*غوثِ اعظم کون؟؟؟*
حضرت محبوبِ سبحانی قطبِ ربانی غوثِ صمدانی شاہ محی الدین حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ العزیز سلطان الفقر سوم کے مرتبۂ عالیہ پر فائز و متمکن ہیں۔ آپؓ کی ذاتِ والا صفات کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ دنیائے ظاہر و باطن اور عالمِ غیب و الشہادت میں آفتابِ عالمتاب سے زیادہ مشہور اور معروف ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے مناقب آسمان کے ستاروں اور ریت کے ذروں سے زیادہ ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہٗ یکم رمضان المبارک 470ھ (1078ء) بروز جمعتہ المبارک عالمِ وحدت سے عالمِ ناسوت میں تشریف لائے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے والد ماجد حضرت سیّدنا ابو صالح موسیٰ جنگی رحمتہ اللہ علیہ حسنی اور والدہ ماجدہ اُم الخیر سیّدہ فاطمہ رحمتہ اللہ علیہا حسینی سیّد ہیں گویا آپ رضی اللہ عنہٗ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔ آپؓ کو ہر دو حسبی اور نسبی طور پر فقر کا مرتبہ بدرجۂ اتم عطا ہوا اور حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پورے طور پر آپؓ کے وجودِ مسعود میں جلوہ گر ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ اپنے جد مبارک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقیقی نائب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جملہ ظاہری و باطنی اوصاف سے متصف اور جملہ اخلاق سے متخلق تھے۔ ولایت کے آثار اور فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انوار بچپن سے ہی جبینِ مبارک سے ہویدا تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ رمضان المبارک کے مہینہ کی چاند رات کو پیدا ہوئے۔ دن کے وقت مطلق دودھ نہ پیتے تھے صرف سحری کے وقت اور افطار کے بعد والدہ ماجدہ کا دودھ پیتے تھے۔ ولادت کے دوسرے سال ابر کی وجہ سے رویتِ ہلال کے متعلق کچھ شبہ پڑ گیا اس دن شعبان کی انتیس تاریخ تھی۔ دوسرے دن جب غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے دودھ کو مطلقاً منہ نہ لگایا تو آپؓ کی والدہ سمجھ گئیں کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے چنانچہ انہوں نے لوگوں کو یہ خبر سنائی اور بعد میں معتبر شہادتوں سے اس بات کی تصدیق ہو گئی۔ آپؓ کے صاحبزادے شیخ عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے دریافت کیا گیا کہ آپؓ کو اپنے ولی ہونے کا علم کب ہوا؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ جب میں دس برس کا تھا اور اپنے شہر کے مکتب میں جایا کرتا تھا تو فرشتوں کو اپنے پیچھے اور اردگرد چلتے دیکھتا تھا اور جب مکتب میں پہنچ جاتا تو وہ بار بار یہ کہتے کہ ''اللہ کے ولی کو بیٹھنے کے لیے جگہ دو''۔ اسی واقعہ کو بار بار دیکھ کر میرے دل میں احساس پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درجۂ ولایت پر فائز کیا ہے۔
اپنے اعلیٰ ترین مرتبہ سے آگاہی کے باوجود سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے اللہ کی راہ میں شدید کوشش اور جدوجہد کی، قربِ الٰہی کے لیے سخت ریاضت کی اور جو نفس پہلے ہی مغلوب تھا اسے اپنے اور اللہ کے درمیان سے ہٹانے کے لیے ایسا مجاہدہ کیا کہ اس کے بیان سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے اللہ کا عطا کردہ مرتبہ ایسے ہی حاصل نہ کر لیا بلکہ اسے باقاعدہ جدوجہد سے کمایا۔ اللہ کی محبت میں جس قدر مصائب و مجاہدات آپ رضی اللہ عنہٗ نے برداشت کیے وہ کسی اور ولی کے بس میں ہی نہ تھے اور اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہٗ کا قدم مبارک ہر ولی کی گردن پر ہے اور تمام اولیاء آپ رضی اللہ عنہٗ کے سامنے اپنی گردن جھکاتے ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہٗ شکمِ مادر میں ہی قرآن پاک کے اٹھارہ سپارے حفظ کر چکے تھے۔ چار برس کی عمر میں رسمی تعلیم کا آغاز ہوا۔ دس برس کی عمر تک تمام ابتدائی علوم پر مکمل دسترس حاصل کر چکے تھے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں مزید حصولِ علم کے لیے 488ھ میں بغداد شریف تشریف لے گئے اور مدرسہ نظامیہ میں داخل ہو گئے۔ یہاں آپ رضی اللہ عنہٗ کے اساتذہ میں ابوالوفا علیؒ بن عقیل، ابو زکریاؒ یحییٰ بن علی تبریزی، ابو سعیدؒ بن عبدالکریم، ابو سعید بن مبارک مخزومی اور ابو الخیر حماد بن مسلم دباسؒ جیسے نامور علماء و آئمہ شامل تھے۔ حضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ آپ رضی اللہ عنہٗ کے مرشد و شیخ بھی تھے جن سے آپ رضی اللہ عنہٗ نے خرقۂ خلافت اور امانتِ الٰہیہ حاصل کی۔ علمِ قرآن، تفسیر، حدیث، علمِ فقہ، علمِ لغت، علمِ شریعت، علمِ طریقت غرض ایسا کوئی علم نہ تھا جو آپؓ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہوا اور صرف حاصل ہی نہیں کیا بلکہ ہر علم میں وہ کمال پیدا کیا کہ تمام علمائے زمانہ سے سبقت لے گئے۔
بغداد میں آمد کے بعد آپ رضی اللہ عنہٗ کو انتہائی پُر صعوبت حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ حصولِ علم میں اس قدر مصروف تھے کہ کسی ذریعہ معاش کو اختیار نہ کر پائے۔ اس دوران بغداد میں قحط بھی پڑا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ اکثر یا تو کئی کئی دن کے فاقے کے ساتھ حصولِ علم میں مشغول رہتے یا دریائے دجلہ کے کنارے اگنے والی خود رو بوٹیاں اور سبزیاں کھا کر گزارا کرتے۔ سرِ اقدس پر چھوٹا سا عمامہ ہوتا تھا اور صوف کا ایک جبہ زیب تن ہوتا تھا۔ رات ہونے پر جنگل بیابان میں نکل جاتے زمین آپ رضی اللہ عنہٗ کا بستر ہوتی اور اینٹ یا پتھر تکیہ۔ مینہ ، آندھی، جھکڑ طوفان، سردی گرمی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر آپ رضی اللہ عنہٗ برہنہ پا رات کی تنہائیوں اور تاریکیوں میں دشت نوردی کرتے۔ یہ سب جانکاہ مصائب آپ رضی اللہ عنہٗ کو اس لذت کے مقابلے میں ہیچ معلوم ہوتے تھے جو آپ رضی اللہ عنہٗ کو تحصیلِ علم اور تلاشِ حق میں حاصل ہوتی۔
سیّدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہٗ 488ھ سے 496ھ تک آٹھ سال کے عرصے میں ہر قسم کے علم پر کامل دسترس حاصل کرنے کے بعد ریاضات و مجاہدات میں مشغول ہو گئے۔ 496ھ سے 521ھ تک پچیس سال کی طویل مدت میں آپ رضی اللہ عنہٗ نے ایسے ایسے مجاہدے اور ریاضتیں کیں کہ ان کا حال پڑھ کر انسان کی روح تک لرز جاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کا اپنا بیان ہے کہ ''میں نے ایسی ہولناک سختیاں جھیلی ہیں کہ اگر وہ پہاڑ پر گزرتیں تو پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ جب مصائب اور تکالیف کی ہر طرف سے مجھ پر یلغار ہو جاتی تھی تو میں تنگ آکر زمین پرلیٹ جاتا اور اس آیت کریمہ کا ورد شروع کر دیتا ہے۔
بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بے شک تنگی کے ساتھ آسانی
اس آیت مبارکہ کی تکرار سے مجھے تسکین حاصل ہو جاتی اور جب زمین سے اٹھتا تو سب رنج و کرب دور ہو جاتا۔ ایک بار دورانِ وعظ فرمایا ''میں پچیس سال تک عراق کے ویرانوں اور جنگلوں میں پھرتا رہا ہوں اور چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی ہے اورپندرہ سال تک عشاء کی نماز میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر صبح تک قرآن حکیم ختم کیا۔ میں نے بسا اوقات تیس سے چالیس دن بغیر کچھ کھائے پیئے گزارے ہیں''۔ شیخ ابو المسعود بن ابوبکر حریمی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سیّدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے مجھے بتایا کہ ''سالہا سال تک میں اپنے نفس کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالتا رہا۔ ایک سال ساگ پات اور کوئی گری ہوئی چیز کھا لیتا اور بالکل پانی نہ پیتا۔ ایک سال صرف پانی پیتا اور کوئی چیز نہ کھاتا اور ایک سال بغیر کچھ کھائے پئیے گزار دیتا حتیٰ کہ سونے سے بھی احتراز کرتا۔ کئی سال میں بغداد کے محلہ کرخ کے غیر آباد مکانوں میں مقیم رہا۔ اس سارے عرصہ میں ایک خود رو بوٹی کوندل میری خوراک ہوتی۔ لوگ مجھے دیوانہ کہتے تھے۔ میں صحرا میں نکل جاتا، آہ و زاری کرتا اور کانٹوں پر لوٹتا حتیٰ کہ تمام بدن زخمی ہو جاتا۔ لوگ مجھے شفا خانے لے جاتے لیکن وہاں پہنچ کر بھی مجھ پر حالتِ سکر طاری ہو جاتی۔ لوگ کہتے مر گیا ہے، پھر میری تجہیز و تکفین کا انتظام کرتے اور غسل دینے کے لیے مجھے تختہ پر رکھ دیتے اس وقت یک بیک مجھے ہوش آ جاتا اور میں اٹھ کھڑا ہوتا''۔
پچیس سال کے سخت ترین مجاہدے کے بعد حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فقر و معرفت اور فنا فی الرسول و فنا فی اللہ بقا باللہ کی ان بلندیوں پر فائز ہو گئے جن کے متعلق کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب خلقِ خدا پر توجہ کرنا اور ان کی تربیت و اصلاح کرنا ان پر فرض ہو گیا۔ 521ھ میں آپ رضی اللہ عنہٗ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے مسند تلقین و ارشاد سنبھالی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے لوگوں کی تربیت کے لیے وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا۔ وعظ کی حیرت انگیز اثر پذیری کے باعث چند ہی دنوں میں آپؓ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ عراق، شام، عرب و عجم سے ہجومِ خلق آپ رضی اللہ عنہٗ کی طرف متوجہ ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے چالیس سال تک خلقِ خدا کی رہنمائی کے لیے اپنے صبح و شام وقف کیے رکھے۔ وعظ کے دوران تجلیاتِ الٰہیہ کا شدید نزول آپ رضی اللہ عنہٗ کے حالات سے ظاہر ہوتا کبھی آواز میں بہت تیزی آ جاتی، کبھی بات کرتے کرتے چہرہ مبارک سرخ ہو جاتا اور چیخ نکل جاتی۔ عام لوگ تو ان تجلیات کو سہہ بھی نہ پاتے ان پر وجد طاری ہو جاتا۔ بعض لوگ جوش میں آکر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالتے، بعض بے ہوش ہو جاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مجلسِ وعظ میں ایک دو شخص غشی کی حالت میں واصل بحق ہو گئے۔
آپ رضی اللہ عنہٗ کی مجلس میں دنیا بھر سے علماء و اولیاء تشریف لاتے اور فیض یاب ہوتے۔ ایک روز دورانِ وعظ اچانک آپ رضی اللہ عنہٗ پر حالتِ استغراق طاری ہوئی اور بحکمِ خداوندی آپؓ کی زبان مبارک پر یہ کلمہ جاری ہو گیا
My foot is over the neck of every saint
ترجمہ:''میرا قدم ہرولی کی گردن پر ہے''۔
اسی وقت غیب سے تمام عالم میں منادی کر دی گئی کہ جمیع اولیاء اللہ محبوبِ سبحانی، غوثِ اعظم رضی اللہ عنہٗ کی اطاعت کریں اور آپ رضی اللہ عنہٗ کے ارشاد کو بسر و چشم بجا لائیں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا مردہ، محفل میں موجود تھے یا نہیں سب نے اپنی اپنی گردنیں اطاعتِ حکم میں جھکا دیں حتیٰ کہ جنات نے بھی اس حکم کی اطاعت کی۔ آپؓ کا یہ فرمان اور اس کی اطاعت کا احوال کثرت سے آپؓ کے ہمعصر اکابر مشائخ سے مروی ہے اور آپ رضی اللہ عنہٗ کے مناقب و احوالِ حیات پر لکھی گئی تمام کتب میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہٗ کی بہت سی کرامات منقول ہیں لیکن سب سے بڑی کرامت دینِ اسلام کو اس کی اصل حقیقی صورت میں دوبارہ زندہ کرنا تھا جس صورت میں وہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام اور خلفائے راشدین کے دور میں تھا۔ اسی وجہ سے آپؓ کا لقب ''محی الدین'' ہے یعنی دین کو زندہ کرنے والا۔ مجلسِ وعظ ہو یا خانقاہ کی خلوت، مدرسہ کے اوقاتِ درس و تدریس ہوں یا مسندِ تلقین و ارشاد، ہر جگہ آپ رضی اللہ عنہٗ کی جدوجہد احیائے دین کے محور کے گرد گھومتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کی تشریف آوری سے قبل عالمِ اسلام انتشار اور خلفشار کا شکار ہو چکا تھا۔ سیاسی طور پر بھی سلطنتِ اسلامیہ کمزور پڑ چکی تھی اور دینی لحاظ سے بھی مسلمان بہت سے فرقوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ ظاہریت پرستی بڑھ چکی تھی اور حقیقتِ دین پر کسی کی نظر نہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں تہتر فرقوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے زیادہ تر گمراہ اور بدعتی تھے۔ مسلمان بے معنی مباحثوں اور مناظرات میں الجھے ہوئے تھے۔ اہلِ باطن کا دعویٰ کرنے والوں کا حال بھی بُرا تھا اور ان کے پاس بھی صرف ظاہری علم ہی رہ گیا تھا جس کی وجہ سے روحانی سلاسل بھی زوال کا شکار تھے۔ اس گمراہ کن اور پُر فتن دور میں آپ رضی اللہ عنہٗ نے ان تمام گمراہ کن باطنی سلاسل اور ظاہری مسالک کا خاتمہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے چلے آ رہے تمام سلاسل حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی مبارک ذات میں جمع ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے ان میں در آنے والی تمام بدعات کا خاتمہ کیا اور پھر سلاسل کا ایک جدید نظام قائم کیا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ سے چار سلاسل جاری ہوئے قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی۔ قادری سلسلہ آپ رضی اللہ عنہٗ کا اپنا سلسلہ ہے جبکہ دیگر سلاسل کے بانی اولیاء آپ رضی اللہ عنہٗ سے فیض یافتہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے سلسلہ سروری قادری کو دیگر سلاسل پر اسی طرح فضیلت و برتری حاصل ہے جس طرح آپ رضی اللہ عنہٗ کو تمام دیگر اولیاء پر۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ''ہمعات'' جو ایک لحاظ سے تصوف کی تاریخ ہے، میں آپؓ کا مرتبہ یوں بیان فرماتے ہیں ''حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بعد اولیاء کرام اور اصحابِ طریقت کا سلسلہ چلتا ہے۔ ان میں سب سے قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہِ جذب کو باحسنِ وجوہ طے کر کے نسبتِ اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور اس میں نہایت کامیابی سے قدم رکھا وہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آپؓ اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف فرماتے ہیں۔ (ہمعات)۔
آپؓ سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپؓ کے اور دوسرے طریقوں کے طالبوں میں کیا فرق ہے تو آپؓ نے فرمایا کہ
یعنی'' میرا انڈا (دوسروں کے) ہزار بچوں کے برابر ہے اور میرے بچے کی کوئی برابری نہیں کر سکتا''۔
آپ رضی اللہ عنہٗ سلسلہ سروری قادری کے سالکوں اور طالبانِ مولیٰ کی باطن میں خود تربیت فرمانے کے بعد انہیں ظاہری مرشد کے حوالے فرماتے ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے سلسلہ سروری قادری کے متعلق حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سروری قادری اسے کہتے ہیں جو نر شیر پر سواری کرتا ہے اور غوث و قطب اس کے زیر بار رہتے ہیں۔ سروری قادری طالبوں اور مریدوں کو اللہ تعالیٰ کے کرم سے پہلے ہی روز یہ مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے کہ ماہ سے ماہی تک ہر چیز ان کی نگاہ میں آ جاتی ہے۔ سروری قادری کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سروری قادری فقیر ہر طریقے کے طالب کو عامل کامل مکمل مرتبے پر پہنچا سکتا ہے کیونکہ دیگر ہر طریقے کے عامل کامل درویش سروری قادری فقیر کے نزدیک ناقص و ناتمام ہوتے ہیں کہ دوسرے ہر طریقے کی انتہا سروری قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ کوئی عمر بھر بھی محنت و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے۔ (محک الفقر کلاں)
علم و عرفان اور فقر کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچنے کے باعث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہٗ کو فقر کا مختار بنایا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کی اجازت و منظوری کے بغیر نہ کوئی ولایت حاصل کر سکتا ہے نہ فقر۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ آپ رضی اللہ عنہٗ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
جس نے بھی غوثیت و قطبیت و درویشی و فقیری و اولیائی و ولایت و ہدایت کی دولت و نعمت و سعادت پائی حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی بارگاہ سے پائی کیونکہ دونوں جہان کی چابی آپؓ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جو آپؓ کا منکر ہوا وہ دونوں جہان میں مردود الحق ہو کر ابلیس خبیث کی طرح پریشان ہوا۔ ہر مومن بندۂ خدا جو (حقیقت میں) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی ہے یا امتی تھا یا غوث و قطب ولی اللہ ہے حضور غوث پاکؓ کا مرید ہے۔ ان میں سے کوئی بھی حضور غوث پاکؓ کی مریدی سے باہر نہیں۔ جو ان کی مریدی سے انحراف کرتا ہے وہ معرفتِ مولیٰ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ (محک الفقر کلاں)
حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ترجمہ:دو جہانوں، اولادِ آدم، زمین و آسمان کے تمام انسانوں، جنوں، فرشتوں اور تمام مخلوق کے بادشاہ اور رہنما حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ہی ہیں اور ہر ایک کی زبان پر آپؓ کا ہی ذکر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے بے شمار کتب تصنیف فرمائیں جن میں فقر و عرفان کے اسرار کے خزانے موجود ہیں۔ ان تصنیفات سے مردہ قلوب کو حیات ملتی ہے۔ چند مشہور تصنیفات جن کے تراجم دستیاب ہیں مندرجہ ذیل ہیں
الفتح الربانی (خطبات)
فتوح الغیب (مقالات)
سرّ الاسرار (فقر)
الرسالۃ الغوثیہ (فقر)
غنیۃ الطالبین (فقہ)
دیوانِ غوثیہ (فارسی غزلیات)
غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا وصال 91سال کی عمر میں 11ربیع الثانی 561ھ کو بغداد میں ہوا۔ قبل وصال آپ رضی اللہ عنہٗ نے امانتِ الٰہیہ (امانتِ فقر) اپنے جلیل القدر فرزند اور خلیفہ اکبر حضرت شیخ عبدالرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد فرمائی جو سلطان الفقر چہارم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا مزار مبارک بغداد شریف میں مرجع خلائق ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔