Pages

Thursday, 19 January 2017

بحث مزارات اولیاءاللہ پر گنبد بنانا

بحث مزارات اولیاءاللہ پر گنبد بنانا
------------------------------------
مسلمان دو طرح کے ہیں ایک تو عام مومنین۔ دوسرے علماء مشائخ اولیاءاللہ جن کی تعظیم و توقیر در حقیقت اسلام کی تعظیم ہے۔ عامۃ المسلمین کی قبروں کو پختہ بنانا یا ان پر قبہ وغیرہ بنانا چونکہ بے فائدہ ہے اس لیے منع ہے ہاں اس پر مٹی وغیرہ ڈالتے رہنا تاکہ اس کا نشان نہ مٹ جائے فاتحہ وغیرہ پڑھی جاسکے جائز ہے۔ اور علماء مشائخ عظام اولیاء اللہ جن کے مزارات پر خلقت کا ہجوم رہتا ہے لوگ وہاں بیٹھ کر قرآن خوانی و فاتحہ وغیرہ پڑھتے ہیں ان کے آسائش اور صاحب قبر کی اظہار عظمت کے لیے اس کے آس پاس سایہ کے لیے قبہ وغیرہ بنانا شرعاً جائز بلکہ سنت صحابہ سے ثابت ہے اور جن عوام مومنین کی قبریں پختہ بنانا یا ان پر قبہ بنانا منع ہے اگر ان کی قبریں پختہ بن گئی ہوں تو ان کو گرانا حرام ہے پہلے مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے آخر کے دو مسئلوں میں اختلاف اس لیے ہم اس بحث کے دو باب کرتے ہیں۔ پہلے باب میں تو اس کا ثبوت۔ دوسرے باب میں مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات۔
مزارات اولیاء اللہ پر عمارت کا ثبوت
-------------------------------------
اس جگہ تین امور ہیں ایک تو خود قبر کو پختہ کرنا۔ دوسرے قبر ولی کو قدر سنت یعنی ایک ہاتھ سے زیادہ اونچا کرنا۔ تیسرے قبر کے آس پاس عمارت بنا دینا۔ پھر قبر کو پختہ کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک تو قبر کا اندرونی حصہ جو کہ میت سے ملا ہوا ہے اس کو پختہ کرنا دوسرے قبر کا بیرونی حصہ جوکہ اوپر نظر آتا ہے اس کو پختہ کرنا-
قبر کے اندرونی حصہ کو پختہ اینٹ سے پختہ کرنا۔ وہاں لکڑی لگانا منع ہے ہاں اگر وہاں پتھر یا سیمنٹ لگایا جاوے تو جائز ہے کیونکہ لکڑی اور اینٹ میں آگ کا اثر ہے۔ قبر کا بیرونی حصہ پختہ بنانا عامۃ المسلمین کے لیے منع ہے اور خاص علماء مشائخ کے لیے جائز ہے۔
قبر کا تعویذ ایک ہاتھ سے زیادہ اونچا کرنا منع ہے اور اگر آس پاس چبوترہ اونچا کرکے اس پر تعویذ بقدر ایک ہاتھ کیا تو جائز ہے۔
قبر کے آس پاس یا قبر کے قریب کوئی عمارت بنانا عامۃ المسلمین کی قبروں پر تو منع ہے۔ اور فقہاء علماء کی قبروں پر جائز۔ دلائل حسب ذیل ہیں۔
1) مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب الدفن میں برویات ابو داؤد ہے کہ جب حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان ابن مظعون کو دفن فرمایا تو ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر نصب فرمایا۔ اور فرمایا اعلم بھا قبر اخی وادفن الیہ من مات من اھلی ہم اس سے اپنے بھائی کی قبر کا نشان لگائیں گے اور اسی جگہ اپنے ایک بیت کے مردوں کو دفن کریں گے۔2) بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر میں تعلیقاً ہے حضرت خارجہ فرماتے ہیں۔ ہم زمانہ عثمان میں تھے۔
ان اشدنا وثبۃ الذی یثب قبر عثمان ابن مظعون حتی یجاوزہ"ہم میں بڑا کودنے والا وہ تھا جو عثمان ابن مظعون کی قبر کو پھلانگ جاتا۔"
مشکوٰۃ کی روایت سے معلوم ہوا کہ عثمان ابن مظعون کی قبر کے سرہانے پتھر تھا اور بخاری کی اس روایت سےمعلوم ہوا کہ خود قبر عثمان کا تعویذ اس پتھر کا تھا اور دونوں روایات اس طرح جمع ہو سکتی ہیں کہ مشکوٰۃ میں جو آیا کہ قبر کے سرہانے پر پتھر لگایا اس کے معنٰی یہ نہیں کہ قبر سے علیحدہ سر کے قریب کھڑا کر دیا بلکہ یہ ہے کہ خود قبر میں ہی سر کی طرف اس کو لگایا یا مطلب یہ کہ قبر ساری اس پتھر کی تھی مگر سرہانے کا ذکر کیا۔ ان دونوں احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی خاص قبر کا نشان قائم رکھنے کے لیے قبر اونچی کر دی جاوے یا پتھر وغیرہ سے پختہ کردی جائے تو جائز ہے تاکہ معلوم ہوکہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے۔ اس سے پہلے دو مسئلے حل ہوگئے نیز فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی زمین نرم ہو اور لوہے یا لکڑی کے صندوق میں میت رکھ کر دفن کرنا پڑے تو اس کے اندرونی حصہ میں چاروں طرف مٹی سے کہگل کردو (دیکھو شامی اور عالمگیری وغیرہ باب دفن لمیت) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبر کو اندر سے کچا ہونا چاہئیے۔ دو مسائل ثابت ہوئے۔
3) مشائخ کرام اولیاء عظام علماء کرام کی مزارات کے ارد گرد یا اس کے قریب میں کوئی عمارت بنانا جائز ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم اور صحابہ کرام و عامۃ المسلمین کے عمل اور علماء کے اقوال سے ہے۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا۔
قال الذین غلبوا علی امرھم لتخذن علیھم مسجدا وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحابِ کہف پر مسجد بنائیں گے۔ روح البیان میں اس آیت میں بنانا کی تفسیر میں فرمایا۔[/COLOR] دیوارے کہ از چشم مردم پوشیدہ شوند یعنی لا یعلم احد تربتھم وتکون محفوظۃ من تطرق الناس کما حفظت تربت رسول اللہ بالحظیرۃ یعنی انہوں نے کہا کہ اصحابِ کہف پر ایسی دیوار بناؤ جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات لوگوں کے جانے سے محفوظ ہو جاویں۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام کی قبر شریف چار دیواری سے گھیر دی گئی ہے۔ مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجداً کی تفسیر روح البیان میں ہے
یصلی فیہ المسلمون ویتبرکون بمکانھم لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں ۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کی دو باتوں کا ذکر فرمایا ایک تو اصحابِ کہف کے گرد قبہ اور مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائز ہیں جیسا کہ کتب اصول سے ثابت ہے کہ شرائع قبلنا یلزمنا حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حضرت صدیقہ کے حجرے میں دفن کیا گیا۔ اگر یہ ناجائز تھا تو پہلے صحابہ کرام اس کو گرا دیتے۔ پھر دفن کرتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھچادی۔ پھر ولید ابن عبدالملک کہ زمانہ میں سیدنا ابن زبیر نے تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایے مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے چنانچہ خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفٰی مصنفہ سید سمہودی دسویں فصل فیما یتعلق بالحجرۃ المنیفۃ 196 میں ہے۔ عن عمرو ابن دینار و عبیداللہ ابن ابی زید قالا لم یکن علی عھدالنبی صلے اللہ علیہ وسلم حائط فکان اول من بنی علیہ جدارا عمر ابن الخطاب قال عبیداللہ ابن ابی زید کان جدارہ قصیرا ثم بناہ عبداللہ ابن ازبیر الخ وقال الحسن البصری کنت ادخل بیوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانا غلام مراھق ادا نال السقف بیدی وکان لکل بیت حجرۃ وکانت حجرہ من الکعسۃ من سعیر مربوطتہ فی خشب عرعرۃ
ترجمہ وہ ہی جو اوپر بیان ہو چکا۔ بخاری جلد اول کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی وابی بکر و عمر میں ہے کہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ولید ابن عبدالملک کے زمانہ میں روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دیوار گر گئی تو اخذوافی بنائہ صحابہ کرام اس کے بنانے میں مشغول ہوئے۔
فبدت لھم قدم ففزعوا وظنوا انھا قدم النبی علیہ السلام حتی قال لھم عروۃ لا واللہ ماھی قدم النبی علیہ السلام ماھی الا قدم عمر
"ایک قدم ظاہر ہوگیا تو لوگ گھبرا گئے اور سمجھے کہ یہ حضور علیہ السلام کا قدم پاک ہے۔ حضرت عروہ نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ حضور علیہ السلام کا قدم نہیں ہے یہ حضرت فاروق کا قدم ہے۔"
جذب القلوب الی دیار المحجوب میں شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ 550ھ میں جمال الدین اصفہانی نے علماء کرام کی موجودگی میں صندل کی لکڑی کی جالی اس دیوار کے آس پاس بنائی اور 557ھ میں بعض عیسائی عابدوں کی شکل میں مدینہ منورہ آئے اور سرنگ لگاکر نعش مبارک کو زمین سے نکالنا چاہا۔ حضور علیہ السلام نے تین بار بادشاہ کوخواب میں فرمایا۔ لٰہذا بادشاہ نے ان کو قتل کرایا اور روضہ کے آ س پاس پانی تک بنیاد کھود کر سیسہ لگاکر اس کو بھردیا پھر 678ھ میں سلطان قلاؤں صالحی نے یہ گنبد سبز جو اب تک موجود ہے بنوایا۔
ان عبارات سے یہ معلوم ہوا کہ روضہ مطہرہ صحابہ کرام نے بنوایا تھا اگر کوئی کہے یہ تو حضور علیہ السلام کی خصوصیت ہے تو کہا جاوے گا کہ اس روضہ میں حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی دفن ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی دفن ہوں گے لٰہذا یہ خصوصیت نہ رہی۔ بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوٰۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت امام حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔
ضربت امراتہ القبۃ علی قبرہ سنۃ "[COLOR="purple"]تو ان کو بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا۔"
یہ بھی صحابہ کرام کے زمانہ میں سب کی موجودگی میں ہوا۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ نیز ان کی بیوی ایک سال تک وہاںرہیں۔ پھر گھر واپس آئیں۔ جیسا کہ اسی حدیث میں ہے ۔ اس سے بزرگوں کی قبروں پت مجاوروں کا بیٹھنا بھی ثابت ہوا۔
یہاں تک تو قرآن و حدیث سے ثابت ہوا۔ اب فقہاء محدثین اور مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
روح البیان جلد3پارہ1 زیر آیت انما یعمر مسجداللہ من امن باللہ میں ہے-
قبناء قباب ولی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء امر جائز اذا کان القصد بذلک التعطیم فی اعبن العامۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر
"علماء اور اولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہو لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں۔·"
مرقات شرح مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب دفن المیت میں ہے-
قد اباح السلف البناء علے قبور المشائخ والعلماء المشھورین لیزورھم الناس ویستریحو ابالجلوس"پہلے علماء نے مشائخ اور علماء کی قبروں پر عمارت بنانا جائز فرمایا ہے تاکہ ان کی زیارت کریں۔ اور وہاں بیٹھ کر آرام پائیں۔"
شیخ عبدالحق محدث دہلوی شرح سفر السعادت میں فرماتے ہیں۔
"در آخر زمان بجہت اقصار نظر عوام بر ظاہر مصلحت در تعمیر ترویج مشاہد و مقابر مشائخ و عظماء زیدہ چیزہا افزوند تاآنجابیت و شوکت اسلام و اہل صلاح پیدا آید خصوصاً درد یار ہند کہ اعدائے دین از ہنود و کفار بسیارامذ۔ وترویج اعلاء شان ایں مقامات باعث رعب و انقیا داایشاں است و بسیار اعمال و افعال وادضاع کہ در زمان سلف از مکروہات بودہ انددر آخر زمان از مستحسنات گشتہ۔"
"آخر زمان میں چونکہ عام لوگ محض ظاہر بین رہ گئے۔ لٰہذا مشائخ اور صلحاء کی قبروں پر عمارت بنانے میں مصلحت دیکھ کر زیادتی کردی تاکہ مسلمان اور اولیاء اللہ کی ہیبت ظاہر ہو خاص کر ہندوستان میں کہ یہاں ہندو اور کفار بہت سے دشمنان دین ہیں ان مقامات کی اعلان شان کفار کے رعب اور اطاعت کا ذریعہ ہے اور بہت سے کام پہلے مکروہ تھے اور آخر زمانہ میں مستحب ہوگئے-"
شامی جلد اول باب الدفن میں ہے۔
وقیل لا یکرہ البناء اذا کان المیت من المشائخ والعلماء والسادات
"کہ اگر میت مشائخ اور علماء اور سادات کرام میں سے ہو تو اس کی قبر پر عمارت بنانا مکروہ نہیں ہے۔"
درمختار میں اسی باب الدفن میں ہے۔ لا یرفع علیہ بناء وقیل لاباس بہ وھو المختار قبر پر عمارت نہ بنائی جائے اور کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ہی قول پسندیدہ ہے- بعض لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ شامی اور درمختار نے عمارت کے جواز کو قبل سے بیان کہا۔ اس لیے یہ قول ضعیف ہے لیکن یہ صحیح نہیں فقہ میں قیل علامت ضعیف نہیں۔ اور بعض جگہ ایک مسئلہ میں دو قول بیان کرتے ہیں اور دوونوں قیل سے۔ ہاں منطق میں قیل علامت ضعیف ہے۔ قیل کی مکمل بحث اذان قبر کے بیان میں دیکھو۔
طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ335 میں ہے۔
وقد اعتاد اھل المصر وضع الاحجار للقبور عن الاندارس والنبش ولا باس بہ وفی الدرد ولا یحصص ولا یطین ولا یرفع علیہ بناء وقیل لا باس بہ ھو المختار"مصر کے لوگ قبروں پر پتھر رکھنے کے عادی ہیں۔ تاکہ وہ مٹنے اکھڑنے سے محفوظ رہیں اور قبر کو گچ نہ کی جاوے نہ کھسگل کی جاوے نہ اس پر عمارت بنائی جاوے اگر کہا گیا کہ جائز ہے اور یہ مختار ہے۔"میزاب کبرٰی آخر جلد اول کتاب الجنائز میں امام شعرانی فرماتے ہیں۔
ومن ذلک قول الائمۃ ان القبر لاینی ولا یحصص مع قول ابی حنیفۃ یجوز ذلک قال الاول مشدد والثانی مخفف"اسی سے ہے دیگر اماموں کا یہ کہنا کہ قبر پر نہ عمارت بنائی جاوے اور نہ اس کو گچ کی جاوے باوجود یکہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ یہ سب جائز ہے پس پہلے قول میں سختی ہے اور دوسرے میں آسانی۔"اب تو رجسٹری ہوگئی کہ خود امام مذہب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان مل گیا کہ قبر پر قبہ وغیرہ بنانا جائز ہے۔
الحمدللہ کہ قرآن و حدیث اور فقہی عبارات بلکہ خود امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے فرمان پاک سے ثابت ہوگیا کہ اولیاء علماء کی قبور پر گنبد وغیرہ بنانا جائز ہے۔ عقل بھی چاہتی ہے کہ یہ جائز ہو چند وجوہ سے اولاً تو یہ دیکھا گیا ہے کہ عام کچی قبروں کا عوام کی نگاہ میں نہ ادب ہوتا ہے نہ احترام اور نہ زیادہ فاتحہ خوانہ نہ کچھ اہتمام بلکہ لوگ پیروں سے اس کو روندتے ہیں- اور اگر کسی قبر کو پختہ دیکھتے ہیں غلاف وغیرہ پڑا ہوا پاتے ہیں سمجھتے ہیں کہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے اس سے بچ کر نکلتے ہیں اور خود بخود فاتحہ کو ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور مشکوٰۃ باب الدفن میں اور مرقات میں ہے کہ مسلمان کا زندگی اور بعد موت یکساں ادب چاہئیے۔ اسی طرح عالمگیری کتاب الکراہیت اور اشعتہ اللمعات باب الدفن میں ہے کہ والدین کی قبر کو چومنا جائز ہے۔
اسی طرح فقہاء فرماتے ہیں کہ قبر سے اتنی دور بیٹھے جتنی دور کہ صاحب قطر کی زندگی میں اس سے بیٹھتا تھا اس سے معلوم ہوا کہ میت کا احترام بقدر زندگی کے احترام کے ہے اور اولیاء اللہ تو زندگی میں واجب التعظیم تھے۔ لٰہذا بعد موت بھی اور قبر کی عمارت اس تعظیم کا ذریعہ ہے لٰہذا کم از کم مستحب ہے۔ دوسرے اس لیے کہ جس طرح تمام عمارات میں سرکاری عمارتیں یاکہ مساجد ممتاز رہتی ہیں کہ ان کو پہچان کر لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ علماء کو چاہئیے کہ اپنی وضع قطر لباس صورت اہل علم کا سا رکھیں تاکہ لوگ ان کو پہچان کر مسائل دریافت کریں۔ اسی طرح چاہئیے کہ علماء مشائخ کے قبور عام قبروں سے ممتاز رہیں تاکہ لوگ پہچان کر ان سے فیض لیں۔ تیسرے اس لیے کہ مقابر اولیاء اللہ شعائراللہ ہیں جیسا کہ ہم اس سے پہلے تفسیر روح البیان کے حوالہ سے بیان کرچکے ہیں اور شعائراللہ کا ادب ضروری ہے قرآن سے ثابت ہے لٰہذا قبروں کا ادب چاہئیے۔ ادب کے ہر ملک اور ہر زمانہ میں علیحدہ طریقے ہوتے ہیں۔ جو طریقہ بھی ادب کا خلاف اسلام نہ ہو وہ جائز ہے حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک میں قرآن پاک ہڈیوں اور چمڑے پر لکھا تھا۔ مسجد نبوی کچی تھی اور چھت میں کھجور کے پتے تھے جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ مگر بعد زمانے میں مسجد نبوی نہایت شاندار روضہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم بہت اہتمام سے بنائے گئے اور قرآن کو اچھے کاغذ پر چھاپہ گیا۔
درمختار کتاب الکراہیت فضل فی البیع میں ہے۔ وجاز تحلیتہ المصحف لما فیہ من تعظیمہ کما فی نقش المسجد
اس کے ماتحت شامی میں ہے ای بالذھب والفضیۃ یعنی قرآن کریم کو چاندی سونے سے آراستہ کرنا جائز ہے کیونکہ اس میں ان کی تعظیم ہے- جیسا کہ مسجد کو نقسین کرنا۔ اسی طرح صحابہ کرام کے زمانہ میں حکم تھا کہ قرآن کو آیات اور رکوع اور اعراب سے خالی رکھو۔ لیکن اس زمانہ کے بعد چونکہ ضرورت درپیش ہوئی۔ یہ تمام کام جائز بککہ ضروری ہوگئے۔ شامی میں اسی جگہ ہے۔
وماروی عن ابن مسعوف جردود القراٰن کان فی زمنھم وکم من شیئی یختلف باختلاف الزمان والمکان
"ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قرآن کو اعراب وغیرہ سے خالی رکھو یہ اس زمانہ میں تھا۔ اور بہت سی چیزیں زمانہ اور جگہ بدلنے سے بدل جاتی ہیں۔"
اسی مقام پر شامی میں ہے کہ قرآن کو چھوٹا کرکے نہ چھاپو یعنی حمائل نہ بناؤ بلکہ اس کا قلم موٹا ہو۔ حرف کشادہ ہوں تقطیع بڑی ہو، یہ سارے احکام کیوں ہیں؟ صرف قرآن کی عظمت کے لیے اسی طرح یہ بھی ہے اول زمانہ میں تعظیم قرآن و اذان و اقامت پر اجرت لینا حرام تھا حدیث وفقہ میں موجود ہے مگر بعد کو ضرورتاً جائز کیا گیا۔ حضور علیہ السلام کے زمانہ میں خود زندگہ لوگوں کو پختہ مکان بنانے کی ممانعت تھی۔ ایک صحابی نے پختہ مکان بنایا تو حضور علیہ السلام ناراض ہوئے یہاں تک کہ ان کے سلام کا جواب نہ دیا اس کو گرادیا۔ تب جواب سلام دیا۔ (دیکھو مشکوٰۃ کتاب الرقاق فصل ثانی)
اسی مشکوٰۃ کتاب الرقار [COLOR="purple"]میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا۔[/COLOR] اذالم یبارک للعبد فی مالہ جعلہ فی الماء والطین جب بندے کے مال میں بے برکتی ہوتی ہے تو اس کو اینٹ گارے میں خرچ کرتا ہے لیکن ان احکام کے باوجود عام مسلمانوں نے بعد میں پختہ مکان بھی بنائے اور مسجدیں بھی۔ تعجب ہے کہ جو حضرات اولیاء اللہ کی قبروں کے پختہ کتنے یا ان پر قبہ بنانے کو حرام کہتے ہیں وہ اپنے مکان کیوں عمدہ اور پختہ بناتے ہیں۔ اتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کیا بعض حدیثوں پر ایمان ہے اور بعض کا انکار۔ اللہ سمجھ دے چوتھے اس لیے کہ اولیاءاللہ کی مقابر کا پختہ ہونا۔ ان پر عمارات قائم ہونا۔ تبلیغ اسلام کا ذریعہ ہے۔ اجمیر شریف وغیرہ میں دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ وہاب ہندو اور دیگر کفار زیارت کو جاتے ہیں بہت سے ہندوؤں اور افضیوں کو میں نے دیکھا کہ خواجہ صاحب کی دھوم دھام دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ ہندوستان میں اب کفار مسلمانوں کے ان اوقاف پر قبضہ کر رہے ہیں جن میں کوئی علامت نہ ہو۔ بہت سی مسجدیں، خانقاہیں، قبرستان بے نشان ہوکر ان کے قبضے میں پہنچ گئے اگر قبرستان کی ساری قبریں کچی ہوں تو وہ کچھ دن میں گرگر کر برابر ہو جاتی ہیں اور سادہ زمین پر کفار قبضہ جما لیتے ہیں لٰہذا اب سخت ضرورت ہے کہ ہر قبرستان میں کچھ قبریں پختہ ہوں تاکہ ان سے اس زمین کا قبرستان ہونا بلکہ اس کے حدود معلوم رہیں۔
میں نے اپنے وطن میں خود دیکھا کہ مسلمانوں کے دو قبرستان بھر چکے تھے ایک میں بجز دو تین قبروں کے ساری قبریں کچی تھیں۔ دوسرے قبرستان کے کچھ حصہ میب پختہ قبریں بھی تھیں۔ مسلمان فقیروں نے یہ دونوں قبرستان خفیہ طور پر فروخت کر دئیے جس پر مقدمہ چلا۔ پہلا قبرستان تو سوائے پختہ قبروں کے مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا۔ کیونکہ حکام نے اسے سفید زمین مانا۔ دوسرے قبرستان کا آدھا حصہ جہاں تک پختہ قبریں تھیں مسلمانوں کو ملا۔ باقی وہ حصہ جس میں ساری قبریں کچی تھیں اور مٹ چکی تھیں کفار کے پاس پہنچ گئے۔ کیونکہ اس قبرستان کے حدود پختہ قبروں کی حد سے قائم کئے گئے باقی کا بیعانمہ درست مانا گیا۔ اس سے مجھے پتہ لگاکہ اب ہندوستان میں کچھ قبریں پختہ ضرور بنوانی چاہئیں کیونکہ یہ بقاء وقف کا ذریعہ ہیں جیسے مسجد کے لیے مینارے۔
ماہ جولائی 1960ء کے اخبارات میں مسلسل یہ خبر شائع ہو رہی ہے کہ مولوی اسمٰعیل صاحب کے پیر سید احمد صاحب بریلوی کی قبر جو بالاکوٹ میں واقع ہے شکستہ حالت میں ہے اس کی مرمت کی جاویگی اور اس پر گنبد وغیرہ تعمیر کیا جویگا۔ سبحان اللہ سید احمد صاحب جنہوں نے عمر بھر مسلمانوں کی قبریں ڈھائیں اب خود ان کی قبر پر گنبد بنے گا۔ 29 جولائی 1960ء کو صدر پاکستان ایوب خان نے قائد اعظم کی قبر کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ جس میں ایک لاکھ مسلمان شریک تھے اس عمارت پر 75 لاکھ روپیہ خرچ ہوگا اس تقریب میں دیوبندیوں کے پیشوا مولوی احتشام الحق نے بھی شرکت کی۔ ان کی تقریر راولپنڈی کے جنگ 12اگست 1960ء میں شائع ہوئی آپ نے بہت خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ مبارک ہو کہ بانی انقلاب آج بانی پاکستان کی قبر پر سنگ بنیاد رکھ رہا ہے اب تک پاکستان کی حکومتوں نے اس مبارک کام میں بہت سستی کی تھی۔ مسلمانو! یہ ہیں وہ دیوبندی جو اب تک مسلمانوں کی قبریں اکھڑواتے تھے جنہوں نے نجدی حکومت کو مبارک باد کے تار دئیے تھے کہ اس نے صحابہ و اہل بیت کی قبریں اکھیڑ دیں آج قائد اعظم کی قبر پر گنبد وغیرہ تعمیر ہونے پر مبارک باد دے دہے ہیں۔ ان کا کتابی مذہب اور ہے۔ زبانی مذہب اور عملی مذہب کچھ اور چلو تم ادھر کو ہوا جدھر کی۔ بہرحال مزار پر گنبد کے دیوبندی بھی قائل ہوگئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔