مسجدوں پر حملے کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِعتقادی، فکری یا سیاسی اِختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال یا مقدس مقامات پر حملے کرنا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اﷲ کے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور وہاں لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہو سکتے ہیں اورنہ ہی ہدایت یافتہ۔ مسجدوں میں خوف و ہراس کے ذریعے اﷲ کے ذکر سے روکنے اور انہیں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ویران کرنے والوں کو قرآن نے نہ صرف سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے، بلکہ انہیں دنیا و آخرت میں ذلت آمیز عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَـئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَآئِفِينَ لهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌo
ترجمہ:اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo‘‘(البقرة، 2: 114)
ایک اور مقام پر اﷲ تعالی نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر تے ہیں جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مساجد اور عبادت گاہوں کو آباد کرنے کی بجائے اُن پر حملہ کرنے والے نہ تو یوم حساب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ مومن ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللّهَ فَعَسَى أُوْلَـئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ الْمُهْتَدِينَo
ترجمہ:اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گےo‘‘(التوبة، 9: 18)
مساجد و مزارات اور دیگر مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے والے دہشت گردوں کے احوال و ظروف اور مجالست و مصاحبت کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کا ذہنی و فکری اِرتقاء نہایت ہی تنگ نظری کے ماحول میں ہوتا ہے۔ اس تنگ نظری سے اِنتہا پسندی (extremism) جنم لیتی ہے، انتہا پسندی انسان کو جارحیت (aggression) پر اُکساتی ہے اور پھر جارحیت کا منطقی نتیجہ دہشت گردی (terrorism) کی بھیانک صورت میں رُونما ہوتا ہے۔ نفرت و تعصب اور جبر و تشدد کے اس مقام پر انسان کے اندر سے اعتدال و توازن (moderation) اور تحمل و برداشت (tolerance) کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں۔ جب انسان ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِيَ کَالْحِجَارَةِ ’’پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہوگئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہو گئے)(البقرة، 2: 74)
کا مصداق بن کر سنگ دلی اور شقاوت و بدبختی کی انتہا کو پہنچتا ہے تو پھر اِس سے بازاروں، مارکیٹوں، عوامی مقامات اور درس گاہوں میں موجود لوگوں کو قتل کرنے سے لے کر مساجد میں مشغولِ عبادتِ لوگوں کی جانیں لینے اور مساجد کو تاخت و تاراج کرنے تک کچھ بھی بعید نہیں ہوتا۔ ایسے اقدامات کرنے والوں کا اسلام سے کیا تعلق و واسطہ ہے! اگر ان میں خوفِ خدا اور فکر آخرت کا ایک ذرہ بھی ہوتا تو کم اَز کم ان کی وحشت و بربریت سے مساجد اور نمازی تو محفوظ رہتے۔ لہٰذا ان کا مساجد تک کو نشانہ بنانے کا اقدام اِس اَمر کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کا اسلام جیسے پُراَمن اور سلامتی و عافیت والے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔