دیوبندیوں کے مولوی علم غیب جانتے ہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نہیں جانتے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(1) ایک دیوبندی خان صاحب بیان کرتے ہیں : مولانا نانوتوی فرماتے تھے کہ شاہ عبد الرحیم صاحب ولایتی کے ایک مرید تھے جن کا نام عبداللہ خان تھا۔ اور قوم کے راجپوت تھے اور یہ حضرت کے خاص مریدوں میں سے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی کے گھر میں حمل ہوتا اور وہ تعویز لینے آتا تو آپ فرما دیا کرتے تھے کہ تیرے گھر میں لڑکا ہو گا یا لڑکی۔ اور جو آپ بتلا دیتے وہی ہوتا تھا ۔
(ارواحِ ثلاثہ: ص ۱۳۹)
لڑکا ہو گا کہ لڑکی جیسی باتیں بتانا تو بزرگانِ دیوبند کے مریدوں کے بھی بائیں ہاتھ کا کام ہے اورجب مرید اتنا کچھ جانتے ہیں تو پیر وں مرشدوں کا کیا مقام ہو گا ؟ یاد رہے دیوبندیوں کا عقیدہ ہے ماں کے پیٹ میں کیا ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر دیوبیدیوں کے مولوی جانتے ہیں کیا کہیں گے اسے ؟
(2) دیوبندیوں کے ایک او ر حضرت نے فرمایا : مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوری کا قلب بڑا نورانی تھا ۔ میں ان کے پاس بیٹھنے سے ڈرتا تھا کہیں میرے عیوب منکشف نہ ہو جائیں ۔ (ارواحِ ثلاثہ: ص ۳۱۹)
نبی کریم ﷺ دلوں کے حال نہیں جانتے مگر دیوبندی جانتے ہیں کیا کہیں گے اسے ؟
(3) اشرف علی تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں : حضرت مولانا(مظفر حسین صاحب )مرحوم مکہ میں بیمار ہوئے اور اور اشتیاق تھا کہ مدینہ منورہ میں وفات ہو ۔حضرت حاجی صاحب سے استفسار کیا کہ میری وفات مدینہ میں ہو گی یا نہیں ۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایاکہ مَیں کیا جانوں ؟ عرض کیا کہ حضرت یہ عذر تو رہنے دیجئے جواب مرحمت فرمائیے۔حضرت(حاجی صاحب)نے مراقب ہو کر فرمایاکہ آپ مدینہ میں وفات پائیں گے مجھ کو تو ایسا ہی علم ہوا ہے حق تعالیٰ کی طرف سے پس مولانا کو بڑا اعتماد ہو گیا حتیٰ کہ لوگوں سے کہنا بھی شروع کر دیا۔( قصص الاکابر: ص ۱۱۳)
اپنے بزرگوں سے متعلق دیوبندی حضرات کے عقیدہ و اعتقاد پر غور فرمائیے کہ پہلے تو سوال کیا جاتا ہے کہ حضرت مروں گا کہاں یہ بتائیے؟ جب حضرت کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ اس بارے میں مَیں کیا جانوں تو عرض کی جاتی ہے کہ یہ عذر اور بہانہ تو رہنے دیجئے کہ آپ جانتے نہیں، ضرور جانتے ہیں ضرور بتائیے۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔ پھران دیوبندی حضرت کی بھی کیا بات ہے کہ انہوں نے بھی مرید کو مایوس نہیں کیا اور بتا دیا کہ وفات کہاں ہو گی ۔؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے متعلق عقیدہ ہے کہ نہیں جانتے ؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(4) دیوبندی تبلیغی شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی لکھتے ہیں : خواجہ ابو محمد کی ہمشیرہ بھی نہایت بزرگ متقیہ تھیں ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے نکاح کی رغبت بھی نہیں ہوتی تھی۔ایک مرتبہ خواجہ ابو محمد ان کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہمشیرہ تمھارے پیٹ سے ایک لڑکے کا وجود جو ایک وقت میں قطب الاقطاب ہونے والا ہے مقدر ہو چکا ہے اور وہ بلا نکاح ممکن نہیں اس لیئے تم نکاح کر لو ۔تاریخ مشائخ چشت:ص ۱۵۶)
ماں کے پیٹ میں کیا ہے نبی کریم ﷺ نہیں جانتے مگر دیوبندی مولوی جانتے ہیں ؟
(5) اشرف علی تھانوی صاحب کی ولادت کا قصہ : حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی صاحب کے پیدا ہونے سے پہلے ان کی نانی صاحبہ نے تھانوی صاحب کی والدہ کے متعلق اپنے ایک بزرگ حافظ غلام مرتضیٰ مجذوب پانی پتی سے عرض کیا:
’’حضرت میری اس لڑکی کے لڑکے زندہ نہیں رہتے۔حافظ صاحب نے بطریق معما فرمایا کہ عمر و علی کی کشاکشی میں مر جاتے ہیں۔ اب کی بار علی کے سپرد کر دینا زندہ رہے گا۔ اس مجذوبانہ معما کو کوئی نہ سمجھا لیکن والدہ صاحبہ نے اپنی خداداد اور نور فراست سے اس کو حل کیا اور فرمایا کہ حافظ صاحب کا یہ مطلب ہے کہ لڑکوں کے باپ فاروقی ہیں اور ماں علوی اور اب تک جو نام رکھے گئے وہ باپ کے نام پر رکھے گئے یعنی فضل حق وغیرہ اب کی بار جو لڑکا ہو اس کا نام نا نہال کے ناموں کے مطابق رکھا جائے۔ جس کے آخر میں علی ہو۔ پھر فرمایاکہ انشاء اللہ اس کے دو لڑکے ہوں گے اور زندہ رہیں گے ایک کا نام اشرف علی خان رکھنا دوسرے کا اکبر علی خان۔ نام لیتے وقت خان اپنی طرف سے جوش میں آ کر بڑھا دیا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت کیا وہ پٹھان ہوں گے؟ فرمایا نہیں اشرف علی اور اکبر علی نام رکھنا۔ یہ بھی فرمایاکہ ایک میرا ہو گا وہ مولوی ہو گا اور حافظ ہو گااور دوسرا دنیا دار ہو گا ۔ (اشرف السوانح:ج۱ ص ۴۶)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اشرف علی تھانوی صاحب اس سارے قصے کے بارے میں فرمایا کرتے: یہ جو مَیں کبھی اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے لگتا ہوں ان ہی مجذوب صاحب کی روحانی توجہ کا اثر ہے جن کی دعا سے مَیں پیدا ہوا ہوں کیونکہ طبیعت مجذوبوں کی آزاد ہے الجھی ہوئی باتوں کی متحمل نہیں ۔ (اشرف السوانح:ج۱ ص ۴۶)
اس قصے سے جہاں اور بہت سے دیوبندی عقائد پر روشنی پڑتی ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اشرف علی تھانوی صاحب کے یہ پانی پتی بزرگ غیب کے معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔اور دیوبندی عقیدہ نبی کریم ﷺ کی دعا سے کچھ نہیں ھوتا اور آپ ﷺ غیب نہیں جانتے مگر دیوبندی یہ سب کرتے اور جانتے ہیں ؟
(6) دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے فرمایا : مجاذیب یہاں بیٹھتے ہیں اور کلکتہ کی ان کو خبر ہے ۔ (تقریر ترمذی:ص۴۸۸)
معلوم ہوا کہ ان کے ہاں صرف پانی پتی مجذوب ہی نہیں بلکہ دوسرے مجاذیب بھی غیب کی خبریں جانتے ہیں کہ اگر کہیںایک جگہ بیٹھے ہوں تو دور کلکتہ کی خبر بھی ان کو ہوتی ہے۔مگر نبی کریم ﷺ غیب نہیں جانتے اس پر شرک کے فتوے ہیں دیوبندیوں کے کیا کہیں گے آپ ؟
(7) اکا برین دیوبند کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب نے فرمایا : لوگ کہتے ہیں کہ علم غیب انبیاء و اولیاء کو نہیں ہوتا مَیں کہتا ہوں کہ اہل حق جس طرف نظر کرتے ہیں دریافت و ادراک غیبات کو انکو ہوتا ہے اصل میں یہ علم حق ہے۔ آں حضرت ﷺ کو حدیبیہ و حضرت عائشہ( کے معاملات) سے خبر نہ تھی اس کو دلیل اپنے دعویٰ کی سمجھتے ہیں یہ غلط ہے کیونکہ علم کے واسطے توجہ ضروری ہے ۔ (شمائم امدادیہ:ص۶۱،امداد المشتاق: ص ۷۹۔۸۰)
اس سے معلوم ہوا کہ ان بزرگان ِدیوبند کے نزدیک جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء علیہم الرّحمہ کو علم غیب نہیں ہوتا تو یہ بات صحیح نہیں بلکہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء علیہم الرّحمہ جس طرف بھی نظر اور توجہ کرتے ہیں غیب کی چھپی باتیں ان کو دریافت اور معلوم ہو جاتی ہیں۔(دیوبندی اکابرین کے عقیدے کو سمجھنے کے لیئے یہ بات بڑی توجہ طلب ہے ۔ جو لوگ سیدہ عائشہؓ اور حدیبیہ کے واقعات سے انبیاء و اولیاء کو علم غیب نہ ہونے پر دلیل لیتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے ۔
محترم قارئین : یہ چند حوالے ہم نے دیوبندی مکتبہ فکر کے گھر سے پیش کیئے ہیں جو آئے دن فتوے بازی کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو علم غیب حاصل نہیں ہے ہے جو یہ عقیدہ رکھے وہ مشرک و کافر ہے مگر اپنے مولویوں کےلیئے یہ سب جائز ہے اور عین توحید و ایمان ہے فیصلہ آپ خود کیجیئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں منافقت سے بچائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔