فضائل درود و سلام احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور اس کےلئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں ۔ (نسائی، السنن، کتاب السہو، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4 : 50، رقم: 1297)
حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہوگا ۔ (ترمذی، الجامع، ابواب الوتر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 2 : 354، رقم: 484)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ (ابو داود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، 2 : 218، رقم: 2041)
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تمہارے ایّام میں سے افضل ترین جمعہ کا دن ہے پس اُس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، 2 : 88، رقم: 1531)
حضرت ابوھُریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا ۔ ( ترمذی، الجامع، ابواب الدعوات، باب قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: رغم انف رجل، 5 : 550، رقم: 3545)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے ۔(طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 220، رقم: 721)
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے ۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، 3 : 82، رقم: 2729)
فرمانِ الٰہی اور احادیثِ مبارکہ کے مطابق یہ حقیقت واضح ہے کہ درود و سلام ایک منفرد اور بے مِثل عبادت ہے، جو رضائے الٰہی اور قربتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اس مقبول ترین عبادت کے ذریعے ہم بارگاہِ ایزدی سے فوری برکات کے حصول اور قبولیتِ دعا کی نعمت سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔
صحابہء کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے بھی اسی عبادت کے ذریعے اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا قرب پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مُعَطَّر سانسوں سے اپنی روحوں کو مہکایا اور گرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی تجلیات سے ہی صحابہ اکرام نے اپنے مُشامِ جاں کو منور کیا اور اس طرح انہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی تعلق اور سنگت کی نعمت نصیب ہوئی۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق ہی وہ نعمتِ خاص ہے جو آج ہمیں مقام و مرتبہ اور عزت و شرف جیسی لازوال نعمتوں سے نواز سکتی ہے ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظامِ عبادات پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کوئی عبادت ایسی دیکھائی نہیں دیتی جس کی قبولیت کا یقینِ کامل ہو جبکہ درود و سلام ایک ایسی عبادت اور ایسا نیک عمل ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ اِسی طرح تمام عبادات کیلئے مخصوص حالت، وقت، جگہ اور طریقِ کار کا ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ درود و سلام کو جس حال اور جس جگہ بھی پڑھا جائے اللہ تعالیٰ اُسے قبول فرما تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام تر عبادات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے وقت اوّل و آخر درود و سلام کا زینہ سجا دیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے صدقے ہماری بندگی اور عبادت کو قبول کر لے۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔