نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے نام مبارک کو سن کر انگوٹھے چومنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ لوگ اس عمل کو اپنے بغض اور نادانی میں عجب عجب نام دیتے ہیں اور جو لوگ انگوٹھوں کو چومتے ہیں ان کو بدعتی، کافر اور مشرک تک بک دیتے ہیں، یا کہتے ہیں یہ تو بریلویت ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ ذرا غور سے پڑھیئے گا۔
اس سے تو ہم سب واقف ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی تبرکات کو صحابہ اپنے پاس حرز جاں بنا کر رکھتے تھے۔کتب دینیہ کے مطالعہ سے بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ اعمال جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم پر دلالت کرتے ہیں ان کے لیئے اگرچہ شرعی دلیل نہ بھی ملے تب بھی کرنے والے کو اجر و ثواب ملتا ہے۔ امام مالک رضی اللہ عنہ کے پاس کونسی شرعی دلیل تھی جس کی وجہ سے وہ حدیث کو بحالتِ قیام اور نہایت زیب و زینت میں پڑھاتے ہیں اور مدینہ شریف سے باہر نہیں جاتے اور نہ ہی مدینہ شریف میں سواری پر ہوتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی مجبور ہوکر کہنا ہی پڑے گا کہ تعظیمِ مصطفی علیہ التحیہ والثناء میں جو عمل کیاجاتا ہے اس پر اجر وثواب ہے۔
منجملہ ان کے انگوٹھے چومنا یہ بھی ایک تعظیم ہے کہ کسی کے نام پر انسان جھوم جائے اور عقیدت کا اظہار کرے تو وہ محبت کی ایک دلیل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ اقدس کو سن کر عاشقِ نبی جھوم جاتا ہے اور محبت وعقیدت سے سر جھکا رہا ہے اور انگوٹھے چوم رہا ہے۔ اس پر اگرچہ اس کے پاس دلیل نہ بھی ہوتی تب بھی شرعاً گرفت نہ تھی کیونکہ ایسے عمل سے شرعاً کسی قانونِ شرعی کے خلاف نہیں کرنا پڑتا ہے۔ بحمدہ تعالیٰ ایسے عاشِ صادق کے لیئے بہت بڑے دلائل ہیں، اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنے محبوب کا نام سنتے ہی عقیدت کا نذرانہ پیش کرے۔ اگر کوئی روکے تو اسے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ شعر سنا دیجئے
نجدی کہتا ہے کہ کیوں تعظیم کی ،
یہ ہمارا دین تھا پھر تجھ کو کیا ؟
ہمارا عقیدہ : ۔ نبی پاک صاحب لولاگ سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی بوقتِ اذان و اقامت سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا مستحب ہے۔ یہی ہمارا مذہب ہے اسی پر ہمارے دلائل قائم ہوتے ہیں۔ بہتان تراشی کا جواب ہمارے پاس نہیں کہ بڑی دلیری سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اہلسنت انگوٹھے چومنا واجب مانتے ہیں۔یہ نرا جھوٹ اور افتراء سے زیادہ کچھ نہیں، ہم چونکہ اس عمل مبارک کو (مستحب) مانتے ہیں اس پر احادیث واقوال ،فقہاء وصلحاء موجود ہیں جو کہ درج کیئے جارہے ہیں۔
قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا۔ (مضمرات)یعنی ؛۔ جس نے اذان میں میرا نام سن کر انگوٹھوں سے لگا کر چوما اور آنکھوں سے لگایا تو وہ کبھی اندھا نہیں ہوگا۔
قال علیہ السلام من سمع اسمی ووضع ابھامیہ علیٰ عینیہ فانا طالبہ فی صفوف القیامۃ وقائدہ الی الجنۃ (صلوٰۃ مسعودی)۔یعنی ؛۔ جس نے میرا نام سن کر انگوٹھوں کو آنکھوں سے لگایا تو میں اس کو قیامت میں صفوں سے تلاش کرکے بہشت میں لے جاؤں گا۔
قال الطاؤس انہ سمع من الشمس محمد بن ابی نصر البخاری حدیث من قبل عند سماعہ من المؤذن کلمۃ الشھادۃ ظفری ابھامیہ ومسھا علیٰ عینیہ وقال عند المس ۔ اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونورھما لم یعم۔ (المقاصد الحسنہ۔ ص285)۔یعنی؛۔ طاؤس فرماتے ہیں انہوں نے خواجہ شمس الدین ابی نصر البخاری سے یہ حدیث سنی کہ جو شخص مؤذن سے کلمہ شہادت سن کر انگوٹھوں کے ناخن چومے اور آنکھوں سے لگائے اور یہ دعا پڑھے (اللھم احفظ حدقتی الخ) تو وہ اندھا نہ ہوگا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عن الخضر علیہ السلام انہ قال حین یسمع المؤذن یقول اشھدان محمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علیٰ عینیہ لم یرمد ۔ (بحوالہ عقائد حسنہ)۔یعنی؛۔ حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جس نے مؤذن کے قول (اشھد ان محمدا! الخ) سن کر مرحبا بحبیبی الخ کہہ کر انگوٹھوں کو چوما اور ان کو آنکھوں پر پھیرا تو اس کی آنکھیں کبھی نہیں دکھیں گی۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مؤذن کے قول اشھد ان محمد رسول اللہ کو سن کر انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا تو رسولِ کریم علیہ السلام نے فرمایا : من فعل فعل خلیلی فقد حلت لہ شفاعتی ۔ (کشف الخفاء، باب الجز۲، الجز ۲، الصفحۀ ۲۰۶ . مقاصد حسنه ص ۳۸۴)یعنی جس طرح میرے خلیل صدیق نے کیا جو بھی ایسے ہی کرے گا اس کے لیئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔
عن الفقیہ ابی الحسن علی بن محمد من قال حین یسمع المؤزن یقول اشھد ان محمدا رسول اللہ مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقبل ابھامیہ ویجھلھما علی عینیہ لم یعم ولم یرمد ۔ (کشف الخفاء، الباب الجز ۲، الجز ۲، ص ۲۰۷، و مقاصد حسنه ص ۳۸۴)یعنی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو شخص اشھد ان محمداً الخ سن کر مرحبا الخ کہتا ہے اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرتا ہے تو وہ ہمیشہ نہ تو نابینا ہوگا اور نہ ہی اس کی آنکھیں دکھیں گی۔
چند اور احادیث کا ذکر بعد میں کیا جائے گا ویسے کتب احادیث میں اسی قسم کی روایات بہت ہیں لیکن ان سب کے اسی طرح کے مضامین ہیں۔
غلطی کا ازالہ : اس سے بعض جاہلوں کی جہالت بھی ظاہر ہوگئی جنہوں نے یہ لکھا اور کہا کہ (علماء مبتدعین انگوٹھے چومنے کی اصل روایت جو بڑے کروفر سے بیان کرتے ہیں صرف دو عدد ہیں) یہ ان کی جہالت کا بین ثبوت ہے کہ انہوں نے مطالعہ کیئے بنا صرف دوحدیثیں مانیں حالانکہ اس موضوع پر بہت سی حدیثیں ہیں جنہیں عرض کردیا گیا ہے ان کے علاوہ بھی بہت ہیں۔
چند حکایات
حکایت اول : حدیث شریف میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام بہشت میں تشریف لائے تو فرشتگان ، نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیئے حاضری دیتے تو حضرت آدم علیہ السلام نے ملائکہ سے حاضری کا سبب پوچھا تو حکم ہوا کہ یہ نورِ محمدی کی زیارت ک لیئے حاضر ہوتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کو نورِ محمدی کی زیارت کا اشتیاق ہوا تو بارگاہء ایزدی میں زیارت کی التجا کی۔فاظھر اللہ وجہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فی صفار ظفری ادم مثل المراۃ فقبل ظفریہ ومسح علیٰ عینیہ ۔ یعنی ؛۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال آدم علیہ السلام کے ناخنوں میں ظاہر فرمایا جس پر آدم علیہ السلام نے اپنے انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں پر لگایا۔اس کے بعد حدیث شریف میں ہے کہ (لم یعم ابداً)۔یعنی حضرت آدم علیہ السلام اسی عمل کی بدولت تادمِ زندگی نابینا نہ ہوئے۔حوالہ؛۔ فتاویٰ جواھر، فتاویٰ سراج المنیر، فتاویٰ مفتاح الجنان ، نعم الانتباہ از منیر العین، ص ۱۴۳)
اسی طرح کا واقعہ انجیل برنباس ص ۶۰/۶۱ مترجم مطبوعه حميديه لاهور میں بھی ہے۔ انگھوٹے چوم کر آنکھوں پر لگانا حضرت ابوالبشر آدم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ اپنے باپ کی سنت پر عمل کرنا اپنے باپ کے ہونے کا ثبوت دینا ہے ورنہ ۔
حکایت دوم : حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا مرد تھا جس کا پورا ایک سوسال جرم وخطا میں گزرا۔ جب وہ فوت ہوا تو بنی اسرائیل نے اسے ایسے ہی بلاکفن ودفن پھینک دیا۔فاوحی اللہ الیٰ موسیٰ علیہ السلام ان غسلہ وکفنہ وصل علیہ فی بنی اسرائیل۔یعنی تو اللہ تعالیٰ کا موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اسے غسل دو اور کفنا کر بنی اسرائیل کو بلا کر اس پر نمازِ جنازہ پڑھئے سبب دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:لانہ نظر فی التوراۃ فوجد اسم محمد فقبل ووضعہ علیٰ عینیہ وصلی علیہ۔یعنی اسلیئے کہ اس نے تورات میں میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی دیکھا تو اسے بوسہ دے کر آنکھوں پر رکھا اور درود بھی پڑھا۔ فغفرت لہ ذنوبہ وزوجتہ حوراء ۔یعنی اسی لیئے میں نے اسے بخش دیا اور اسے حور بھی عنایت کردی۔( اخرجہ فی النعیم فی الحلیہ ج ۴ ص ۴۲ ، سيرۀ الحلبيه ج ۱۰ ص۸۰ ، نزهته المجالس ج ۲ ص ۸۹ ، از تاريخ خميس وغيره وخصائص الکبري ج ۱۰ ص ۱۶)
فائدہ : اس حکایت کو بار بار پڑھیے۔ ہمارے مخالفین تو زندگی بھر ماتھے رگڑ رگڑ کر بھی بہشت نہ لے سکے اور نہ ہی حور۔ جبکہ مالکِ حقیقی قادر ہے کہ اپنے محبوب بندے کے ایک نام لیوا اور عاشق کو بہشت بھی دے دی اور حور بھی ۔ اس سے مخالفین روئیں یا مریں لیکن اس عاشق نے بزبانِ حال کہہ ہی دیا۔
تجھ سے اور جنت سے کیا مطلب وہابی دور ہو
ہم رسول اللہ کے، جنت رسول اللہ کی
ایک شبہ : انہی باتوں سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں کہ گناہ کیئے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تو صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی برکت سے بخش دے گا۔ لہٰذا اب اعمال صالحہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔
جواب : بخاری شریف کی ابتدائی حدیث ہے : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اس نیت کے ساتھ گناہ کرنا کہ آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نام چومنے سے بخشیں ہو جاۓ گی یہ نیت ہے بری ہے جب نیت بری ہے تو صلہ بھی برا ہی ملے گا۔
دوسری بات یہ کہ یہ نری منافقت ہے ایک طرف تو نام مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم چوم کر محبت کے دعوےدار بنا اور دوسری طرف گناہ کر کے منافقت کرنا
محبت کا ثبوت تو یہ ہے محبوب کی ہر ادا کو اپنایا جائے ۔
یہ کیا جب نام مبارک آیا تو انگٹھوں کو چوم کر آنکھ پر لگا لیا ، پوچھا تو جواب ملا محبت میں ایسا کر رہا ہوں لیکن دوسری طرف داڑھی شریف منڈوا کر یہ ثابت کر دیا میں انگریز سے محبت کرتا ہوں بھئی سچ کہہ رہا ہو آدمی کو جس سے چاہت ہو اس کی ادا کو اپناتا ہے اگر نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی چاہت ہوتی تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ادا کو اپناتا یہ نری منافقت ہے یاد رکھو منافقت کرنے والا کامیاب نہ ہو گا ۔ ورنہ جو بندہ محبت رکھتا ہو وہ گناہ کرے اور یہ کہے میں نام چوم کر بخشا جاؤں گا یہ محبت کا جھوٹا دعودار ہے ورنہ محبت تو ہر چیز بھلا دیتی ہے گناہ کا چیز ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سابقہ زمانے میں ایک آدمی تھا جس نے ننانوے مرد قتل کیئے۔ ایک عالم سے اپنی توبہ کا سوال کیا تو اس نے ایک راہب کی طرف رہبری کی، اس راہب کی خدمت میں پہنچ کر اپنا ماجرا سنایا۔ راہب نے کہا ایسے کی توبہ قبول نہیں ہوگی، اس نے راہب کو بھی قتل کردیا اب اس پر سو قتل ہوگئے۔ آگے چل کر پھر کسی عالمِ دین سے اپنی توبہ کے متعلق پوچھا تاکہ اس کی توبہ قبول ہوجائے۔ اس نے کہا کیوں نہیں توبہ کے درمیان کون حائل ہوسکتا ہے لیکن فلاں گاؤں جاؤ، وہاں اللہ کے بندے رہتے ہیں جو عبادت گزار ہیں تو ان کے ساتھ رہ کر عبادت کر اپنے گاؤں میں نہ جانا اسلیئے کہ وہ برا مقام ہے۔ وہ مرد چل پڑا جب آدھا سفر طے ہوا تو ملک الموت آپہنچا اس نے اس گاؤں کی طرف سینہ بڑھایا اس کے بعد ملک الموت جان لے کر چل پڑے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فاختصمت فیہ ملایکۃ الرحمۃ وملائکۃ العذاب فاوحی اللہ الی ھذہ ان تقربی واوھی اللہ الی ھذہ ان تباعدی وقال قیسوا مابینھما فوجد الی ھذہ اقرب بشبر فغفرلہ ۔ (صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، الباب حدیث الغار، الجز 11 ص 289، حدیث 3211)
یعنی ۔ تو رحمت وعذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے زمین کے ناپنے کا حکم دے دیا گیا ادھر زمین کو گھٹنے بڑھنے کا حکم دیا۔ وہ شخص زمین مقصود کی طرف ایک بالشت کے برابر قریب پایا گیا اسی وجہ سے اسے بخش دیا۔
اسکے علاوہ بخاری شریف میں ہے کہ ایک بندے کو صرف کتے کو پانی پلانے سے بخشا گیا اور دوسرے کو راستہ سے کانٹے ہٹانے سے بخشا گیا۔
دیکھیئے کہ رب کریم نے اپنے بندوں کو کیسی کریمی سے بخشا اور ہماری پیش کردہ روایت میں تو نبی کریم علیہ السلام کے نام اقدس کا وسیلہ جلیلہ سبھی ہے اور جہاں حبیب کا وسیلہ جلیلہ ہو وہاں تو فضل الٰہی کا کیا کہنا جیسے آدم علیہ السلام کے واقعہ میں ہوا۔
حکایت چہارم : حضرت مولانا روم قدس سرہ مثنوی شریف میں لکھتے ہیں کہ :بود در انجیل نام مصطفیٰ ۔ آن سر پیغمبراں بحر صفا انجیل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی درج تھا۔ آپ ہی تو انبیاء کے سردار اور بحرصفا ہیں۔ بود ذکر حلیہ ھاؤ شکل اُو ۔ بود ذکر غزووصوم واکل او۔ تورات میں آپ کی صورت وشکل مبارک کا بیان تھا اورآپ کے جہاد اور خوردونوش و صوم و صلوٰۃ کا بھی ذکر درج تھا۔
طائفہ نصرانیاں بھر ثواب ۔ چوں رسید ندے بدان نام وخطاب
بوسہ داد ندے بداں نام شریف ۔۔ رونھادندے بداں وصف لطیف
عیسائیوں کی ایک جماعت جب اس نام پاک اور خطاب مبارک پر پہنچی تو وہ لوگ بغرض ثواب اسن نام شریف کو بوسہ دیتے اور اس ذکر مبارک پر بطور تعظیم منہ رکھ دیتے۔
اندریں فتنہ گفتم آن گروہ ۔ ایمن از فتنہ بوداز شکوہ
جس گروہ کا بیان ہوا وہ دنیا کے فتنوں اور شکوہوں کے دبدبوں سے محفوظ تھا۔
ایمن از شتر امیران ووزیر ۔ درپناہ نام احمد مستجیر
بادشاہوں اور وزیروں کے شر سے اسلیے محفوظ تھے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کی پناہ نصیب تھی۔
نسل ایشاں نیز ھم بسیار شد ۔ نور احمد ناصر آمد یارشد
یعنی (اسکی تعظیم کی بدولت) ان کی نسل بہت بڑھ گئی اور حضرت احمد مجتبیٰ کا نور ان کا حامی و ناصر تھا۔ (ان کے مقابل ایک دوسرا بے ادب گروہ بھی تھا)۔
واں گروہ دیگر نصرانیاں ۔ نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم داشتند ے مستھاں
یعنی ان نصرانیوں میں دوسرے وہ بھی تھے جو نبی کریم کے نام اقدس کی بے ادبی کرتے تھے۔
مستھان وخوار گشتند از فتن ۔ از وزیر شوم رائے شوم فن
انہیں یہ سزا ملی کہ فتنوں سے خوار وذلیل ہوگئے اور وزیرشوم سے بھی انہیں سخت اذیت پہنچی
مستھاں وخوار گشتنداں رفیق ۔ گشتہ محروم از خود وشرط طریق
یعنی وہ گروہ ذلیل و خوار ہوا ۔ اپنی ہستی سے محروم یعنی قتل کیئے گئے اور مذہب سے بھی محروم یعنی عقائد خراب ہوگئے۔
نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم چوں چنیں یاری کند ۔ تاکہ نورش چوں مددگاری کند
یعنی نبی پاک کا نام جب ایسی مدد کرتا ہے تو اندازہ کرو کہ ان کا نور کس قدر مددگار ہوتا ہے۔
نام احمد چوں حساے رشد حصین ۔ تاچہ باشد ذات آن روح الامین
جب حضرت احمد مجتبیٰ کا اسم گرامی حفاظت کے لیے مضبوط قلعہ ہے تو اس روح الامین کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک کیسی ہوگی۔
(مثنوی دفتر اول ص 26 مطبوعہ نولکشور لکھنؤ(
حکایت پنجم : فقیہہ محمد بن البابا رحمتہ اللہ علیہ کے بھائی سے روایت ہے کہ وہ اپنا حال بیان کرتے ہیں کہ ایک ہوا چلی کہ کنکری ان کی آنکھ میں پڑگئی۔ نکالتے تھک گئے ہرگز نہ نکلی۔ اور نہایت شدید درد پہنچایا۔ انہوں نے مؤذن کو اشھدان محمدا ۔ الخ ۔ کہتے ہوئے سنا تو کہا (مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم) تو کنکری فوراً نکل گئی۔
حکایت ششم : حضرت شمس الدین محمد بن صالح مدنی وخطیب وامام مسجد، مدینہ طیبہ نے اپنی تاریخ میں حضرت امجد مصری سے ۔ انہوں نے فرمایا جس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم پاک اذان میں سن کر انگوٹھا اور انگلی کو ملاے اور نہیں بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گیں اور حضرت محمد بن صالح نے فرمایا کہ میں نے ایسے ہی محمد بن زرندی سے بھی سنا اور پھر اپنے متعلق کہا : وانا وللہ الحمد والشکر منذ سمعتہ منھما استعملتہ فلم ترمد عینی وارجو ان عافیتھما تدوم وانی اسلم من العمی ان شاء اللہ۔ (از مقاصد حسنہ الباب حرف المیم جز 1 ص 203)(یعنی ۔ اللہ ہی کے لیئے حمد شکر ہے جب سے میں نے یہ عمل دونوں صاحبوں سے سنا اپنے عمل میں رکھا۔ آج تک میری آنکھیں نہ دکھیں اور امید کرت اہوں کہ اچھی رہیں گی۔ اور میں کبھی اندھا نہ ہوں گا۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)۔
یہ تھے سلف صالحین کے عقائد اور اپنے نبی کریم سے محبت و عقیدت۔
فتاویٰ شامی میں ہے۔یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ ؛ صلی اللہ علیک یارسول اللہ، وعند الثانیۃ منھا؛ قرت عینی بک یارسول اللہ ، ثم یقول؛ اللھم متعنی بالسمع والبصر بدع وضع ظفری ابابھامین لی العینین فانہ علیہ السلام یکون قائدًا لہ الی الجنۃ۔(ردالمختار، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان۔)
یعنی جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔
قھستانی ونحوہ فی الفتاوی الصوفیۃ وفی کتاب الفردوس (من قبل ظفری ابھامہ عند سماع اشھد ان محمدًا رسول اللہ فی الآذان انا فائدہ مدخلہ فی صفوف الجنۃ) وتمامہ فی حواشی البحر للرملی۔(حاشیہ رد المحتار ص ۳۹۸ ج ۱ دارالفکر بيروت)
ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاویٰ صوفیہ میں ہے اور کتاب الفردوس میں ہے کہ جو شخص اذان میں اشھدان محمدرسول اللہ سن کر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چومے (اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے) کہ میں اس کا قائد بنوں گا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کروں گا اور اس کی پوری بحث بحرالرقائق کے حواشی رملی میں ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
رئیس الفقہاء الحنفیہ علامہ طحطاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ شرح مراقی الفلاح میں یہی عبارت اور دیلمی کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں:وکذاروی عن الخضر علیہ السلام وبمثلہ یعمل فی الفضائل۔(حاشیہ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۲۰۶ کتاب الصلوٰۃ ، باب الاذان، دارالکتب العلمیہ بیروت)یعنی:۔ اور اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام سے بھی روایت کیا گیا ہے اور فضائلِ اعمال میں ان احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔
علامہ امام قہستانی شرح الکبیر میں کنزالعباد سے نقل کرکے فرماتے ہیں:ترجمہ؛۔ جان لوبلاشبہ اذان کی پہلی شہادت کے وقت سننے پر صلی اللہ تعالیٰ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے وقت قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے (اللھم متعنی بالسمع والبصر) تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے۔
علامہ الفاضل الکامل الشیخ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان جلد 4 ص 649 پر لکھتے ہیں:وقصص الانبیاء وغیرھا ان ادم علیہ السلام اشتاق الیٰ لقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ تعالیٰ الیہ ھو من صلبک ویظھر فی اٰخر الزمان فسال بقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ الیہ فجعل اللہ النور المحمدی فی اصبعہ المسبحۃ من یدہ الیمنی فسبح ذلک النور فلذالک سمیت تلک الاسبع مسبحۃ کما فی الروض الفائق او اظھر اللہ تعالی جمال حبیبہ فی صفاء ظفری ابھامیہ مثل المراۃ فقیل ادم ظفری ابھامیہ ومسح علیٰ عینیہ فصار اصلاً لذریتہ فلما اخبر جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھذہ القصۃ قال علیہ السلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا ۔
ترجمہ:قصص الانبیاء وغیرہ کتب میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا اشتیاق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ تمہارے صلب سے آخر زمانہ میں ظہور فرمائیں گے تو حضرت آدم نے آپ کی ملاقات کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے داہنے ہاتھے کے کلمے کی انگلی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم چمکایا تو اس نور نے اللہ کی تسبیح پڑھی اسی واسطے اس انگلی کا نام کلمے کی انگلی ہوا۔ جیسا کہ روض الفائق میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ کے ظاہر فرمایا تو حضرت آدم نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا۔ پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی پھر جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا، جو شخص آذان میں میرا نام سن کر اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے تو وہ کبھی اندھا نہ ہوگا۔
اسی تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ:در محیط آوردہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بمسجد درآمد ونزدیک ستون بنشت وصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ در برابر آنحضرت نشستہ بود بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ برخاست باذان اشتغال فرمود چوں گفت اشھد ان محمد رسول اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھردو ناخن ابھامین خود رابرھردوچشم خودنھا دہ گفت قرۃ عینی بک یارسول اللہ چوں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارغ شد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ کہ یا ابابکر ھر کہ بکند ایں چنیں کہ تو کردی خدائے بیامرزد گناھاں جدید اوراقدیم۔ اگر بعمد بودہ باشد اگر بخطا۔
ترجمہ:یعنی محیط میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ایک ستون کے قریب بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے برابر بیٹھے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر آذان دینا شروع کی جب انہوں نے اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو حضرت ابوبکر نے اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی دونوں آنکھوں پر رکھا اور کہا (قرۃ عینی بک یارسول اللہ)۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے چکے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر!جو شخص ایسا کرے جیسا کہ تم نے کیا ہے خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔
امام شمس الدین سخاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ، امام محمد بن الصالح مدنی کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے حضرت مجد مصری کو جو کاملین صالحین میں سے تھے فرماتے سنا کہ : من صلی علی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ازا سمع ذکرہ فی الاذان وجمع اصبعیہ المسبحۃ والابھام وقبلھا ومسح بھما عینیہ لم یرمد ابدا۔یعنی جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پاک اذان میں سن کر درود بھیجے اور کلمہ کی انگلیاں اور انگوٹھے ملا کر ان کو بوسہ دے اور آنکھوں پر پھیرے اس کی کبھی آںکھیں نہ دکھیں گی۔
یہی امام سخاوی ان ہی امام محمد بن صالح کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا عراق کے بہت سے مشائخ سے مروی ہوا ہے کہ جب انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرے تو یہ درود شریف پڑھے : صلی اللہ تعالیٰ علیک یاسیدی یارسول اللہ یا حیبیب قلبی ویا نوربصری ویاقرۃ عینی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یعنی کبھی آنکھیں نہ دکھیں گی اور یہ مجرب ہے۔ اس کے بعد امام مذکور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے یہ سنا ہے یہ مبارک عمل کرتا ہوں آج تک میری آنکھیں نہ دکھی ہیں اور نہ انشاء اللہ دکھیں گی۔ بحوالہ المقاصد الحسنہ۔
یہی امام سخاوی حضرت ابوالعباس احمد بن ابی بکر دادالیمانی کی کتاب (موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ) سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:من قال حین یسمع المؤذن یقول اشھد ان محمداً رسول اللہ : مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علی عینیہ لم یرمد ابداً۔ بحوالہ مقاصدالحسنہ ۔ یعنی جو شخص مؤذن سے اشھدان محمد رسول اللہ سن کر کہے مرحبا الخ پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ اسکی آنکھیں دکھیں گی۔
امام سخاوی ہی نے اسی مقاصد الحسنہ میں ایسی ہی حدیث فقیہ محمد بن سعید خولانی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کی ہے جو کہ سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
امام سخاوی ہی نے امام طاؤس سے بھی نقل فرمایا جو کہ انہوں نے شمس الدین محمد بن ابی نصر بخاری خواجہ حدیث سے یہ حدیث سنی جس مین تھوڑے سے الفاظ کے فرق کے ساتھ یہی انگوٹھے کے چومنے کا قصہ بیان کیا ہے۔ اور منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین میں شیخ المشائخ رئیس المحققین سید العلماء الحنفیہ بمکۃ المکرمہ مولانا جمال الدین عبداللہ بن عمر مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے فتاوے میں لکھتے ہیں:سئلت عن تقبیل الابھامین ووضعھما علی العینین عند ذکر اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاذان ھل ھو جائز ام لا اجیب بما نصہ نعم تقبیل الابھامین ووضعھا علی العینین عند ذکر اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاذان جائز بل ھو مستحب صرح لہ مشائخنا۔
یعنی مجھ سے سوال ہوا کہ اذان مین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے ذکر کے وقت انگوٹھے چومنا اور آنکھوں پر رکھنا جائز ہے یا نہیں؟۔ میں نے ان لفظوں میں جواب دیا کہ ہاں آذان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا جائز بلکہ مستحب ہے ۔ ہمارے مشائخ مذہب نے اس کے مستحب ہونےکی تصریح فرمائی ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔