Pages

Saturday, 12 August 2017

شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ سوم)

شفاعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم (حصّہ سوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عقیدہ شفاعت : واضح ہو کہ یہ اور اِس جیسی باقی تمام آیات شرک جیسا ظلم کرنے والے ظالموں‘ کافروں اور مشرکوں کے لیے ہیں جو نہ اللہ پر ایمان لائے نہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔ یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت میں شامل نہیں۔ ان کے کفر کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بھی ان کی سفارش کبھی نہ کریں گے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ بھی ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا ،نہ ہی ان لوگوں نے دنیا میں کبھی کسی ایسے اللہ کے نیک بندے سے تعلق جوڑا ہوگا جسے روزِ قیامت اللہ سفارش کا اختیار دے گا۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے سفارشی ان ہی جیسے کافر ہوں گے جن کی سفارش یقیناًاللہ کے ہاں مقبول نہ ہوگی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف اُمت کے ان گنہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے جن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان تو موجود ہوگا لیکن بشری کمزوریوں کے تحت وہ گناہوں سے بچ نہ پائے۔ البتہ منافقین جو زبان سے تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن دلوں میں کفر پالتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ’’آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) خواہ ان (گستاخ اور آپ کی شان میں طعنہ زنی کرنے والے منافقوں) کے لیے بخشش طلب کریں یا ان کے لیے بخشش طلب نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔(التوبہ: 80)

اس آیت سے منافقین پر اللہ تعالیٰ کا غضب کفار سے بھی کئی گنا زیادہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کفار کے لیے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شفاعت کریں گے ہی نہیں لیکن اُمت کے وہ لوگ جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے رہے لیکن دل میں کفر پالتے رہے ان سے اللہ اس قدر ناراض ہے کہ اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی رحمت اللعالمینی کی بنا پر شفاعت فرمائیں گے، تو بھی اللہ قبول نہ فرمائے گا۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی منافقت کا اظہار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں گستاخی کر کے کیا ہوگا اور اپنے محبوب کی شان میں گستاخی اللہ کے ہاں وہ گناہ ہے جس کی معافی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طلب کرنے پر بھی نہ ملے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان والے ہیں لیکن ایمان کی اصل تعریف سے بھی واقف نہیں جو اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کی کہ ’’تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں جب تک کہ میں اسے اس کے مال‘ اولاد اور جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح مسلم۔ بخاری شریف)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واسطے اور وسیلے کے بغیر ہی صرف اپنے عملوں کے ذریعے ہی اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ قرآن کی کئی آیات سے ثابت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت ممکن نہیں اور اللہ نے اپنی رضا کا معیار بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت ہی رکھا۔
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت اور تمام مخلوق پر ان کی فضیلت و عظمت اور اللہ کے ہاں ان کے اعلیٰ ترین مقاماتِ محبوبیت کو مانے بغیر ایمان کا دعویٰ محض منافقت ہے۔ ایسے منافق جو ظاہری عملوں اور عبادتوں میں تو دیگر مسلمانوں سے بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن دل میں اللہ کے محبوبصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بغض رکھتے ہیں اور اپنے عملوں کی کثرت کی بنا پر غرور کرتے ہیں کہ صرف اپنے عملوں ا ور عبادتوں کے ذریعے اللہ کی بخشش کے حقدار بن جائیں گے،اللہ ان پر واضح کرتا ہے کہ وہ ان سے اس قدر ناراض ہے کہ اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بھی ان کے لیے بخشش طلب کریں تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا۔ ان کے اپنے عملوں پر غرور کا تذکرہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے۔
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہاری بخشش طلب فرمائیں تو یہ (گستاخی سے) سر ہلاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بے رخی کرتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں۔‘‘ (المنافقون: 5)
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔‘‘ (النساء: 61)
ان دونوں آیات میں انہی لوگوں کا تذکرہ ہے‘ جو خود پر اور اپنے عملوں پر تکبر کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اپنی بخشش کے لیے رجوع ہی نہیں کرتے اور اس کا عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شفاعت کا حق ہی نہیں حاصل۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
شفاعتی یو القیمۃ حق فمن لم یومن بھالم یکن من اھلھا ۔ (کنز العمال)
ترجمہ: میری شفاعت قیامت کے روز حق ہے‘ پس جو کوئی اس پر ایمان نہ لائے وہ اس کا اہل نہ ہوگا۔
کیونکہ اگر وہ اس پر ایمان ہی نہ لائے گا تو اس کا طلبگار بھی نہ ہوگا اور حقدار بھی نہ ہوگا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی بخشش طلب کرنے کی اجازت اور حکم خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا اسی طرح منافقین کے لیے بخشش طلب کرنے سے منع بھی خودہی فرما دیا۔
ترجمہ: اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مرجائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (التوبہ: 84)

کیونکہ اگر آپ اس کے جنازے پر نماز پڑھیں گے تو اس نماز میں اس کی بخشش کی دعا بھی شامل ہوگی اور اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان منافقوں کے حق میں دعا کو قبول نہ فرمائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعا کو رد کرنا اللہ کو گوارا نہیں اس لیے بہتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لیے دعا فرمائیں ہی نہ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کی رضا عزیز ہے اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ کی رضا عزیز ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے لوگوں کے حق میں بخشش طلب ہی نہ فرمائیں گے جن کی بخشش کے متعلق اللہ نے واضح طور پر فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعا بھی قبول نہ ہوگی۔ چنانچہ ردِ شفاعت کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کو اذنِ الٰہی سے کامل قبولیت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل کرے جن کے حق میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شفاعت اور بخشش طلب کریں گے اور اللہ ان کی شفاعت کو قبول بھی فرمائے گا۔ (آمین)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔