تفسیر سورہ فاتحہ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُؕ﴿۴﴾
ترجمۂ کنزالایمان:ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} ا س سے پہلی آیات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہے جو کہ سب جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس آیت سے بندوں کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔
عبادت اور تعظیم میں فرق:
عبادت کامفہوم بہت واضح ہے، سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اُس کی کسی قسم کی تعظیم کرنا’’ عبادت‘‘ کہلاتاہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اُستاد، پیر یا ماں باپ کے لئے ہو تومحض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیاگیا ہے۔
آیت’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ سے معلوم ہونے والی اہم باتیں : آیت میں جمع کے صیغے ہیں جیسے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی عبادت کرنے میں شریک کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ گناہگاروں کی عبادتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے محبوب اور مقبول بندوں کی عبادتوں کے ساتھ جمع ہو کر قبولیت کادرجہ پالیتی ہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ امام عبد اللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :عبادت کو مدد طلب کرنے سے پہلے ذکر کیاگیا کیونکہ حاجت طلب کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ (مدارک، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۴)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنے کی برکت:ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کا وسیلہ پیش کر کے اپنی حاجات کے لئے دعا کیا کرے تاکہ اُس وسیلے کے صدقے دعا جلدمقبول ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ وسیلے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ‘‘( مائدہ: ۳۵)
اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
اور ’’سُننِ ابنِ ماجہ‘‘ میں ہیکہ ایک نابینا صحابی بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں اس طرح دعا مانگنے کا حکم دیا:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّی فِیْ حَاجَتِی ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اللہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّمیں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبیِ رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے ، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ ، پس تومیرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما۔(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲/۱۵۷، الحدیث: ۱۳۸۵)
حدیث پاک میں مذکور لفظ’’یَا مُحَمد‘‘ سے متعلق ضروری وضاحت:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علماء تصریح فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔ اور(یہ بات)واقعی محل انصاف ہے ،جسے اس کا مالک ومولی ہو جائیں ، اُس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دیا ہے:’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾‘‘ (النساء: ۶۴)
اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
کیا اللہ تعالیٰ اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتُو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قرآن کی آیت صاف فرما رہی ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ /۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)
زیر تفسیر آیت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ(مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں ) ‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اُس اِختیار کی بنا پر اُن بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے آکر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکی مدد کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ اَذِلَّۃٌۚ‘‘ ( اٰل عمران: ۱۲۳)
اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔
یہاں فرشتوں کی مدد کو اللہ تعالیٰ کی مدد کہا گیا، اِس کی وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اِختیار اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہے تو حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ہوئی۔ یہی معاملہ انبیا ء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیائِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتاً وہ مدد اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے، جیسے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے تخت لانے کا فرمایا اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا۔اس پر انہوں نے فرمایا:’’ہٰذَا مِنۡ فَضْلِ رَبِّیۡ‘‘ترجمۂکنزالعرفان:یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔(نمل :۴۰)اورتاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں مدد کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے،ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں :
(1)…صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا۔
(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳/۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱، الخصائص الکبری، باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر ما تقدّم، ۲/۸۵)
(2)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابہ کوسیراب کردیا۔
(بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴/۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۱۵/۵۳۶)
(3)… انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے چودہ سو(1400)یا اس سے بھی زائد اَفراد کو سیراب کر دیا۔
(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳/۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳)
(4)… لُعابِ د ہن سے بہت سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔
(الخصائص الکبری، باب آیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔ الخ، ۲/۱۱۵-۱۱۸)
اور یہ تمام مددیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت سے تھیں لہٰذا سب اللہ تعالیٰ کی ہی مددیں ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے رسالے ’’اَ لْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَائِ( مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کامطالعہ فرمائیے۔
اِہۡدِ نَا الصِّرٰطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۵﴾
ترجمۂ کنزالایمان:ہم کو سیدھا راستہ چلا۔
{اِہۡدِ نَا الصِّرٰطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ:ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔}اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت کے بعد اس کی عبادت اور حقیقی مددگار ہونے کا ذکر کیا گیا اور اب یہاں سے ایک دعا سکھائی جا رہی ہے کہ بندہ یوں عرض کرے: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ،تو نے اپنی توفیق سے ہمیں سیدھاراستہ دکھا دیااب ہماری اس راستے کی طرف ہدایت میں اضافہ فرما اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔
صراطِ مستقیم کا معنی:صراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کا سیدھا راستہ ‘‘ہے، جس پر تمام انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلے یا اِس سے مراد’’ اسلام کا سیدھا راستہ‘‘ ہے جس پرصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، بزرگانِ دین اور اولیائِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ چلے جیسا کہ اگلی آیت میں موجود بھی ہے اور یہ راستہ اہلسنّت کا ہے کہ آج تک اولیاء ِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ صرف اِسی مسلک ِاہلسنّت میں گزرے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہی کے راستے پر چلنے اور انہی کے ساتھ ہونے کا فرمایا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾‘‘ (التوبۃ: ۱۱۹)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی،اور جب تم (لوگوں میں ) اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سواد اعظم (یعنی مسلمانوں کے بڑے گروہ) کے ساتھ ہو جاؤ۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴/۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
حضرت عبداللہ بن عمرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’بنی اسرائیل 72فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور میری امت 73فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی،ان میں سے ایک کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْنے عرض کی: یارسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،نجات پانے والا فرقہ کونسا ہے؟ارشاد فرمایا:’’(وہ اس طریقے پر ہو گا)جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔
(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی افتراق۔۔۔ الخ، ۴/۲۹۱-۲۹۲، الحدیث: ۲۶۵۰)
ہدایت حاصل کرنے کے ذرائع:
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع عطا فرمائے ہیں ،ان میں سے چند یہ ہیں :
(1)…انسان کی ظاہری باطنی صلاحیتیں جنہیں استعمال کر کے وہ ہدایت حاصل کرسکتا ہے۔
(2)…آسمانوں ، زمینوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں جن میں غورو فکر کر کے انسان ہدایت پا سکتا ہے۔
(3)…اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابیں ،ان میں سے توارت ،انجیل اور زبور قرآن پاک نازل ہونے سے پہلے لوگوں کے لئے ہدایت کاباعث تھیں اوراب قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کاذریعہ ہے۔
(4)…اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے خاص بندے انبیاء کرام اور مرسلینِ عِظام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،یہ اپنی اپنی قوموں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کا ذریعہ تھے اور ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہیں۔
آیت’’اِہۡدِ نَا الصِّرٰطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے پرثابت قدمی کی دعا مانگنی چاہئے کیونکہ سیدھا راستہ منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے اور ٹیڑھا راستہ مقصود تک نہیں پہنچاتا ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ عقل والے اس طرح دعا مانگتے ہیں :
’’رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوۡبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیۡتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحْمَۃًۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ﴿۸﴾‘‘( اٰل عمران: ۸)
اے ہمارے رب! تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔
اورحضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبْ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ‘‘اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ تو میں نے عرض کی :یارسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم آپ پر اور جو کچھ آپ لائے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے بارے میں کوئی خوف ہے؟حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! بے شک دل اللہ تعالیٰ کی(شان کے لائق ا س کی) انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔ (ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء انّ القلوب۔۔۔ الخ، ۴/۵۵، الحدیث: ۲۱۴۷)
(2)… عبادت کرنے کے بعد بندے کو دعا میں مشغول ہونا چاہیے۔
(3)…صرف اپنے لئے دعا نہیں مانگنی چاہئے بلکہ سب مسلمانوں کے لئے دعا مانگنی چاہئے کہ اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ۬ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾
ترجمۂ کنزالایمان:راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا،نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیانہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
{صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ:ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا۔}یہ جملہ اس سے پہلی آیت کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان و انعام فرمایااور جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و احسان فرمایا ہے ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾‘‘(النساء:۶۹)
اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
آیت’’صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… جن امور پر بزرگانِ دین کا عمل رہا ہو وہ صراطِ مستقیم میں داخل ہے۔
(2)…امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’اِہۡدِ نَا الصِّرٰطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ‘‘ کے بعد’’صِرٰطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ‘‘ کو ذکر کرنا ا س بات کی دلیل ہے کہ مرید ہدایت اورمُکَاشَفَہ کے مقامات تک اسی صورت پہنچ سکتا ہے جب وہ کسی ایسے (کامل)پیر کی پیروی کرے جو درست راستے کی طرف اس کی رہنمائی کرے، غلطیوں اور گمراہیوں کی جگہوں سے اسے بچائے کیونکہ اکثر لوگوں پر نقص غالب ہے اور ان کی عقلیں حق کو سمجھنے ،صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے سے قاصر ہیں تو ایک ایسے کامل شخص کا ہونا ضروری ہے جس کی ناقص شخص پیروی کرے یہاں تک کہ اِس کامل شخص کی عقل کے نور سے اُ س ناقص شخص کی عقل بھی مضبوط ہو جائے تو اس صورت میں وہ سعادتوں کے درجات اور کمالات کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔
(تفسیر کبیر، الفاتحۃ، الباب الثالث، ۱/۱۶۴)
{غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ:نہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ }جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ان سے مراد یہودی اوربہکے ہوؤں سے مراد عیسائی ہیں جیساکہ سنن ترمذی، جلد4،صفحہ444، حدیث نمبر 2964میں ہے اور امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے یہ بھی لکھا ہے کہ جن پر غضب ہوا ان سے مراد بدعمل ہیں اور بہکے ہوؤں سے مراد بدعقیدہ لوگ ہیں۔(تفسیر کبیر، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۱/۲۲۲-۲۲۳) ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ عقائد ،اعمال، سیرت،صورت ہر اعتبار سے یہودیوں ، عیسائیوں اور تمام کفار سے الگ رہے، نہ ان کے طور طریقے اپنائے اور نہ ہی ان کے رسم ورواج اور فیشن اِختیار کرے اوران کی دوستیوں اور صحبتوں سے دور رہتے ہوئے اپنے آپ کو قرآن وسنّت کے سانچے میں ڈھالنے میں ہی اپنے لئے دونوں جہان کی سعادت تصور کرے۔ (1)
آیت ’’وَلَا الضَّآلِّیۡنَ‘‘ سے متعلق شرعی مسئلہ : بعض لوگ ’’وَلَا الضَّآلِّیۡنَ‘‘ کو ’’وَلَا الظَّآ لِّیْن‘‘ پڑھتے ہیں ،ان کا ایسا کرنا حرام ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ض،ظ،ذ،ز سب حروف متبائنہ،متغائرہ (یعنی ایک دوسرے سے جداجدا حروف) ہیں ،ان میں سے کسی کو دوسرے سے تلاوتِ قرآن میں قصدا ًبدلنا،اِس کی جگہ اُسے پڑھنا، نماز میں ہو خواہ بیرون نماز، حرام قطعی وگناہِ عظیم،اِفْتِراء عَلَی اللہ و تحریف ِکتاب کریم ہے۔(فتاوی رضویہ، ۶/۳۰۵) اس مسئلے کے بارے میں دلائل کے ساتھ تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاوی رضویہ کی چھٹی جلد میں موجود ان رسائل کا مطالعہ فرمائیں : (۱) نِعْمَ الزَّادْ لِرَوْمِ الضَّادْ۔(ضاد کی ادائیگی کا بہترین طریقہ)(۲)اِلْجَامُ الصَّادْ عَنْ سُنَنِ الضَّادْ۔(ضاد کی ادائیگی کے غلط اور صحیح طریقوں کا بیان)
{اٰمین}اس کا ایک معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو قبول فرما۔دوسرا معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو ایسا ہی فرما۔
اٰمین سے متعلق شرعی مسائل:
(1)…یہ قرآن مجید کا کلمہ نہیں ہے ۔
(2)… نماز کے اندر اور نماز سے باہر جب بھی ’’سورۂ فاتحہ‘‘ ختم کی جائے تو ا س کے بعد اٰمین کہنا سنت ہے۔
(3)… احناف کے نزدیک نماز میں آمین بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستہ کہی جائے گی۔
التجا : اس فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے گا جزاکم اللہ خیرا
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔