حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کروایا تو آپ نے فرمایا: ’یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنْ وُلّیْتَ أَمْراًفَاتَّقِ اللّٰہِ وَاعْدِلْ‘ ’’اے معاویہ رضی اللہ عنہ اگرتمھیں امیر بنا دیا جائے تو اللہ سے ڈرنا اور عدل کرنا۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب سے میں نے آپ سے یہ سنا میں سمجھتا تھا کہ میں اس عمل میں آزمایا جاؤں گا، (مسند امام أحمد: 101/4، ومسند ابی یعلی، رقم: 342 وغیرہ۔ ) اس کے علاوہ سیدنا امیر معاویہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہیں اور آپ نے انھیں وحی الٰہی کی کتابت کا امین بنایا ہے، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بسندِ صحیح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ ’کَانَ یَکْتُبُ الْوَحْیَ‘ ’’کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تب وحی تھے۔ ‘‘(دلائل النبوۃ: 342/2) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ا لمفضل الغلابی نے ذکر کیا ہے کہ زید بن ثابت کاتبِ وحی تھے اور معاویہ مراسلات کے کاتب تھے مگر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بسند صحیح منقول ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی تھے۔(تاریخ اسلام: 309/2) بلکہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کاتبین وحی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’وَکَانَ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ أَلْزَمِ النَّاسِ لِذٰلِکَ ثُمَّ تَلَاہُ مُعَاوِیَۃُ بَعْدَ الْفَتْحِ فَکَانَا مُلَازِمَیْنِ لِلْکِتَابَۃِ بَیْنَ یَدَیْہِ ﷺ فِی الْوَحْیِ وَغَیْرِ ذٰلِکَ، لَاعَمَلَ لَھُمَا غَیْرُ ذٰلِکَ‘ ’’کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ کتابت وحی سے متعلق تھے فتح مکہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یہ ذمہ داری سرانجام دیتے تھے، یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہمیشہ کتابت وغیرہ کے لیے مستعدرہتے اس کے علاوہ ان کی اور کوئی ذمہ داری نہ تھی۔‘‘(جوامع السیر، ص: 27) منہاج الکرامہ کے رافضی مصنف ابن المطہر الحلی نے کہا تھا کہ: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلِ سنت کہتے ہیں کہ وہ کاتب وحی تھے، جبکہ انھوں نے ایک کلمۂ وحی بھی نہیں لکھا وہ صرف خطوط ورسائل لکھتے ہیں۔‘‘ (منہاج، ص: 39) جس کے جواب میں ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ میں فرمایا ہے کہ یہ علامہ الحلی کا محض دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ’کَانَ یَکْتُبُ الْوَحْیَ فَھُوَمِمَّنِ ائْتَمَنَہُ النَّبِیُّﷺ عَلٰی کِتَابَۃِ الْوَحْیِ‘ ’’کہ وہ کاتب وحی تھے اور ان حضرات میں سے تھے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت وحی میں امین بنایا تھا۔‘‘ (منہاج السنۃ: 11/4۔) علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے: ’کَانَ أَکْثَرُھُمْ کِتَابَۃً زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَمُعَاوِیَۃُ‘ ’’ان میں سے اکثر لکھنے کا کام حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔‘‘ (تہذیب الاسمائ: 29/1۔) اس لیے جو حضرات کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی نہیں تھے،ان کا نظریہ درست نہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی شہادت اور اکثر مؤرخین کا موقف اس کے برعکس ہے۔ سلف صالحین کی روشنی میں مناقب سیدنامعاویہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رسائل اور وحی الٰہی پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو امین بنانا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت ومنقبت کے لیے کافی ہے۔ یوں کہیے: کہ بنو امیہ جو ہمیشہ بنو ہاشم کے ساتھ ہر میدان میں برسر پیکار رہے ان میں سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عزت افزائی کے لیے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیاںان کے عقد میں دے دیں اور جب بنو امیہ ہی میں سے، ابو سفیان سردارِ مکہ مسلمان ہوئے تو ان کی دلداری کے لیے ان کے گھر میں داخل ہو جانے والوں کے لیے امن کا اعلان فرمایا اور جب ان کے فرزند حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ نے اس کی قدردانی کے لیے اسے اپنا کاتب بنالیا، رہی قرابت داری تووہ ان کے ایمان لانے سے پہلے ہی سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح سے قائم ہو چکی تھی، عبد الملک بن عبدالحمید المیمونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’کُلُّ صِھْرٍ وَنَسَبٍ یَنْقَطِعُ إِلَّا صِھْرِیْ وَنَسَبِیْ‘ قیامت کے دن میری قرابت داری اور میرے نسب کے علاوہ ہر ایک کے حسب ونسب کا تعلق منقطع ہو جائے گا تو انھوں نے فرمایا: ہاں،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں نے کہا: تو کیا یہ تعلق داری حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے؟ انھوں نے فرمایا: بالکل، یہ شرف ان کو حاصل ہے۔(السنۃ للخلال: 432) اسی طرح احمد بن حمید ابو طالب رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا میں یہ کہوں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مومنوں کے ماموں ہیں؟انھوں نے فرمایا: ہاں معاویہ رضی اللہ عنہ ، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کے بھائی ہیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، حفصہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کے بھائی ہیں، ابو طالب کہتے ہیں کہ: میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے کہا: تو میں کہا کروںکہ: معاویہ رضی اللہ عنہ مؤمنوں کے ماموں ہیں توانھوں نے فرمایا: ہاں، کہا کرو۔(السنۃ للخلال: 433)
By: Ibn e Adam
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔