ضرورتِ توحید : استاذی المکرّم غزالی زماں حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ پیشکش ڈاکٹر فیض احمد چشتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس عنوان کے دو جزو ہیں ’’ضرورت اور توحید‘‘۔ یہاں ’’ضرورت‘‘ سے انسانی احتیاج مراد ہے اور ’’توحید‘‘ سے توحید خداوندی۔ گویا ہمیں اس وقت یہ سمجھنا ہے کہ انسان وحدانیت خداوندی کو تسلیم کرنے کا محتاج ہے۔
بحث کے دو بنیادی نکتے : توضیح عنوان کے بعد بحث کے دو بنیادی نکتے متعین ہو کر ہمارے سامنے آ گئے۔
(۱) انسان اور اس کی احتیاج (۲) خدائے قدوس اور اس کی وحدانیت
پہلا بنیادی نکتہ : ان دونوں بنیادی نکتوں کو ذہن نشین کرنے کے بعد اصل مقصد بخوبی واضح ہو سکے گا۔ اجزاء بحث کی ترتیب کے لحاظ سے ہم اپنی گفتگو کا آغاز جزو اول سے کرتے ہیں۔
انسان : اس وقت ہمارے سامنے انسان کی حقیقت اور ماہیت نہیں بلکہ اس کا ایسا واضح تصور لانا مقصود ہے جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ہماری بحث کا بنیادی نقطہ قرار پا سکے اور وہ یہ کہ انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے ’’جسم اور روح‘‘۔
جسم : جسم مرکب ہے اور اس کے اجزاء عناصر اربعہ ہیں۔ اس لئے عالم اسباب میں وہ اپنی درستی اور بقا کے لئے عناصر اور ان کے مرکبات کا ہی محتاج ہو سکتا ہے۔ چنانچہ یہ امر محتاجِ بیاں نہیں کہ انسان کی تمام حاجات بدنیہ عالم عناصر و موالید میں منحصر ہیں لیکن روح بسیط ہے اور اس کا تعلق براہِ راست بارگاہِ قدس سے ہے۔ لہٰذا اس کی حاجات کا مرکز بھی بارگاہِ قدس ہی ہو سکتی ہے۔ اب ان حاجات پر غور کیجئے۔
روح : روح کی سب سے پہلی اور بنیادی حاجت قربِ خداوندی اور وصول الی اللہ ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے مظاہر میں سب سے اعلیٰ مظہر ہے اور اس کی اصل فطرت میں خدا کی معرفت کا جوہر لطیف موجود ہے۔
جوہر انس : عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح و نفوس بنی آدم کو جمع کر کے فرمایا ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ (کیا میں تمہارا رب نہیں؟) سب نے جواب دیا ’’بَلٰی‘‘ (کیوں نہیں، تو ضرور ہمارا رب ہے) ہر ایک کا بلا تامل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معرفت الٰہیہ کا جوہر مقدس بلا استثنیٰ ہر ایک کے اندر موجود تھا۔ ادنیٰ تامل سے یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ یہی جوہر ارواح بنی آدم میں انس کا مبداء ہے جس کی وجہ سے انسان کو انسان کہا جاتا ہے۔
تلاشِ رب : اللہ تعالیٰ کی محبت اور انس کے اس لطیف جذبہ کو لئے ہوئے جب روحِ انسانی اس بارگاہِ قدس سے اس عالم اجسام میں آئی تو اس کا وہ جذبہ ابھرا اور اس نے اسی کو تلاش کیا جس کی ربوبیت کا اقرار کر کے آئی تھی۔
جذبہ : جذبہ محبت ایسی چیز ہے کہ جب تک لقاء محبوب نہ ہو محب کو اطمینان نہیں ہونے دیتا۔ جس طرح بھوک پیاس کی حالت میں کھانا اور پانی ملے بغیر آدمی کو چین نہیں آتا اسی طرح روحِ انسانی کو بھی بارگاہِ ربوبیت میں رسائی کے سوا کسی حال میں سکون نہیں ملتا۔ روحِ انسانی اسی عالم میں دیوانہ وار خالق کائنات کی تلاش میں اٹھی۔ مگر افسوس! ارواحِ سعداء کے سوا ہر روح نے ٹھوکر کھائی اور ذریعہ تلاش غلط ہونے کی وجہ سے رب تعالیٰ سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتی چلی گئی۔
مظاہر کائنات کی پرستش : یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ تغیرات عالم کے پیش نظر ایک مؤثر کے وجود کو تسلیم کرنے پر ایک دہریہ بھی مجبور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجد کائنات کے ساتھ ہر فرد بشر کا ایک طبعی تعلق ہے اور یہی تعلق اس کی فطرت میں تلاشِ حق کے تقاضے کا اصل منشاء ہے۔ اسی کو پورا کرنے کے لئے لوگوں نے مظاہر کائنات کی پرستش کی لیکن جس طرح سراب سے آب کا تقاضا پورا ہونا ناممکن ہے اسی طرح مظاہر کائنات کی پرستش سے خالق کائنات کی معرفت کے مقتضائے طبعی کی تکمیل ممکن نہیں لہٰذا جس خدائے قدوس نے ہمارے جسمانی تقاضوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جسمانی اسباب مہیا کئے تھے اسی نے روحانی حاجات و مقتضیات کی تکمیل کے لئے روحانی اسباب کا ایک زبردست اور مضبوط نظام قائم کیا جس کا نام سلسلۂ نبوت و رسالت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر اختتام پذیر ہوا۔
دوسرا بنیادی نکتہ : اس بیان سے ہماری بحث کا پہلا بنیادی نکتہ ناظرین کرام کے ذہن نشین ہو گیا ہو گا۔ اب ہم دوسرے نکتے کی طرف آتے ہیں اور اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے اختصار کے ساتھ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام سے قبل لوگوں کے عقائد وجودِ باری اور توحید خداوندی کے بارے میں کیا تھے؟
مسئلہ توحید میں مختلف گروہ : اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہماری نظر دہریوں پر پڑتی ہے جو وجودِ خالق کے منکر تھے لیکن دہر کو مؤثر مانتے تھے۔ قرآن مجید نے ان کے قول کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ’’اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِلاَّ الدَّھْرُ‘‘ (جاثیہ) چونکہ وجودِ خالق کا انکار جزا و سزا کے انکار کو مستلزم ہے اس لئے یہ گروہ وجودِ خالق کے ساتھ جزا و سزا کا بھی منکر تھا۔
دہریوں کے بعد دوسرے چار گروہ : دوسرا گروہ وہ تھا جو وجودِ خالق کو مانتا تھا لیکن بعث و نشور کا منکر تھا۔ اس کا ذکر بھی قرآن مجید کی متعدد آیات میں وارد ہے۔ یہ سب لوگ نبوت اور رسالت کے منکر تھے۔ ان میں ایک گروہ ایسا بھی پایا جاتا تھا جو فرشتوں اور جنات کے وجود کا قائل تھا اور ایک گروہ ان کی پرستش کرتا تھا۔ ایک گروہ وہ جو ان کا منکر تھا اور بتوں کی پرستش کرتا تھا۔ عرب کے طاقتور قبائل اصنام پرست تھے۔ ان میں بعض لوگ بت پرستی میں اتنے راسخ تھے کہ صرف حضر میں نہیں بلکہ سفر میں بھی اپنے باطل معبودوں کو ساتھ رکھتے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔
مشرکین کا عقیدہ : مشرکین جو امور عظام میں اللہ تعالیٰ کو متصرف مانتے تھے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض عبادِ صالحین کو الوہیت عطا فرما دی۔ لہٰذا وہ تمام مخلوق کے معبود ہونے کے مستحق ہو گئے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو وہ اس وقت تک مقبول نہیں ہو سکتی جب تک کہ ان عبادِ صالحین کی عبادت کے ساتھ مضموم نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ تو انتہائے بلندی میں ہے اس لئے اس کی مخصوص عبادت بے کار ہے۔ عبادت ان ہی صالحین کی کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب ہیں تاکہ ان کی برکت سے ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب ہو سکیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ہمارے یہ معبود سمیع و بصیر ہیں اور ہماری امداد و نصرت کرتے ہیں۔ انہوں نے ان ہی کے نام پر پتھر گھڑ لئے تھے اور جب وہ اپنے معبودوں کی طرف رُخ کرتے تو اپنی توجہ کا قبلہ ان پتھروں کو بنا لیتے تھے۔ ان کے پیچھے آنے والوں نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ ان پتھروں اور انسانوں میں کتنا بڑا فرق ہے اور انہوں نے ان پتھروں ہی کو اپنا معبود بنا لیا۔
عرب میں صابی : صابیوں کا بھی ایک گروہ عرب میں پایا جاتا تھا جو کواکب پرست تھا۔ یہ لوگ ستاروں کی معبودیت اور ان کی مؤثریت عظیمہ کے قائل تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کواکب کے لئے نفوس مجردہ عاقلہ ہیں جو انہیں حرکت پر آمادہ رکھتے ہیں اور وہ اپنے عابدوں کی عبادت سے غافل نہیں لہٰذا وہ ان کے نام پر مورتیاں بنا کر پوجتے تھے۔
عرب میں مجوسی : بعض عرب مجوسیوں کی طرف میلان رکھتے تھے کیونکہ ایک عرصہ سے یمن اور عراق میں ایرانیوں کی سلطنت تھی جو مجوس اور آتش پرست تھے۔
عرب میں یہودی و نصاریٰ : عرب میں یہودیوں کا بھی ایک گروہ تھا اور نصرانی بھی بکثرت پائے جاتے تھے۔ یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے تھے کہ مسیح علیہ السلام ابن اللہ ہیں اور ان میں سے بعض کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام میں حلول کیا ہے اور بعض تثلیث کے قائل تھے۔
اسلام سے پہلے مکہ میں خدا اور یوم آخر پر ایمان : اسلام سے قبل مکہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک رسول کو مبعوث فرمائے گا مگر یہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔
قرآن مجید میں مشرکین کا رد : وجودِ باری کے متعلق جن لوگوں کو قبل اسلام اہل عرب کے ان عقائد کا علم ہے وہ قرآن مجید کی روشنی میں بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تمام عقائد باطلہ کا کس خوبی کے ساتھ مصلحانہ انداز میں رد فرمایا اور کمال اختصار و جامعیت کے ساتھ ان جاہلانہ نظریات کی تردید بلیغ فرمائی۔ ہم اطالت کلام سے بچنے کے لئے صرف اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔