Pages

Saturday, 1 July 2017

عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل

عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل : جمعہ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں پر واجب نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو نبی کریم ﷺسے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں، میلی کچیلی جائیں، زینت نہ لگائیں، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”لا تمنعوا نسائکم المساجد، وبیوتھن خیر لھن۔ترجمہ۔”اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔“(رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا۔ترجمہ:عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔(رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)

اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کا ارشاد ہے:لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔ترجمہ:عورتوں نے جو نئی رَوش اختراع کرلی ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔(صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴)( بقیہ پوسٹ نمبر 3 میں پڑھیں )

عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي ۔
ترجمہ:حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) نماز پڑھوں''آپ ﷺنے ارشاد فرمایا''مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نمازپڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے(اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی مسجد بنانے کا) حکم دیا چنانچہ ان کے لئے گھر کے آخری حصہ میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا (یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بناگیا) اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ رب العالمین سے جا ملیں۔(رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال و صحیح الترغیب والترہیب حدیث:٣٣٨)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر برپا ہونے والے فتنہ کے متعلق:یہ حديث صحيح ہے، اسے ترمذی نے اس لفظ کے ساتھہ ذکر کیا ہے:عورت پوشیدہ رکھنے کی چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے ۔
(سنن ترمذی، جلد 3، صفحہ 476، حدیث نمبر 1173)(صحیح ابنِ خزیمہ، جلد 3، صفحہ 93،94 حدیث نمبر 1687-1685)(صحیح ابنِ حبان، جلد 12، صفحہ 412،413، حدیث نمبر 5599-5598)(طبرانی نے اسے المعجم الکبیر کی جلد 8، صفحہ 101، حدیث نمبر 10115 )(المعجم الاوسط میں جلد 8، صفحہ 101 حدیث نمبر 8096)(مسند بزار، البحر الزخار، جلد 5، صفحہ 428-427، حدیث نمبر 2061،2062،2065 )(ابنِ عدی نے کتاب الکامل، جلد 3، صفحہ 423 سوید بن ابراہم کی سوانح عمری میں نقل کیا)

مختصر شرح حدیث:عورت جب تک پردہ میں رہے گی یہ اس کے لئے زیادہ بہتر اور حفاظت کا باعث ہے، اور وہ اپنے فتنے اور اپنے ذریعہ دوسروں کو فتنے میں ڈالنے سے دور رہے گی، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس میں راغب ہوتا ہے تو وہ اسے گمراہ کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتا ہے، مگر اللہ جس پر رحم کردے، اس لئے کہ اسی نے شیطان کو اپنے اوپر غالب آنے کے اسباب میں سے ایک سبب دیا، اور وہ اس کا اپنے گھر سے نکلنا ہے، مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے حق میں مشروع ہے کہ وہ اپنے گھر کو لازم پکڑے رہے، اور گھر سے کسی ضرورت کی بنا پر اپنے پورے جسم کا مکمل پردہ کرکے نکلے، اور زینت اور خوشبو استعمال نہ کرے، تاکہ اللہ سبحانہ و تعالی کے اس فرمان:وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۔(الاحزاب، آیت 33)(ترجمہ: ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﯾﻢ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﻛﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻛﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺎؤکا ﺍﻇﮩﺎﺭ ﻧﮧ ﻛﺮﻭ۔  پر عمل ہوجائے: اور الله سبحانه و تعالى كا فرمان:وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ۔(الاحزاب آیت 53)ترجمہ: ﺟﺐ ﺗﻢ ﻧﺒﯽ ﻛﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﭘﺮﺩﮮ ﻛﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﻛﺮﻭ۔  ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﻞ ﭘﺎﻛﯿﺰﮔﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ الآيۃ ۔ورنہ وہ فاسق و فاجر لوگوں کے جال میں پھنس جائیگی، بالخصوص بازاروں اور پارکوں اور مخلوط جگہوں میں، اور اس زمانے میں تو ایسی جگہیں بہت ہیں:مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ.
(صحيح البخاري ومسلم)میں نے اپنے بعد مرد حضرات کے لئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیویاں  نماز عید کےلیئے عید گا نہیں جاتی تھیں :(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5845 )

حضرت عروہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی  گھر کی کسی عورت کو نماز عید کےلیئے عید گاہ نہیں جانے دیتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5846 )

حضرت قاسم بن حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنی عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے انہیں عیدین کی نماز کے لیئے عید گاہ نہیں جانے دیتے تجھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5847 )

جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  عورتوں کو عیدین کی نماز کےلیئے جانا مکروہ ہے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 4 صفحہ 234 حدیث نمبر  5844 )

امتدادِ زمانہ کی وجہ سے جب حالات بدل گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے مشورہ سے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا بند کر دیا۔(یعنی اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم  ہے)

غور کیا جائے تو آج کا زمانہ نہ تو سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد مبارک کے جیسا ہے اور نہ ہی احکامِ شریعت کی پابندی و پاسداری اُس عہد مبارک جیسی ہے۔ سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے فتنہ کو اپنے عہد مبارک میں ہی جان لیا سو عورتوں کی مسجدوں میں نماز پر پابندی لگا دی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ان احادیث مبارکہ سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیئے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔(رواہ أحمد، مشکواة)

غور کریں اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں۔

مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ محض مباح تھا۔
کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اور جماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں۔اگر عورتوں کے لیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیئے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے؟
شاید یہ لوگ اپنے آپ   کو نبی کریم صلی اللہ سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے، عورتوں کو چونکہ آپ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا، تو اس اباحت ورخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انھیں حاصل تھا؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں۔

مختصر یہ کہ شریعت نہیں بدلی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو شریعت کے بدلنے کا اختیار نہیں، لیکن جن قیود و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی، جب عورتوں نے ان قیود و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا تو اجازت بھی باقی نہیں رہے گی، اس بنا پر فقہائے اُمت نے، جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں، عورتوں کی مساجد میں حاضری کو مکروہ قرار دیا، گویا یہ چیز اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے، مگر کسی عارضے کی وجہ سے ممنوع ہوگئی ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہے کہ وبا کے زمانے میں  کوئی طبیب امرود کھانے سے منع کردے،کھانے سے منع کردے، اب اس کے یہ معنی نہیں کہ اس نے شریعت کے حلال و حرام کو تبدیل کردیا، بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک چیز جو جائز و حلال ہے، وہ ایک خاص موسم اور ماحول کے لحاظ سے مضرِ صحت ہے، اسی لئے اس سے منع کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ احکام شرع کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔