Pages

Thursday, 13 July 2017

تقلید کا ثبوت کیا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کیا ہے

تقلید کا ثبوت کیا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت کیا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ جل مجدہ الکریم جو انسانوں کا خالق و مالک اور اپنے بندوں پر رحیم و کریم ہے ۔کائنات عالم کا نظم و ضبط بر قرار رکھنے کے لئے مختلف انسانوں کو مخلتف صلا حیتوں سے نوازا ،کسی کو قرآن و احادیث کے علوم میں مہارت بخشی تو کسی کو تجارت و حرفت میں کسی کو فن طبا بت میں تو کسی کو زراعت و کا شت کاری میں ۔ظاہر ہے کہ ایک انسان تمام خو بیوں کا مالک اور ہر فن میں ماہر ہو جائے یہ مستبعد ہے ۔اس لئے ہر دور کے لوگ اپنے اپنے فن کے ماہرین کی تقلید کر تے رہے اور ان کی باتوں کو مان کر مستفیض ہو تے رہے۔جو کہ ایک فطری اور قدرتی عمل ہے۔مگر افسوس صد افسوس آج اس فطری عمل کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کیا جارہاہے ۔اور اس پر طرح طرح کے بے جا اعتراضات کئے جارہے ہیں ۔اس لئے ذیل میں اس سے متعلق مباحث سوال و جواب کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ کی حقیقت سمجھنے کے لئے اول تا آخر تمام سوالات و جوابات کا بغورمطالعہ کریں۔

سوال:تقلید کا معنی کیا ہو تا ہے؟
جواب:عر بی زبان میں لفظ ِ ’تقلید‘ مختلف معانی میں استعمال کیا جا تا ہے۔(۱)گردن میں ہار ڈالنا ،جیسے حدیث شریف میں ہے ’’قلدواالخیل ولا تقلدوھا الاوتار‘‘دین کے دشمنوں کی طلب میں گھوڑوں کے گردنوں میں ہار ڈالو اور زمانہ جاہلیت کے کاموں کے لئے نہ ڈالو۔(۲)پانی پلانا،جیسے کہا جا تا ہے:قلدت الزرع‘‘میں نے کھیت میں پانی دیا۔حدیث شریف میں ہے :فقلدتنا السماء قلدا‘‘آسمان میں سے وقت مقررہ میں ہم پر بارش ہو ئی۔
کسی چیز کا احاطہ کرنا،قرآن مجید میں ہے:لہ مقالید السمٰوات والارض، اللہ تعالی ہی کے لئے زمین و آسمان میں احاطہ ہے۔

سوال:شریعت کی زبان میں تقلید کس کو کہتے ہیں ؟
جواب:علامہ نووی تقلید کی تعریف کر تے ہو ئے لکھتے ہیں ’’التقلید قبول قول المجتھد والعمل بہ‘‘تقلید، مجتہد (یعنی وہ شخص جو دینی علوم و فنون کا ماہر ہو)کی بات مان کر اس پر عمل کر نا ہے۔قفال نے کہا :یہ جا نے بغیر کے کہنے والے نے یہ بات کہاں سے کہی اس کی بات کو قبول کر نا تقلید ہے۔(تہذیب الاسماء واللغت،جلد :۴/ص:۱۰)
حاصل یہ کہ وہ شخص جس کو دینی علوم و فنون میں اتنی مہارت ہے کہ وہ کسی چیز کے صحیح اور غلط ہو نے کے بارے میں فیصلہ کر نے کی قوت رکھتا ہو اس کی بات بغیر دلیل کے تقا ضا کے مان لینے کو تقلید کہتے ہیں ۔

سوال:تقلید کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب:بنیادی طور پر تقلید کی دو قسمیں ہیں۔(۱)تقلید محمود۔یعنی وہ تقلید جس کی شر یعت میں تعر یف کی گئی ہو ۔(۲) تقلید مذموم۔یعنی وہ تقلید جس کی شر یعت میں مذمت کی گئی ہو ۔چنا نچہ ابتداء اسلا م میں جب کفار مکہ سے کہا جا تا کہ آئو اس دین کی طرف جسے اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کہتے کہ ہمارے باپ دادا کا دین ہمارے لئے کافی ہے ۔ہم اسی کی تقلید کر یں گے۔چنانچہ قرآن حکیم میں ہے’’اذا قیل لھم تعالواالی ما انزل اللہ و الی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آباء نا۔(المائدہ،آیت:۱۰۴)جب ان سے کہا جاتا کہ آئو اس کی طرف جسے اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف ،تو وہ لوگ کہتے ہمارے لئے کافی ہے وہ دین جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔
تو یہ لوگ بھی ایک قسم کی تقلید کر رہے تھے ،لیکن ان کی مذمت کی گئی انکار کیا گیا کہ تمہارا یہ قول درست نہیں ۔تمہارے باپ دادا تو خود گمراہ تھے ان کے دین پر چل کر تم ہدایت نہیں پا سکتے اس لئے اسلام قبول کرو اور نجات حاصل کرو۔قارئین!ہم ایسی تقلید کے علمبر دار نہیں ۔جو لوگ اس قسم کی آیت پیش کر کے تقلید کی مذمت کرتے ہیں ہم خود ایسی تقلید کا رد کرتے ہیں۔کیو نکہ یہ تقلید ،تقلید مذموم ہے جو ایک فیصد بھی درست نہیں اس لئے کہ جس کی تقلید کی جا رہی ہے وہ خود کفر و شر ک میں ڈوبا ہوا ہے تو اس کی تقلید کر نے والے کیسے بچ سکیں گے۔ہم اس تقلید کے داعی ہیں جس میں امام بھی صراطِ مستقیم پر ہو اور اس کی اتبا ع کرنے والے بھی صراطِ مستقیم پر ہو۔اور اس کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیا گیا۔باپ دادا کی تقلید کی بات کی جائے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی باپ دادا کی تقلید کا ذکر کیا۔چنا نچہ جب ان سے پو چھا گیا کہ آپ اپنا مو قف ظاہر کیجئے کہ آپ کس ملت پر ہیں تو آپ نے فر مایا:واتبعت ملۃ آبائی ابراھیم و اسحاق و یعقوب۔(سورہ یوسف،آیت:۳۸)میں نے پیر وی کی اپنے باپ دادا ابراہیم ،اسحاق اور یعقوب کے دین کی۔تو یہاں پر بھی باپ دا دا کی تقلید کی بات کی جارہی ہے مگر شریعت اس کی مذمت نہیں کر تی بلکہ اس کی تعریف کر تی ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
افسوس ! آج ایک طرفہ ٹریفک چل رہی ہے ۔کفارو مشر کین والی آیات مسلمانوں پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔کہ دیکھو وہ کفار اپنے باپ دادا کی تقلید کی بات کر تے تھے اور یہ لوگ بھی اپنے پیشوا اور بزرگوں کی تقلید کی بات کر تے ہیں ۔یہ قر آن مجید کی آیتوں کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔وہ آیا ت ان لوگوں کے بارے میں میں ہیں جن کے باپ دادا کفر و شرک میں ڈوبے ہو ئے تھے ۔تو لازما ان کی تقلید کر نے والے بھی ہلاک و بر باد ہوں گے ۔مگر جن کے پیشوا اور بزرگ ہدایت کے مینار ہوں صراطِ مستقیم پر ہوں تو ان کے پیرو کار بھی لازما ہدایت پائیں گے۔اسی لئے حضرت یوسف نے کہا :میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم ،اسحاق اور یعقوب کی پیر وی کی۔اور خود اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا:چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:واتبع سبیل من اناب الیّ۔پیروی کرو ان لو گوں کے راستے کی جو لوگ میری طرف جھکے۔اس لئے ان آیات کے در میان فرق نہ کر نا اور مسلمانوں پر اللہ کے نیک بندوں کی تقلید کی وجہ سے کفر و شر ک کا فتوی لگانا یہ ابلیسی روش ہے جس سے نہ اللہ خوش ہے اورنہ اس کے رسول ﷺ۔

سوال:دین کے اندر کن باتوں میں تقلید کی جاتی ہے اور کن باتوں میں نہیں؟
جواب:دین کے اندر تین طرح کی باتوں میں کسی کی تقلید نہیں۔(۱)دین کے بنیادی عقائد۔(۲)جو احکام شر عیہ تواتر سے ثابت ہوں۔(۳)قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے وہ صاف اور صریح احکام جو یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہیں اور اس کا کو ئی معارض نہیں۔جیسے پانچ وقت کی نمازوں کا فرض ہونا۔رمضان المبارک کے روزے ،زکوٰۃ اور حج وغیر ہ کی فر ضیت ۔
تقلید صرف ان مقامات میں کی جاتی ہے جہاں مسئلہ واضح نہ ہو اور اس کو سمجھنے کے لئے کثیر علوم و فنون کی ضرورت ہو جیسے قرآن حکیم میں طلاق شدہ عورتوںکی عدت کا تذ کرہ کرتے ہو ئے اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا:والمطلقت یتر بصن بانفسھن ثلاثۃ قروئ۔(البقرہ،آیت:)طلاق شدہ عورتیں روکیں رکھیں اپنے آپ کو تین ’’ قروء ‘‘ تک۔اب عربی زبان میں لفظِ ’’ قروء ‘‘کے دو معانی آتے ہیں ،ایک حیض(یعنی ماہواری)اور دوسرا طہر(یعنی پاکی)اور دونوں اس لفظ کے حقیقی معانی ہیں ۔اب ایسی صورت میں آیت کر یمہ کے اندر کس معنی کو لیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔
یونہی بیوہ عورت کی عدت قرآن حکیم میں ایک جگہ اس طر ح بیان کیا گیا ہے:والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متا عا الی الحول غیر اخراج۔(البقرہ، آیت:۲۴۰) جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کو نکالے بغیر ایک سال کی وصیت کر جائیں۔یعنی اس آیت کر یمہ میں بیوہ عورت کی عدت ایک سال بیان کیا گیا۔اور دوسری آیت میں بیوہ عورت کی عدت چار مہینہ دس دن بیان کیا گیا چنا نچہ ارشاد ربانی ہے:والذین یتوفون ازواجا منکم و یذرون ازواجا یتر بصن بانفسھن اربعۃ اشھر و عشرا۔(البقرہ،آیت:۲۳۴)اور جو تم میں سے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر انتقال کر جایئں تو وہ اپنے آپ کو روکیں رکھیں چار مہینہ دس دن۔
اب فیصلہ یہ کر نا ہے کہ ہم کس آیت پر عمل کر یں اور کس پر نہیں دونو ں رب تعالی کا فر مان ہے۔اس کے علاوہ وہ نئے مسائل جو وقت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں جب ان کا واضح حل قرآن و احادیث میں نہ ہو ،ایسی تمام صورتوں میں اپنے سے کو ئی فیصلہ کر نے کے بجائے کسی ایسے شخص کے فیصلے کو مانا جاتا ہے ،جن کی نظر میں احکام کی تمام آیتں اور احادیث ہوں اور علوم عر بیہ نحو و صرف ،بلاغت وغیرہ کا ماہر ہواور جو ہر اعتبا ر سے دوسرے لو گوں کے بالمقابل زیادہ قرآن و حدیث کا سمجھنے والا ہوساتھ ہی تقوی و طہارت میں بھی کامل ہو ۔یہی وہ صورتیں ہیں جن میں تقلید کی جاتی ہے جس کے صحیح ہو نے میں کو ئی شبہ نہیں۔

سوال:جب قرآن واحادیث میں تمام مسائل مو جود ہیں تو پھر کسی کی تقلید کی ضرورت کیا ؟
جواب:بے شک قرآن و احایث میں سب مسائل مو جو دہیں ۔اور ابھی گذرا کہ تمام مسائل میں تقلید نہیں کی جاتی بلکہ صرف ان مسائل میں جو پیچیدہ ہیں  اور ان کا سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔جیسے یہ تو ہر آدمی جا نتا ہے کہ دن رات میں پانچ نمازیں فر ض ہیں اور سب کا وقت بھی معلوم ہے ۔مگر کچھ ایسے مما لک ہیں جہاں دو دوتین تین مہینہ سورج نکلتا ہی نہیں رات ہی رات ہو تی ہے ۔تو وہاں کے لو گ کیا کریں ؟صرف مغرب اورعشاء پڑ ھے یا پانچوں نماز ؟اور اگر پانچوں نماز تو وقت کیسے متعین کر یں ۔احادیث میں تو ظہر کا وقت سورج کے اعتبار سے بتایا گیا ہے۔کہ جب وہ ڈھلے تو ظہر کا وقت شروع ہو جا تا ہے۔وہاں تو سور ج نکلا ہی نہیں تو اب کیسے ان لو گوں کو ظہر پڑ ھنے کا حکم دیا جائے؟ہمارا ایمان ہے کہ قرآن و احادیث میں سب کچھ ہے ،کچھ چیزیں واضح ہیں اور کچھ مجمل ومبہم ۔انہیں کو سمجھنے کے لئے ائمہ اور ان کی تقلید کی ضرورت ہے۔تا کہ ان کے ذریعے سے ہم ان احکام کو بھی سمجھ لیں جو قرآن و احادیث میں اشاروں کے اندر بتا یا گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے تہوں میں موتی یقیناموجود ہو تے ہیں مگر ان کا پا لینا اور اور وہاں سے نکال کر لے آنا صرف اس کے ماہروں ہی کا کام ہے اگر عام آدمی نکالنے کی کو شش کیا تو اس کا انجام ہلاک ہو نا ہے۔

سوال:تقلید کے جائز ہو نے پر کوئی دلیل ہے ؟
جواب:تقلید ،کے جواز پر متعد د دلائل ہیں ۔ان میں سے چند یہ ہیں۔(۱)قرآن مجید میں اللہ تعالی فر ماتا ہے:فلولا نفر من کل فر قۃ منھم طائفۃ لیتفقھو فی الدین و لینذروا قومھم اذارجعواالیھم لعلھم یحذرون۔(سورہ توبہ،آیت:۱۲۲)تو کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلی تا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور جب لوٹ کر آئے تو اپنی قوم کو ڈرائے تا کہ وہ (بری باتوں)سے بچیں۔
اس آیت کر یمہ میں اللہ تعالی نے صرف بعض مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر کے اپنی قوم تک احکام کو پہو نچائیںتو قوم پر ضروری ہوا کہ وہ ان کی بات مانے اور ان کی پیروی کرے۔یہی تقلید ہے۔
(۲) حکم الہی ہے:اطیعوا اللہ و اطیعوا الر سول و اولی الامر منکم۔() اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے حکم والوں کی۔یہ ’’ اولی الامر ‘‘ کون ہے ؟جس کی اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے۔مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس ،امام مجاہداور حسن بصری رحمۃ اللہ علیھم کہتے ہیں:اولی الامر‘سے مراد فقہاء ہیں۔(جامع البیان للطبری:۴/ص:۲۰۶۔۲۰۷)اگر بادشاہِ اسلام بھی ہو جیساکہ دوسرے مفسرین کہتے ہیں تب بھی ظاہر ہے کہ بادشاہ کی بات اسلامی احکام کے دائر ے ہی میں ہو گی تب ہی وہ اسلامی بادشاہ ہو گا ۔بہر صورت وہ لوگ جو قرآن و سنت سے مسائل اخذ کر کے بتا تے ہیں انکی پیروی کرنا بحکم قرآنی ماننا ضروری ہے۔تو ثابت ہو ا کہ وہ ائمہ جنہوں نے دین کا علم انتہا ئی گہرائی اور گیرا ئی سے حاصل کیا ان کی بات ما ننا اور اس پر عمل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ عوام کے لئے ضروری ہے۔اور اس کو نا جائز کہنا سراسر باطل اور غلط ہے۔
(۳)نیز اللہ تعالی نے دوسری جگہ ارشاد فر مایا:فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔(سورہ نحل،آیت:۴۳)جس چیز کو تم نہیں جانتے ہو اس کو جاننے والوں سے پو چھو ۔اس آیت کر یمہ سے معلوم ہوا کہ جو آدمی احکام شر عیہ کو بذات خود حاصل نہیں کر سکتا اس پر لازم ہے کہ وہ عمل کر نے کے لئے اہل ذکر اور اہل علم یعنی ائمہ مجتہدین سے پو چھے کیونکہ وہی براہ راست احکام شر عیہ اصل ماخذ سے حاصل کر تے ہیں۔اسی لئے مفسر ین کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عام آدمی کے لئے مسائل فر عیہ میں مجتہد کی تقلید ضروری ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام غزالی نے عام آدمی کی تقلید پر دو دلیلیں قائم کی ہیں۔ایک یہ کہ صحابہ کرام کا اس پر اجماع تھا کہ وہ عام آدمی کو مسا ئل بتا تے تھے اور اس کو یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ درجہء اجتہاد کا علم حاصل کرے۔اور دوسری دلیل یہ کہ عام آدمی پر احکام شر عیہ کا بجا لانا ضروری ہے تو اگر ہر آدمی درجہء اجتہاد کا علم حاصل کر نے کا مکلف ہو تو زراعت ،صنعت و حرفت اور تجارت بلکہ دنیا کے تمام کارو بار معطل ہو جائیں گے کیو نکہ ہر آدمی رات و دن علم کے حصول میں لگا رہے گا اور نہ کسی کے لئے کچھ کھانے کو ہو گا اور نہ کچھ پہننے کواور دنیا کا نظام بر باد ہو جائے گا۔حرج عظیم لاحق ہو گا اور یہ بداہتہََ باطل ہے۔ثابت ہو اکہ ہر آدمی پر اتنا علم سیکھنا ضروری نہیں اور عمل بہر حال کر ناہے تو سوائے اس کے جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کر یں اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں اور یہی تقلید ہے۔

سوال:اگر تقلید جائز ہی ہے تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی تقلید کی ؟ کیا وہ بھی حنفی ،شافعی،مالکی اور حنبلی تھے ،جب وہ نہیں تو ہم کیوں ؟

جواب:اس سوال کو ذرا سا بدل کر ہم یہ کہیں کہ کیا صحا بہ بھی بخاری ،مسلم ، ترمذی وغیرہ سے احادیث دیکھ کر مسائل بتا تے تھے ،اور اگر وہ نہیں تو ہم کیوں؟تو یقینا لوگ ہمیں جاہل ،بکواس کر نے والا ،عقل کا اندھا اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازیں گے۔مگر ہم اس طرح کے سوال کرنے والوں کو اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتے۔رہی بات صحا بہ کرام کی تقلید کرنے اور نہ کرنے کی تو صحابہ کرام کی زند گی کے مطالعہ کر نے والوں سے یہ بات مخفی نہیں کہ صحابہ کرام میں مختلف در جے کے صحابی تھے ،کو ئی فقیہ تھے تو کو ئی ان سے پو چھ کر عمل کر نے والے۔چنانچہ ابن قیم ،اپنی کتاب ’ ’ اعلام المو قعین ‘‘ میں تحر یر کر تے ہیں کہ :۱۱۴۹؍صحابہ اہل فتوی تھے اور ان میں سے سات شخصیات کثیر الفتاوی تھیں۔وہ حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عبد اللہ بن مسعود،ام المو منین حضرت عائشہ ،حضرت زید بن ثابت ،حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھم ہیں۔(اعلام المو قعین:۱/۲۱) معلوم ہو ا کہ صحابہ کرام بھی اپنے سے زیا دہ علم والے صحابہ سے مسائل معلوم کر کے عمل کر تے تھے ۔اس لئے تقلید کا انکار کر نا اور یہ کہنا کہ نعوذ باللہ یہ شر ک ہے۔صحابہ پر شر ک کا الزام لگاناہے۔

سوال:اگر یہی بات ہے تو انہیں صحابہ کی تقلید کیوں نہ کی جائے امام اعظم ابو حنیفہ یا دوسرے کی کیوں؟
جواب:اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ان ائمہ کی تقلید حقیقت میں اللہ و رسول اور صحابہ کرام ہی کی اتباع ہے کیو نکہ یہ حضرات اپنی طر ف سے مسائل بیان نہیں کر تے بلکہ قرآن و احادیث و اقوال صحابہ کی روشنی میں ہی مسائل بتا تے ہیں۔رہی بات ان ائمہ کی تقلید کی تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے دور میں دیگر اسلامی ضروریات کے تقا ضے کی تکمیل کی وجہ سے اور ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے اصول و قواعد وضع نہیں ہوئے جو ہر نو پید مسئلے میں رہنما کی حیثیت رکھتا ہو،اور نہ ہی اس دور میں فقہ کی تدوین ہو سکی یہ سب کا م ان ائمہ کے دور میں ہو ااس لئے اس وقت کے تقر یبا تما م مسلمانوں نے ان چاروں امام میں سے کسی ایک کے مسلک کو اپنا لیا۔

چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تحریر فر ماتے ہیں ’’ اور داسری صدی کے بعد لو گوں میں کسی ایک مجتہد کے مذہب کو اختیا ر کر نا رائج ہو گیا اور کم ہی کو ئی ایسا بچا جو کسی ایک مجتہد کا مقلد نہ ہو گیا ہو اور اس دور میں ایسا ہی کرنا واجب ٹھرا ‘‘۔
(الانصاف فی بیان سبب الا ختلاف:ص/۱۹)
اور یہی شاہ صاحب اسی کتا ب میں تھوڑا آگے چل کے تحریر فر ماتے ہیں’’ خلاصہ یہ ہے کہ مجتہدین میں سے کسی ایک کے مذہب کو اختیار کر نا ایک راز ہے جسے اللہ تعالی نے علما کے دلوں میں ڈالااور انہیں اس پر جمع کر دیا۔‘‘ ثابت ہوا کہ تقلید پر اس امت کا اجماع ہے۔اور حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا بے شک اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ فر مائے گا۔اور جماعت کے ساتھ خدا کی مدد ہے ۔اور جو الگ رہے گا وہ بروز قیا مت بھی سب سے الگ کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
(تر مذی باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
نیز یہی شاہ صاحب اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فر ماتے ہیں۔چاروں فقہی مذاہب جو اس وقت رائج ہیں ان میں سے کسی ایک کی تقلید پر زمانہء قدیم سے لے کر آج تک امت اسلامیہ کا اتفاق رہا اور اس میں بڑی مصلحتیں ہیں بالخصوص ہمارے دور میں تو اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ آج کل عقلوں میں کوتا ہی آچکی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خواہشات نفسانیہ بھری ہوئی ہیں اور ہر شخص اپنی عقل اور سمجھ کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اس لئے ان مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ،ص:۱۵۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

دنیا میں پھیلے تمام مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ سوائے مٹھی بھر لوگوں کے سارے مسلمان آج بھی کسی نہ کسی امام کے مقلد ہیں۔لہذا عام مسلمانوں کے طر یقے سے ہٹ کر راستہ اپنانے والوں کو چاہئے کہ وہ اس آیت کریمہ کو غور سے پڑھے ۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:اور جو کوئی ہدایت کے ظاہر ہونے کے باوجود مخالفت کرے رسول کی اور سب مسلمانوں کے راستے کے خلاف چلے،تو اس کو ہم پھیر دیں گے اسی کی طرف جو اس نے اختیار کیااور ہم اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے۔اور وہ بہت بری جگہ پہونچا۔(سورہ نسائ،آیت:۱۱۵)اور اپنے انجام کی فکر کریں۔اور رہی بات ان صحابہ کی تقلید کی دعوت دینے والوں کی تو انہیں پہلے چاہئے کہ وہ اپنے علماء کی کتا بوں کو چھاپنا اور پڑھنا بند کر کے صحابہ کے مسلک اور ان کے بیان کردہ شر عی و فقہی اصول و قواعدکو تحر یر ی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرے جو تمام مسائل کے حل کے لئے کافی ہو پھر ان کی تقلید کی دعوت دے۔
ایک دھوکا اور اس کی حقیقت:قرآن حکیم میں کچھ ایسی بھی آیات ہیں جن میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے،اور اس سے انسانوں کو روکا گیا ہے۔مگر ان آیتوں کے اندر تقلید سے مراد وہ تقلید ہے جو صاف اور صریح حکم خداوندی کے ہوتے ہوئے انسان اس کے مقابلے میں اپنے ایسے باپ دادا کی تقلید کرے جو خود حق پر نہ تھے ۔مگر اس دور کا یہ المیہ ہے کہ ایک جماعت جو’غیر مقلد،وہابی،سلفی اور اہل حدیث وغیرہ کے نام سے مشہور ہے ۔ان کا خاص کام ہی یہ ہے کہ جو آیات کافروں اور مشر کوں کے بارے میں نازل ہوئیں وہ مسلمانوں پر چسپاں کرکے امت کو گمراہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔وہ حضرات انہیں آیات کو دیکھا کر مسلمانوں کے سوادِ اعظم جو مقلد ہیں اور جس سواد اعظم کے ساتھ رہنے کی مصطفی جان رحمت نے بارہا تلقین فر مائی ہے۔دھوکا دیتے رہتے ہیں اور وہ لوگ جو دین سے دور اور قرآنی تعلیمات سے نا آشنا ہیں ان کے دام ِفریب میں الجھ کر اپنی عاقبت برباد کر لیتے ہیں ۔اس لئے اس قسم کی آیات کی کیا حقیقت ہے؟ اس کے بارے میں ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے خود ان کے مسلم پیشوا علامہ ابن قیم کی وضاحت قارئین کی نذر کرتے ہیں ۔

ایسی آیات جن میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن قیم تحریر کرتے ہیں۔’’ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ خدائے قدوس نے اس شخص کی مذمت کی ہے ،جس نے اپنے باپ داداؤں کی تقلید کی اور اس کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کی ۔ایسے ہی تقلید کی حرمت اور مذمت پر ائمہ کرام اور سلف صالحین متفق ہیں۔البتہ جس نے احکام خداوندی کی تحقیق و تفتیش میں پوری کوشش صرف کر دی اور صحیح نتیجہ تک نہ پہونچ سکا اور اس نے اپنے سے زیادہ جاننے والے کی تقلید کرلی تو یہ اچھا ہے برُا نہیں۔اس پر وہ اجر وثواب کا مستحق ہوگا نہ کہ گناہ کا‘‘۔
(اعلام الموقعین،۲/۴۳۸)
ابن قیم کی اس عبارت سے صاف واضح ہواکہ جن آیات میں تقلید کی مذمت کی گئی ہے اور جس تقلید کی حرمت پر سلف صالحین اور ائمہ کرام نے اجماع کیا ہے وہ انسان کا خداوند قدوس کے احکام کو چھوڑ کر اپنے آباء واجداد کی تقلید کرناہے نہ کہ ان مقدس علمائے ربانیئن کی تقلید جنہوں نے پوری زندگی اسلام کی خدمت میں صرف کردی اور اللہ کے بندوں تک اللہ کے پیغام کو پہونچاتے رہے۔

للہ انصاف !سو چئے! کیا قرآن واحادیث کے ماہر کی تقلید کرنااور کافر ومشرک باپ دادؤں کی تقلید کرنا،کیا دونوں ایک جیسا ہے؟؟؟ایک طرف قرآن واحادیث کے بتانے والے اور ان ہی پر عمل کی دعوت دینے والے ہیں اور دوسری طرف اللہ و رسول کو چھوڑ کر بے بنیاد باتوں پر یقین رکھنے والے۔تو کیا دونوں کا حکم ایک ہوگا؟؟؟یہ کون نہیں جانتا کہ اجالا اور اندھیرا دو الگ الگ چیزیں ہیں ایک کا حکم دوسرے پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ،مگر بُرا ہو انسانیت کے ان دشمنوں کا جو دونوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں اور دونوں کو ایک حکم میں رکھتے ہیں اور لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اسی ظلم عظیم کو اسلام کی خدمت تصور کرتے ہیں ۔سچ کہا ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کہ سب سے بد بخت اور شریر لوگ وہ ہیں جو کافروں سے متعلق آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں ۔کیونکہ انسان کو غلط راستے کی طرف جان بوجھ کر لے جانا یہ انسانوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ہے ۔ اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔