Pages

Sunday, 1 January 2017

تفسیر سورہ فاتحہ حصّہ دوم

تفسیر سورہ فاتحہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔
{بِسْمِ اللہِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قرآن مجید کی ابتداء’’بِسْمِ اللہِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱/۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّیاللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱/۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
  لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہرنیک اور جائز کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ‘‘ سے کریں ،ا س کی بہت برکت ہے۔(1)
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ:جو بہت مہربان رحمت والاہے ۔}امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رحمن اور رحیم فرمایا تو یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ رحم نہ فرمائے ۔مروی ہے کہ ایک سائل نے بلند دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کچھ مانگا تو اسے تھوڑا سا دے دیا گیا،دوسرے دن وہ ایک کلہاڑا لے کر آ یا اور دروازے کو توڑنا شروع کر دیا۔اس سے کہا گیا کہ تو ایسا کیوں کر رہا ہے؟اس نے جواب دیا:تو دروازے کو اپنی عطا کے لائق کر یا اپنی عطا کو دروازے کے لائق بنا۔اے ہمارے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،رحمت کے سمندروں کو تیری رحمت سے وہ نسبت ہے جو ایک چھوٹے سے ذرے کو تیرے عرش سے نسبت ہے اور تو نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اپنے بندوں پر اپنی رحمت کی صفت بیان کی ا س لئے ہمیں اپنی رحمت اور فضل سے محروم نہ رکھنا۔(تفسیرکبیر، الباب الحادی عشرفی بعض النکت المستخرجۃ۔۔۔الخ، ۱/۱۵۳)
’’بِسْمِ اللہِ‘‘سے متعلق چند شرعی مسائل:
علماء کرام نے ’’بِسْمِ اللہِ ‘‘ سے متعلق بہت سے شرعی مسائل بیان کئے ہیں ، ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(1)… جو ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوئی ہے، یہ پوری آیت ہے اور جو’’سورۂ نمل‘‘ کی آیت نمبر 30 میں ہے وہ اُس آیت کا ایک حصہ ہے۔
(2)… ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ ہر سورت کے شروع کی آیت نہیں ہے بلکہ پورے قرآن کی ایک آیت ہے جسے ہر سورت کے شروع میں لکھ دیا گیا تا کہ دو سورتوں کے درمیان فاصلہ ہو جائے ،اسی لئے سورت کے اوپر امتیازی شان میں ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ لکھی جاتی ہے آیات کی طرح ملا کر نہیں لکھتے اور امام جہری نمازوں میں ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ آواز سے نہیں پڑھتا، نیز حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامجو پہلی وحی لائے اس میں ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ نہ تھی۔
(3)…تراویح پڑھانے والے کو چاہیے کہ وہ کسی ایک سورت کے شروع میں ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ آواز سے پڑھے تاکہ ایک آیت رہ نہ جائے۔
(4)… تلاوت شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا سنت ہے،لیکن اگر شاگرد استاد
1:بِسْمِ اللہِشریف کے مزید فضائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمدعطار قادری، رضوی،دامت برکاتہم العالیہ کی تالیف ،،فیضانِ بسم اللہ(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)،، کا مطالعہ فرمائیں۔
سے قرآن مجید پڑھ رہا ہو تو اس کے لیے سنت نہیں۔
(5)…سورت کی ابتداء میں ’’بِسْمِ اللہِ‘‘ پڑھنا سنت ہے ورنہ مستحب ہے۔
(6)…اگر ’’سورۂ توبہ‘‘ سے تلاوت شروع کی جائے تو’’اَعُوْذُ بِاللہِ‘‘ اور’’بِسْمِ اللہِ‘‘دونوں کو پڑھا جائے اور اگر تلاوت کے دوران سورۂ توبہ آجائے تو ’’بِسْمِ اللہِ‘‘پڑھنے کی حاجت نہیں۔
اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَۙ﴿۱﴾
ترجمۂ کنزالایمان: سب خوبیاں اللہ کو جو مالِک سارے جہان والوں کا ۔
{ اَلۡحَمْدُ لِلہِ:سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہتعالیٰ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کمال کی تمام صفات کا جامع ہے ۔
حمد اور شکر کی تعریف:
حمد کا معنی ہے کسی کی اختیاری خوبیوں کی بنا پر اُس کی تعریف کرنا اور شکر کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے احسان کے مقابلے میں زبان، دل یا اعضاء سے اُس کی تعظیم کرنا اورہم چونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد عام طور پراُس کے احسانات کے پیش نظر کرتے ہیں اس لئے ہماری یہ حمد’’ شکر‘‘ بھی ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے فضائل:
احادیث میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 3فضائل درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بندے کی اس بات سے خوش ہوتاہے کہ وہ کچھ کھائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے اور کچھ پئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرے۔  (مسلم، کتاب الذکر والدعائ، باب استحباب حمد اللہ۔۔۔الخ، ص۱۴۶۳، الحدیث: ۸۹(۲۷۳۴))
(2)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد   فرمایا:’’ سب سے افضل ذکر’’ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ ہے اور سب سے افضل دُعا ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ‘‘ہے۔
(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۳۸۰۰)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ (نعمت ملنے پر) ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘کہتا ہے تو یہ حمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دی گئی نعمت سے زیادہ افضل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
حمد سے متعلق شرعی حکم :خطبے میں حمد’’ واجب‘‘، کھانے کے بعد ’’مستحب‘‘، چھینک آنے کے بعد ’’سنت‘‘ ،حرام کام کے بعد ’’حرام‘‘ اور بعض صورتوں میں ’’کفر‘‘ہے۔
{لِلہِ:اللہ کے لئے۔}  ’’اللہ‘‘ اس ذات ِ اعلیٰ کاعظمت والا نام ہے جو تمام کمال والی صفتوں کی جامع ہے اوربعض مفسرین نے اس لفظ کے معنٰی بھی بیان کیے ہیں جیسے ا س کا ایک معنی ہے: ’’عبادت کا مستحق‘‘ دوسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی معرفت میں عقلیں حیران ہیں ‘‘ تیسرا معنی ہے: ’’وہ ذات جس کی بارگاہ میں سکون حاصل ہوتاہے:‘‘ اور چوتھا معنی ہے: ’’وہ ذات کہ مصیبت کے وقت جس کی پناہ تلاش کی جائے۔‘‘                      (بیضاوی، الفاتحۃ، ۱/۳۲)
{رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ: جو سارے جہان والوں کا مالک ہے۔}لفظ’’رَبِّ‘‘ کے کئی معنی ہیں : جیسے سید، مالک، معبود، ثابت، مصلح اور بتدریج مرتبہ کمال تک پہنچانے والا ۔ اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر موجود چیز کو عالَم کہتے ہیں اور اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔(صاوی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۶، خازن، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱/۱۷، ملتقطاً)
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۲﴾
ترجمۂ کنزالایمان:بہت مہربان رحمت والا۔
{اَلرَّحْمٰنِ:بہت مہربان۔}رحمن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں ، رحمن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے : بہت رحمت فرمانے والا۔
یاد رہے کہ حقیقی طور پرنعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی، ہر چھوٹی، بڑی ، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لئے اَعضاء کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہیں ہونا چاہئے:
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے ’’رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ‘‘ کے بعد اپنے دو اوصاف رحمن اور رحیم بیان فرمائے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ وہ  رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ہے ،تو اس سے (سننے اور پڑھنے والے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اس کا) خوف پیدا ہوا،تو ا س کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف رحمن اور رحیم ذکر کر دئیے گئے جن کے ضمن میں (اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی) ترغیب ہے یوں ترہیب اور ترغیب دونوں کا بیان ہو گیا تاکہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی طرف اچھی طرح راغب ہو اور اس کی نافرمانی کرنے سے رکنے کی خوب کوشش کرے۔(قرطبی، الفاتحۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۲۹، الجزء الاول)
قرآن مجید میں اور مقامات پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب دونوں کو واضح طور پر ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے،چنانچہ اللہتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’نَبِّئۡ عِبَادِیۡۤ اَنِّیۡۤ اَنَا الْغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿ۙ۴۹﴾ وَ اَنَّ عَذَابِیۡ ہُوَ الْعَذَابُ الۡاَلِیۡمُ ﴿۵۰﴾‘‘(حجر: ۴۹،۵۰)
میرے بندوں کو خبردو کہ بیشک میں ہی بخشے والا مہربان ہوں۔ اوربیشک میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔
اور ارشاد فرمایا:’’غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیۡدِ الْعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوْلِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ الْمَصِیۡرُ ﴿۳﴾‘‘(مومن: ۳)
گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا، بڑے انعام(عطا فرمانے) والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کی طرف پھرنا ہے۔
نیزحضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ  تعالیٰ کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتاکہ  اللہ تعالیٰکے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔  (مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ۔۔۔الخ،ص۱۴۷۳،الحدیث:۲۳(۲۷۵۵))لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ امید اور خوف کے درمیان رہے اور  اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت دیکھ کر گناہوں پر بے باک نہ ہو اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شدت دیکھ کر اس کی رحمت سے مایوس ہو۔
کسی کورحمن اور رحیم کہنے کے بارے میں شرعی حکم :
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمن کہنا جائز نہیں جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی رحیم فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾‘‘ (توبہ: ۱۲۸)
بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِؕ﴿۳﴾
ترجمۂ کنزالایمان: روزِ جزا کا مالک۔

{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیۡنِ:جزا کے دن کامالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہ ا س دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ دنیا و آخرت دو نوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو  بطور خاص اس لئے ذکر کیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔ نیز دنیا کے مقابلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے کا ظہور زیادہ ہوگا کیونکہ اُس دن کسی کے پاس ظاہری سلطنت بھی نہ ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لوگوں کو عطا فرمائی تھی، اس لئے یہاں خاص طور پر قیامت کے دن کی ملکیت کا ذکر کیا گیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔