تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ (حصّہ اوّل )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تراجم قرآن اور اعلٰی حضرت مولا نا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن کنز الایمان کی چند آیات کے ترجمہ کا مختصر تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے محترم قارئین مطالعہ فرما کر فیصلہ کریں کہ کس کا ترجمہ ناقص اور کس کا درست ہے ۔
(1) ولما یعلم اللہ الذین جاھدوامنکم ۔ (پارہ 4 سورۃ آل عمران آیت 142 )
ترجمہ : اور ابھی معلوم نہیں کئے اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں (شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو تو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ ( فتح محمد جالندھری دیوبندی )
ترجمہ : وہ ہنوز تمیز نساختہ است خُدا آں را کہ جہاد کردہ انداز شما ۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو تم میں سے جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا۔(عبدالماجد دریابادی دیوبندی )
ترجمہ : اور ابھی تک اللہ نے نہ تو اُن لوگوں کو جانچا جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں ۔ (ڈپٹی نذیر احمد دیوبندی )
ترجمہ : حالانکہ ہنوزاللہ تعالٰی نے اُن لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہو ۔ ( تھانوی دیوبندی )
ترجمہ : اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں ۔ ( دیوبندی محمود الحسن )
اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا ۔ ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
کیا اللہ تعالٰی علیم و خبیر نہیں ؟ اللہ تعالٰی جو علیم و خبیر ہے، عالم الغیب و الشہادۃ ہے، علیم بزات الصدور ہے۔ ان مترجمین کے نزدیک اردو میں بے علم و بے خبر ہے آپ خود فصلہ کریں ترجمہ پڑھنے کے بعد علم الٰہی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ایک طرف تو اللہ تعالٰی کی صفات کمالیہ ، دوسری طرف اس قدر بے خبری کہ مومنین میں سے کون لوگ جذبہ جہاد سے سرشار ہیں؟ اللہ کو اس کا علم نہیں۔ ابھی اس نے جانا ہی نہیں۔ گویا شان رسول کی تنقیص سے فارغ ہوئے تو شان الو ہیّت پر حرف گیری شروع کر دی۔ ‘ اللہ نے نہیں جانا، شاہ رفیع الدّ ین صاحب کا خیال ہے۔ ‘ابھی معلوم نہیں کیا اللہ نے‘ شاہ عبدالقادر صاحب کی ایجاد ہے، ‘ ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے‘ محود الحسن صاحب فرماتے ہیں۔ بروز حشر خدا و رسول کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے ۔ ترجمہ لکھتے وقت کس قدر غیر حاضر تھے یہ مترجمین، کہ تفسیر کے مطالعہ کی زحمت ہی نہیں کی اور کس سادگی سے قلم چلا دیا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(2) ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین۔ (پارہ 9 سورۃ الانفال آیت 30)
ترجمہ ::اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی)
ترجمہ : اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفتہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ۔ ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
اردو ترجمہ میں جو الفاظ استعمال ہوئے وہ الُو ہیّت کے کسی طرح لائق نہیں ۔ اللہ تعالٰی کی طرف مکر ، فریب ، بدسگالی کی نسبت اس کی شان میں حرف گیری کے مترادف ہے ، یہ بنیادی غلطی صرف اس وجہ سے ہے کہ اللہ اور رسول کے افعال مقدسہ کو اپنے افعال پر قیاس کیا ، اسی وجہ سے مترجمین نے ہنسی ، مزاق ٹھٹھا ،مکر،فریب ، علم سے بےخبر ، بدسگالی کو اس کی صفت ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالٰی ‘ میاں ‘ کی صفت سے پاک ، اللہ پاک کی عزت افزائی کے لئے تھانوی صاحب نے میاں استعمال کیا ہے۔ ان تمام الفاظ کو سامنے رکھ کر الوہیت کا آپ تصور کریں تو رب تبارک و تعالٰی انسانوں سے عظیم تر انسان ابھر کر آپ کے سامنے ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی رسول کریم کی شان کے لائق کوئی تعریف کی جاتی ہے تو یہ چیخ اٹھتے ہیں کہ تم نے رسول کو اللہ سے ملا دیا اور خود موحّدوں کے امام نے میاں اللہ تعالٰی کو کہہ کر عام انسان کے برابر لا کھڑا کیا تو پھر بھی وہابی دیوبندی توحید میں بال برابر فرق نہیں آیا۔ مزکورہ آیت میں مکر کا ترجمہ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے تفاسیر کی روشنی میں کیا ہے ‘‘خفیہ تدبیر‘‘ اور لفظ مکر کو پہلے مقام پر ترجمہ میں کافروں کی طرف منسوب کر دیا۔ فافھم۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(3) ووجدک ضالا فھدیٰ ( پ 30، سورۃ والضحٰی، آیت7)
ترجمہ: اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ دی۔ (شاہ عبدالقادر)
۔۔۔۔۔: اور پایا تجھ کو راہ بھولا ہوا پس راہ دکھائی۔ (شاہ رفیع الدین)
۔۔۔۔:دیافت تراراہ گم کردہ یعنی شریعت نمی دانستی پس راہ نمود۔( شاہ ولی اللہ)
۔۔۔۔: اور آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا۔ ( عبدالماجد دریا بادی دیوبندی)
۔۔۔: اور تم کو دیکھا کہ راہ حق کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھر رہے ہو تو تم کو دین اسلام کا سیدھا راستہ دکھا دیا۔ ( دیوبندی ڈپٹی نزیر احمد)
۔۔۔۔: اور اللہ تعالٰی نے آپ کو ( شریعت سے) بے خبر پایا سو آپ کو شریعت کا راستہ بتلا دیا۔ ( اشرف علی دیوبندی تھانوی )
۔۔۔۔: اور تم کو بھٹکا ہوا پایا اور منزل مقصود تک پہنچایا۔ ( مقبول شیعہ )
۔۔۔۔: اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔ ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
آیت مزکورہ مٰن لفط ضا لاً استعمال ہوا ہے۔ اس کے مشہور معنی گمراہی اور بھٹکنا ہیں۔ چنانچہ بعض اہل قلم نے مخاطب پر نوک قلم کے بجائے خنجر پیوست کر دیا۔ یہ نہ دیکھا کہ ترجمہ میں کس کو راہ گرم کردہ، بھٹکتا، بےخبر، راہ بھولا کہا جا رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عصمت باقی رہتی ہے یا نہیں، اس کی کوئی پرواہ نہیں- کاش یہ مفسرین تفا سیر کا مطالعہ کرنے کے بعد ترجمہ کرتے یا کم از کم اس آیت کا سیاق و سباق ( اوّل و آخر) بغور دیکھ لیتے۔ انداز خطاب باری تعالٰی پر نظر ڈال لیتے۔ ایک طرف ما ودعک ربک وما قلٰی وللاٰ خرۃ خیر لک من الا ولٰی تمہیں تمہارے ربّ نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا اور بے شک پچھلی تمہارے لئے پہلی سے بہتر ہے۔ الخ اس کے بعد ہی رسول ذیشان کی گمراہی کا ذکر کیسے آگیا۔ آپ خود غور کریں حضور علیہ الصلٰو ۃ والسلام اگر کسی لحظہ گمراہ ہوتے تو راہ پر کون ہوتا یا یوں کہئے کہ جو خود گمراہ ہو، بھٹکتا پھرا پو، راہ بھولا ہو، وہ ہادی کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور خود قرآن مجید میں نفی ضلالت کی صراحت موجود ہے۔ ماضل صاحبکم وما غوٰی ( پ28، سورۃ نجم ، آیت2) آپ کے صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ گمراہ ہوئے اور نہ بے راہ چلے۔ جب ایک مقام پر ربّ کریم گمراہ اور بے رہی کی نفی فرما رہا ہے تو دوسرے مقام پر خود ہی کیسے گمراہ ارشاد فرمائے گا ؟
(4) انا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ( پ 26، سورہ فتح، آیت 1)
ترجمہ :::: ہم نے فیصلہ کر دیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوئے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے۔ (شاہ عبد القادر)
----: تحقیق فتح دی ہم نے تجھ کو فتح ظاہر تو کہ بخشے واسطے تیرے خدا جو کچھ ہوا تھا پہلے گناہوں سے تیرے اور جو کچھ پیچھے ہوا- ( شاہ رفیع الدین)
----: ہر آئینہ ما حکم کر دیم برائے توبفتح ظاہر عاقبت فتح آنست کہ بیا مرز ترا خدا آنچہ کہ سابق گزشت از گناہ تو و آنچہ پس ماند -( شاہ ولی اللہ )
----:بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلا فتح دی تاکہ اللہ آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے- ( عبد الماجد دریا بادی دیوبندی)
----: اے پیغمبر یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی در حقیقت ہم نے تمہاری کھلم کھلا فتح کرا دی تا کہ تم اس فتح کے شکریہ میں دین حق کی ترقی کےلئے اور زیادہ کوشش کرو اور خدا اس کے صلے میں تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے- ( ڈپٹی نزیر احمد دیوبندی)
----: بے شک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی تا کہ اللہ تعالٰی آپ کی سب اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے- ( تھانوی دیوبندی )
----:اے محمد ہم نے تم کو فتح دی- فتح بھی صریح و صاف تا کہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے- ( فتح محمد جالندھری یہی ترجمہ محمود الحسن کا ہے)
----: بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح دی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلے کے اور تمہارے پچھلوں کے- ( کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا)
حضور ﷺ معصوموں کے سردار ؟ یا گنہگار؟ عام تراجم سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی معصوم ماضی میں بھی گنہگار تھا- مستقبل میں بھی گناہ کرے گا- مگر فتح مبین کے صدقے میں اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے اور آئندہ گناہ رسول معاف ہوتے رہیں گے- کاش یہ فتح مبین آپ کو نہ دی گئی ہوتی تا کہ آپ کے گناہوں پرسّتاری کا پردہ پڑا رہتا- اس معصوم رسول کے گنہگار ہونے کا صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا- کھلم کھلا فتح کیا ملی کہ رسول معصوم کے تمام مخفی گناہ ترجمہ پڑھنے والوں کے سامنے آشکار ہو گئے اور معلوم ہوا کہ آئندہ بھی گناہ سرزد ہوتے رہیں گے- یہ دوسری بات ہے کہ ان گناہوں کی معافی کی پیشگی ضمانت ہو گئی ہے- ان مترجمین سے آپ دریافت کیجئے کہ اس آیت کی تفسیر میں جو تاویلات کی گئی ہے مفسرین نے جو معنی بیان کئے ہیں اس کے مطابق انہوں نے ترجمہ کیوں نہیں کیا- ترجمہ پڑھنے والوں کی گمراہی کا کون ذمہ دار ہے ؟ جب نبی معصوم گنہگار ہو تو لفظ عصمت کا اطلاق کس پر ہو گا ؟ عصمت انبیا ء کا تصّور اگر جزو ایمان ہے تو کیا گنہگار خطاکار نبی ہو سکتا ہے ؟ اقوال صحابہ مفسرین کی توجیہات سے ہٹ کر ترجمہ کرنے پر کس نے آپ کو مجبور کیا- ایک عربی یہودی یا نصرانی یا ہمارے یہاں جنہوں نے عربی زبان پڑھی ہے وہ بھی اس قسم کا ترجمہ کر سکتے ہیں تو آپ جو کہ عالم دین کہلاتے ہیں تفاسیر اور حدیث وفقہ کی تعلیم سے آراستہ ہیں- بغیر سوچے سمجھے لفظ بلفظ ترجمہ کردیں تو آپ میں اور ان میں کیا فرق ہو گا؟ افسوس کہ لفظ ذنب کی تفسیر میں امام ابوالّیث یا سلمٰی کی توجیہہ پڑھ لیتے تو اتنی فاش غلطی مترجمین سے نہ ہوتی- مگر یہ صاحبان جب تک رسول اللہ کی نقص جوئی نہ کر لیں ان کو اپنے علم پر اعتماد نہیں ہوتا- ڈپٹی نزیر احمد کا ترجمہ مطبوعہ تاج کمپنی نمبر پی 141 کے آخر میں مضامین قرآن مجید کی مکمل فہرست دی گئی ہے- اس فہرست کے حصہ دوم باب5 کا عنوان (سرخی) یہ ہے ،‘حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جو خدا کی طرف سے عتاب ہوا یا آپ کی کسی بات پر گرفت ہوئی-‘ حوالے کے طور پر 9 آیات پیش کی گئی ہیں- اس سے آپ ان کی اللہ کے محبوب صلی اللہ ولیہ وسلم کی طرف سے دلی عداوت و بغض کا اندازہ کر سکتے ہیں- لک میں ل سبب کے معنی ہیں ، ظاہر ہے کہ اعلٰی حضرت کا جوش عقیدت جناب ختمی مرتبت کے لئے اپنے کمال پر ہے ، اُن کو بھی ترجمہ کے وقت یہ تشویش ہوئی ہوگی ، کہ عصمت رسول پر حرف نہ آئے ، اور قرآن کا ترجمہ بھی صحیح ہوجائے ، وہ عقیدت بھری نگاہ جو آستانہء رسول پر ہمہ وقت بچھی ہوئی ہے اس نے دیکھا کہ لک میں ل سبب کے معنٰی میں مستعمل ہوا ہے لہٰذا جب حضور کے سبب سے گناہ بخشے گئے تو وہ شخصیتیں اورہوئیں جن کے گناہ بخشے گئے ، اہل بصیرت کے لیے اشارہ کافی ہے معنویت سے بھرپور روشن فتح کے مطابق ترجمہ فرمادیا ۔(بقیہ حصّہ دوم میں پڑھیں)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔