وسیلہ قرآن و حدیث اور دیگر دلائل کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
توسل یعنی وسیلہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر علمائے سلف و خلف نے بے شمار کتابیں تخلیق فرمائی ہیں کہ جن سے اس کے بارے میں مفصل معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن آج کے دور میں اس کے بارے میں دو مختلف بنیادی نظریات پائے جاتے ہیں بوجہء عدم علم۔ ایک طبقہ وہ ہے کہ جو توسل کو سرے سے (کفر، شرک، بدعت) سے تعبیر کرتا ہے اور اس سے انکار کی تعلیم لوگوں کو دیتا نہیں تھکتا جبکہ اہلسنت وجماعت جو کہ (السواد الاعظم) کہلاتی ہے یعنی سب سے بڑا گروہ کہ جسکے جنتی ہونے کی بشارت متعدد احادیث میں وارد ہوئی ہیں وہ اسکو عین قرآنی حکم اور خیرالقرون کا عمل قرار دیتے ہیں ۔ اس موضوع پر میری کاوش یہ ہے کہ میں مستند کتابوں کو ان کے حوالوں کے ساتھ جس قدر ممکن ہوسکے ایک جگہ پر اکٹھا کروں تاکہ عوام الناس میں سے وہ لوگ کہ جن کی استطاعت تمام کتب تک رسائی اور کوشش کا فقدان ہے وہ اس سے کماحقہ مستفید ہوسکیں۔ اس موضوع پر تین طرح سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلے قرآنی آیات سے اور سلف الصالحین وخیرالقرون کی تفسیرات سے اس پر مفصلاً ذکر کیا گیا ہے، اسکے بعد اسلام کے دوسرے بڑے مآخذ یعنی علم الحدیث سے مستند احادیث کا ذخیرہ اکٹھا کرنے کی سعی کی گئی ہے وہ بھی تمام تر حوالوں کے ساتھ تاکہ قارئین کو مکمل آگاہی مل سکے اور تیسرے خود مخالفین کی کتب سے اس موضوع پرانکی رائے کا رد اور اصل تفصیل بتائی جاسکے۔ اللہ رب العزت والعظمت سے میری دعا ہے کہ وہ اپنے حبیبِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے صدقہ میں، انکے مقدس مطہر معطر آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور اصحاب نبی (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کے صدقے میں میری اس کاوش کو اپنی بارگاہ ِ بے کس پناہ میں مقبول و منظور فرمائے اور جس کے نصیب میں ہدایت لکھی ہو، اللہ اسکے طفیل ہدایت عطا فرما کر اسکو بروز قیامت ہم سب کے لیئے شفاعت کا ذریعہ بنائے، اور مجھے میرے مرحوم والدین، دوست احباب، رشتہ داروں اور عام پڑھنے والوں سے لیکر صاحبانِ علم و عمل تک کے لیئے ایک ایسا ذریعہ بنائے کہ جس سے ہماری آخرت کا سدھار ہوسکے۔ بجاہ النبی آمین یارب العالمین۔
اس موضوع پر جیسے کہ پہلے بیان ہوا کہ سب سے پہلے لفظ (وسیلہ) کہ جس کو موجودہ دور میں چند عاقبت نااندیشوں نے (غیراللہ سے مدد) کا نام دے رکھا ہے، لغات العرب سے اسکے قرآنی معنی اور قدیم تفسیراتِ قرآنی سے دلائل کے طور پر بیان کیا جائے گا، اور پھر آیاتِ قرآنی ترجمہ و تشریحاتِ قرآنی، اس پر سلف کا بیان، احادیث کا ذخیرہ اورخاص کر صحابہ کرام علیہم الرضوان وخیرالقرون کے عمل سے ایسا بیان کیا جائے کہ جو دلوں کے زنگ اتارنے کا سبب ہو۔ اس مختصر تفصیل کے بعد بنا وقت ضائع کیئے اس پر بسم اللہ کرتے ہیں اور اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنا دین، اپنا عقیدہ اور اپنا عمل قرآن، سنت و سلف کے مطابق سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔
توسل وسیلہ کا لغات العرب میں معنی مفہوم اور مطالب
حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر تبیان القرآن میں ماتحت سورہ الفاتحہ آیت ۴ وسیلہ کے لغوی معنی پر سلف الصالحین کے اقوال پیش کیئے ہیں جو کہ یہاں دیئے جارہے ہیں مزید تخریج کے ساتھ۔
امام ابی القاسم الحسین بن محمد المعروف بالراغب الاصفھانیؒ لکھتے ہیں؛۔
وسل: الوسیلۃ التوسل الی الشئٰ۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ سرقۃ۔۔
ترجمہ عبارت؛۔ الوسیلۃ: کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں۔ چنانچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے وصیلۃ سے اخص ہے۔ وابتغوالیہ الوسیلۃ (۳۵،۵) اور اسکا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو۔ درحقیقت توسل الی اللہ، علم و عبارت اور مکارم ِ شریعت کی بجاآوری سے طریقِ الٰہی کی محافظت کا نام ہے اور یہی معنی تقرب الی اللہ کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ توسل کے معنی چوری کرنا بھی آتے ہیں چنانچہ محاورہ ہے۔ اخذ فلاں اہل فلاں توسلا۔ اس نے فلا کے اونٹ چوری کرلیئے۔
حوالہ؛۔ المفردات فی غریب القرآن ۔ امام اللغت، راغب اصفھانیؒ ۔ کتاب الواو۔ صفحات ۵۲۳ و ۵۲۴ دارالمعرفۃ بیروت لبنان
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں؛۔
ھی فی الاصل مایتوصل بہ الی الشیٗ و یتقرب بہ
جس چیز سے کسی شے تک رسائی حاصل کی جائے اور اس شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔
نہایہ جلد ۵ ص ۱۸۵ مطبوعہ موسسۃ مطبوعاتی ایران۔ علامہ محمد بن اثیر جزریؒ)۔
لغات کے ایک اور امام حضرت علامہ ابن منظور افریقی ؒ لکھتے ہیں۔
الجوھری؛۔ الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر۔ یعنی امام ِ لغت علامہ جوہری نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔
حوالہ؛۔ سید جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی متوفی ۷۱۱ھ ، لسان العرب ج ۱۱ ص ۷۲۵ ۔ ۷۲۴، مطبوعہ نشر ادب الجوذہ ایران
علامہ ابن منظور افریقی اور علامہ زبیدی نے علامہ جوہری کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے۔
جس چیز سے غیر کا تقرب کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ (الصحاح ج ۵ ص ۱۸۴۱ مطبوعہ دارالعلم بیروت
لفظ وسیلہ کا اصل منبع (وسل) (و، س، ل) سے نکلا ہے اور ایک اور مشہور امام الغات ابن فارس لکھتے ہیں؛۔
الاولی الرغبۃ والطب ، یقال وَسَلَ، اِذا رَغَب، و الواسل: الراغب الی اللہ عزوجل ، وھو فی قول لبید (بلی کل ذی دین الی اللہ واسل)۔
یعنی اول معنی رغبت و طلب کے ہیں فرمایا۔ واسل (یعنی وسیلہ کرنے والا) اللہ کی طرف ذریعہ ہوتا ہے۔
(بحوالہ ؛ معجم المقابین اللغۃ ج ۶ ص ۱۱۰ لابی الحسین احمد بن فارس بن زکریا (متوفیٰ ۳۹۵ھ) دارالفکر للطاعۃ والنشر والتوزیع۔
ایسے ہی حضرت الامام شیخ محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر الرازی نے اپنی مختار الصحاح میں لکھا ہے؛۔
و س ل ۔ (الوسیلۃ) مایتقرب بہ الی الغیر والجمع (الوسیل) و الوسائل) و(التوسیل) و (التوسل) واحد یقال: (وسل) فلان الی ربہ وسیلۃً بالتشدیدِ و (توسل) الیہ بوسلیۃ اذا تقرب الیہ بعمل۔
یعنی فلاں کا وسیلہ رب کی طرف پیش کرنا اور کسی کے ذریعہ سے کسی اور کا قرب چاہنا توسل کہلاتا ہے۔ (حوالہ مختار الصحاح، ص ۳۰۰، باب الواو۔ مکتبۃ لبنان دائرۃ المعاجم فی )۔
دکتور عبد اللہ عباس الندوی جو کہ جامعۃ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے مدرس بھی ہیں انکی قاموس میں وسیلے کے متعلق کچھ یوں لکھا ہے؛۔
الوسیلۃ؛۔ (اسم) رسائی کے ذرائع ،اور وسائل۔ پینچ کا راستہ ۔ رسائی۔ اس فعل کا مصدری مادہ نہیں ہے۔
حوالہ؛۔ قاموس الفاظ القرآن الکریم ص ۴۵۰ مکتبہ دار الاشاعت کراچی پاکستان
المختار من صحاح اللغۃ تالیف محمد محی الدین عبدالحمید اور محمد عبداللطیف السبکی نے لکھا؛۔
و س ل ۔ الوسیلۃ : ما یتقرب بہ الی الغیر والجمع الوسیل، والوسائل۔ یعنی کسی کی طرف تقرب چاہنا، ذریعہ بنانا۔ باقی تمام معانی وہی ہیں جوامام رازی نے اپنی مختار الصحاح میں لکھے ہیں یعنی توسل کا مطلب ہے اللہ کی طرف ذریعہ واسطہ تلاش کرنا۔ جیسا کہ اعمال سے قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
المختار من صحاح اللغۃ ص ۵۷۲ (زیر تحت و س ل) مکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ لمصر۔ ومطبعۃ الاستقامۃ بالقاھرہ۔
مصباح المنیر میں لکھا ہے؛۔
وسل (وسلت) الی اللہ بالعمل اسِل من باب وعد رغبت و تقربت ومنہ استقاق الوسیلۃ وھی ما یتقرب بہ الی الشیٗ والمجمع الوسائل والسیل قیل جمع وسیلۃ وقیل لغۃ فیھا وتوسل الی ربہ بوسیلۃ تقرب الی بعمل۔
یعنی وسلت سے مراد کسی شے کی طرف قربت ، واسطہ ذریعہ حاصل کرنا ہے۔ اسکی جمع الوسائل اور الوسیل ہے، اور کہا کہ جمع وسیلۃ ہے ، اور کہا لغت میں اس سے مراد اللہ کی طرف ذریعہ (واسطہ) حاصل کرنا ہے (قربت کے لیئے) ۔
المصباح المنیر ، ص ۲۵۳،العالم العلامۃ احمد بن محمد بن علی الفیومی المقری متوفیٰ ۷۷۰ھ طبعۃ بِلونین میسرۃ مکتبۃ لبنان۔
المنجد فی اللغۃ والادب والعلوم ، میں بھی وسیلہ کا معنی (کوئی ایسا عمل اختیار کرنا کہ اللہ تک رسائی ہوسکے) اور (المنزلۃ عند الملوک) یعنی بادشاہوں(اختیار والوں) تک رسائی چاہنے کو وسیلہ کہتے ہیں۔
المنجد فی اللغۃ والادب والعلوم ۔ لسنۃ تاسع عشر۔ ج ۱ ص ۹۰۰ المطبعۃ الکاثولیکیۃ بیروت۔
الاستاذ الطاھر احمد الزاوی لکھتے ہیں؛۔
وس ل۔ (الوسیلۃ) ۔ والواسلۃُ: المنزلۃ عند الملک، والدرجۃ والقربۃ ووسل الی اللہ تعالیٰ توسیلاً ۔ والواسل: الواجبُ۔ والراغبُ الی اللہ تعالیٰ: والتوسل: السرقۃ ۔ یعنی وہ راہ جو (بادشاہوں) تک رسائی کے لیئے قربت کے لیے حاصل کی جائے اور (شرعی معنی) کہ اللہ کی طرف رسائی کا ذریعہ پیش کیا جائے یعنی توسل کیا جائے اللہ کی جانب ۔
ترتیب القاموس المحیط علی طریقۃ المصباح المنیر واساس البلاغۃ ،ج ۴ باب الواو۔ صفحہ ۶۱۲۔دارالفکر بیروت
محیط المحیط میں بھی وسل یعنی وسلیۃ کے بارے میں وہی کچھ مندرج ہے جو اوپر بیان ہوچکا ۔
حوالہ ۔ محیط المحیط قاموس مطول للغۃ العربیۃ۔ تالیف۔ المعلم بُطرس البُستانی۔ ص ۹۶۹ مکتبۃ لبنان، ساحتہ ریاض الصلح بیروت
معجم النفائس الکبیر ، دارالنفائس صفحہ ۲۲۰۹ زیر تحت لفظ (وسل) وہی سب لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وسل الی اللہ بوسیلۃ وتوسل:(اللہ کی جانب رجوع بواسطہ وسیلہ)۔وہ عمل جو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیئے کیا جائے یعنی وہ ذریعہ جو اللہ تک پہنچائےاسکے علاوہ وسیلہ نبی کا وہ بلند و ارفع درجہ ہے جو جنت میں ہوگا۔ (یعنی یہاں انکی مراد وہ وسیلہ بیان کرنا ہے جسکا حکم حدیث رسول میں بھی آیا ہے کہ نماز کے بعد دعا میں )۔
لغات کے ایک اور مشہور امام ، حضرت الامام جرجانیؒ نے لکھا ہے؛۔
الوسیلۃ؛ ھی ما یُتقرب بہ الی الغیر۔ (۱۹۷۰) صفحہ ۲۱۱معجم التعریفات۔ علامہ علی بن محمد السید الشریف الجرجانیؒ۔ دارالفضیلۃ۔
اسی طرح المعجم الوسیط عربی اردو ترجمہ میں لکھا ہے؛۔
وسل ۔ فلاں الی اللہ تعالیٰ۔ کوئی ایسا کام کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اور ۔ فلان الی اللہ بالعمل۔ یعنی۔ عمل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا۔ الی فلان بکذا۔ کسی سے بذریعہ قرابت تعلق چاہنا۔ (الواسل) واجب ، ضروری، لازمی (الواسلۃ) تانیث الواسل (۲) بادشاہ کے یہاں مقام و مرتبہ (۳) درجہ مقام و تقرب۔ (الوسیلۃ) الواسلۃ مقام و مرتبہ ، ۲ قربت ، تعلق، اور ۳ نبی کریم ﷺ کا جنت میں درجہ ۔
حوالہ؛۔ المعجم الوسیط ۔ صفحہ ۱۲۵۵ باب الواو ۔ مکتبہ رحمانیہ لاہور پاکستان۔
امام اللغت ابو الحسن احمد ابن الفارسؒ کی ایک اور تصیف میں لکھا ہے؛۔
وسل: الواسل: الراغب الی اللہ۔ جل ثناؤہ۔ باقی پہلے کی طرح جیسا پہلے بیان ہوا۔
حوالہ؛ مجمل اللغۃ۔ لابی الحسن احمد بن فارس بن زکریا اللغوی۔ متوفیٰ ۳۹۵ ھ۔ جز ۱ ص ۹۲۵ زیر تحت (وسل)۔موسسۃ الرسالۃ بیروت۔
مشہور امام اللغات مجدالدین فیروزآبادیؒ نے اپنی القاموس المحیط عربی میں وسیلہ کے وہی معنی دیئے ہیں جو متعدد بار اوپر بیان ہوچکے۔ حوالہ یہ رہا۔
القاموس المحیط۔(عربی) حرف الواو۔ لفظ (وسل) ۱۰۱۰۷۔ صفحات ۱۷۵۳ و ۱۷۵۴ دارالحدیث قاھرہ مصر۔
امام مجد الدین ابی السعادات المبارک بن محمد الجزری ابن الاثیرؒ لکھتے ہیں؛۔
فی حدیث الاذان: اللھم آتِ محمدا الوسیلۃ۔ ھی فی الاصل: مایتوصل بہ الی الشیٗ ویتقرب بہ ۔ والمراد بہ فی الحدیث القرب من اللہ۔تعالی۔ وقیل: ھی الشفاعۃ یوم القیامۃ۔ وقیل ھی منزلۃ من منازل الجنۃ کما جاٗ فی الحدیث۔
یعنی۔ اذان کی حدیث میں جو ذکر آیا ہے (یعنی اذان کے بعد کی دعا) وہ اس لفظ کی اصل ہے۔ اور اس کا مطلب ہے کسی شئے تک قربت رسائی حاصل کرنا۔ اور توسل سے مراد جیسا کہ حدیثِ قرب میں بیان ہوا ہے وہ اللہ کی جانب راہ کرنا ہے۔ اور فرمایا۔ اس سے مراد روزِ محشر شفاعت ہے (یعنی شفاعتِ کبریٰ) پھر فرمایا؛ یہ ایک درجہ ہے جنت کے درجوں میں جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔
حوالہ؛۔ النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر۔ امام مبارک بن محمد الجزری ابن الاثیرؒ۔ صفحہ ۹۷۲۔ دارابن الجوزی۔
حافظ سید فضل الرحمٰن اپنی تصنیف لطیف معجم القرآن میں لکھتے ہیں؛۔
وسیلۃ؛ وسیلہ، قرب، نزدیکی، اسم ہے ،جمع وسائل۔ رغبت کے ساتھ کسی شئے کی طرف پہنچنا۔ بحوالہ المفردات۔ ۵۲۳۔و ۵،۳۵ و۵۷۔۱۷۔ صفحہ ۴۹۱ باب الواو۔ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز۔ کراچی پاکستان۔
دیوبندیوں کے ایک مشہور عالم مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی نے اپنی قاموس میں کچھ ایسے تحریر کیا ہے؛۔
وسیلۃ؛ نزدیکی، قرب ، وسیلہ۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں الوسیلہ،التوصل الی الشیٗ برغبت (رغبت کے ساتھ کسی شے کی طرف پہنچنا)۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وابتغواالیہ الوسیلۃ وجاھدو انی سبیلہ لعلکم تفلحون۔اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور ڈھونڈو اسکی طرف وسیلہ اور جہاد کرو اسکے راستہ میں تاکہ تم فلاح پاو۔ اس آیت مبارکہ میں وسیلہ سے مراد علم، عبادت اور شریعت کے اعلیٰ اخلاق کو اختیار کرکے سبیل اللہ کی محافظت ہے اور وہ قربۃ و نزدیکی ہی کے معنیٰ میں ہے۔ (مفردات)۔ مشہور صوفی مشرف مفسر شیخ اسماعیل حقی صاحبِ روح البیان لکھتے ہیں؛۔ ای!طلبوا لانفسکم الی توابہ والزلفیٰ منہ القربۃ بالاعمال الصالحہ(یعنی طلب کرو اپنے لیئے نیک اعمال کے ذریعہ نزدیکی اللہ تعالیٰ کے ثواب اوراسکے مقام ِ قرب کی طرف) آگے لکھتے ہیں:۔ یہ فعلیۃ کے وزن پر ہے وسل الی کذا تقرب الیہ سے اور اسکے معنےٰ ہیں وہ کام جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیاجاسکے۔ اسکی جمع وسائل ہے۔ (روح البیان ج ۲ ص ۳۸۷)۔ پھر مولانا نے ایک لمبی تفصیل لکھی ہے جس میں انور شاہ کشمیری کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے اسکے متعلق (یعنی توسل) کے متعلق یہ لکھا ہے کہ توسل جس انداز پر ہمارے زمانہ میں معروف ہے۔ سلف میں نہیں تھا ۔ جب وہ کسی بزرگ کے ذریعہ سے توسل کرتے تھے تو اسکی صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ انہیں اپنے ساتھ دعا مین شامل کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے اور اسی سے مدد طلب کرتے تھے اور ان بزرگ کی شمولیت کی برکت سے اپنی دعا کی قبول کی امید کرتے تھے۔ اور حدیث میں جو ضعفا وصالحین سے استعانت (مدد) ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے۔ جنانچہ حدیثِ استسقاٗ میں صحابہ کرام کا حضرت عباسؓ سے توسل اسی نوعیت کا ہے ۔ رہا بزرگوں کے ناموں سے توسل جیسا کہ ہمارے زمانے میں مروج ہے کہ ان بزرگوں کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا۔بلکہ وہ زندہ بھی نہیں ہوتے۔ صرف انکے کاموں کے ذریعہ توسل کیا جاتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالی کے ہاں جو درجہ حاصل ہے انکو اسکی وجہ سے وہ ان کے ناموں کے ذکر کے سبب دعا مانگنے والوں کو محروم نہ رکھے گا۔ تو میں اسکی تفصیلات میں جانا ناپسند کرتا ہوں۔ پھر مولانا انور شاہ کے ہی حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نےتو اسے حرام کہا ہے لیکن صاحب درمختار نے اسکی اجازت دی ہے۔ مگر سلف سے کوئی دلیل اس پر قائم نہیں کی۔
حوالہ؛۔ قاموس القرآن ۔ از مولانا زین العابدین میرٹھی۔ صفحات ۶۳۸ و۶۳۹ ۔دارالاشاعت کراچی۔
تبصرہ:۔ جہاں تک مولانا انور شاہ کشمیری کی اس بات کا تعلق ہے کہ اسکا سلف سے کوئی ثبوت نہیں تو یہ فقط ان کی یاوہ گوئی ہ ے کیونکہ مستند تفاسیر اور احادیث سے ہم ثابت کرچکے ہیں اور کررہے ہیں کہ سلف کے مطابق بھی انبیا و اولیا کا باقاعدہ نام لے کرپکارنا بالکل جائز ہے۔ ورنہ عمرؓ نے عباسؓ کے متعلق یوں نہ ارشاد فرمایا ہوتا کہ (ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں) اور ایسے ہی حضرت معاویہؓ نے جو حضرت یزید بن الاسودؓ کا وسیلہ پیش کیا باقاعدہ ان سے التجا و ندا کی اسکے علاوہ انور شاہ کشمیری صاحب نے انتہائی بددیانتی کا ثبوت دیا ہے یہ کہہ کر کہ ابن تیمیہ نے اس کا مکمل انکار کیا ہے۔ وہ غالباً یہ بتانا بھول گئے تھے کہ اسی ابن تیمیہ کا خود تمام تر علمائے اسلام نے رد فرمایا ہے اور خود ابن تیمیہ نے بھی انہیں احادیث کو صحیح الاسناد مانا ہے تو پھر اس کا انکار فقط اپنی مذہبی دکانداریوں کو چمکانا ہے۔ نیز صاحب درمختار ہمارے لیئے ابن تیمیہ سے کروڑہادرجہ بلند ہیں کیونکہ حنفیت کو صاحبِ درمختار کے قول پر عمل واجب ہے نا کہ ابن تیمیہ، دیوبند یا وہابیت کے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف قربت تلاش کرنا ہی وسیلہ کا مفہوم ہے۔ جبکہ انہوں نے قرآنی آیت میں بھی ڈنڈی ماری ہے۔ کہ (ابتغوا الیہ الوسیلۃ بالاحسانہ) یعنی اللہ فرماتا ہے میری طرف وسیلہ ڈھونڈو بھلائی کے ساتھ۔ اور اللہ کی بارگاہ میں اسکے تمام محبوب بندے ہمارا وسیلہ واسطہ ار مددگار ہیں۔ اور دعا ہی میں شامل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سنی حنفی صوفی مسلمان کسی ولی کو یا نبی کو اللہ سمجھ کر نہیں پکارتا نا ہی ان شخصیات کو الوہیت اور اسکی صفات میں شمار کرکے ان کو مددگارِ مطلق سمجھ کر پکارتا ہے۔ بلکہ پکارنے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اللہ کے دربار میں انکی سفارش پیش کی جائے ہماری طرف سے تاکہ دعاوں کی قبولیت میں زیادتی کا امکان ہو۔ اللہ ہمیں ایسے ایمان کے راہزنوں سے بچائے۔
ان کے ہی ایک اور دیوبندی عالم نے اپنی قاموس الوحید میں وسیلہ کے معنوں میں تحریر کیا ہے کہ۔۔۔ الوسیلۃ؛ ذریعہ، واسطہ ، مقام ومرتبہ۔ قرب و تقرب۔ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا درجہ ومقام۔ ۔ یعنی انورشاہ کشمیری وپارٹی کے اپنے الفاظ کی تردید انکے اپنے ہی علمائے کرام سے موجود ہے۔
(حوالہ؛۔ القاموس الوحید۔ صفحہ ۱۸۵۰ تالیف؛ مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی۔ استاذ حدیث و ادب عربی و معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند۔ ادارہ اسلامیات لاھور کراچی پاکستان۔
امام جوھری ؒ کی الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ کا ایک اور حوالہ و ایڈیش یہ رہا۔ صفحہ ۱۲۴۵ حرف الواو۔ دارالحدیث قاھرہ مصر۔
ائمہ لغت کی ان تین بنیادی تصریحات سے واضح ہوگیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے، اللہ تعالیٰ کا تقرب اعمالِ صالحہ اور عبادات سے ہوتا ہے، تاہم انبیا علیھم السلام اور اولیائے کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہب حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے لیئے اس عزت و وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے، زندگی میں اور بعد از وفات بھی۔
Sunday, 1 January 2017
وسیلہ قرآن و حدیث اور دیگر دلائل کی روشنی میں
Posted by
Unknown
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔