Pages

Sunday, 30 July 2017

شارحِ مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (٦٣١-٦٧٦ھ )فرماتے ہیں:یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)

شارحِ مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (٦٣١-٦٧٦ھ )فرماتے ہیں:یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس روایت پر غیر مقلدین کے اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ابتدائی زمانہ میں جب ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہا جاتا تو عموماً لوگوں کی دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی، استیناف کی نیت نہیں ہوتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں دین اور تقویٰ اور خوف آخرت اور خوف خدا غالب تھا دنیا کی خاطر دروغ بیانی کا خطرہ تک دل میں نہ آتا تھا۔ آخرت میں جوابدہی اور آخرت کے عذاب کا اتنا استحضار رہتا کہ مجرم بذات خود حاضر ہوکر اپنے جرم کا اقرار کرتا اور اپنے اوپر شرعی حد جاری کرنے کی درخواست کرتا، اس بناء پر ان کی بات پر اعتماد کرکے ایک طلاق کا حکم کیا جاتا، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر جیسے جیسے عہد نبوی سے بعد ہوتا گیا اور بکثرت عجمی لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے، ان میں تقویٰ وخوف آخرت کا معیار کم ہونے لگا اور پہلے جیسی سچائی، امانت داری اور دیانت داری نہ رہی، دنیا اور عورت کی خاطر دروغ بیانی ہونے لگی، جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔

حضرت عمر کے پاس عراق سے ایک سرکاری خط آیا کہ یہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ جملہ کہا ہے ”حبلک علی غاربک“ (تیری رسی تیری گردن پر ہے) حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عامل کو لکھا کہ ”ان مرہ ان یوافینی بمکة فی الموسم“ اس کو کہو کہ حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے۔ حضرت عمر حج کے زمانہ میں کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اس آدمی (عراقی) نے آپ سے ملاقات کی اور سلام کیا، حضرت عمر نے فرمایا: تم کون ہو، اس نے کہا: میں وہی ہوں جس کو آپ نے حج کے زمانہ میں طلب کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا: تجھے رب کعبہ کی قسم سچ بتا ”حبلک علی غاربک“ سے تیری کیا نیت تھی، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اگر اس مبارک جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قسم لی ہوتی تو میں صحیح نہ بتاتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس جملے سے فراق کا یعنی عورت کو اپنے نکاح سے الگ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: عورت تیرے ارادے کے مطابق تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔(موطأ امام مالک ص:۵۱۱ ماجاء فی الخلیة والبریة واشباء ذلک)

یہ عراقی ایک عورت کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے لئے اور دروغ بیانی کے لئے تیار تھا مگر کعبة اللہ اور حرم شریف کی عظمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے کذب بیانی سے احتراز کیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے عوام کی جب یہ حالت دیکھی، نیز آپ کی نظر اس حدیث پر تھی : اکرموا اصحابی فانہم خیارکم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یظہر الکذب حتی ان الرجل یحلف ولایستحلف ویشہد ولایستشہد…الخ“۔ (مشکوٰة المصابیح، باب مناقب الصحابة ج:۳/۵۵۴ ط سعید)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی عہد نبوت سے جیسے جیسے دوری ہوتی چلی جائے گئی، دینداری کم ہوتی رہے گی اور کذب ظاہر ہو گا۔ حضرت عمر نے موجودہ اور آئندہ حالات کو پیش نظر رکھ کر صحابہ سے مشورہ کیا کہ جب ابھی یہ حالت ہے تو آئندہ کیا حالت ہوگی اور لوگ عورت کو الگ کردینے کی نیت سے تین طلاق دیں گے اور پھر غلط بیانی کرکے کہیں گے کہ ہم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ آپ نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی شروع کردی جس میں انہیں دیر کرنی چایئے تھی، اب جو شخص تین مرتبہ طلاق دے گا، ہم اسے تین ہی قرار دیں گے۔ صحابہ کرام نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا اور کسی ایک نے بھی حضرت عمر کی مخالفت نہ کی، چنانچہ طحاوی شریف میں ہے : فخاطب عمربذلک الناس جمیعا وفیہم اصحاب رسول اللہ ا ورضی اللہ عنہم الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ ا فلم ینکرہ علیہ منہم ولم یدفعہ دافع ۔ (ج:۲/۳۴)

محقق علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولم ینقل عن احد منہم انہ خالف عمر حین امضی الثلاث وہی یکفی فی الاجماع ۔ (حاشیہ ابوداؤد ج:۱/۳۰۶)
یعنی کسی ایک صحابی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جب حضرت عمر نے صحابہ کی موجودگی میں تین طلاق کا فیصلہ کیا، ان میں سے کسی ایک نے بھی… حضرت عمر کے خلاف کیا ہو اور اس قدر بات اجماع کے لئے کافی ہے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق، انت طالق، انت طالق، ولم ینو تاکیداً ولااستینافاً یحکم بوقوع طلقة لقلة ارادتہم الاستنیاف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادة التاکید فلما کان فی زمن عمر وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغة وغلب منہم ارادة الاستیناف بہا حملت الاطلاق علی الثلاث عملاً بالغالب السابق الی الفہم ۔ (نووی شرح مسلم ج:۱/۴۷۸ ط قدیمی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی حدیث حضرت ابن عباس کی بالکل صحیح تاویل اور اس کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی انت طالق، انت طالق، انت طالق (یعنی تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق) کہہ کر طلاق دیتا تو عموماً اس زمانہ میں دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی تھی، استیناف کی نیت نہ ہوتی تھی، جب حضرت عمر کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کی دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔

مسئلہ تین طلاق میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی مختلف معارض احادیث کا جواب : حدیثِ مسلم میں منقول، قولِ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور ابوبکر اور دور خلافت عمر رضی اللہ عہما کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں سو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اس حکم میں جو انہیں مہلت دی گئی تھی جلدی شروع کردی ہے پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔
[صحيح مسلم » كِتَاب الطَّلَاقِ » بَاب طَلَاقِ الثَّلَاثِ، رقم الحديث: 2697 (1473)]

حدیثِ طحاوی میں منقول قولِ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما : پھر یہی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما اس کے بعد فتویٰ دیتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین (٣) طلاقیں دے تو اس کی طلاق لازم ہوجاتے گی اور وہ عورت اس پر حرام ہو جائیگی.[طحاوی:221+222]

تشریح : شارحِ مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (٦٣١-٦٧٦ھ )فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة. یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔