علم غیب النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ثبوت علم غیب میں شاندار علمی تحقیق
بعد الحمد والصلٰوۃ حضور سید عالم ﷺ کے لئے علوم غیبیہ جزئیہ (بعض علم غیب) ثابت ہونے میں آج تک کسی مسلمان نے اختلاف نہیں کیا حتیٰ کہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب بھی تغییر العنوان میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ
’’یہاں اس میں کلام ہی نہیں کہ حضور کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالاتِ نبوت میں داخل ہیں اس کا کون انکار کر سکتا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ حضور سید عالم ﷺ کے لئے بعض علوم غیبیہ ماننا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ البتہ اہل سنت اور معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے واسطہ سے اولیاء اللہ کو بھی علوم غیب میں سے کچھ حصہ ملتا ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس کے منکر ہیں اور اہل سنت قائل ہیں۔ اہل سنت اس امر پر بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبوں خصوصاً سید المحبوبین آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو غیوبِ خمسہ میں سے بہت سے جزئیات کا علم عطا فرمایا جو شخص یہ کہے کہ کسی فرد کا علم کسی کو نہ دیا گیا وہ ہمارے نزدیک بد مذہب خائب و خاسر ہے۔
اب اس مسلک کو لیجئے کہ حضور سید عالم ﷺ کو بلا استثناء جمیع جزئیات خمسہ کا علم (جس میں تعیین وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے) اور روزِ اول سے آخر تک ما کان وما یکون‘‘ مندرجہ لوحِ محفوظ اور اس سے بہت زائد کا علم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ اہل سنت کے درمیان مختلف فیہ ہے لیکن جو لوگ محض بغض و عناد کی وجہ سے اس وسعت علم کا انکار کرتے ہیں اور حضور سید عالم ﷺ کی شان اقدس میں نعوذ باللہ گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں یا گستاخوں کی گستاخیوں پر مطلع ہو کر ان میں ناپاک تاویلیں کر کے ان توہینوں پر راضی ہوتے ہیں وہ اہل سنت کجا مسلمان بھی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ سے العیاذ باللہ بغض و عناد رکھنا یا ان کی شانِ مقدس میں توہین کرنا کفر خالص ہے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہ۔
حضور سید عالم ﷺ کے علم اقدس کے بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو روزِ اول سے روزِ آخر تک کا علم دیا اور تمام علوم مندرجہ لوح محفوظ نیز اپنی ذات و صفات کی معرفت سے متعلق بہت اور بے شمار علوم عطا فرمائے۔ جمیع جزئیات خمسہ کا علم دیا جس میں خاص وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے۔ احوال جمیع مخلوقات تمام ماکان وما یکون کا علم عطا فرمایا لیکن باایں ہمہ حضور ﷺ کا علم عطائی ہونے کی وجہ سے حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی و قدیم۔ سرکارِ مدینہ ﷺ کا علم ہرگز اللہ تعالیٰ کے علم کے مساوی نہیں۔ علم رسول اللہ ﷺ متناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بضنین
’’اور وہ (محمد رسول اللہ ﷺ) غیب پر بخیل نہیں۔‘‘ نیز فرمایا
فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ
’’اللہ تعالیٰ اپنے غیب خاص پر سوائے اپنے رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔‘‘
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ
’’اے حبیب ﷺ ہم نے آپ پر کتاب اتاری جو ہر شے کو بیان کرنے والی ہے۔‘‘
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا
’’اور سکھایا تجھے اے محبوب ﷺ جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا فضل ہے۔‘‘
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَائُ
’’اور نہیں ہے اللہ کہ اے لوگو تمہیں غیب پر مطلع فرمائے اور لیکن اللہ تعالیٰ برگزیدہ کر لیتا ہے غیب کی اطلاع دینے کے لئے اپنے رسولوں سے جس کو چاہتا ہے۔‘‘
بخاری شریف میں حدیث ہے : عن طارق بن شہاب قال سمعت عمر رضی اللّٰہ عنہ یقول قام فینا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامًا فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلہم واہل النار منازلہم حفظ ذالک من حفظہ ونسیہ من نسیہٗ۔ (بخاری شریف ج ۱ ص ۴۵۳)
’’طارق ابن شہاب نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا۔ فرمایا، حضور ﷺ ممبر اقدس پر ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہمیں ابتدائے آفرینش عالم سے خبر دینی شروع فرمائی یہاں تک کہ جنتی جنت میں داخل ہو گئے اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو گئے۔ اس بیان مبارک کو جس نے (ـجتنا) یاد رکھا، یاد رکھا اور اسے جو بھول گیا وہ بھول گیا۔‘‘
اسی حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ عینی شرح بخاری ج ۷ ص ۲۱۴ اور ص ۲۱۵ پر ارقام فرماتے ہیں
والغرض انہ اخبر عن المبدأ والمعاش والمعاد جمیعا
’’غرض یہ کہ حضور سرور عالم ﷺ نے مخلوقات کے مبدأ اور معاش اور معاد سب کی خبر دی۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں
وفیہ دلالۃ علٰی انہ اخبر فی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدائہا الٰی انتہائہا وفی ایراد ذٰلک کلہ فی مجلس واحد امر عظیم من خوارق العادۃ وکیف وقد اعطی جوامع الکلم مع ذٰلک انتہٰی۔
’’اور اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے تمام احوال کی خبر دی۔ ابتداء سے انتہا تک اور ایک ہی مجلس میں اس کا وارد فرمانا خوارق عادت سے امر عظیم ہے اور کیوں نہ ہو؟ اس کے باوجود کہ حضور ﷺ جوامع الکلم بھی دئیے گئے ہیں۔‘‘
ایسی ہی ایک حدیث مسلم شریف جلد ثانی ص ۲۳۳ پر حضرت عمرو بن الاخطب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ نے نمازِ فجر کے بعد سے سورج غروب ہونے تک تمام گزشتہ اور آئندہ کے حالات بیان فرما دئیے۔
مشکوٰۃ شریف ص ۷۰۲ پر بروایت دارمی و ترمذی دو حدیثیں مروی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے مبارک سینہ میں پائی۔ پس میں نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’میرے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز کو پہچان لیا۔‘‘ حدیث مبارکہ ’’فعلمت ما فی السمٰوٰت والارض‘‘ کے تحت حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’اشعۃ اللمعات‘‘ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں
پس دانستم ہر چہ در آسماں ہا وہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامۂ علوم جزوی و کلی واحاطۂ آں
’’پس جان لیا میں نے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا۔ یہ عبارت ہے تمام علوم جزوی و کلی کے حاصل ہونے اور اس کے احاطہ سے۔‘‘
پھر یہی حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ شریف میں ارقام فرماتے ہیں ص ۱۴۴
ہرچہ در دنیا است از زمان آدم تا اوان نفخہ اولیٰ بروے ﷺ منکشف ساختند، تاہم احوال اورا از اول تا آخر معلوم گردید یارانِ خود را نیز بعضے ازاں احوال خبرداد
’’جو کچھ دنیا میں ہے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے نفخۂ اولیٰ کے وقت تک حضور ﷺ پر سب منکشف فرما دیا۔ یہاں تک کہ تمام احوال اول سے آخر تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہو گئے اور اپنے صحابہ کو بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان میں سے بعض احوال کی خبر دی۔
نیز فرماتے ہیں ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ط‘‘
ووے ﷺ دانا است برہمہ چیز از شیونات ذاتِ الٰہی و احکام صفاتِ حق و اسماء و افعال و آثار و بجمیع علوم ظاہر و باطن و اول و آخر احاطہ نمود و مصدوق فوق کل ذی علم علیم شدہ علیہ من الصلٰوۃ افضلہا ومن التحیات اتمہا واکملہا۔
’’اور حضور ﷺ جاننے والے ہیں تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی شانوں سے اور احکام صفات حق و اسماء و افعال اور آثار سے اور تمام علوم ظاہر و باطن، اول آخر سب کا حضور نے احاطہ کر لیا اور فوق کل ذی علم علیم کا مصداق ہو گئے۔ ان پر افضل ترین صلوٰۃ اور اتم و اکمل ترین تحیات ہوں۔ (آمین)
آیۂ کریمہ ’’وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلاَئِ شَہِیْدًا‘‘ کے تحت تفسیر نیشا پوری میں مرقوم ہے
لان روحہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شاہد علی جمیع الارواح والقلوب والنفوس لقولہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اول ما خلق اللّٰہ روحی
یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے حبیب ہم ان سب پر آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی روح انور تمام عالم میں ہر ایک کی روح، ہر ایک کے دل ہر ایک کے نفس کا مشاہدہ فرماتی ہے۔ (کوئی روح، کوئی دل، کوئی نفس ان کی نظر اقدس سے مخفی نہیں ہے اس لئے تو یہ سب پر گواہ بنا کر لائے جائیں گے کہ شاہد کے لئے مشاہدہ ضروری ہے) اس مشاہدہ کا سبب یہ ہے کہ حضور سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روحِ اقدس کو پیدا فرمایا۔
جب حضور ﷺ سب سے پہلے پیدا ہوئے تو باقی جو کچھ ہوا وہ سب حضور ﷺ کے روبرو ہوا۔
لہٰذا ان سے کسی چیز کا پوشیدہ رہنا کیونکر متصور ہو سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فیوض الحرمین میں فرماتے ہیں
العارف ینجذب الی حین الحق فیصیر عبد اللّٰہ فتجلی لہٗ کل شئ
’’(حضور سید عالم ﷺ جو سید العارفین ہیں، کی شانِ اقدس کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جبکہ) عارف کا یہ حال ہے کہ جب وہ بارگاہِ حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف کھچ جاتا ہے اور مقرب بارگاہِ ایزدی قرار پاتا ہے تو اس کے لئے ہر شے روشن ہو جاتی ہے۔‘‘
مواہب اللدنیہ جلد اول ص ۵۰ پر امام قسطلانی فرماتے ہیں
وقال بعضہم لیس فی الاٰیۃ (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْح قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) دلالۃ علٰی ان اللّٰہ تعالٰی لم یطلع نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی حقیقۃ الروح بل یحتمل ان یکون اطلعہ اللّٰہ ولم یامرہ ان یطلعہم وقد قالوا فی علم الساعۃ نحو ہٰذا واللّٰہ اعلم۔ انتہٰی
’’اور بعض علماء اعلام نے فرمایا کہ آیت کریمہ (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) میں اس بات پر دلالت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں فرمایا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مطلع فرمایا اور آپ کو اس بات کا امر نہ فرمایا ہو کہ آپ دوسروں کو مطلع فرمائیں اور علم قیامت کے متعلق بھی انہوں نے ایسا ہی کہا ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو وقت قیامت کا علم دے کر اس کے بتانے کا حکم نہ فرمایا ہو۔‘‘
امام قرطبی شارح مسلم اور امام قسطلانی شارح بخاری اور ملا علی قاری شارح مشکوٰۃ نے اپنی شروح میں ارقام فرمایا اور امام قرطبی کی عبارت امام بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری نے عینی جلد اول ص ۳۳۷ پر نقل فرمائی
فمن ادعٰی علم شیء منہا غیر مسند الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان کاذبا فی دعواہ
’’یعنی مغیبات خمس میں سے جو کوئی کسی شے کے علم کا دعویٰ کرے اور اس علم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت نہ کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہو گا۔‘‘
اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ حضور ﷺ پانچوں غیب جانتے ہیں اور اذن الٰہی سے اپنے جس غلام کو چاہیں بتا سکتے ہیں۔ جب ہی تو حضور ﷺ کی تعلیم سے ان کے علم کا دعویٰ کرنے والا کاذب ہونے سے بچے گا۔
حافظ الحدیث سیدی احمد مالکی غوث الزماں سید شریف عبد العزیز مسعود حسنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا ملفوظ شریف روایت کرتے ہیں
ہو صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یخفی علیہ شیء من الخمس المذکورۃ فی الاٰیۃ الشریفۃ وکیف یخفی علیہ ذالک والاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونہا وہم دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین والاٰخرین الذی ہو سبب کل شیء ومنہ کل شئ
’’یعنی آیۂ کریمہ میں جو مغیبات خمس مذکور ہیں ان میں سے کوئی شے حضور ﷺ پر مخفی نہیں اور یہ چیزیں حضور ﷺ پر کیسے مخفی رہ سکتی ہیں حالانکہ حضور کی امت شریفہ کے سات قطب ان مغیباتِ خمس کو جانتے ہیں حالانکہ وہ غوث سے مرتبہ میں نیچے ہیں۔ پھر غوث کا کیا کہنا۔ پھر حضور سید عالم ﷺ کا کیا کہنا جو تمام اولین و آخرین سارے جہان کے سردار ہیں اور ہر چیز کے سبب ہیں اور ہر چیز انہی سے ہے۔
علامہ شیخ احمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر صاوی جلد ۴ ص ۲۴۵ پر آیۂ کریمہ ’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا‘‘ کے تحت ارقام فرماتے ہیں
وہٰذا قبل اعلامہٖ بوقتہا فلاینا فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یخرج من الدنیا حتی اعلمہ اللّٰہ بجمیع مغیبات الدنیا والاٰخرۃ ولٰکن امر بکتم اشیاء منہا کما تقدم
’’یہ آیت کریمہ حضور ﷺ کو وقت قیامت کا علم دینے سے پہلے ہے۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مضمون اس مسلک کے خلاف ہرگز نہیں کہ حضور ﷺ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہیں لے گئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو دنیا و آخرت کے تمام مغیبات نہ بتا دئیے لیکن ان میں سے بعض چیزوں کے چھپانے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہماری اسی کتاب میں بار بار اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔‘‘
علامہ عشاوی کتاب مستطاب عجب العجائب شرح صلاۃ حضرت سیدی احمد بدوی کبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
قیل انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اوتی علمہا (ای الخمس) فی اٰخر الامر لکنہ امر فیہا بالکتمان وہٰذا القول ہوالصحیح
’’کہا گیا نبی ﷺ کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطا ہو گیا مگر ان کے چھپانے کا حکم تھا اور یہی قول صحیح ہے۔‘‘
قرآن و حدیث و ارشاداتِ علمائے مفسرین و محدثین و حضرات عارفین سے ہم نے اپنا مسلک ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور سید عالم ﷺ کو تمام مخلوقات اور ساری کائنات کے جمیع احوال کا علم عطا فرما دیا اور تصریحاتِ علمائے اسلام سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث کے نصوص میں جو عموم ہے اس میں مغیباتِ خمس شامل ہیں اور صحیح مسلک یہی ہے۔
اب ان آیات کو سامنے رکھ لیجئے جس میں غیر اللہ سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے۔ اپنے بیان میں ہم اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علوم غیبیہ غیر متناہی ہیں اور حضور سرورِ عالم ﷺ کے علوم متناہی۔ ظاہر ہے کہ متناہی غیر متناہی کا بعض ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے تمام علوم جمیع علوم غیر متناہیہ کا بعض ہیں۔
یاد رکھیئے! جب آپ ہمارے کلام میں حضور ﷺ کے علم اقدس کے متعلق لفظ ’’کُل‘‘ دیکھیں تو اس سے کل غیر متناہی نہ سمجھیں بلکہ کل مخلوقات (جو متناہی ہے) اور اس کے علاوہ معرفت ذات و صفات کا علم کہ وہ بھی بالفعل متناہی ہے، ہماری مراد ہو گا۔ ورنہ علم الٰہی کی بہ نسبت ہم حضور ﷺ کے علم کو ’’کُل‘‘ نہیں کہتے کیونکہ علم الٰہی محیط الکل اور غیر متناہی ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حضور سید عالم ﷺ کے علوم کل غیر متناہی کا بعض ہیں تو بعض علم غیب کو رسول اللہ ﷺ کے لئے ثابت کرنے میں ہمارا اور دیوبندیوں کا اختلاف نہ رہا کیونکہ وہ بھی بعض علوم غیبیہ حضور ﷺ کے لئے ثابت کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کا بعض بہت ہی کم ہے اور ہمارا بعض ان کے مقابلہ میں بہت زیادہ لیکن مطلق بعض علوم غیبیہ حضور ﷺ کے لئے ماننے میں ہم اور وہ دونوں شریک ہیں جیسا کہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی عبارت تغییر العنوان سے ہم عرض کر چکے ہیں۔
اس تفصیل کو سمجھ لینے کے بعد گزارش ہے کہ آیات نفی علم غیب جس طرح ہمارے مسلک کے خلاف ہیں بالکل اسی طرح دیوبندیوں کے بھی خلاف ہیں۔ اپنے مذہب کو صحیح کرنے کے لئے جو جواب دیوبندی دیں گے ہماری طرف سے بھی وہی جواب سمجھ لیں۔
اب اس جواب کی تفصیل سن لیجئے۔ آیاتِ نفی علم غیب نفی علم بالاستقلال یا علم محیط غیر متناہی پر محمول ہیں ورنہ آیاتِ قرآنیہ میں تعارض ہو گا کہ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ وہ (محمد ﷺ) علم غیب پر بخیل نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے غیب خاص پر مطلع فرماتا ہے اور تمہیں غیب پر اطلاع نہیں دیتا لیکن اطلاع علی الغیب کے لئے اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے اور دوسری جگہ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیب کا علم بھی کسی کو نہیں۔ یہ صاف تعارض و تناقض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ایسے اختلاف اور تعارض و تناقض سے پاک ہے۔ بلکہ قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے پر دلیل یہ ہے کہ اس میں اختلاف و تناقض نہیں پایا جاتا۔
قال اللّٰہ تعالٰی وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا
’’اگر قرآن مجید غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘
اب ہم اپنے اس دعوے پر کہ آیات نفی میں علم استقلالی اور علم محیط الکل حقیقی کی نفی غیر اللہ سے کی گئی ہے، مفسرین و علماء راسخین کی تصریحات پیش کرتے ہیں۔ تفسیر نیشا پوری میں ہے
لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الا اللّٰہ۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو علم غیب بالاستقلال (بذاتِ خود) ہو وہ اللہ کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ تفسیر انموذج جلیل میں ہے
معناہ لا یعلم الغیب بلا دلیل الا اللّٰہ اوبلا تعلیم الا اللّٰہ او جمیع الغیب الا اللّٰہ۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ غیب کو بلا دلیل و بلا تعلیم یا جمیع غیب غیر متناہی کو محیط ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ جامع الفصولین میں ہے
یجاب بانہ یمکن التوفیق بان المنفی ہو العلم بالاستقلال لا العلم بالاعلام والمنفی ہی المجزوم بہ لا المظنون۔ الخ
یعنی آیات نفی علم غیب عن غیر اللہ تعالیٰ و آیات ثبوت علم غیب بغیر اللہ تعالیٰ میں اس طرح توفیق (تطبیق) ممکن ہے کہ آیات نفی علم بالاستقلال یعنی علم ذاتی پر محمول ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بھی کسی کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ علم جس کے ساتھ جزم کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور جو ظنی ہو وہ بغیر وحی و الہام کے غیر اللہ کو بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظن سے پاک ہے اور غیب کا یقینی علم اس کی طرف سے وحی و الہام کے بغیر ناممکن ہے۔
امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفاء شریف میں اور علامہ شہاب الدین خفا جی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں
(ہٰذہ المعجزۃ) ... فی اطلاعہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الغیب (معلومۃ علی القطع) بحیث لا یمکن انکارہا او التردد فیہا لاحد من العقلاء ... لکثرۃ رواتہا واتفاق معانیہا علی الاطلاع علی الغیب وہٰذا لا ینا فی الاٰیۃ الدالۃ علی انہ لا یعلم الغیب الا اللّٰہ وقولہ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ فان المنفی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باعلام اللّٰہ تعالٰی لہ فامر متحقق لقولہٖ تعالٰی فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ط
یعنی ’’حضور ﷺ کا معجزہ علم غیب یقینا ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردد کی گنجائش نہیں کہ اس کے ثبوت میں احادیث کثیرہ وارد ہوئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ آیت کہ اے اللہ کے رسول کہہ دو اگر میں علم غیب جانتا تو بہت خیر جمع کر لیتا۔ اس قسم کی تمام آیتیں حضور ﷺ کے معجزہ علم غیب کے اس لئے منافی نہیں کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بغیر بتائے ہو اور اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی ﷺ کو علم غیب ملنا تو قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔‘‘
رد المحتار میں صاحب ہدایہ کی مختارات النوازل سے منقول ہے۔
لوادعی الغیب بنفسہٖ یکفر
’’اگر کوئی شخص بذاتِ خود (علم) غیب حاصل کر لینے کا دعویٰ کرے تو کافر ہے۔‘‘
بعض لوگ حضور ﷺ کے علم غیب کی نفی میں فتاویٰ قاضی خان کی وہ عبارت پیش کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نکاح کا گواہ بنا کر نکاح کیا تو وہ کافر ہے اس لئے کہ اس نے حضور ﷺ کے لئے علم غیب مانا۔ اس کا جواب شامی میں اس طرح مذکورہے۔ (ص ۳۸۰ ج ۲)
قال فی التاتار خانیۃ وفی الحجۃ ذکر فی الملتقط انہ لا یکفر لان الاشیاء تعرض علٰی روح النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وان الرسل یعرفون بعض الغیب وقال اللّٰہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ا ھ قلت بل ذکروا فی کتب العقائد ان من جملۃ کرامات الاولیاء الاطلاع علٰی بعض المغیبات وردوا علی المعتزلۃ المستدلین بہٰذہ الاٰیۃ علٰی نفیہا۔
یعنی ’’فتاویٰ تاتار خانیہ اور حجت میں فرمایا کہ ملتقط میں ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو نکاح میں گواہ بنانے والا کافر نہ ہوگا اس لئے کہ اشیاء حضور ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں پیش کی جاتی ہیں اور بے شک رسولوں کو (علوم الٰہیہ غیر متناہیہ کا) بعض علم (متناہی) حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنے غیب پر سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔ (علامہ شامی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ ائمہ اہل سنت نے کتب عقائد میں ذکر فرمایا کہ بعض علم غیب کا ہونا اولیاء اللہ کی کرامت سے ہے (اور معتزلہ نے اس آیت سے اولیاء کے علم غیب کا انکار کیا) ائمہ اہل سنت نے ان کا رد فرمایا کہ آیت کریمہ میں غیب خاص کا ذکر ہے جو غیر رسول کو نہیں دیا جاتا۔ یا یوں کہیئے کہ بواسطۂ رسول کسی کو علم غیب حاصل ہونے کی نفی آیۂ کریمہ میں نہیں ہے۔‘‘
تفسیر جمل شرح جلالین اور تفسیر خازن میں ہے
المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اللّٰہ تعالٰی
یعنی ’’آیۂ کریمہ میں جو ارشاد ہوا کہ فرما دو میں غیب نہیں جانتا اس کے معنی یہ ہیں کہ بے خدا کے بتائے نہیں جانتا۔‘‘
یہاں تک ہم نے ائمہ تفاسیر اور علماء راسخین معتمد علیہم کی تصریحات نقل کر کے ثابت کر دیا کہ نفی علم غیب کی آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر بتائے کسی کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا۔ نیز یہ کہ کل علم غیر متناہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے وہ کسی کے لئے ثابت نہیں اور آیاتِ ثبوت علم غیب کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے اللہ کے رسولوں کو علم غیب حاصل ہے۔ نیز یہ کہ انبیاء علیہم السلام کا علم خواہ وہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور مخلوقات کے جمیع احوال کو محیط ہو (جیسا کہ حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا علم ہے) لیکن اس کے باوجود بھی وہ متناہی بالفعل اور محدود ہے۔ علم الٰہی کے مساوی ہرگز نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ حضور ﷺ کا خطاب جب عوام کی طرف ہوتا ہے تو ان سے حضور ان کی عقول کے مطابق ہی کلام فرماتے ہیں۔ اس لئے اس کو ظاہر پر محمول کرنا اور دوسرے دلائل سے قطع نظر کر لینا مرد عاقل کے شایانِ شان نہیں۔ تفسیر نیشا پوری میں ہے
قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ لم یقل لَیْسَ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ لیعلم ان خزائن اللّٰہ وہی العلم بحقائق الاشیاء وماہیاتہا عندہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قولہ ارنا الاشیاء کما ہی ولٰـکنہ یکلم الناس علٰی عقولہم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم وہٰذا مع انہ قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمت ما کان وما یکون مختصرا۔
یعنی ’’ارشاد ہوا کہ اے نبی فرما دو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں (بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں) تاکہ معلوم ہو جائے اللہ تعالیٰ کے خزانے حضور اقدس ﷺ کے پاس ہیں (مگر حضور لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں بیان فرماتے ہیں) اور وہ خزانے کیا ہیں؟ ’’تمام اشیاء کی ماہیئت و حقیقت کا علم‘‘ حضور ﷺ نے اس کے ملنے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ پھر فرمایا
’’اور میں غیب نہیں جانتا‘‘ یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے۔ ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں کہ مجھے ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم ملا۔ یعنی جو کچھ گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے۔ (انتہیٰ)
علامہ نیشا پو ری کے اس نورانی بیان سے منکرین کے واہی شکوک و اوہام کا اچھی طرح قلع قمع ہو گیا۔ والحمد للّٰہ علٰی احسانہٖ۔
اس مضمون کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ منکرین کے بعض شبہات جو اس مسئلہ میں وہ پیش کرتے ہیں خوب تفصیل سے زائل کئے جاتے۔ لیکن قصداً اختصار کے باوجود مضمون طویل ہو گیا اس لئے بسط و تفصیل کی گنجائش نہیں مگر اجمالاً ان کے تمام شکوک کا ازالہ مختصر عبارت میں کرتا ہوں۔ اگر غور سے کام لیا گیا تو ان شاء اللہ العزیز یہ اجمال ہی تفصیل کا کام دے گا۔
پہلا شبہ یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کو تمام مخلوق کے جمیع احوال کا علم تھا۔ بعض حالات میں حضور ﷺ نے لاعلمی کا اظہار کیوں فرمایا؟ یا ایسے کام کیوں کئے جن سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے؟
مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے معاملہ میں حضور ﷺ نے لاعلمی ظاہر فرمائی۔ یا حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہار کا واقعہ عدم علم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح خیبر میں ایک یہودیہ کا بکری کے شانہ میں زہر ملا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دینا اور حضور کا اس میں سے کچھ کھا لینا، اسی طرح ستر قاریوں کا کفار کے ساتھ بھیجنا اور ان کی شہادت کا واقعہ وغیرہ جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں نہیں۔
از قلم حقیقت رقم قبلہ استاذی المکرّم غزالی زماں سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ پیش کش ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔