وہ جو اپنے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کےلیئے جان سے گذر گئے ۔ ان کی عظمت کو بے حد و حساب سلام ہو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔فرمانِ نبویہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہ کے ساتھ ماں،باپ ،اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہیکہ نبی کریم کی ذات گرامی سے محبت وتعلق کیبغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔
ہر دو ر میں اہل ایمان نے آپ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپکی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسولکے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پوری تیاری کے ساتھ روانہ کر کے۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاء4 علیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے۔ رسوائی مقدر بن جائے گی۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں۔
(( ان الذین یوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والآخرواعد لھم عذابا مھینا )) ( 33/احزاب 57 ) ’’ بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
گستاخ رسول ابولہب سے لے کر سلمان تاثیر تک جتنے بھی گستاخ رسول گذرے ہیں انہیں وقت کے مرد مجاہدوں نے کیفر کردار تک پہنچا کر جہنم رسید کیا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سرکار دوجہاں کی محبت انسان کیا جانوروں نے بھی حضور ﷺ سے محبت کا ثبوت پیش کیا۔یہ بات قابل غور ہے کہ مسلمان چاہے وہ کتنابھی گناہ گار کیوں نہ ہو،شرابی ہو،جواری ہو،زانی ہو مگر جہاں حضور کی شان میں کسی گستاخ نے اپنی بدزبانی کی وہاں وہ گنہ گار مسلمان کو ہرگز یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی اس کے رسولﷺ160کے بارے میں کچھ کہے۔
ایک شرابی میخانہ میں شراب پی رہا تھا۔بازو کے ٹیبل سے کسی نے حضور کی شان گستاخی کی اور بے ہودہ جملے اور گالیاں دی۔مسلمان شرابی کے کان میں جیسے ہی وہ بے ہودہ کلمات پڑے اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شراب کی بوتل اس گالیاں بکنے والے کے سر پر دے ماری اور اسکا قتل کردیا او رکہا کہ ہم ا?ج اس شراب خانہ میں نہیں آئیں گے جہاں ہمارے حضورﷺکو گالیاں دی جاتی ہیں۔
میں قارئین کو کچھ مرد مجاہد عاشق رسول کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح انہوں نے اپنی جان پر کھیل کرگستاخ رسول کو ٹھکانے لگایا اور جنت کے حقدار بنے۔مگر میں یہ سوال بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان گستاخ رسول مکار کمینے سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین اور حرامی کملیش تیواری کو اس جمہوری ملک میں کون کیفر کردار تک پہنچائے گا۔
کتے کا پادری پر حملہ:ایک عیسا ئی پادری نے اپنی تقریر شروع کرتے ہی پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں گستاخی شروع کردی۔ اتفاق سے وہاں قریب ہی ایک تاتارخانی سپاہی کا شکاری کتابندھا ہوا تھا۔ اس کتے کے کان میں جب پادری کے الفاظ پڑے تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ سخت طیش میں آگیاہے اور پھر اس نے اپنی رسی چھڑاکر پادری پر حملہ کردیا۔لیکن عین اسی لمحے لوگ آگے بڑھے ،پادری کو اس عذاب سے خلاصی دلائی اور کتے کو دوبارہ باندہ دیاگیا۔یہ صورت حال دیکھ کر بعض لوگوں نے پادری سے کہاکہ تم نے ایک قابل احترام ہستی کے بارے میں نازیباباتیں کہیں، اس لئے کتے نے تم پر حملہ کردیا۔لیکن اس بدبخت کا اصرارتھاکہ میں چونکہ تقریرکے دوران اشارے کر رہاتھا، اس لئے کتایہ سمجھاکہ میں اس پر حملہ ا?ور ہونے لگاہوں۔بس اس لیے اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ یہ کہ کر پادری نے دوبارہ اپنی تقریر شروع کردی اور کچھ دیر بعد پھر رسول کی شان میں نازیباالفاظ کہناشروع کردیے۔ کتے نے دوبارہ وہ الفاظ سنے تو وہ پھر طیش میں آگیا۔اور اس نے اپنی رسی چھڑائی اور اس بد بخت پر حملہ آور ہوگیا۔ اب کی بار کتے نے اس کی گردن کو دبوچ لیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ وہ بدبخت انسان تڑپ تڑپ کر مر نہیں گیا۔تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی گستاخی کرنے والے سے قدرت کا یہ انتقام دیکھ کر وہاں موجود چالیس ہزار افراد نے فورًااسلام قبول کر لیا۔
شہید عبدالقیوم:نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نا زیبا تبصرہ کیا۔مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیا، مگر نتیجہ صفر رہا۔ ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ مذبوحی حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقوسے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کیلئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرواسکتے ہیں۔ علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:’’ جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کیلئے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔‘
غازی عبدالرشیدشہید:شرد ہانند رسوائے زمانہ شدھی تحریک کا بانی اور ہندو مسلم فساد کا داعی تھا۔ اس کا اصل نام منشی رام تھا اور وہ مسلمانوں کے خلاف فرنگی سازشوں کا ا?لہکار تھا۔ تحریک خلافت کے زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی جو فضا برسوں کے اندر پیدا ہوئی تھی، شردھا نند اور اس کے چیلوں نے چند مہینوں میں اسے نفرت و انتشار میں بدل دیا۔ یہ لوگ گاؤں گاؤں پھیل گئے اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے لگے۔ حد یہ کہ ان لوگوں نے براہ راست ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے شروع کر دیئے۔ شردھانند کے ایک چیلے نے ’’جڑپٹ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں اس قدر سخت گستاخیاں بالکل عریاں الفاظ میں کی تھیں کہ اس خباثت کا تصور بھی مشکل ہے۔
شردھانند کی لگائی ہوئی آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی اور جاں نثار ان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل تڑپ رہے تھے۔ بگراس ضلع بلند شہر (یوپی) سے ایک نوجوان عاشق رسول ?اٹھا اور اس نے رسالت ما?ب ?پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرنے والے اس گروہ کے سرغنہ کا قصہ پاک کرنے کی ٹھان لی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پروانہ غازی عبدالرشید تھا۔ ایک غریب مگر معزز گھرانے کا یہ فرزند جس کی خوش قسمتی پر کائنات ہمیشہ ناز کرے گی، دہلی سے افغانستان روانہ ہوا، اور وہاں سے ایک پستول خرید کر لوٹ ا?یا۔ 17 دسمبر 1926ء4 کو شردہانند دہلی میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ غازی عبدالرشید ریوالور لے کر دن دہاڑے اس کے اشرم میں جا پہنچا۔ پستول نکالی اورچھ گولیاں اس ملعون کے سینے میں پیوست ہو گئیں اور یوں بیسیویں صدی کے ایک بہت بڑے فتنے کی کہانی اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گئی۔شرد ہانند کے قتل کے جرم میں عدالت نے غازی عبدالرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے اپنے اس قابل فخر سپوت کو ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب سے نوازا۔
غازی محمد عبداللہ شہید :1943ء4 کے اوائل میں پاکستان کے شہر شیخوپورہ کے ایک بدبخت سکھ چلچل سنگھ نے سرورکونین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ناپاک جسارت کی۔ غازی محمد عبداللہ کو اس بدبخت کا منہ بند کردینے کی بشارت ہوئی۔ آپ نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ وہ وارث شاہ کے گاو?ں جنڈیالہ شیر خان میں رہتا ہے۔ آپ اس گاو?ں پہنچے جو کہ سکھوں کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ بستی کے قریب پہنچ کر مزید معلوم ہوا کہ وہ اپنے کنویں پر موجود ہے۔ آپ جب اس کنویں پر پہنچے تو اس وقت سکھوں کا ایک جتھہ وہاں موجود تھا۔ آپ نے پہلی نظر میں اس بدبخت کو پہچان لیا اور اس تیزی سے اس پر جھپٹ کر حملہ کیا کہ اس کو سنبھلنے کا موقع بھی نامل سکا۔ آپ نے اس ملعون کی شہ رگ کاٹ کر اس کو جہنم رسید کردیا۔ اس کے قریب موجود تمام سکھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ غازی نے اس کے بعد سجدہ شکر ادا کیا کہ اللہ نے اس مہم کو کامیاب بنا کر ان کو سرخرو کیا۔ موقع واردات پر جب پولیس پہنچی تو دیکھا کہ یہ مرد مجاہد وہیں موجود تھا۔ پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا اور مقدمہ سیشن کورٹ میں پیش ہوا۔ شیخوپورہ کے معروف وکیل ملک انور نے مقدمہ کی پیروی کی۔ غازی کے اعتراف جرم کے باعث عدالت نے آپ کو سزا ئے موت کا حکم سنایا جس کو سن کر آپ سجدہ شکر بجا لائے کہ آپ کو شہدائے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں جگہ مل رہی ہے جس پر جتنا بھی فخر و غرور کیا جائے کم ہے۔
غازی علم الدین شہید:ایسے ہی خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اْن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا: ’’اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تیتَرکھاناں دَا مْنڈا بازی لے گیا‘‘(ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔)
علم الدین کو جب معلوم پڑا کہ راجپال نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہیں رہا نہیں گیااپنے والد سے اس کمینے کا ذکر کیااور بے چینی کے عالم میں سوگئے۔اْس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ’’تمہارے نبیکی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔‘‘ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے(انکے دوست) کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔اور پھر موقع پاکر پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو۔ مارگیا مارگیا۔ علم دین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ء4 کو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر1929ء4 کو عمل درآمد ہوا۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپردِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آج ایسے ہی عاشق رسول اور امت کے جیالوں اور مرد مجاہدکی ضرورت ہے کہ وہ گستاخ رسول سلمان رشدی،تسلیمہ نسرین،اور کملیش تیواری کو جہنم رسید کریں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جمہوری ملک میں اس پر کون لگام کسے گاکون اسے جہنم رسید کرے گا۔مگر گذشتہ میں جن گستاخ رسول کو ٹھکانے لگانے والوں نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا تھا بس انہیں اللہ اور اسکے رسول کی محبت نظر آرہی تھی اور وہ اسی کے دیوانے تھے۔میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ امت میں ایسے مرد مجاہد پیدا کریا ہم میں سے موجود نوجوانوں کووہ طاقت دے کہ وقت کے فرعونوں اورگستاخ رسول کو جہنم رسید کریں۔ ہم اپنے آقا کی حرمت و ناموس کا انتقام لینے کے لیے اگراور کچھ نہیں کر سکتے تو آیئے ! سب مل کر یہ دعا ہی کر لیں۔۔۔۔۔۔’’اے اللہ ! ان گستاخوں میں سے ہر ایک پر اپنے کتوں میں سے ایک ایک کتامسلط فرما‘‘۔(آمین ثم آمین)
بولا چالا معاف کرا۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔دعاؤں کی درخواست۔
گستاخ رسول اور ان کو جہنم رسید کرنے والے کچھ شہداء او رعاشق رسول کے نام پیش ہیں
گستاخِ رسول"ابی بن خلف" حضورکے ہاتھوں ۳ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"بشر منافق" حضرت عمرکے ہاتھوں۳ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"اروہ(ابو لہب کی بیوی)" کا فرشتے نے گلا گھونٹ دیا۔
گستاخِ رسول"ابو جہل" دو ننھے مجاہدوں معاذو معوذکے ہاتھوں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"امیہ بن خلف" حضرت بلالکے ہاتھوں ۲ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"نصر بن حارث" حضرت علیکے ہاتھوں۲ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"عصما(یہودی عورت)" ۱ نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدیکے ہاتھوں ۲ ہجری میں قتل ہوئی۔
گستاخِ رسول"ابو عفک" حضرت سالم بن عمرکے ہاتھوں ۳ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"کعب بن اشرف" حضرت ابو نائلہکے ہاتھوں ۳ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"ابورافع" حضرت عبداللہ کے ہاتھوں ۳ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"ابوعزہ جمع" حضرت عاصم بن ثابتکے ہاتھوں ۳ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"حارث بن طلال " حضرت علیکے ہاتھوں ۸ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"عقبہ بن ابی معیط" حضرت علیکے ہاتھوں۲ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"ابن خطل" حضرت ابو برزہ کے ہاتھوں ۸ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"حویرث نقید" حضرت علی کے ہاتھوں ۸ ہجری میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"قریبہ (گستاخ باندی)" فتح مکہ کے موقع پر قتل ہوئی۔
۱ گستاخ شخص (نام معلوم نہیں) خلیفہ ہادی نے قتل کروا دیا۔
گستاخِ رسول" ریجی فالڈ (عیسائی گورنر)" سلطان صلاح الدین ایوبی ?کے ہاتھوں قتل ہوا۔
"یولو جیئس پادری" فرزند ابو عبدالرحمن اندلس کے ہاتھوں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"راجپال" غازی علم دین شہید کے ہاتھوں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"نتھورام" غازی عبدالقیوم شہید کے ہاتھوں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"ڈاکٹر رام گوپال" غازی مرید حسین شہیدکے ہاتھوں ۶۳۹۱ میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"چرن داس" میاں محمد شہید کے ہاتھوں ۷۳۹۱ قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"شردھا نند" غازی قاضی عبدالرشید کے ہاتھوں ۶۲۹۱ میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"چنچل سنگھ" صوفی عبداللہ شہید کے ہاتھوں ۸۳۹۱میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"میجر ہردیال سنگھ" بابو معراج دین شہید کے ہاتھوں ۲۴۹۱ میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"عبدالحق قادیانی" حاجی محمد مانک کے ہاتھوں ۷۶۹۱ میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"بھوشن عرف بھوشو" بابا عبد المنان کے ہاتھوں ۷۳۹۱ میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"چوہدری کھیم چند" منظور حسین شہیدکے ہاتھوں ۱۴۹۱ میں قتل ہوا۔
گستاخِ رسول"نینو مہاراج" عبد الخالق قریشی کے ہاتھوں ۶۴۹۱ میں ہاتھوں قتل ہوا۔
"لیکھرام آریہ سماجی" کسی نامعلوم مسلمان کے ہاتھو قتل ہوا
گستاخِ رسول "ویر بھان" بھی کسی نامعلوم مسلمان کے ہاتھوں ۵۳۹۱ میں قتل ہوا
577 ہجری میں 2 گستاخ رسول نصرانی سلطان نوالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھوں مدینہ شریف میں قتل ہوے۔ جو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور تک سرنگ کھود کے قبر مبارک کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جس کی خبر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب میں سلطان نورالدین زنگی کو دی۔
20 مارچ 2006 کو جرمنی کے شہر برلن میں گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے ڈائی ویلٹ اخبار کے چیف ایڈیٹر کو عامر چیمہ شہید نے خنجر کے پے درپے وار کرکے واصل جہنم کیا
4 جنوری 2011 کو گستاخ رسول سلمان تاثیر گورنر آف پنجاب کو غازی ممتاز قادری نے 27 گولیاں داغ کے واصل جہنم کیا۔
۹؍جنوری۵۱۰۲،فرانس،میں چارلی ہیبڈو کے گستاخانہ خاکے بنانے والوں کو کوچی برادران، ایمیڈی کالی بیلی اورحیات باؤمیڈینی نے جہنم رسید کیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔