Pages

Sunday, 2 July 2017

واقعہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور علم غیب

واقعہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور علم غیب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے علم کا تو بخاری شریف میں اسی حدیث افک میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا۔ ترجمہ : خدا کی قسم! میں نے اپنے اہل مقدس پر بجز خیر کے کچھ نہیں جانا۔

اس واقعہ میں حضور ﷺ کا حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے توجہ کو کم کر دینا لا علمی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس تہمت کے بعد غیرتِ محمدیہ ﷺ کا تقاضا یہ تھا کہ جب تک یہ معاملہ اللہ کی طرف سے صاف نہ ہو اس وقت تک سرکار توجہ میں کمی فرمائیں تاکہ کسی دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ حضور ﷺ کو اس قسم کی تہمت سے کوئی نفرت نہیں۔

حضور ﷺ کا غمگین ہونا بھی اس وجہ سے تھا کہ حضور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بے گناہی کا یقین رکھتے تھے۔ صدمہ تو یہی تھا کہ بے گناہ پر تہمت لگی۔ اگر ان کی بے گناہی کا علم نہ ہوتا تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہوتا۔ اگر آج ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص کو بے گناہ پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو ہمیں ضرور صدمہ ہو گا اور اگر اس کی بے گناہی کا علم نہ ہو تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہو گا۔

حضور ﷺ نے حضرت صدیقہ کے معاملہ کی تفتیش خود علم حاصل کرنے کے لئے نہیں فرمائی بلکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی کو ان مسلمانوں کے ذہن میں قائم کرنے کے لئے فرمائی جو مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جب ان کے دلوں میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے بدگمانی راسخ ہو چکی تھی تو بمقتضائے فطرتِ بشریہ یہ بات قرین قیاس تھی کہ حضور ﷺ ان سے بذاتِ خود صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی پر زور دیں تو شاید وہ سرکار کے حق میں بھی بدگمان ہو جائیں اور یہ خیال کریں کہ ان کی عزت کا معاملہ ہے اس لئے اس طرح فرما رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ان پر اس معاملہ میں زور نہیں دیا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ ہمارے حق میں بدگمان ہو کر کفر و ارتداد تک پہنچ جائیں۔ یہاں یہ شبہ کرنا کہ حضور ﷺ کا مقولہ ’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘ ان اصحاب نے بھی سنا ہو گا پھر بھی یہ اپنی بدگمانی پر قائم رہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اول تو یہ ثابت نہیں کہ بدگمانی کرنے والے صحابہ نے یہی جملہ حضور ﷺ سے سنا ہو اور اگر بالفرض سنا بھی ہو تو اپنے قیاس سے اس کو محض حسن ظن پر محمول کیا ہو گا۔ بہر حال اس تحقیق و تفتیش کی حکمت صرف یہ تھی کہ اسباب عادیہ مالوفہ طبائع بشریہ کے ذریعہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوزیشن کو بدگمانی کرنے والے مسلمانوں کے ذہن میں بھی واضح اور صاف کر دیا جائے اور منافقین پر بھی حجت قائم کر دی جائے کہ دیکھو اتنی تحقیق کے بعد بھی کوئی برائی ظاہر نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان میں کوئی برائی پائی ہی نہیں جاتی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ایک مہینہ یا اس سے زائد تک اس معاملہ کو طول دینے کی حکمت بھی یہی تھی کہ اگر جلدی سے معاملہ ختم کر دیا جاتا تو لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات رہ جاتے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے حکمت عملی کے مطابق معاملہ کو طول دیا کہ جس طرح چاہو اس طویل عرصہ میں واقعات کی چھان بین کر لو۔ جب کوئی برائی موجود ہی نہیں تو ظاہر کہاں سے ہو گی؟
دیکھئے اگر کسی پر تہمت لگائی جائے کہ تم نے ہمارے سو روپے چرا لئے ہیں اور وہ شخص متہم کو اپنے کپڑوں کی تلاشی دینے لگے اور اپنے گھر اور سامان کی ایک ایک چیز لا کر دکھائے اور لوگوں سے دریافت کرائے کہ بھائی تم نے میرے پاس سو روپے دیکھے ہیں، تمہیں علم ہے بھائی بتاؤ میں نے کبھی چوری کی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کیا اس تحقیق کرنے والے کو اپنا حال معلوم نہیں؟ کیا یہ خود اپنا علم حاصل کرنے کے لئے معاملہ کو طول دے کر اس کی تحقیق کر رہا ہے؟

نہیں نہیں! بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اچھی طرح اس معاملہ کی تحقیق نہ کرائی گئی تو بے گناہی واضح نہ ہو گی اور لوگوں کے دلوں میں میری طرف سے بدگمانی باقی رہے گی۔

بالکل یہی معاملہ یہاں تھا۔ سرورِ کائنات ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی کا یقین تھا مگر ان حکمتوں کے پیشِ نظر بے توجہی اور تحقیق و تفتیش کرائی گئی اور معاملہ کو طول دیا گیا تاکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی ہر طریقہ سے ظاہر ہو جائے۔ اسی حکمت کے تحت ان کی برأت قرآن مجید میں تاخیر سے نازل ہوئی۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب سرکارِ مدینہ ﷺ نے فرمایا کہ اے صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)! اگر تم سے کوئی گناہ ہوا ہے تو تم توبہ کر لو۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ حضور خود علم حاصل کرنے کے لئے یہ بات نہیں فرما رہے بلکہ دوسروں کے اذہان کو میرے حق میں بدگمانی سے پاک فرمانے کے لئے یہ کلماتِ طیبات ارشاد ہو رہے ہیں لہٰذا جواب میں جمع کے صیغے بولتی ہیں اور ایسے الفاظ استعمال فرماتی ہیں جن کے مخاطب حقیقتاً حضور ﷺ ہو ہی نہیں سکتے۔ فرماتی ہیں : انی واللّٰہ لقد علمت لقد سمعتم ہٰذا الحدیث حتی استقرفی انفسکم وصدقتم بہٖ فلئن قلت لکم انی بریئۃ لا تصدقونی ولئن اعترفت لکم بامر واللّٰہ یعلم انی منہ بریئۃ تصدقنی فواللّٰہ لا اجدلی ولکم مثلا الا ابا یوسف حین قال فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔(بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۵۹۶)
ترجمہ : خدا کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ تم لوگوں نے یہ بات سنی ہے اور تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ اگر میں تم سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں تو تم ہرگز میری تصدیق نہ کرو گے اور اگر تمہارے سامنے کسی ایسے کام کا اقرار کر لوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو مجھے سچا مان لو گے۔ تو خدا کی قسم! جب میرے اور تمہارے لئے سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اور مثل نہیں جب انہوں نے یہ فرمایا کہ ’’فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ‘‘ ۔

خدا کے لئے ان الفاظ پر غور فرمایئے کہ یہ بات تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ کیا اس کلام کے مخاطب حضور ﷺ ہو سکتے ہیں؟ کیا سرورِ عالم ﷺ کے قلب اطہر میں نعوذ باللہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برائی بیٹھ چکی تھی؟ کیا حضور ﷺ نے اس کی تصدیق فرما دی تھی؟ جو لوگ اس معاملہ میں حضور ﷺ کے علم کے منکر ہیں وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضور ﷺ نے تو قسم کھا کر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’واللّٰہ ما علمت علی اہلی الاخیرا‘‘ اس کلام کو اگر حسن ظن پر بھی محمول کر دیا جائے تب بھی حضرت عائشہ کے متعلق حضور ﷺ کا حسن ظن ثابت ہو گا۔ حسن ظن کے ساتھ ان کی برائی کا دل میں بیٹھ جانا اور اس کی تصدیق کر دینا کیسے جمع ہو سکتا ہے؟

معلوم ہوا کہ حضرت صدیقہ نے اگرچہ بظاہر حضور کو مخاطب بنایا مگر اپنے اس خطاب کا رُخ انہی لوگوں کی طرف رکھا جو منافقین کے بہکانے میں آ کر مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے میں مبتلا ہو گئے تھے اور ان کے دل میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے برائی بیٹھ گئی تھی اور انہوں نے تہمت لگا کر اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ اگر اس کلام کے مخاطب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں تو نعوذ باللہ حضور بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوں گے کیونکہ کسی پر برائی کی تصدیق کرنا ہی تہمت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ اس سے پاک ہیں۔
تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک حدیث نقل کی۔ما رفث امرأۃ نبی قط ۔ ترجمہ : ’’کسی نبی کی بیوی نے کبھی بے حیائی کا کام نہیں کیا۔‘‘

حضرت ابن عباس ایسی بات جو عقل سے وراء الوراء ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے۔ یقینا حضور ﷺ سے سن کر فرما رہے ہیں۔ لہٰذا حدیث حکماً مرفوع ہوئی۔

اس حدیث میں حضور سرورِ عالم ﷺ نے ایک ایسے امر کا بیان فرمایا جو لوازماتِ نبوت سے ہے اور وہ یہ کہ کسی نبی کی بیوی بدکار نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی بیوی بدکار ہو وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہوتا ہے اور اس کی بات بالکل حقیر ہوتی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے شخص کی بات کا کوئی وزن قائم نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ اگر اس میں ذرا بھی حیا کا مادہ ہے تو وہ لوگوں کے سامنے منہ نہیں دکھاسکتا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام ہدایت خلق اور پیغاماتِ ربانی پہنچانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں۔ نعوذ باللہ وہ ذلیل نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ذلت کے اسباب سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان کی بات حقیر نہیں ہو سکتی۔ اگر نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے ایسی ناشائستہ حرکات سرزد ہوں تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ ایسی صورت میں احکام الٰہی کی تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے؟ لہٰذا انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے بے حیائی متصور نہیں۔ بعض انبیاء کی بیویاں کافرہ ہوئیں لیکن بے حیا نہیں ہوئیں۔ کفر تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے مگر اس میں فحش اور بے حیائی نہیں ہے۔
جب آپ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ خود حضور نبی کریم ﷺ نے ازواجِ انبیاء کی پاک دامنی اور عفت کا لازمۂ نبوت ہونا بیان فرمایا ہے تو اب اس امر پر غور فرمایئے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ حضرت صدیقہ کی پاکی میں کس طرح شک فرما سکتے ہیں۔ اگر صدیقہ کی پاکی حضور ﷺ کے نزدیک یقینی نہ ہو تو پھر اپنی نبوت بھی نعوذ باللہ سرکار کے نزدیک یقینی نہ رہے گی۔ جب حضور ﷺ کا اپنی نبوت پر ایمان ہے اور حضور یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی کی بیوی پاک ہوتی ہے تو ان دونوں کے ملانے سے نتیجہ واضح ہو جاتا ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں ذرہ برابر بھی شک نہ تھا کیونکہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک خود حضور ﷺ کی اپنی رسالت میں شک کو مستلزم ہے اور حضور اپنی رسالت میں شک کرنے سے بالکل پاک ہیں لہٰذا صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک کرنے سے بھی حضور قطعاً پاک اور مبرا ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔