احکام صدقہ اور صدقہ کیا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اﷲ ورسول کی رضا کے لئے ہر نیک کام سرانجام دینا صدقہ ہے، لیکن اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنا صدقہ کے لئے زیادہ مشہور ومعروف ہو گیا ہے۔ صدقہ کی تین اقسام ہیں:
فرض: صاحب نصاب پر زکوٰۃ اور زمین میں فصل کی پیداوار پر عشر فرض ہیں۔
واجب: نذر، صدقہ فطر اور قربانی وغیرہ
نفل: عام خیرات وصدقات جو کوئی بھی مسلمان اﷲ و رسول کی رضا کی خاطر مال خرچ کرے یا کوئی بھی نیک کام کرے، نفل صدقات میں شامل ہے۔
فرض اور واجب صدقات کے مصارف قرآن وحدیث میں بیان کر دئیے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِ ط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo
ترجمہ : بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔( سورہ توبة، 9: 60)
زکوٰۃ والے ہی مصارف عشر اور صدقہ فطر کے ہیں، لہٰذا جہاں جہاں پر زکوٰۃ کا مال خرچ ہو سکتا ہے وہاں پر عشر اور صدقات فطر کا مال بھی خرچ کر سکتے ہیں۔ صدقہ فطر کے بارے میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِيرِ وَالْکَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ.
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو ہر غلام اور آزاد مرد او رعورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔
(صحيح بخاری ، 2: 547، رقم: 1432، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)( صحيح مسلم،، 2: 678، رقم: 984، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
قربانی کے گوشت کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَيَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَارَزَقَهُمْ مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ج فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِيْرَo
ترجمہ : اور (قربانی کے) مقررہ دنوں کے اندر اﷲ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر (ذبح کے وقت) اﷲ کے نام کا ذکر بھی کریں، پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو (بھی) کھلاؤ۔( سورہ حج، 22: 28)
اور مزید فرمایا:فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰهَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
ترجمہ : تم خود (بھی) اس (قربانی کے گوشت) میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔( سورہ حج، 22: 36)
احادیث مبارکہ میں قربانی کے گوشت کے بارے میں ہے: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو تم میں سے قربانی کرے تو تیسرے روز کی صبح اس کے گھر میں قربانی کا گوشت نہیں ہونا چاہئے جب اگلا سال آیا تو لوگ عرض گزار ہوئے۔ یا رسول اﷲ! کیا ہم اسی طرح کریں جیسے پچھلے سال کیا تھا؟ ارشاد فرمایا:کُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا فَإِنَّ ذَلِکَ الْعَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
ترجمہ : کھاؤ، کھلاؤ اور جمع بھی کرلو کیونکہ وہ سال لوگوں پر تنگی کا تھا تو میرا ارادہ ہوا کہ اس میں تم ایک دوسرے کی مدد کرو۔(صحيح بخاری ، 5: 2115، رقم: 5249)(صحيح مسلم ، 3: 1563، رقم: 1974)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین (دن) کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا، عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کا ذکر کیا، عمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا انہوں نے سچ کہا میں نے حضرت عائشہj کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں عید الاضحی کے موقع پر دیہات سے کچھ لوگ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم تین دن تک گوشت کو جمع کرو اس کے بعد جو باقی بچے اس کو صدقہ کر دو، اس کے بعد صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ اپنی قربانی (کی کھالوں) سے مشکیں بناتے تھے اور اس (قربانی) کی چربی رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب کیا ہوا؟ صحابہ کرامl عرض گزار ہوئے، آپ نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:إِنَّمَا نَهَيْتُکُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا.
ترجمہ : میں نے تم کو ان محتاجوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آئے تھے، اب قربانیوں کو کھاو، جمع کرو اور صدقہ کرو۔
لہٰذا عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا ایسا صدقہ ہے جس کو امیر وغریب سب کھا سکتے ہیں۔ اسی طرح عقیقے کا گوشت بھی سب کھا سکتے ہیں۔ اگر کوئی نذر مانے اور وہ نذر شرعاً جائز ہو تو اُسی طرح پوری کرنا واجب ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ. ترجمہ : اور اپنی نذریں پوری کریں۔ ( سورہ حج، 22: 29)
اگر کوئی غیر شرعی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے لیکن اُس کے متبادل قسم کا کفارہ ادا کرنا ہو گا جو دس غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا یا پھر تین دن مسلسل روزے رکھنا ہے۔
تیسری قسم نفلی صدقات کی ہے جو فرض اور واجب صدقات کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے اور ہر نیکی کے کام پر مشتمل ہے۔ انسانیت کی بھلائی کی خاطر کسی بھی مہم کو سرانجام دینے کے لئے چندہ جمع کروانا بھی صدقہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں یا عطائ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر گواہی دیتا ہوں۔أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ.
ترجمہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف فرما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال فرمایا کہ عورتوں نے خطبہ نہیں سنا۔ لہٰذا انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کا حکم دیا تو کوئی بالی اور کوئی انگوٹھی ڈالنے لگی جنہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے پلو میں لینے لگے۔ (صحيح بخاری ، 1: 49، رقم: 98)
مال خرچ کرنے کے علاوہ بھی ہر نیک عمل صدقہ ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت سعید بن ابو بُردہ، ان کے والد ماجد، ان کے جد امجد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ. فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اﷲِ! فَمَنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: يَعْمَلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ. قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ. قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: فَلْيَعْمَلْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيُمْسِکْ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهَا لَهُ صَدَقَةٌ.
ترجمہ : ہر مسلمان پر صدقہ کرنا لازم ہے۔ صحابہ کرامl عرض گزار ہوئے: یا نبی اللہ! جس میں اِستطاعت ہی نہ ہو (تو وہ کیا کرے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے ہاتھ سے کام کر کے خود نفع حاصل کرے اور صدقہ بھی دے۔ صحابہ کرامl عرض گزار ہوئے: اگر یہ نہ کر سکے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مظلوم حاجت مند کی مدد کرے۔ صحابہ کرامl عرض گزار ہوئے: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے کام کرے اور برے کاموں سے رُکے تو اس کے لیے یہی صدقہ ہو گا۔ (صحيح بخاری ، 2: 524، رقم: 1376)(صحيح مسلم ، 2: 699، رقم: 1008)
اور ایک حدیث مبارکہ میں ہے:عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ: تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِيکَ لَکَ صَدَقَةٌ وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَةٌ وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيئِ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَةٌ وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَکَ صَدَقَةٌ وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِي دَلْوِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَةٌ.
ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے، تمہارا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے، تمہارا کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے اور کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے، اور اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔ (سنن ترمذی ، 4: 339، رقم: 1956، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)(ابن حبان، الصحيح، 2: 287، رقم: 529، بيروت: مؤسسة الرسالة)
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ صرف بکرا ذبح کر کے تقسیم کرنا ہی صدقہ نہیں ہے بلکہ ہر نیک عمل صدقہ ہے۔ لہٰذا جو مسلمان جس قدر استطاعت رکھتا ہو اُسی کے مطابق جو چیز میسر ہو وہی صدقہ کرے گا، بکرا ذبح کرنا لازم نہیں ہے۔ صدقہ کی ہوئی شئے غرباء ومساکین میں خود بھی تقسیم کر سکتے ہیں اور کسی رفاہی ادارے کے سپرد بھی کر سکتے ہیں ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔