Pages

Thursday, 26 January 2017

قرآن اصلی حالت میں نہیں ہے ملحد بے دینوں کے اعتراض کا جواب

قرآن اصلی حالت میں نہیں ہے ملحد بے دینوں کے اعتراض کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج شوسل میڈیا پر دشمن اسلام قادیانی، ملحدین و مستشرقین کی طرف سے گستاخیاں ہو رہی ہں اور یہ اسلام دشمن اپنے ناپاک ارادے کو اسلام، انبیاء کرام علیہم السلام ، اوزاج مطہرات، صحابہ کرام، قرآن و احادیث اور اولیاء عظام علیہم السلام پر بے بنیاد و بیہودہ شکوک و شبہات و اعتراضات قائم کر کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک کوشش میں لگے ہوئے ہیں یہ بات اب اکثر لوگوں پر واضح ہو گئی ہے ان اسلام دشمن ملحدین و مستشرقین کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف؛ کوئی نہ کوئی بے بنیاد اعتراض کر کے فتنہ برپہ کیا جائے اور یہ لوگ اپنی اس ناپاک کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کسی نہ کسی صورت میں میں بیروپہ بن کر زلیل و رسوائی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں، ایک ایسا ہی بیہودہ اعتراض، شوسل میڈیا پر مختلف ناموں کے پیجز پر یہ اعتراض کیا  گیا ہے زیرِ نظر تحریر اسی جواب کی کڑی ہے، ملاحظہ فرمائیں
الحدیث" عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنْ الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ ثُمَّ نُسِخْنَ بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ فِيمَا يُقْرَأُ مِنْ الْقُرْآنِ
حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ”اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔“( صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضاعت، حدیث: ۳۵۹۷)
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ نازل شدہ قرآنی آیات میں یہ آیت بھی تھی کہ دس معلوم چسکیاں حرام کرتی ہیں پھر پانچ معلوم چسکیوں سے منسوخ کی گئیں ۱؎ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی حالانکہ وہ قرآن سے پڑھی جاتی تھیں ۲؎(مسلم)
۱؎ یعنی پہلے دس گھونٹ والی آیت نازل ہوئی پھر بہت عرصہ کے بعد دس گھونٹ والی آیت تلاوت و حکم میں پانچ گھونٹ والی آیت سے منسوخ ا ور یہ پانچ گھونٹ والی آیت اتنے عرصہ کے بعد منسوخ ہوئی تلاوتًا و حکمًا کہ حضور انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی وفات پانے تک بعض دیہات اور دور دراز کے علاقہ والوں کو اس کے نسخ کی خبر نہ ہوئی اور وہ اس بے خبری میں بعد وفات بھی اس کی تلاوت کرتے رہے پھر خبر ہونے پر اس کی تلاوت بند کی۔حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ حضور کی وفات کے بعد بھی یہ آیت قرآن کریم میں تھی بعد میں صحابہ کرام نے نکال دی ورنہ اعتراض ہوگا کہ جناب علی و دیگر اہل بیت اطہار قران بگڑتا یا کم ہوتا ہوا دیکھ کر خاموش کیوں رہے انہوں نے قرآن بگڑنے کیوں دیا ؟ خیال رہے کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اس سے قرآنی مطلق آیات کو مقید نہیں کیا جاسکتا(مرآۃ المناجیح)
اس روایت یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ آیات آپ ﷺ کے بعد کھو گئی تھی۔ ہم اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
خبر واحد اور قرآن :
اگرچہ اس کے راوی قابل بھروسہ ہیں لیکن بات جب قرآن مجید کے متعلق ہوتوکسی چیز کے قرآن کا حصہ ہونے کے ثبوت کیلئے متواتر روایتوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔جبکہ موجودہ صورتحال میں ایسانھیں ھے۔اس حدیث کو اس انداز میں حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ)سے صرف ایک راوی نے روایت کیا ہے ۔ امام نووی صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ۔"قرآن کے بارے کسی بات کو خبر واحد سے ثابت نہیں کیاجاسکتا"(شرح النووی183/5)۔
وہ الفاظ جوسب سے ذیادہ ہمارا دھیان کھینچتے ہیں یہ ہیں:" اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے "۔
اگر ہم حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ)سے مروی اس متعلق باقی روایتوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف عبداللہ بن ابی بکر ہی نے ان الفاظ کا استعمال کیا۔جبکہ دوسرے راویوں قاسم بن محمد اور یحیی بن سعید نے یہی حدیث روایت کی اور اس میں ان الفاظ(جب آپﷺ کی وفات ہوئی ان آیات کی تلاوت کی جاتی تھی) کا کوئی ذکر نہیں کیا۔اورحقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں عبد الرحمان بن ابی بکر سے ذیادہ قابل بھروسہ اور مستند ہیں جیسا کہ امام طحاوی نے لکھا ہے ۔ دیکھیے (مشکل آثار 171/10)۔
اسی لیے محققین نے لکھا کہ یہ عبداللہ بن ابی بکر کا اپنا وہم ۔امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں"یہ بات ہمیں عبداللہ بن ابی بکر کے علاوہ کسی پتا نہیں چلتی اور ہمارے نزدیک یہ انکا اپنا وہم ہوسکتا ہے ۔ "( مشکل الاثار 5/73 حدیث 1740)۔
شیخ ابن عربی ؒ نے بھی اسے راوی کا وہم قرار دیا ہے۔ (Aardha al- Ahwazi 5/92)
درحقیقت پانچ بار دودھ والا حکم بھی منسوخ ہو گیا تھا:
اس بارے میں باقاعدہ ثبوت موجود ہیں کہ اس آیت(پانچ بار دودھ پلانے سے نکاح کا حرام ہونا) کی تلاوت اورحکم دونوں آپﷺ کی حیات طیبہ میں ہی منسوخ ہو گئے تھے۔
حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے" لقد كان في كتاب الله عزوجل عشر رضعات ، ثم رد ذلك إلى خمس ، ولكن من كتاب الله ما قبض مع النبي صلى الله عليه وسلم
" ترجمہ: دس رضعات سے حرمت ثابت ہونے کا ذکر قرآن میں موجود تھا پھر اسے پانچ سے بدل دیا گیا اور پھر کچھ نہیں تھا مگر وہ آپﷺ کی موجودگی میں منسوخ ہوگیا تھا ۔(مصنف عبدالرازق ،حدیث 13928)
" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بتاتی ہے کہ یہ پانچ رضعات والی آیت آپﷺ کی وفات سے پہلے ہی منسوخ ہو چکی تھی"
یہی سچ ہے کیونکہ حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) آپﷺ کی وفات کے کافی عرصہ بعد تک زندہ رہیں۔اور جب آپ ( رضی اللہ عنہ) کے والد حضرت ابو بکر صدیق ( رضی اللہ عنھا) نے قرآن کی پہلی سرکاری نقل تیار کروائی تو آپ تب بھی موجود تھیں۔اور تب بھی جب عثمان (رضی اللہ عنھا) نے دوبارہ نقول تیار کیں۔اور ہم جانتے ہیں کہ حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) کا قرآن و حدیث کے علم کے معاملے میں صحابہ میں بہت اونچا مقام تھا۔اور ہم یہ بھی جانتے ھیں کہ کچھ کافی مشہور قرآتیں آپ سے منسوب(مروی) ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی ایسے الفاظ موجود نہیں ۔ یہی وجہ ھے کہ علماء کے نزدیک یہ الفاظ محض راوی کا گمان اور غلط فہمی ہے ۔
درحقیقت یہ حکم بتدریج تبدیل ہوا۔پہلے دس باردودھ پینے پر نکاح کے حرام ہونے کا حکم تھا پھر اسے پانچ سے منسوخ کردیا گیا اور پھر زمانہ شیر خواری میں ایک باردودھ پینے سے بھی رضاعت ثابت ہونے کا حکم آگیا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ الرَّضَاعِ فَقُلْت : إنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ لَا تُحَرِّمُ الرَّضْعَةُ وَلَا الرَّضْعَتَانِ قَالَ : قَدْ كَانَ ذَاكَ ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَالرَّضْعَةُ الْوَاحِدَةُ تُحَرِّمُ۔
طاؤس نے ابن عباس سے روایت کی کہ "مجھ سے پستانوں سے دودھ پینے کے بارے دریافت کیا گیا، تو میں نے کہا کہ لوگ تو کہتے ھیں کہ ایک یا دو دفعہ کا پینا نکاح حرام نہیں کرتا، انہوں نے کہا پہلے ایسا تھا پر اب ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جائے گا
مصنف عبدالرازق میں طاؤس(106 ہجری ،آپ تابعی ہیں اور حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنہ) سمیت بہت سے صحابہ کے شاگرد ھیں ) سے روایت ہے " كان لازواج النبي صلى الله عليه وسلم رضعات معلومات ، قال : ثم ترك ذلك بعد ، فكان قليله وكثيره يحرم"
ترجمہ:" پیغمبر اکرم ﷺ کی بیویوں نے کہا کہ دودھ کاایک مخصوص تعداد(پانچ یا دس) تک پینا رضاعی رشتے(یعنی نکاح کو حرام) کو ثابت کرتا ہے ' انہوں نے مزید کہا کہ: ' تو یہ حکم کافی عرصہ رہا پھر بعد میں ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جانے کا حکم لاگو ہوا۔( مصنف عبدالرازق ،حدیث 13914)۔"
حکم میں تبدیلی کیوں؟
حکم میں بتدریج تبدیلی کی حکمت یہ ہے کہ عرب میں اس وقت ایک دوسرے کے بچوں کو دودھ پلانا عام رواج تھا لیکن دوسری طرف اسکا شادیوں پر بھی اثر پڑنا تھا اس لیے حکم کو آہستہ آہستہ سخت کیا گیا تا کہ معاشرے میں تناو اور تکلیف سے بھی بچا جاسکے۔
خلاصہ : اس ساری بحث سے واضح ہوتا ہے کہ :  دس اور پانچ بار دودھ پلانے پر نکاح کا حرام ھونا والی آیات حیات طیبہ ﷺ میں ہی منسوخ ہو گئی تھیں۔اب یا تو معترضین ہمارے قوانین کے مطابق روایات کی جانچ پڑتال کو مانیں یا انکی حقانیت کو غلط ثابت کرنے کی ہمت پیدا کریں۔ ( اس بحث سے مقصد یہ نہیں تھا کہ کتنی بار دودھ پلانے سے رضاعی رشتہ ثابت ھوتاہے بلکہ اس شک کو رفع کرنے کا تھا کہ آپﷺ کے بعد قرآن مجید میں کوئی تبدیلی نہین ہوئی ،

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔