فقہ حنفی کے حوالے سے دیابنہ اور وہابیہ کے علم غیب پر اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیابنہ اور وہابیہ کا اعتراض نمبر 1 : فتاوی قاضی خان میں ہے : رجل تزوج بغیر شھود فقال الرجل والمرءۃ خدا و رسول راہ گواہ کردیم قالو! یکون کفرا لانہ اعتقد ان رسول اللہ علیہ السلام یعلم الغیب وھو ماکان یعلم الغیب حین کان فی الحیوۃ فکیف بعد الموت
ترجمہ : کسی نے بغیر گواہوں کے نکاح کیا تو مرد اور عورت نے کہا کہ ہم نے خدا اور رسول کو گواہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ قول کفر ہے کیونکہ اس نے اعتقاد کیا کہ رسول اللہ علیہ السلام غیب جانتے ہیں حالانکہ آپ تو غیب زندگی میں نہ جانتے تھے چہ جائیکہ موت کے بعد ۔(حوالہ فتاوی قاضی خان جلد 4 ص 883 مطبوعہ نولکشور ہند)
دیابنہ اور وہابیہ کا اعتراض نمبر 2 : شرح فقہ اکبر میں امام ملا علی قاری الحنفی نے لکھا ہے : وذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر باعتقاد ان النبی علیہ السلام یعلم الغیب لمعاوضۃ قولہ تعالیٰ قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ ۔
ترجمہ : حنفیوں نے صراحتہً ذکر کیا ہے کہ یہ اعتقاد کہ نبی علیہ السلام غیب جانتے تھے کفر ہے کیونکہ یہ عقیدہ خدائے پاک کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ فرمادو آسمانوں اور زمین کا غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (بحوالہ شرح فقہ اکبر 185 مطبوعہ مصر)۔ان دونوں عبارتوں سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب ماننا کفر ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دیابنہ اور وہابیہ کے اس اعتراض کا مدلّل جواب : ان دونوں عبارتوں کا اجمالی اور الزامی جواب تو یہ ہے کہ مخالفین بھی حضور علیہ السلام کو بعض علم غیب مانتےہیں۔ لہٰذا وہ بھی کافر ہوئے کیونکہ ان عبارتوں میں کل یا بعض کا ذکر تو نہیں بلکہ یہ ہے کہ جو بھی حضور علیہ السلام کو علم غیب مانے وہ کافر ہے۔ خواہ ایک کا مانے یا زیادہ کا۔ تو وہ بھی خیر منائیں، مولوی اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان میں بچوں، پاگلوں، اور جانوروں کو بعض علم غیب مانا ہے۔ مولوی خلیل احمد نے براہین قاطعہ میں شیطان اور ملک الموت کو وسیع علم غیب مانا۔ مولوی قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس میں کمال ہی کردیا کہ ساری مخلوقات سے حضور علیہ السلام کا علم زیادہ مانا اب ان تینوں صاحبان پر کیا حکم لگے گا ؟
تفصیلی جواب یہ ہے کہ قاضی خان کی عبارت میں ہے (قالوا) لوگوں نے کہا۔ اور قاضی خان وغیرہ فقہاء کی عادت یہ ہے کہ وہ قالوا ۔ اس جگہ بولتے ہیں جہاں ان کو یہ قول پسند نہ ہو۔ شامی جلد پنجم صفہ 445 میں ہے : لفظۃ قالوا تذکر فیما فیہ خلاف۔ یعنی ۔ لفظ قالوا ۔ وہاں بولا جاتا ہے جہاں اختلاف ہو۔
غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی بحث قنوت میں ہے : کلام قاضی خان یبشر الی عدم اختیارہ لہ حیث قال قالوا لا یصلی علیہ فی القعدۃ الاخیرۃ ففی قولہ قالوا اشارۃ الی عدم استحسانہ لہ والی انہ غیر مروی عن الائمۃ کما قلناہ فان ذلک متعارف فی عباراتھم لمن اسقراھا۔
ترجمہ : قاضی خان کا کلام ان کی ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ انہوں نے کہا قالوا ۔۔الخ۔ ان کے قالوا کہنے میں اشارہ ادھر ہے کہ یہ قول پسندیدہ نہیں اور یہ اماموں سے مروی نہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کیونکہ یہ فقہاء کی عبارات میں شائع ہے اس کو معلوم ہے جو ان کی تلاش کرے۔(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی باب صلوٰۃ الوتر ذکر الجہر القنوت ص 363 مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
درمختار کتاب النکاح میں ہے : تزوج رجل بشھادۃ اللہ ورسولہ یجز بل قیل یکفر۔
ترجمہ : ایک شخص نے نکاح کیا ۔ اللہ اور رسول کی گواہی سے تو جائز نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا۔
اس عبارت کے ہی ماتحت شامی نے تاتارخانیہ سے نقل کیا ہے : وفی الحجۃ ذکر۔۔۔ الیٰ المغیبات۔۔۔
ترجمہ : عربی عبارت؛۔ ملتقط میں ہے کہ وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ تمام چیزیں حضور علیہ السلام کی روح پر پیش کی جاتی ہیں اور رسول بعض غیب جانتے ہیں رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب پر کسی کو سوائے پسندیدہ رسول کے میں کہتا ہوں کہ کتب عقائد میں ہے کہ اولیاء اللہ کی کرامات میں سے بعض غیبوں پر مطلع ہونا بھی ہے۔(ردالمختار،کتاب النکاح قبیل فصل فی المحرمات جلد 2 صفحہ 276 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
شامی باب المرتدین میں مسئلہ بزازیہ ذکر فرما کر فرمایا : حاصلہ ان دعوی الغیب معارضۃ لنص القرآن یکفر بھا الا ازا اسند ذلک صریحاً او دلالۃ الی سبب کوحی او الھام۔
ترجمہ : اسکا خلاصہ یہ ہے کہ دعویٰ علم غیب نص قرآنی کے خلاف ہے کہ اس سے کافر ہوگا مگر جبکہ اس کو صراحۃً یا دلالۃً کسی سبب کی طرف نسبت کردے جیسے کہ وحی یا الہام۔(رد المحتار کتاب الجہاد باب المرتد ج 3 ص 297 دارالاحیاء بیروت)
معدن الحقائق شرح کنز الدقائق اور خزانۃ الروایات میں ہے : وفی المضمرات والصحیح انہ لایکفر لان الانبیاء یعلمون الغیب ویعرض علیھم الاشیاء فلا یکون کفراً ۔
ترجمہ : مضمرات میں ہے صحیح ہے کہ وہ شخص کافر نہ ہوگا کیونکہ انبیائے کرام غیب جانتے ہیں اور ان پر چیزیں پیش کی جاتی ہیں پس یہ کفر نہ ہوگا۔
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ عقیدہ علم غیب پر فتوے کفر لگانا غلط ہے۔ بلکہ فقہاء کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب دیا گیا۔
اب آتے ہیں امام ملا علی قاری کے حوالے کی طرف کہ جن کی عبارت پوری نقل نہیں کی جاتی فرقہ منکرین علم ء غیب برائے رسول کے ہاتھوں۔ اصل عبارت یہ ہے جو مطلب واضح کرتی ہے : ثم اعلم ان الانبیآء لم یعلموا المغیبات من الاشیآءوالا ما اعلمھم اللہ وذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر۔ الخ۔
ترجمہ : پھر جانو کہ انبیائے کرام غیب کی چیزوں کو نہیں جانتے سوائے اس کے جو ان کو اللہ نے بتادیں اور حنفیوں نے کفر کی تصریح کی جو نبی علیہ السلام کو علم غیب جانے۔ الخ۔ (شرح فقہ اکبر ص 185 مطبوعہ مصر)
اب پورا مطلب معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام کو علم ء غیب ذاتی ماننے کو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کفر فرما رہے ہیں نہ کہ عطائی۔ کیونکہ عطائی کو تو مان رہے ہیں اور پھر ان کی عبارتیں ہم ثبوتِ علم غیب میں پیش کرچکے ہیں۔ کہ امام ملا علی قاری حضور علیہ السلام کو تمام ماکان و مایکون کا علم مانتے ہیں۔اسی طرح جتنے بھی دیگر اعتراضات ہوتے ہیں بحرالرقائق یا عالمگیری کے حوالوں سے وہ سب کے سب غلط ہیں کیونکہ وہ تمام عبارات علم الغیب ذاتی کی نفی میں آئی ہیں۔ اور ہم اہلسنت وجماعت اللہ کی عطا سے نبی علیہ السلام کے لیئے علم ء غیب مانتے ہیں جو کہ قرآن کی نص سے ثابت خود مخالفین کی کتابوں سے ہوچکا ہے ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔