ نہیں لیا، آپ کو کیسے دلواؤں؟ ا ن کے اصرار پر فرمایا :آپ کا کام قال اللہ ، قال رسول اللہ، مسلمانوں تک پہنچانا ہے ، جاؤ اپنا کام کرو ۔یہ جن کے کام ہیں ان کو کرنے دو۔ اس طرح جب الیکشن کا زمانہ آگیا تو مسلم لیگی الیکشن میں کامیابی کیلئے حضور والا کی خدمت میں حاضر ہونے لگے کہ انتخابات میں ہماری مدد فرمائیے ۔چنانچہ الیکشن میں کامیابی کیلئے حضور والا نے دوبارہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھیجا ، کہیں حضرت عموی صاحبان قبلہ کی اور کہیں پیر سید اختر حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ کی ، تو کہیں عزیزم برادر سید انور حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ڈیوٹی لگی۔
حضرت پیر سید محمد حسین شاہ جماعتی رحمۃ اللہ علیہ (سجادہ نشین اول) کو ضلع رہتک میں کام کرنے کیلئے بھیجا تھا پھر انہیں ضلع فیروز پور میں نواب افتخار حسین ممدوٹ کے حلقہ میں جانے کا حکم دیا ۔ وہاں سے قصور میاں افتخار الدین کے کام کیلئے تشریف لے گئے ۔ اسی طرح عمو ی صاحبان ضلع ضلع اور تحصیل تحصیل مسلم لیگ کا کام کرتے رہے اور خدا کے فضل سے ہر جگہ مسلم لیگ کے امیدواروں کو کامیابی حاصل ہو ئی ۔
مجھے اول تحصیل نارووال جانے کا حکم نامہ ملا تھا ،وہاں سے میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ امیدوار تھے۔پھر مجھے تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا بھیجا گیا ۔وہاں کا معاملہ بہت سخت تھا وہ ملک خضر حیات ٹوانہ کی اپنی تحصیل تھی ۔ وہ یونینسٹ اور اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ میں وہاں فضل حق پراچہ کیلئے کام کر رہا تھا ۔ ملک خضر حیات خان نے بھلوال میں جلسہ کیا تو چھوٹے بچے سیاہ جھنڈے لے کر کھڑے ہو گئے ۔وزیر اعلیٰ کے ساتھ پولیس کیوں نہ ہوتی ، پولیس نے بچوں کو ڈرایا ، دھمکایا تو عالم شاہ ذیل دار حلقہ کھڑے ہو گئے اور ڈانٹ کر کہا :خبردار اگر تم نے ہمارے کسی بچے کو ہاتھ بھی لگایا تو ہم تمہارے ہاتھ کاٹ دیں گے ، آنکھ دکھائی تو آنکھ نکال دیں گے ۔ مسلم لیگ کی اعانت کا حکم ہمارے باپ نے دیا ہے ۔ ہم اس حکم کی ہر گز سرتابی نہیں کریں گے ۔اس پر جلسے میں کھلبلی مچ گئی ۔ اس افراتفری میں ملک خضر حیات ٹوانہ موٹر میں بیٹھ کر چپکے سے کھسک گیا ۔ حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے اور میرے ماموں سید علی حسین شاہ مرحوم میرے ساتھ برابر کام کرتے رہے ۔ چنانچہ دوسرے حلقوں کی طرح یہاں بھی فضل حق براچہ (لیگی امیدوار) کئی ہزار ووٹوں سے کامیاب ہوئے ۔ 1945-46کے انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں مسلم لیگ کو جیسی کامیابی حاصل ہوئی تھی ، اس کی مثال کم ملتی ہے ۔سیٹھ محمد علی صاحب یاران طریقت میں سے تھے ۔بمبئی میں قائد اعظم نے ان کو مبارک باد کا تار دیا ۔جس کے جواب میں انہوں نے بھی حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کو تار دیا اور لکھا کہ ’’یہ سب آپ کی ہمت اور دعا کا صلہ ہے ۔ اب یقیناًپاکستان بن جائے گا۔‘‘
کثیر مالی اعانت :تحریک پاکستان کے سلسلے میں حضور نے جتنا روپیہ خرچ کیا اس کا اندازہ لگانا دشوار ہے ۔لاکھوں روپے مسلم لیگ کو چند ے میں دئیے اور لاکھوں ہی الیکشن میں خرچ ہوئے ۔حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اہل خاندان اور آپ کے خلفاء نے جو بھی اقدامات کیے سب کا خرچ ان کی جیب سے ادا ہوتا تھا ، کسی نے دوسروں سے چندہ لینا کبھی گوارہ نہ کیا کہ یہ دربار عالیہ کے دستور کے خلاف تھا ۔ جو ممبران الیکشن میں کامیاب ہوتے تھے ان کے گلے میں نوٹوں اور پھولوں کا ہار ڈالا جاتا تھا ،اسی طرح ہر جگہ کیا گیا تھا ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قائد اعظم کو مکتوب تہنیت:1946ء کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی تو حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ نے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا ۔ جس کا پورا مضمون’’روزنامہ جنگ کراچی یوم پاکستان ایڈیشن 1970ء ‘‘سے نقل کیا جاتا ہے :
قائد اعظم صاحب !السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
’’گزشتہ ہفتہ میں ایک پیغام عزم حج کی مبارک بادی پر بھیج چکا ہوں ۔ اب دوسری مرتبہ آپ کو مسلم لیگ کی کامیابی پر مبارک باد دیتا ہوں ،کیونکہ مسلم لیگ کی کامیابی کا سہرا ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں میں خدا وند کریم نے آپ کو ہی نصیب فرمایا اور باوجودپانچ گروہوں کی سخت مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے محض آپ کو یقینی کامیابی بخشی ، حالانکہ مخالفین نے آپ کے خلاف لاکھوں کروڑوں روپیہ صرف کر دیا ۔ باوجود کروڑوں روپیہ صرف کرنے کے ان کو ذلت نصیب ہوئی ۔ انہوں نے کوشش کی کہ مسلمانوں کو آپ برگشتہ کر کے بقول کشمیریاں گاندھی کا کتا بنایا جائے مگر ما سوائے تین شخصوں کے اور کسی کو بھی گاندھی کا کتانہ بناسکے ۔
آفریں باد بریں ہمت مردانہ تو ایں کاراز تو آید و مرداں چنیں کنند
اس پیغام میں دوسری مبارک باد حضور نظام او ر اہل حیدر آباد دکن کو دیتا ہوں جنہوں نے آپ کو سونے سے وزن کر کے دس کروڑ مسلمانوں کی لاج رکھ لی۔ کیونکہ حضرت آد م علیہ السلام سے لے کر آج تک سونے سے وزن کرنے کی عزت ،سوا آغا خان کے اور آپ کے کسی بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہوئی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے مسلمانوں سے برگزیدہ کر کے آپ کو یہ مرتبہ نصیب فرمایا ہے ۔
اب آپ کا فرض ہے کہ ان ہزار ہا اشغال کو چھوڑ کر اپنے وعدے کے مطابق اس بارگاہ الہٰی میں حاضر ہو کر اور دربار شریف حضر ت رسول اللہ ﷺ پر حاضر ہو کر اس کا شکریہ ادا کریں اور فقیر کے پیغام کو معمولی نہ سمجھیں ۔عید الفطر کے بعد ہوائی جہاز میں سوار ہو کر کراچی سے دوسرے دن مکہ شریف پہنچ جائیں اور پانچ دن میں مناسک حج ادا کر کے دو تین گھنٹے میں مدینہ طیبہ حاضر ہو جائیں ۔وہاں ہفتہ عشرہ قیام فرما کر تیسرے دن کراچی پہنچ جائیں ۔اس میں آپ کے کل بیس دن کے قریب صرف ہوں گے ۔ جس وقت یہ نیازنامہ پہنچے اس وقت اپنے عزم بالجزم سے بذریعہ تار علی پور سیداں ، قلع سوبھا سنگھ (تار گھر) کے پتے پر فقیر کو مطلع فرمائیں۔‘‘
برکریما کارہا دشوار نیست
آپ کے ٹیلی گرام کا انتظار رہے گا۔‘‘
الراقم سید جماعت علی عفی اللہ عنہ (از علی پوری سیداں ۱۷جولائی۱۹۴۶ء)
قائد اعظم کے جوابی خطوط:روزنامہ جنگ نے اسی اشاعت میں یہ بھی لکھا تھا کہ پیر سید جماعت علی شاہ صاحب نے بعد میں ایک خط قائد اعظم کو انگریزی میں لکھواکر بھیجا تھا جس میں مناسک حج و زیارات کی تفصیلات ، مقامات کے فاصلے اور اخراجات کی تفصیل تک تحریر کرائی تھی۔ قائد اعظم نے 13اگست 1946ء کو جواب لکھا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے ۔
ڈئیر جماعت علی شاہ صاحب!
17جولائی کے خط کیلئے بہت بہت شکریہ ، آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں تیزی سے جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کی بنا پر میرے لئے اس وقت ہندوستان سے دور ہونا ممکن نہیں۔
آپ کے شکریہ کے ساتھ
آپ کا مخلص ایم ۔اے جناح
اس سے قبل حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ قائد اعظم کو قیام پاکستان کی مبارک باد دے چکے تھے ۔ حضور کی مبارکباد کے جواب میں قائد اعظم نے 6اگست 1947ء کو جو خط لکھا تھا اس کی فوٹو اسٹیٹ نقل موجود ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے ۔
10اورنگزیب روڈ نیو دہلی،6اگست 1947ء
ڈیئر پیر صاحب!
آپ کی نیک تمناؤں اور مبارک بادوں کا بہت بہت شکریہ اور مجھے یقین ہے کہ مسلمان خوش ہیں کہ آخر کار ہم نے دو سو سال کی غلامی کے بعد خود اپنی پاکستان کی آزاد خود مختار مملکت بنا لی ۔
آپ نے از راہ لطف مجھے شفقتوں کا جو پارسل ارسال کیا ہے اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
بہترین تمناؤں کے ساتھ
آپ کا مخلص:ایم اے جناح
پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوری رحمۃ اللہ علیہ : قیام پاکستان پر مبارکباد:جب تقسیم برصغیر اور پاکستان کا اعلان ہوا تو حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ بے حد مسرور ہوئے کہ آج ہماری تگ و دو اور جدو جہد کا مثبت نتیجہ نکل آیا ۔ آپ نے جناب قائد اعظم اور دوسرے زعما کو مبارکباد کے تار ارسال کیے ۔ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ کو آپ نے مبارکباد کا تار دیا تو قبل از وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کی مبارکباد بھی دی۔ حضرت پیر صاحب مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہ کو آپ نے پیغام بھیجا تو لکھا :پیر صاحب ! پاکستان بن گیا ،اب ہمارا کام ختم ہوا ۔ اب ملک چلانے والے جانیں اور ان کا کام ۔ ملک گیری آسان ہے ۔ ملک داری بہت مشکل ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ملک داری کی توفیق عطا فرمائے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔