Pages

Tuesday, 11 July 2017

علم غیب نبی صل اللہ علیہ وسلّم (حصّہ دوم)

علم غیب نبی صل اللہ علیہ وسلّم (حصّہ دوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علم : علم کہ معنٰی ہیں جاننا ۔

غیب : کہ معنٰی ہے ہر وہ شئے جو عقول و حواس سے پوشیدہ ہو ۔

اور نبی : نبی کہتے ہی اس مبارک ہستی کو ہیں جو غیب کی خبروں کو اللہ پاک کی ذات سے بطور علم کہ اخذ کرکے آگے امت تک منتقل کرے ۔

جیسا کہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ : الغيب كل ما أخبر به الرسول عليه السلام مما لا تهتدي إليه العقول ۔
ترجمہ : ہر وہ چیز جسی کی خبر یا ہر وہ مخفی حقیقت کہ جسکی خبر نبی دے اور انسانی عقول اس سے عاجز ہوں وہ غیب ہے ۔
محترم قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ غیب کی تعریف ہی یہ ہے یعنی غیب کہتے ہی اسے ہیں کہ جسکی خبر انسانوں کو نبی کے زریعہ سے معلوم پڑے اب اس پر کوئی یہ کہہ دے کہ نبی کو غیب کا علم نہیں یا خبر نہیں یا غیب پر اطلاع نہیں کتنی عجیب اور مضحکہ خیز بات ہوگئی کہ جس کا عقل و فہم شعور و ہدایت کہ ساتھ کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہوگا کہ نبی تو نام ہی اس ہستی کا ہے جو اللہ کی طرف سے غیب پر مطلع ہوکر پھر انسانوں کو اس سے خبردار کرتا ہے تو معلوم ہوا کہ غیب اور نبی تو آپس میں اس طرح سے لازم و ملزوم ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کہ عین یک دگر ہیں کہ ان دونوں کو ہرگز ایک دوسرے سے جدا ہی نہیں کیا جاسکتا کہ نبی کہتے ہی اسے ہیں کہ جو اللہ کی طرف سے مامور ہوکر اخذ فیض علم کرکے بطور غیب کی اخبار لوگوں تک پہنچائے تو پھر دونوں یعنی نبی اور غیب کو آپس میں کس طرح سے جدا کیا جاسکتا ہے کیا کبھی کسی نے یہ کہا کہ یہ پانی ہے مگر گیلا نہیں یہ آگ ہے مگر جلاتی نہیں ؟؟؟ یعنی نبی ایک ایسا عہدہ ہے کہ جس کے لیے (اللہ کی طرف سے غیب پر مطلع ہونا) اسکی لازمی صفت قرار پاتی ہے یعنی نبی ذات ہے اور غیب اسکی صفت اور صفت بھی ایسی کہ جسے اسکے موصوف سے ہرگز جدا نہ کیا جاسکے ۔

علم غیب کے متعلق عقیدہ اہل سنّت و جماعت

استاذی المکرّم حضرت غزالئ زماں علامہ احمد سعید شاہ صاحب کاظمی علیہ رحمہ اپنا مقالہ علم غیب النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں عقیدہ اہل سنت کی وضاحت میں رقم طراز ہیں کہ : حضورسید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علوم غیبیہ جزئیہ (بعض علوم غیب) ثابت ہونے میں آج تک کسی مسلمان نے اختلاف نہیں کیا حتٰی کہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب بھی تغییر العنوان میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ : یہاں اس میں کلام ہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالات نبوت میں داخل ہیں اسکا کون انکار کرسکتا ہے ۔

معلوم ہوا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بعض علوم غیبیہ ماننا متفق علیہ مسئلہ ہے ۔البتہ اہل سنت اور معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء علیھم الصلوٰۃ والتسلیم کے واسطہ سے اولیاء اللہ کو بھی علوم غیب سے کچھ حصہ ملتا ہے یا نہیں ؟معتزلہ اس کے منکر ہیں جبکہ اہل سنت اس کے قائل ہیں۔
اہل سنت اس امر پر بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوبوں خصوصا سید المحبوبین آقا نامدارحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غیوب خمسہ میں سے بہت سے جزئیات کا علم (بھی) عطا فرمایاجو شخص یہ کہے کہ کسی فرد کا علم کسی کو نہ دیا گیا وہ ہمارے نزدیک بد مذہب خائب و خاسر ہے ۔

نیز عقیدہ اہل سنت کی وضاحت میں مزید لکھتے ہیں کہ : اب اس مسلک کو لیجیئے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا استثناء جمیع جزئیات خمسہ کا علم (جس میں تعیین وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے) اور روز اول سے آخر تک ما کان ومایکون (یعنی جوکچھ ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا تھا کا علم بھی اور ) مندرجہ لوح محفوظ اور اس سے بہت زائد کا علم اللہ پاک نے عطا فرمایا ۔اہل سنت کہ درمیان مختلف فیہ ہے

حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کہ علم اقدس کے بارہ میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ اللہ پاک جل مجدہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو روز اول سے روز آخر تک کا علم دیا اور تمام علوم مندرجہ لوح محفوظ نیز اپنی ذات وصفات کی معرفت سے متعلق بہت سے بے شمار علوم عطا فرمائے ۔جمیع جزئیات خمسہ کا علم دیا جس میں خاص وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے ۔احوال جمیع مخلوقات تمام ما کان وما یکون کا علم (بتدریجا) عطا فرمایا لیکن بایں ہمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم عطائی ہونے کی وجہ سے حادث ہے اور اللہ پاک علم ذاتی و قدیم ہے۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہرگز اللہ پاک کے علم کے مساوی نہیں ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مشھور دیوبندی عالم شیخ سلیم اللہ خان فاضل بریلوی علیہ رحمہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم مبارکہ کو علم تفصیلی محیط اور عالم الغیب ماننے کا الزام لگاتے ہوئے اپنی کتاب کشف الباری میں رقمطراز ہیں کہ : مولوی احمد رضا خان بریلوی نے مختلف کتابوں میں جو کچھ تحریر کیا ہے، اسکی رو سے انکا مسلک یہ ہے کہ ابتداء آفرینش عالم سے لیکر ہنگامہ محشر (حساب و کتاب وغیرہ) کے اختتام یا بالفاظ دیگر جنت و نار تک کہ تمام واقعات جزئیہ کلیہ دینیہ و دنیویہ کا علم تفصیلی محیط حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا ۔
نیز لکھتے ہیں کہ ۔ اگر اللہ تعالٰی کے تمام غیوب و جزئیات غیب پر مطلع کردینے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہہ سکتے ہیں تو پھر آپکے حضرات صحابہ کرام کے سامنے ان تمام امور کو بیان کردینے سے ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عالم الغیب ہونا بھی تو لازم آئے گا،پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تخصیص کیوں ۔۔ (کشف الباری )( بحوالہ تفھیم البخاری جلد اول ص 276 از علامہ غلام رسول سعیدی)

توجہ طلب نکتہ : یہی عقلی دلیل بطور اعتراض ہمارے جواب میں جناب محترم ناصر نعمان صاحب نے بھی اپنے مقالہ میں دی تھی کہ جس کا رد ہم نے اول قرآن پھر دوم عقل سلیم سے کردیا تھا پھر دہرائے دیتے ہیں کہ یہ اعتراض چند وجوہ سے باطل ہے اول قرآن پاک میں علم غیب عطا کردینے کہ بعد بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ حق میں اس کو علم غیب کے جاننے سے ہی تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ پاک فرمان پاک میں فرماتا ہے : ذٰلک من انباء الغیب نُوحیہ الیک ۔
ترجمہ : یہ غیب کی (ہی تو) خبریں ہیں جو ہم آپکی طرف وحی فرماتے ہیں ۔

معلوم ہوا اللہ پاک بذریعہ وحی علم غیب نبی کو بتلا دینے کہ باوجود اس پر غیب ہی کا اطلاق فرماتا ہے ۔

ریا یہ سوال کہ جن جن غیبی امور کی خبریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بتلائیں تو پھر چاہیے کہ صحابہ کرام پر بھی ان پر مطلع ہونے کہ بعد علم غیب کے جاننے والے کا اطلاق کیا جائے؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ نہیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہ خبریں زبان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے معلوم پڑیں اور زبان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک خارجی ذریعہ ہے علم کے حصول کا سو اس ذریعہ سے حاصل کیا گیا علم ،علم تو کہلائے گا اور اس پر غیب کی خبر کا اطلاق بھی ہوگا مگر چونکہ حاصل کرنے والے نے اس علم غیب کو براہ راست اللہ تعاٰلی سے بذریعہ وحی کے حاصل نہیں کیا بلکہ وحی والی زبان یعنی زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا جو کہ علم قطعی کا ایک ظاہری واسطہ اور وسیلہ و سورس ہے ۔ لہذا اس زریعہ کہ واسطہ و توسط سے حاصل کیے گئے علوم پر اس شخص کہ حق میں علم غیب کے جاننے والے کا اطلاق نہیں ہوگا ، وجہ اسکی بہت واضح ہے کہ اس شخص نے وہ علم ایک ظاہری واسطہ یعنی زبان نبوت و رسالت سے حاصل کیا جبکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ علم براہ راست اللہ پاک سے بذریعہ وحی (جو کہ ایک الہامی سورس ہے) کہ حاصل کیا نیز اللہ پاک نے وحی کردینے کہ بعد بھی ان خبروں پر نبی کے حق میں غیب ہی کا اطلاق فرمایا ہے سو اس نبی کہ حق میں اسے علم غیب سے ہی تعبیر کیا جائے گا  ۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ وحی کتنا علم لیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانے اور دینے ولا خدا جانے یہ معاملہ مجہول ہے امت فقط اتنا ہی جانتی ہے کہ جتنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو خبر دی لہذا محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ خبر دینے کو ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کل علم سمجھنا جہالت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جتنا بھی علم دیا گیا ہو اس سارے کہ سارے علم کا بتلا دینا نبی پر فرض نہیں ۔
حصّہ سوم میں ہم فاضل بریلوی علیہ رحمہ پر لگائے جانے والے شیخ سلیم اللہ خان دیوبندی کے اعتراض کا جواب خود فاضل بریلوی کے فتاوٰی سے دیتے ہوئے ان پر لگائے جانے والے چند مزید اعتراضات اور انکا جواب خود انکی زبانی انکے عقیدہ کی وضاحت کے بطور نقل کریں گے ۔ ( جاری ھے )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔