Pages

Tuesday, 11 July 2017

حضور نبی کریم ﷺ بحیثیت جج

حضور نبی کریم ﷺ بحیثیت جج
_____________________
ایک جج کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ جادئہ حق سے ہٹانے والے تمام تر بندشوں کو توڑ کر اور ہر طرح کی لعنت و ملامت سے بے نیاز ہوکر پوری ہمت اور حوصلہ کے ساتھ بغیر کسی جانبداری کے صرف حق فیصلہ سنائے ۔یہ ایک نہایت ہی مشکل امر ہے۔مگر حضور نبی کریم ﷺ نے زندگی کے اس شعبہ میں بھی بنی نوع انسانی کے لئے اپنا بے مثال نمونہ چھوڑا ،جو قیامت تک کے تمام ججوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔
آپ ﷺ جب بھی کو ئی فیصلہ فر ماتے تو حق فیصلہ کرنے سے روکنے والے تمام تر اسباب کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر اور تمام تر لعنت و ملامت اور خطرات سے بے نیاز ہو کر بغیر کسی جانبداری کے صرف حق فیصلہ فر ماتے تھے۔
چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:قبیلہ قریش کے خاندان بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی ، اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کا ٹنا ہے ۔قبیلئہ قریش کو اس واقعہ سے بڑی فکر دامن گیر ہوئی کہ اگر ہمارے قبیلے کی اس عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا تو یہ ہماری خاندانی شرافت پر ایسا بدنما داغ ہوگا جو کبھی مٹ نہ سکے گا ۔اور ہم لوگ تمام عرب کی نگاہ میں ذلیل و خوار اور رسوا ہو جائیں گے اس لئے ان لوگوں نے طے کیا کہ بارگاہ رسالت میں کوئی زبر دست سفارش پیش کر دی جائے تا کہ کسی طرح آپ ﷺ یہ سزا نہ سنائیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت اُسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ جن سے حضور اکرم ﷺ بے حد محبت فر ماتے تھے پر دبائو ڈال کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضور ﷺ سے سفارش کریں ،چنانچہ حضرت اسا مہ بن زید نے اشراف قریش کے اصرار سے متا ثر ہو کر بارگا ہ رسالت میں سفارش عرض کردی۔
سفارش سن کر پیشانی نبوت پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے ۔اور آپ ﷺ نے نہایت غضب ناک لہجے میں فر مایا کہ:اے اسامہ! تو اللہ کے مقرر کئے ہوئے سزائوں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتا ہے ۔پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے لوگو ں کے درمیان کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا اور اس خطبے میں ارشاد فر مایا:اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوگئے کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے ۔سنو! خدا کی قسم اگر محمد(ﷺ)کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔
(بخاری کتاب الحدود،حدیث:۶۷۸۸)
آپ ﷺکی اسی حق گوئی اور غیر جانبدارانہ فیصلے کی وجہ سے اپنے اور بیگانے سب آپ ﷺ کی ذات اقدس پر اٹوٹ بھروسہ کرتے تھے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے آپ ﷺکو اپنا جج بنا نے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
چنانچہ جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہونے لگی اور دیوار اس بلندی پر پہنچی جہاں پر حجر اسود رکھنا تھا تو عرب کے قبیلوں میں سخت اختلاف ہو گیا،ہر قبیلے کے لوگ یہ شرف خود حاصل کرنا چاہتے تھے بات اتنی آگے بڑھی کہ لوگ لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے چنانچہ ایک قبیلے کے لوگوںنے اپنا خون ایک پیالے میں نکالا پھر اس میں انگلیاں ڈوبا کر چاٹ لی اور قسم کھائی کہ اس شرف کو وہ خود حاصل کریں گے یا اپنی جان دے دیں گے۔جب معاملہ انتہائی نازک ہو گیا اور قریب تھا کہ جنگ کا شعلہ بھڑک کر ہزاروں نوجوان کوخاک و خون میں تڑپا دیتا اور انہیں اپنی گلشن حیات کو الوداع کہنے پر مجبور کر دیتا۔تو ایک بزرگ نے مشورہ دیا کہ لڑائی جھگڑے کے بجائے کسی کو اپنا جج بنالو اور وہ جو فیصلہ کردے سب لوگ مان لو۔جب ان سے پوچھا گیا کہ ہم اپنے معاملے کا جج کس کو بنائیں۔تو اس نے کہا کہ:کل صبح باب بنی شیبہ سے مسجد حرام میں جو سب سے پہلے داخل ہو،وہی ہمارا جج ہوگا۔رات بے چینی میں گزر کر جب صبح طلوع ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ اس دروازے سے سب سے پہلے جناب محمد رسول اللہ ﷺداخل ہورہے ہیں۔آپ ﷺکو دیکھ کر سارے لوگ خوشی میں جھوم اٹھے اور بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ سچے ہیں ۔یہ امانت دار ہیں۔ ہم سب ان کو اپنا جج بخوشی ماننے کے لئے تیار ہیں۔
آپ ﷺ نے ایک چادر منگایا پھر حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے اس چادر میں رکھ دیا پھر ہر قبیلے کے ایک ایک سردار کو بلایا اور سب سے فر مایاکہ چادر کے کونوں کو پکڑ کر اٹھائو اور وہاں لے چلو جہاں رکھنا ہے چنانچہ سب لوگ اٹھا کر لے گئے جب وہاں پہنچے جہاں پر رکھنا تھا تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے پتھر اٹھا کر اس جگہ پر نصب کر دیا ۔اس طرح آپ ﷺ کے حسن تدبر سے ہر قبیلے والوں نے یہ شرف حاصل کر لیا اور ایک بڑا جھگڑا ٹل گیا۔
(ضیاء النبی،جلد :۲؍ص : ۱۵۲۔۱۵۳)
اس کے علاوہ کتب سیرت میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ یہودی،عیسائی اور دوسری قوم کے لوگ اپنے پیشوا کے بجائے رسول اکرم ﷺکو اپنا جج بنانے کو تر جیح دیتے تھے اور ان کے بجائے آپ ﷺ کی بارگاہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔کیونکہ مذہب کے جدا ہونے کے باوجود انہیں مکمل یقین تھا کہ بارگاہ رسالت سے کبھی غلط فیصلہ صادر نہیں ہو سکتا۔
آپ ﷺ نے اس عہدہ کی نازکی کا خیال فر ماتے ہوئے اس پر فائز ہونے کے لئے کچھ شرطیں رکھیں اور ساتھ ہی ان لوگوں کے لئے ہدایات بھی عطا فرمائیں،اورحق فیصلہ کرنے پر اجر عظیم کی بشارت اور نا حق فیصلہ کرنے کے وبال سے ڈرایا ساتھ ہی آپ ﷺ نے ان تمام اسباب کو ان پر حرام کردیا جن کی وجہ سے ایک شخص کے دل میں جانبداری اور کسی کی رعایت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔تا کہ وہ ہر حال میں حق فیصلہ کر سکے۔
چنانچہ آپ ﷺ نے حاکموں کے لئے ہدیہ اور تحفہ لینے کو حرام کردیا کیونکہ اس کی وجہ سے حاکم کے دل میں فیصلہ کرتے وقت اس کی رعایت کا خیال پیدا ہوتاہے اور حاکم کو اس کی جانبداری کرنے پر اُکساتا ہے۔آپ ﷺ نے ایک شخص کو مال وصول کرنے کے لئے تحصیلدار بنایا جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے کہاکہ:یہ میرا مال ہے جو مجھے تحفے میں ملا ہے اور یہ بیت المال کا ہے۔آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فر مایا :لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے جو مجھے ملا ہے اور یہ بیت المال کا ہے ۔وہ اپنے گھر بیٹھا رہتا پھر دیکھتا کہ اسے کون مال دیتا ہے۔(یعنی لوگوں کی فطرت میں حاکموں کو تحائف دے کر رعایات حاصل کرنا ہوتا ہے جبکہ اگر وہ حاکم نہ ہو تو کوئی اسے پوچھنے بھی نہ جائے گا )اس لئے آپ ﷺ نے ایسے تمام لوگوں پر جس کو حاکم بناتے تحائف قبول کرنے کو حرام قرار دیتے
(بخاری،حدیث:۷۱۷۴)
آج عدالتوں میں رشوت کے بل بوتے جانبدارانہ فیصلوں کی بہتات ،روپیہ اور پیسے کے عوض بد معاشوں،قاتلوں،چوروں اور
ڈاکو ئوں کی سزا میں تخفیف اورجھوٹے مقدمات میں لوگوں کو پھنسانے کی روش نے پورے معاشرے کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے ۔جس کی وجہ
سے ہر شریف اوربا مروت آدمی ان کو’ عدالت ‘ کہنے میں شرم محسوس کرتا ہے ۔
ان برائیوں کا قلع قمع کئے بغیر ایک اچھے معاشرے کا خواب دیکھنا جنت الحمقاء میں کھوئے رہنے کے مترادف ہے ۔آج ضرورت ہے کہ دنیا مصطفی جان رحمت ﷺکے اسوئہ حسنہ پر عمل کر کے معاشرے کی تشکیل نو کرے جہاں انصاف ہی انصاف ہو اور امن ہی امن ہو ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔