غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کا احادیث کے سلسلہ میں دہرا معیار و منافقت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث کہتے ہیں کہ ہم صرف صحیح صریح احادیث پر عمل کرتے ہیں ضعیف حدیث ہمارے نزدیک قابل حجت نہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ : یہ لوگ احادیث کے قبول اور رد کرنے کے بارے میں کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں ۔ ان کا اپنا معیار ہے کہ جو حدیث ان کے مخصوص نظریات کے موافق ہو اسے ہر حال میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کرقبول کرتے ہیں ، اگرچہ حقیقت میں وہ ضعیف ہو اور محدثین نے اس کے راویوں پر شدید جرح بھی کی ہواور جو حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہو اسے کسی نہ کسی طرح ضعیف قرار دے کر ہی دم لیتے ہیں اگرچہ وہ حدیث محدثین کرام علیہم الرّحمہ کے ہاں صحیح کیوں نہ ہو ۔ بطورنمونہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے ۔
مثال نمبر1: احناف کا مذہب یہ ہے کہ اقامت کے کلمات دوہرے کہے جائیں اس بارے میں امام عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے:کان عبداللہ بن زید الانصاری موذن النبی صلی اللہ علیہ وسلم یشفع الاذان والاقامۃ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موذن تھے وہ اذان اور اقامت کے الفاظ دہرے دہرے ادا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص321رقم 2151)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :ہذا اسناد فی غایۃ الصحۃ ۔ ترجمہ : یہ سند انتہائی درجہ کی صحیح ہے ۔ (المحلیٰ بالآثار ج2ص191)
مگر غیرمقلدین کے نامور عالم عبدالرحمان مبارکپوری اس صحیح سند والی روایت کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:قلت لاشک ان رجالہ رجال الصحیح لکن فی صحۃ اسنادہ نظر وان زعم ابن حزم انہ فی غایۃ الصحۃ لان فیہ الاعمش وہو المدلس۔
ترجمہ : یعنی میں کہتا ہوں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کے رواۃ؛ صحیح ( صحیح سے مراد بخاری شریف ہے ) کے رواۃ ہیں۔اگرچہ ابن حزم نے اس کو انتہائی صحیح حدیث قرار دیا ہے مگر اس کی صحت محل نظر ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی اعمش ہے اور وہ مدلس ہے ۔ (ابکار المنن ص292)
جناب عالی اگر کچھ دیر کے لیئے یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ اعمش راوی مدلس ہیں اس لیئے ان کی یہ صحیح حدیث بھی صحیح نہیں ہے ۔ مگر یہ تو بتایا جائے کہ اس کا احساس امام بخاری وامام مسلم علیہما الرّحمہ کو کیوں نہیں ہوا ؟ آخر انہوں نے اسی اعمش (جو کہ آپ کے نزدیک مدلس ہیں) کی روایات کو کثیر تعداد میں اپنی اپنی کتابوں میں کیوں ذکر کیا ہے ؟
مثال نمبر 2 : امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کے بہت سے دلائل ہیں ان میں سے ایک حدیث مبارک یہ ہے :من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔
ترجمہ : یہ حدیث متعدد سندوں سے مروی ہے اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔
(شرح معانی الآثار ج1ص159)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس کے بارے میں غیرمقلدین کے مشہور محدث ناصر الدین البانی تحریر کرتے ہیں:والحاصل:ان طرق الحدیث بعضہا صحیحۃ او حسنۃ وبعضہا ضعیفۃ ینجبرضعفہا بغیرہا من الطرق الکثیرۃ فالقول بانہ حدیث غیرثابت او غیرمحتج بہ ونحو ذالک غیرمعتدبہ
ترجمہ:اور حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث کے بعض طرق صحیح یا حسن ہیں اور بعض طرق (اس قدرخفیف درجہ کے) ضعیف ہیں کہ ان کے ضعف کی وجہ سے جو کمی آتی ہے وہ دیگر کثیر طرق کی وجہ سے پوری ہوجاتی ہے لہذا اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ثابت نہیں ہے یا اس کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا یا اس طرح کی کوئی اور بات کہنا ناقابل اعتماد اور بےوزن ہے ۔
(اصل صفۃ صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ج1ص358)
مذکورہ عبارت اس پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ زیر بحث حدیث البانی صاحب کے نزدیک ثابت اور صحیح ہے چونکہ یہ حدیث امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کی ایک روشن دلیل تھی اس لیئے غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث عبد الرّحمٰن مبارکپوری صاحب اسے ہضم نہ کرسکے اور حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ فیصلہ صادر فرمایا:ان ہذا الحدیث ضعیف بجمیع طرقہ ۔ ترجمہ : یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے ۔ (ابکار المنن ص519)
انصاف کیجیے : ایک طرف تو البانی صاحب کا فیصلہ ہے ، جنہوں نے واضح لفظوں میں تنبیہہ کی ہے کہ اس حدیث کو ضعیف تو دور کی بات ہے کوئی غیر ثابت یا غیرمحتج بہ کہے گا تو اس کی یہ بات بےوزن اور ناقابل اعتبار متصور ہوگی اور دوسری طرف مبارکپوری صاحب ہیں کہ جنہوں نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے” ضعیف“ تک لکھ دیا ہے ۔ واضح رہے کہ البانی صاحب غیرمقلدین کے ہاں کوئی معمولی حیثیت کے حامل نہیں بلکہ بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ، زبیر علی زئی نے انہیں ”مشہور محدث اور شیخ“ کے لقب سے یاد کیا ہے اور ان کی تحقیق کو بطور حجت کے پیش کیا ہے ۔ (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص41)
مثال نمبر 3 : فرقہ غیرمقلدیت سے وابستہ افراد نماز میں بلند آواز سے آمین کہتے ہیں ۔ اس بارے میں وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا ہے حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ پڑھتے تو آمین اتنی اونچی آواز سے کہتے کہ پہلی صف والے سن لیتے اور اس کے ساتھ مسجد گونج اٹھتی ۔ (سنن ابن ماجہ ص62)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس میں ایک راوی بشر بن رافع ہے جس پر محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے شدید جرح کی ہے۔مثلاً : امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لیس بشئی ضعیف فی الحدیث ۔ ترجمہ : حدیث میں ضعیف ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یضعف فی الحدیث ۔
ترجمہ : حدیث کے معاملے میں اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :لایتابع فی حدیثہ ۔
ترجمہ : حدیث کے معاملہ میں اس کی پیروی نہ کی جائے ۔
امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث ، لانریٰ لہ حدیثا قائما ۔
ترجمہ : حدیث کے معاملہ میں ناقابل اعتبار اس کی کوئی حدیث ہم نے مضبوط نہیں دیکھی ۔
امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہوضعیف عندہم ،منکر الحدیث ۔ ۔ اتفقوا علیٰ انکار حدیثہ وطرح ماراوہ وترک الاحتجاج بہ،لایختلف علماء الحدیث فی ذالک ۔
ترجمہ : محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں حدیث کے معاملے میں ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے ۔ اس بات پر محدثین کرام نے اتفاق کیا ہے اس کی بیان کردہ حدیث میں غیر مانوسیت ہوتی ہے اور اس کی روایت کردہ حدیث اس قابل نہیں کہ ا سے بطور دلیل مان لیا جائے ان باتوں میں کسی محدث کا اختلاف نہیں ۔
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ضعیف ۔( بشر بن رافع ضعیف ہے ۔)
(تہذیب التہذیب ج 1 ص421،422، تہذیب الکمال ج 2 ص 52)
یہ روایت چونکہ غیرمقلدین کے مذہب کے موافق ہے ۔ اس وجہ سے وہ اس کو قبول کرتے ہیں چنانچہ مبارک پوری تحریر کرتے ہیں : قلت ھذا الحدیث وان کان اسنادہ ضعیفاً لکنہ منجبر بتعدد طرقہ ۔
ترجمہ : یہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں مگر متعدد طرق کی وجہ سے یہ ضعف والا نقصان پورا ہو جاتا ہے ۔ (ابکار المنن ص 616)
لمحہ فکریہ : مذکورہ بالا مثال نمبردو میں البانی صاحب نے امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کی روایت کے بارے میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اس حدیث کے صحیح طرق بھی ہیں اور حسن طرق بھی۔ البتہ جو اس کے بعض طرق ضعیف ہیں وہ بھی نقصان دہ نہیں کیونکہ دیگر کثیر طرق اس ضعف کو ختم کر دیں گے مگر اس مقام پر مبارک پوری صاحب نے البانی صاحب کی یہ بات ٹھکرا دی تھی اور بڑی بے باکی سے کہا تھا کہ ”یہ روایت تمام طرق سے ضعیف ہے۔“ مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے کہ روایت کے ضعیف ہونے کا اعتراف بھی ہے اور ساتھ عمل بھی۔ وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ یہ اپنے مذہب کی دلیل ہے۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مثال نمبر 4 : غیر مقلدین کی عادت ہے کہ نماز فجر اندھیرے میں پڑھتے ہیں اور بطور دلیل ابو داؤد شریف ص57 رقم الحدیث 394 پیش کرتے ہیں حالانکہ اس کی سندمیں اسامہ بن زید لیثی ضعیف راوی ہے اس کے بارے میں محدثین کرام کی کیا آراء ہیں ملاحظہ کیجیے ۔
امام احمدرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لیس بشئی۔۔۔ان تدبرت حدیثہ فستعرف فیہ النکرۃ ۔
حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اگر آپ اس کی بیان کردہ روایات میں غور و فکر سے کام لیں تو اس میں آپ کو غیر مانوس قسم کی احادیث ملیں گی ۔
امام یحیٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اشھدوا انی قد ترکت حدیثہ تم میرے اس کام کے گواہ رہو کہ میں نے اس سے حدیث بیان کرنا چھوڑ دیا ہے ۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں من اجل ھذا ترکہ البخاری۔
اسی وجہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے روایت لینا چھوڑ دیا ہے ۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ۔ اس کی حدیث لکھ لینے کی گنجائش ہے مگر اس کو بطور دلیل بیان نہیں کیا جاسکتا۔
(تہذیب التہذیب ج1ص 198-199، تہذیب الکمال ج 1 ص 351)
اتنی شدید جروحات کے باوجود بھی غیر مقلدین نے اس روایت کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا اور محدثین کرام کی تمام جروحات کو پس پشت ڈال دیا محض اس وجہ سے کہ یہ روایت ان کے مسلک کے ہم آہنگ وموافق ہے۔چنانچہ وکیل غیرمقلدین مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں:قلت اسامۃ بن زید اللیثی وان اختلف فی توثیقہ وتضعیفہ لکن الحق انہ ثقۃ صالح للاحتجاج ۔
یعنی اسامہ بن زید لیثی کی صحت وضعف کے بارے میں اگرچہ محدثین کا اختلاف ہے کوئی اس کو ثقہ کہتا ہے اور کوئی ضعیف قرار دیتا ہے مگر حق بات یہ ہے کہ وہ ثقہ ہے اور اس سے دلیل لی جاسکتی ہے۔(ابکار المنن ص51)
سوچنے کے بات یہ ہے کہ اگر یہی معاملہ احناف کے حق میں ہو تا تو نام نہاد اہل حدیث برملا کہتے کہ تعدیل پر جرح مقدم ہوتی ہے اس لیئے تمہاری یہ روایت مجروح ہے ناقابل عمل ہے اور ضعیف ضعیف ( دعیف دعیف) کا شور بلند کرتے مگر یہاں معاملہ چونکہ اپنے بارے میں ہے اس لیےمکمل خاموشی سادھ لی ہے ۔
خلاصہ کلام : ہم نے بطور نمونہ چار مثالیں پیش کی ہیں : پہلی اور دوسری مثال یہ بتانے کے لیے کہ اس میں جو احادیث درج کی گئی ہیں ان کی صحت میں کوئی شبہ نہیں خود غیرمقلدین کے اکابر نے اسے تسلیم کیا ہے مگر اس کے باوجود غیرمقلدین ان پر عمل نہیں کرتے بلکہ عاملین کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ تیسری اور چوتھی مثالیں یہ سمجھانے کے لیےذکر کی ہیں کہ یہ احادیث ضعیف ہیں ۔ خود ان کے بزرگوں نے اسے ضعیف تسلیم کیا ہے مگر غیرمقلدین ان پر سختی سے کاربند ہیں شاید ضعیف احادیث پر عمل کر کے وہ اپنے ضعیف اہل حدیث ہونے کا ثبوت فراہم کرنا چاہتے ہوں ؟ بہر حال : جو بھی وجہ ہو ، وہی بہتر سمجھتے ہیں البتہ ہمیں افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ یہ دوہرے پیمانے انہوں نے کیوں مقرر کر رکھے ہیں ؟ ایک کام ہم کریں تو غلط، وہ خود کریں تو ٹھیک۔ ہم کریں تو ”مخالفت بالحدیث“ اور وہ خود کریں تو ”عمل بالحدیث “ فیاللعجب ۔(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔