شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے اعضاءِ تناسلیہ کو چاٹنا اور چوسنے کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انسان کا چہرہ ودہن محترم ومکرم اعضاء ہیں ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کریم کے حبیب رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا قاتل أحدکم أخاہ فلیتجنب الوجہ فإن اللہ خلق آدم علی صورتہ ۔
ترجمہ : خلق آدم علی صورتہ“ میں چہرہ کی جو تشریف ہے، اہلِِ دانش پر مخفی نہیں۔اور ظاہر ہے کہ دہن بھی چہرہ ہی کا بعض ہے لہذا مکرم ومعظم ٹھہرا۔پس مناسب نہیں کہ دہن کو اور بالخصوص دہنِ مسلم، جو تسبیح وتھلیل ودرود وسلام میں مصروف رہنا چاہیئے، ایسے ذی شرف عضو کو ایسے اعضاء کے ساتھ مس کیا جائے جو ناپاکیوں اور نجاستوں کی گزرگاہیں ہیں ۔ (صحیح مسلم حدیث رقم ۲۱۶۲، مسند احمد حدیث رقم ۴۱۴۷)
اللہ کریم جل وعلا کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے دائیں دستِ اقدس تک کو ان اعضاء سے دور رکھا کرتے تھے ۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں : ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان یجعل یمینہ لطعامہ وشرابہ وثیابہ ویجعل شمالہ لما سوی ذلک ۔ (سنن ابی داود حدیث رقم ۲۳)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں : کانت ید رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الیمنی لطہورہ وکانت یدہ الیسری لخلاۂ وماکان من اذی۔
(سنن ابی داود حدیث رقم ۳۳، ۴۳)
بلکہ اگر کوئی شخص اپنے آلہ مردمی کو چھو لے توحدیث میں اس کے لیے ہاتھ دھونے کا حکم استحبابی وارد ہوا ہے۔بسرۃ بنت صفوان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے سن ا: من مس ذکرہ فلیتوضأ۔
(سنن ابی داود حدیث رقم ۱۸۱، جامع الترمذی حدیث رقم ۲۸ قال الترمذی:حسن صحیح، سنن النسائی حدیث رقم ۷۴۴)
جمع بین الاحادیث کے لیے وضوء کے معنی ہاتھ دھونے کے کیے گئے جیسا کہ اپنے محل میں مفصل مذکور ہے۔اور علامہ علاء الدین حصکفی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا : لا ینقضہ مس ذکر لکن یغسل یدہ ندبا ۔ (در مختار ج۱ص۵۰۴)
جب بلا حاجت ہاتھ سے چھونا مناسب نہیں تو چہرہ ودہن تو زیادہ لائق ہیں کہ انہیں مجاری نجاسات سے دور رکھا جائے۔
ہاں اگر یہ بوسہ ایسی حالت میں ہوکہ مذی کا نہ نکلنا یقینی ہے۔یعنی ایسی حالت میں کہ نہ تو شوہر وبیوی کا اکٹھا ہونا جماع کے ارادے سے ہو اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ مصروفِ ملاعبت ہوں بلکہ عمومی حالات میں ہوں یا کم از کم جس کی شرمگاہ کا بوسہ لیا جا رہا ہے وہ عام حالت میں ہو، پھر عام ہے کہ بوسہ بلا حائل ہو یا بیچ میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل ہو بشرطیکہ مخرجِِ بول ومجری حیض سے ہٹ کر ہو تو یہ بوسہ محض خلافِ ادب اور مکارمِ اخلاق کے منافی ہے، اسے مکروہ وحرام کہنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔بلکہ حنابلہ نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے۔ابو الحسن علی بن سلیمان المرداوی الحنبلی ”الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف“ میں لکھتے ہیں:
قال القاضی فی الجامع یجوز تقبیل فرج المرأۃ قبل الجماع ویکرہ بعدہ وذکرہ عن عطاء۔
پھر فرمایا : ولہا لمسہ وتقبیلہ بشہوۃ وجزم بہ فی الرعایۃ وتبعہ فی الفروع وصرح بہ ابن عقیل . (الانصاف فی معررفۃ الراجح من الخلاف ج۸ص۷۲)
اور ظاہر یہ ہے کہ اگر حالت وہ ہو جو ہم نے اوپر ذکر کی تو ہمارے نزدیک بھی حکم ایسا ہی ہے۔
اور اگر بوسہ مخرجِِ بول ومجری حیض سے ہٹ کر ہولیکن جس کی شرمگاہ کا بوسہ لیا جارہاہے وہ شہوت کی حالت میں ہے، تو چونکہ ایسی حالت میں مذی کا خروج غالب ہے جو بعض اوقات غیر محسوس بھی ہوتا ہے۔لہذا اب اس فعل سے اجتناب پہلی صورت کی نسبت زیادہ مؤکد ہے، کیونکہ اب دہن کے نجاست سے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہے جو کسی صورت مناسب نہیں۔
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پیشاب کرتے ہوئے دائیں ہاتھ سے آلہئ مردمی کو چھونے سے منع فرمایا ہے۔حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ جل وعلا کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اذا بال احدکم فلایأخذن ذکرہ بیمینہ ولایستنجی بیمینہ ۔ (صحیح البخاری حدیث رقم ۴۵۱، ۰۳۶۵، صحیح مسلم حدیث رقم ۶۳۶)
اور بعض روایات میں دائیں ہاتھ سے مس ذکر کی نھی حالتِ بول کی قید سے مطلق ہے، جیسا کہ حضرت ابو قتادۃ ہی سے مروی ہے، فرمایا:
أن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نھی ان یتنفس فی الاناء وأن یمس ذکرہ بیمینہ وأن یستطیب بیمینہ۔(صحیح مسلم حدیث رقم ۸۳۶، جامع الترمذی حدیث رقم ۵۱، سنن النسائی حدیث رقم ۸۴)
اور بعض روایات میں ہے : واذا اتی الخلاء فلا یمس ذکرہ بیمینہ ولایتمسح بیمینہ۔
(صحیح البخاری حدیث رقم ۳۵۱، صحیح مسلم حدیث رقم ۷۳۶)
ان کلماتِ مبارکہ میں دائیں ہاتھ سے آلہئ مردمی کو چھونے سے منع کیا جا رہا ہے۔نھی کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ عینی رحمہ اللہ تعالی تحریر فرما ہیں:
قولہ فلا یمس ذکرہ بیمینہ النہی فیہ تنزیہ لہا عن مبشارۃ العضو الذی یکون فیہ الأذی والحدث وکان النبی یجعل یمناہ لطعامہ وشرابہ ولباسہ مصونۃ عن مباشرۃ الثفل ومماسۃ الأعضاء التی ہی مجاری الأثفال والنجاسات ویسراہ لخدمۃ أسافل بدنہ وإماطۃ ما ہناک من القاذورات وتنظیف ما یحدث فیہا من الأدناس ۔ (عمدۃ القاری ج۴ص۷۶۱)
بعد ازاں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ یہ نہی حالتِ بول کے ساتھ مقید ہے یا مطلق، علامہ عینی تحریر فرما ہیں : فإن قلت الحدیث یقتضی النہی عن مس الذکر بالیمین حالۃ البول وکیف الحکم فی غیر ہذہ الحالۃ قلت روی أبو داود بسند صحیح من حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت کانت ید رسول اللہ الیمنی لطہورہ وطعامہ وکانت یدہ الیسری لخلاۂ وما کان من أذی وأخرجہ بقیۃ الجماعۃ أیضا وروی أیضا من حدیث حفصۃ زوج النبی علیہ الصلاۃ والسلام قالت کان یجعل یمینہ لطعامہ وشرابہ ولباسہ ویجعل شمالہ لما سوی ذلک وظاہر ہذا یدل علی عموم الحکم علی أنہ قد روی النہی عن مسہ بالیمین مطلقا غیر مقید بحالۃ البول فمن الناس من أخذ بہذا المطلق ومنہم من حملہ علی الخاص بعد أن ینظر فی الروایتین ہل ہما حدیثان أو حدیث واحد فإن کانا حدیثا واحدا مخرجہ واحد واختلفت فیہ الرواۃ فینبغی حمل المطلق علی المقید لأنہا تکون زیادۃ من عدل فی حدیث واحد فتقبل وإن کانا حدیثین فالأمر فی حکم الإطلاق والتقیید علی ما ذکر۔(عمدۃ القاری ج۴ص۷۶۱)
البنایۃ میں فرمایا : قولہ:لا یمس ذکرہ، ہذا إذا کان فی الخلاء، وعلی الإطلاق ما روی عن عثمان رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أنہ قال:ما تعنیت ولا تمنیت ولا مسست ذکری بیمینی منذ بایعت رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وہذا إکرام الیمین وإجلال النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وہو من باب الآداب عند الفقہاء۔(البنایۃ ج۱ص۰۶۷)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ:حالتِ غیرِ بول میں اگرچہ علماء کے مابین اختلاف ہے لیکن حالتِ بول سے متعلق علماء متفق ہیں کہ دائیں ہاتھ کے شرف کے باعث اسے آلہئ تناسل سے دور رکھنا چاہیئے۔
اہلِ فہم پہ مخفی نہیں کہ حالتِ بول کی قید محض اس لیے ہے کہ بول نجاست ہے۔پس کلامِ بالا کے معنی یہ ہوئے کہ نجاست کے خروج کی حالت میں دائیں ہاتھ کو آلہئ تناسل سے دور رکھنا چاہیئے۔
اور جس طرح بول نجاست ہے یوں ہی ”مذی“ بھی نجاست ہے۔حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ نے حضرت مقداد کے توسط سے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مذی سے متعلق پچھوایا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : فیہ الوضوء ۔ (صحیح البخاری حدیث رقم ۲۳۱، ۸۷۱)
مذی کے خروج سے وضوء کاجانا مذی کی نجاست کی دلیل بین ہے۔اور محض نجاست نہیں بلکہ بول کی طرح نجاستِ غلیظہ ہے۔البحر الرائق میں ہے:
کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ کالغائط والبول والمنی والمذی والودی والقیح والصدید والقیء إذا ملأ الفم۔(البحر الرائق ج۱ص۲۴۲)
پس کلامِ بالا سے ہمیں دو مقدمے حاصل ہوئے : (1):مذی نجاست ہے۔ (2):نجاست کے آلۂ تناسل سے خروج کے وقت دائیں ہاتھ سے اسے چھونا منع ہے۔
ان دونوں کے ضم سے اس امر کا حصول بدیہی ہے کہ:مذی کے خروج کے وقت آلۂ تناسل کو چھونا منع ہے۔
اور اس نتیجہ سے بطورِ دلالت ثابت کہ مذی کے خروج کے وقت مرد اور عورت کا ایک دوسرے کے اعضاءِ تناسلیہ کا بوسہ لینا منع ہے۔کیونکہ انسان کا دہن شرف و کرامت میں دائیں ہاتھ کے شرف سے کہیں زیادہ ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم مذکورہ بالا حالت میں مرد اور عورت کے ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کے بوسہ کو حرام نہیں کہتے۔کیونکہ حالتِ بول میں آلہئ تناسل کو دائیں ہاتھ سے چھونا جمہور کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے اگرچہ اہلِ ظاہر کے ہاں مکروہ تحریمی ہے۔عمدۃ القاری پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے:
فإن قلت النہی فیہ تنزیہ أو تحریم قلت للتنزیہ عند الجمہور لأن النہی فیہ لمعنیین أحدہما لرفع قدر الیمین والآخر أنہ لو باشر النجاسۃ بہا یتذکر عند تناولہ الطعام ما باشرت یمینہ من النجاسۃ فینفر طبعہ من ذلک وحملہ اہل الظاہر علی التحریم۔(عمدۃ القاری ج۴ص۷۶۱، حاشیۃ الطحطاوی ص۳۳)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لہٰذا مذکورہ بالا حالت میں بوسہ بھی مکروہ تحریمی نہیں بلکہ مکروہ تنزیہی ہونا چاہیئے۔لیکن چونکہ دہن کا شرف دائیں ہاتھ کے شرف سے زیادہ ہے لہذا اس بوسہ کی کراہت حالتِ بول میں دائیں ہاتھ سے آلہئ تناسل چھونے کی کراہت سے مؤکد ہونی چاہیئے۔
رہی یہ صورت کہ مرد اور عورت شہوت کی حالت میں، جبکہ مذی خارج ہو رہی ہو اور وہ دونوں ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لیں اور مخرجِِ بول ومجری حیض سے اجتناب نہ کریں تو یہ بوسہ سخت منع ومکروہ تحریمی ہے اوراس فعلِ بد سے بچنا واجب ہے اور اس کی دلیل دوسرے سوال کے جواب کے ضمن میں مذکور ہوگی۔ان شاء اللہ جل وعلا ۔
اللہ کریم جل مجدہ نے نکاح سے عورت کومرد کے لیے حلال فرمایا ہے اور مرد اپنی عورت کے پاس جیسے چاہے آسکتا ہے جیسا کہ اللہ کریم سبحانہ وتعالی نے فرمایا : نساؤکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم ۔
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو تم تمہاری کھیتی کوجیسے چاہو آؤ۔(البقرۃ۳۲۲)
لیکن یہ اطلاق کیفیتِ اتیان میں ہے یعنی مرد اپنی بیوی کے پاس جیسے چاہے آسکتا ہے، کھڑے، بیٹھے، لیٹے، آگے کھڑے ہوکر، پیچھے کھڑے ہوکر، وغیرہ وغیرہ۔رہا محلِ اتیان تو اس میں اطلاق نہیں، یعنی مرد کو یہ چھوٹ نہیں کہ عورت کے کسی بھی سوراخ میں اپنا آلہئئ مردمی داخل کرے……بلکہ سوراخوں میں سے ایک ہی سوراخ مرد کے لیے متعین ہے اور وہ ہے عورت کا اگلا مقام۔
اسی بات کو بیان فرماتے ہوئے اللہ کریم جل مجدہ کے حبیب کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا، حضرت عبد اللہ بن عباس راوی کہ حبیب رب العالمین نے فرمایا : ائتھا مقبلۃ ومدبرۃ اذا کان ذلک فی الفرج ۔(المعجم الکبیر للطبرانی حدیث رقم ۸۰۸۲۱، المعجم الاوسط لہ حدیث رقم ۳۸۲۳، شرح مشکل الآثار للطحاوی حدیث رقم ۸۲۱۶، شرح معانی الآثار حدیث رقم ۱۰۴۴)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : مقبلۃ ومدبرۃ ماکان فی الفرج۔(شرح معانی الآثار حدیث رقم ۲۹۳۴)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا:یأتیھا کیف شاء ما لم یکن یأتیھا فی دبرھا او فی الحیض۔(جامع البیان ج۴ص۸۹۳)
دوسری روایت میں ہے:یأتیھا قائمۃ وقاعدۃ ومن بین یدیھا ومن خلفھا وکیف شاء بعد ان یکون فی المأتی۔(مساویئ الاخلاق حدیث۸۴۴)
حضرت عکرمہ نے فرمایا:یأتیھا کیف شاء قائم وقاعد وعلی کل حال یأتیھا ما لم یکن فی دبرھا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ ج۴ص۹۲۲)
اگر اس باب میں مرویات کا احاطہ کیا جائے تو لاتعداد مرفوعات، موقوفات ومقطوعات موجود ہیں جن کا ذکر اس مختصر تحریر کو نہایت درجہ طویل کر دے گا۔اس لیے مذکورہ مرویات پر ہی اکتفاء مناسب ہے۔
بہرحال ان کلمات نے ہمیں بتا دیا کہ اس آیت میں عورت کے پاس جیسے چاہو آنے کی چھوٹ دی جا رہی ہے لیکن جہاں چاہو کی چھوٹ ہر گز نہیں۔
بلکہ ان کلمات شریفہ سے ہٹ کر خود آیہئ مقدسہ کے کلمات مقدسہ کودیکھا جائے تو وہ بھی راہنمائی میں کافی ہیں، کیونکہ فرمایا:فأتوا حرثکم۔اپنی کھیتیوں کو آؤ۔
ظاہر ہے کہ عورت حقیقی کھیتی تو ہے نہیں، بلکہ آیہئ مقدسہ میں کھیتی کے ساتھ تشبیہ ہے جو تقاضا فرما ہے کہ تم اپنی بیوی کے پاس آؤ لیکن اس جگہ سے جو کھیتی کی جگہ ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ کھیتی کا محل عورت کے بدن میں نہ تو اس کا منہ ہے اور نہ ہی پچھلا مقام، توپھر وہ مقامات کیسے حلال ہوسکتے ہیں؟؟؟
اسی بات کو بیان کرتے ہوئے قاضی ابو محمد عبد الحق ابن عطیۃ الاندلسی المحاربی (المتوفی ۲۴۵ ھ) پھر شمس الدین قرطبی رحمہ اللہ تعالی (المتوفی ۱۷۶ ھ)، پھر ابو زید عبد الرحمن بن محمد الثعالبی (المتوفی ۵۷۸ھ) نے فرمایا:
لفظ الحرث یعطی ان الاباحۃ لم تقع الا فی الفرج خاصۃ اذ ھو المزدرع۔(المحرر الوجیز ج۱ ص۰۵۲، الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ج۳ص۳۹، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن للثعالبی ج۱ص۹۲۱)
مذکورہ بالا آیہ مقدسہ سے پچھلی آیت میں ہے : فاذا تطھرن فأتوھن من حیث امرکم اللہ۔
(البقرۃ ۲۲۲)
جب تمہاری عورتیں پاک ہو جائیں تو اب تم ان کے پاس وہاں سے آؤ جہاں کی اللہ سبحانہ وتعالی نے تمہیں اجازت دی ہے۔
اتیان کی ”من حیث امرکم اللہ“ سے تقیید دال ہے کہ عورت کے پاس آنا صرف اس مقام سے حلال ہے جس کی اللہ سبحانہ وتعالی نے اجازت دی، ورنہ محض ”فاذا تطھرن فأتوھن“ فرما دینا کافی لگتا ہے۔اور جس مقام کی اللہ کریم جل مجدہ نے اجازت دی اس کا ذکر بعد والی آیت میں فرما دیا، یعنی:کھیتی کی جگہ۔پس اس آیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت کے پاس صرف اسی مقام سے آیا جا سکتا ہے جو کھیتی کی جگہ ہے اس کے علاوہ……چاہے وہ عورت کا پچھلا مقام ہو یا منہ……اس میں آنا حلال نہیں۔
ایک دوسری آیۂ مبارکہ میں ہے:فالآن باشروھن وابتغوا ماکتب اللہ لکم۔(البقرۃ ۷۸۱)
پس اب تم اپنی بیویوں سے ہمبستری کرو اور اللہ کریم جل مجدہ نے جو کچھ تمہارا مقدر کیا اسے ڈھونڈو۔
آیہ مقدسہ کے دوسرے جملہ میں بیوی سے مباشرت کا مقصد بتایا جارہا ہے اور وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے مقدر یعنی اولاد کی تلاش۔اور ظاہر سی بات ہے کہ جس طرح عورت کی دبر اولاد کی تلاش کا محل نہیں، عورت کا منہ بھی اس چیز کا محل نہیں، پس دونوں میں سے کسی کے بھی حلال ہونے کا کوئی سبب نہیں۔
بعض اذھان کی فکر یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیات محض عورت کے اگلے مقام کی حل کے بیان میں ہیں، رہی اس کے ماسوا کی حرمت تو اس باب میں یہ آیات ساکت ہیں۔
لیکن حق یہ ہے کہ:مذکورہ بالا آیاتِ بینات سے محض عورت کے اگلے مقام کی حلت مستفاد نہیں بلکہ حلت کا اس مقام میں حصر بھی مستفاد ہے جس کے صریح معنی دیگر سوراخوں کی حرمت کے ہیں۔
ہمارے اس دعوی کی تائید کے لیے ما قبل میں مذکور کلماتِ ائمہئ تفسیر کافی ہیں۔علاوہ ازیں جب امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے امام محمد بن الحسن رضی الللہ تعالی عنہ سے عورت کے پچھلے مقام میں وطی سے متعلق سوال کیا:
بأی شیئ حرمتہ؟آپ کس دلیل سے اسے حرام قرار دیتے ہیں؟
امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: بقول اللہ عزوجل:فأتوھن من حیث امرکم اللہ۔ وقال:فأتوا حرثکم انی شئتم۔ والحرث لایکون الا فی الفرج۔
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے عرض کی: أفیکون ذلک محرما لما سواہ؟
امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: نعم ۔ (تلخیص الحبیر لابن حجر العسقلانی ج۳ص۲۹۳)
یوں ہی جب امام مالک رحمہ اللہ تعالی کو معلوم پڑا کہ کچھ لوگ امام مالک کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ آپ عورت کے ساتھ اس کے پچھلے مقام میں وطی کے جواز کے قائل ہیں تو آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:کذبوا علی کذبوا علی کذبوا علی۔
وہ لوگ مجھ پہ جھوٹ باندھ رہے ہیں، مجھ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں، مجھ پہ جھوٹ باندھ رہے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
پھر فرمایا:الستم قوما عربا؟ الم یقل اللہ تعالی:نساؤکم حرث وھل یکون الحرث الا فی موضع المنبت؟(تفسیر القرطبی ج۳ص۵۹)
امام مالک اور امام محمد رحمھما اللہ تعالی جیسی شخصیات کا ان آیاتِ مبارکہ سے عورت کے اگلے مقام کے علاوہ کی حرمت پر استدلال واضح دلیل ہے کہ یہ آیاتِ بینات حلت کو عورت کے اگلے مقام پہ منحصر فرما رہی ہیں ……پس جب حلت عورت کے اگلے مقام پہ منحصر ہو گی تو جس طرح عورت کا پچھلا مقام ماسوا ہونے کی وجہ سے حرام ہے یوں ہی عورت کا منہ بھی ماسوا ہونے کے سبب حرام ہے۔
علاوہ ازیں حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم سے حلت کے ایک ہی سوراخ پہ منحصر ہونے کی تصریحات بھی موجود ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے ایک شخص نے آکر عرض کی کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
نساؤکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم۔
لہذا میں سمجھتا ہوں کہ میری بیوی کی دبر بھی میرے لیے حلال ہے سو میں بیوی کے پچھلے مقام سے مباشرت کرتا ہوں۔
جواب میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے فرمایا:یا لکع!انما قولہ:انی شئتم، قائمۃ وقاعدۃ ومقبلۃ ومدبرۃ فی أقبالھن لاتعد ذلک الی غیرہ۔
(الدر المنثور للسیوطی عن عبد بن حمید ج۲ ص۷۹۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما کے اس جملہ پہ غور کیجیئے:”لا تعد ذلک الی غیرہ“صاف لفظوں میں غیرِ قبل سے منع فرما دیا۔
یونہی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ یھود کا خیال تھا کہ مرد جب اپنی عورت کے پاس ایسی حالت میں آئے کہ عورت آگے کی جانب جھکی ہوئی ہو تو بچہ احول (بھینگا) ہوتا ہے، اس پہ یہ آیہئ مقدسہ نازل ہوئی:نساؤکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم۔(البقرۃ ۳۲۲)
ان شاء مجبیۃ وان شاء غیر مجبیۃ اذا کان فی صمام واحد۔(صحیح مسلم حدیث رقم ۳۹۵۲، صحیح ابن حبان حدیث رقم ۶۶۱۴، السنن الکبری للبیہقی حدیث رقم ۵۸۴۴۱، المعجم الاوسط للطبرانی حدیث رقم ۵۳۰۸، شرح مشکل الآثار للامام الطحاوی حدیث رقم ۵۲۱۶، شرح معانی الآثار حدیث رقم ۱۹۳۴)
”اذا کان فی صمام واحد“ بھی حلت کے ایک ہی سوراخ پہ انحصار میں صریح ہے۔بلکہ اللہ کریم جل وعلا کے حبیبِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خود اپنی زبانِ اقدس سے حلت کو ایک ہی سوراخ پہ منحصر فرمایا۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آیہئ مقدسہ:
نساؤکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم۔سے متعلق فرمایا:یعنی:صماما واحدا۔(جامع الترمذی حدیث۹۷۹۲، مسند احمد حدیث ۳۴۶۶۲، ۵۸۶۶۲، ۹۴۷۶۲، مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث رقم ۴۳۹۶۱)
بعض روایات میں مکرر ہے یعنی:صماما واحدا صماما واحدا۔
(جامع البیان للطبری ج۳ص۶۵۷، ۷۵۷)
بعض روایات میں فرمایا:سمام واحد سمام واحد۔
(مسند ابی یعلی حدیث۲۷۹۶) یعنی ایک ہی سوراخ میں آنا حلال ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:یأتیھا مقبلۃ ومدبرۃ فی سر واحد یعنی فی ثقب واحد۔(السنن الکبری للبیہقی حدیث رقم ۷۸۴۴۱)
اور بعض روایات میں بسند حسن کلمہئ حصر بھی مذکور ہے، فرمایا:لا الا فی صمام واحد۔(مسند احمد حدیث۰۴۷۶۲، تفسیر ابن ابی حاتم ج۲ص۴۰۴)یعنی ایک رستے کے سوا کوئی دوسرا رستہ جائز نہیں۔
آخر الذکر روایت تو حلت کے ایک ہی سوراخ میں انحصار کے باب میں نصّ ہے۔اور جس طرح دبر دوسرا سوراخ ہے یونہی منہ بھی دوسرا سوراخ ہے……پس دونوں میں سے کوئی بھی محلِّ حلت نہیں۔
اس حدیث سے اس وہم کا ازالہ بھی ہو گیا کہ اگر مذکورہ بالا آیات فرج کی حلت اور غیرِ فرج کی حرمت کی مفید ہیں تو تفخیذ وتبطین وغیرہ بھی حرام ہونی چاہیئیں ……کیونکہ کلماتِ سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دال کہ کلام ”صمام“ یعنی رستے وسوراخ میں ہے۔تفصیلِ مقام یہ ہے کہ:
مستثنی منہ میں اصل معنی میں مستثنی سے موافقت ہے۔”مارأیت الا زیدا“ کی تقدیر میں اصل ”ما رأیت انسانا الا زیدا“ ہے۔امام فخر الاسلام علی بن محمد البزدوی (المتوفی ۲۸۴ھ) رقم فرما ہیں:ان المستثنی منہ إنما یثبت علی وفق المستثنی فیما استثنی من النفی کما قال فی الجامع أن کان فی الدار لا زید فعبدی حران المستثنی منہ بنوادم ولو قال الاحمار کان المستثنی منہ الحیوان لان المستثنی حیوان ولو قال الامتاع کان المستثنی منہ کل شیء۔(اصول البزدوی ص۲۶۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام شمس الائمۃ سرخسی کے کلمات بھی ایسے ہی ہیں، فرمایا:الاصل فی الاستثناء من النفی أن المستثنی منہ فی معنی المستثنی، وعلی ہذا بنی علماؤنا مسائل:فی الجامع:إذا قال إن کان فی ہذہ الدار إلا رجل فعبدہ حر، فإذا فی الدار سوی الرجل دابۃ أو ثوب لم یحنث، وإن کان فیہا سوی الرجل امرأۃ أو صبی حنث۔ولو کان قال إلا حمارا فإذا فیہا حیوان آخر سوی الحمار یحنث، وإن کان فیہا ثوب سوی الحمار لم یحنث، وإن کان قال إلا ثوب فأی شیئ یکون فی الدار سوی الثوب مما ہو مقصود بالامساک فی الدور یحنث، فعرفنا أن المستثنی منہ فی معنی المستثنی۔(اصول السرخسی ج۲ص۷۶۱، ۸۶۱)
ان کلمات سے ملتے جلتے کلمات لا تعداد کتبِ اصول میں درج ہیں لیکن ان امامان جلیلان رضی اللہ تعالی عنھما کی شہادت کے بعد کسی دوسری شہادت کی حاجت نہیں۔لہذا ”لا الا فی صمام واحد“ کی تقدیر ”لا یحل لہ الاتیان فی اصمتھا الا فی صمام واحد“ یا اس کی مثل ہونی چاہیئے۔
اور اب اس کلام کی دلالت خوب واضح ہو چکی ہے کہ کلام عورت کے بدن کے سوراخوں سے متعلق ہے اور ان میں سے ایک سوراخ کے علاوہ کوئی دوسرا سوراخ حلال نہیں۔لہذا عورت کی دبر، منہ، عورت کی فرج کے علاوہ بدن کے کسی بھی سوراخ میں مرد کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس میں اپنا آلۂ تناسل داخل کرے۔پس اگر کان یا ناک میں ادخال متصور ہو تو ان کا حکم بھی منہ اور دبر والا ہی ہوگا……رہی تفخیذ وتبطین وغیرھما تو ان میں ”ایلاج فی صمام“ یعنی ”سوراخِ بدن میں مباشرت“ نہ ہونے کی وجہ سے کلماتِ بالا ان سے مانع نہیں۔
بہر حال کلمات مذکورہ بالا سے واضح ہو چکا کہ مرد کا اپنی بیوی کے منہ میں اپنا آلہئ مردمی ڈالنا حرام ہے اور یوں سوالِ ثانی کے جزء اول کا جواب آگیا۔ذیل میں مذکور کلام سے سوالِ ثانی کے جزء ثانی کے جواب کے ساتھ ساتھ حکمِ بالا کی تائید تقویت بھی ہوتی ہے اور سوالِ اول کے جواب میں ہم نے جو صورتیں ذکر کیں، ان میں سے جزء اخیر کا جواب بھی مستفاد ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مرد کا اپنا آلہئ مردمی عورت کے منہ میں ڈالنا، جماع سے قبل شہوت کی حالت میں مرد اور عورت کا ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کو چوسنا اور چاٹنا اور یوں ہی اس حالت میں مخرج سے اجتناب کیے بغیر ایک دوسرے کے اندامِ نہانی کا بوسہ لینا مکروہ وحرام ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ:ہمبستری سے پہلے اکٹھے ہونے کی صورت میں مرد اور عورت کی شرمگاہوں سے مذی اور قذی نکلتی ہے جو ناپاک ہے۔پس اگر مرد اور عورت مخرج سے اجتناب کیے بغیر ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لیں، یا مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ کو چاٹے یاعورت اپنے شوہر کے آلہئ مردمی کو چوسے، یا اس حالت میں مرد اپنا آلہئ تناسل عورت کے منہ میں ڈالے تو ہر ایک کا دہن وزبان ناپاکی سے لتھڑیں گے……بلکہ بہت ممکن کہ وہ ناپاکی لعاب کے ساتھ مل کر حلق سے نیچے اتر جائے……حالانکہ ناپاکی سے اجتناب واجب اور اس کو کھانے پینے کی حرمت ثابت، لہذا ان افعالِ شنیعہ سے بچنا واجب اور ان کا ارتکاب حرام ٹھہرا۔
ہمبستری سے پہلے مرد اور عورت کے مقاماتِ مخصوصہ سے مذی اور قذی کے نکلنے میں تو شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔یہی وجہ ہے کہ مباشرتِ فاحشہ کوناقض وضوء شمار کیا گیا ہے۔علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی رقمطراز ہیں:لانھا لاتخلو عن خروج مذی غالبا وھو کالمتحقق فی مقام وجوب الاحتیاط اقامۃ للسبب الظاہر مقام الامر الباطن۔(رد المحتار ج۱ص۷۰۴)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
رہا مذی کا ناپاک ہونا تو اس کا قدرے بیان سوالِ اول کے جواب میں گزرا۔
رہی یہ بات کہ ”ایسی حالت میں مخرج سے اجتناب کیے بغیر مرد اور عورت ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لیں یا چوسیں یا چاٹیں یا مرد اپنا ذَکر بیوی کے منہ میں ڈالے تو ان کے دہن وزبان مذی سے لتھڑیں گے اور قریب کہ وہ مذی لعاب سے مل کر شوہر وبیوی کے پیٹ میں داخل ہوجائے“……تو یہ امر میری نگاہ میں بدیہیات سے ہے اور پر امید ہوں کہ اس کا انکار نہ کرے گا مگر جاہل یا معاند۔
ہاں یہ مقدمہ باقی ہے کہ نجاسات سے اجتناب واجب اور ان کو کھانا پینا حرام ہے۔
نجاست سے اجتناب کے وجوب کے بیان کے لیے وہ حدیث کافی، جوحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:عامۃ عذاب القبر من البول فاستنزھوا من البول۔(مسند البزار حدیث رقم ۷۰۹۴)
اورحضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:استنزھوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ۔(سنن الدارقطنی حدیث رقم ۴۶۴)
جب بدن کے عام اعضاء کو نجاست سے نہ بچانا حرام اور موجبِ عذاب قبر ہو سکتا ہے تو دہن ولسان تو بدن کے اکرم اعضاء سے ہیں، انہیں یوں نجاسات پہ پیش کرنا اور ناپاکی سے لتھڑنا کیسے حلال ہو سکتا ہے؟
واضح رہے کہ خاص حالتِ جماع میں بھی نجاستوں سے پرہیز لازم ہے الا آنکہ عذر ہو جیسے سلس البول، استحاضۃ وغیرہ۔علامہ ابنِ عابدین شامی رحمہ اللہ تعالی تحریر فرما ہیں:أفتی بعض الشافعیۃ بحرمۃ جماع من تنجس ذکرہ قبل غسلہ إلا إذا کان بہ سلس فیحل کوطء المستحاضۃ مع الجریان ویظہر أنہ عندنا کذلک لما فیہ من التضمخ بالنجاسۃ بلا ضرورۃ لإمکان غسلہ بخلاف وطء المستحاضۃ ووطء السلس تأمل۔ وبقی ما لو کان مستنجیا بغیر الماء ففی فتاوی ابن حجر أن الصواب التفصیل وہو أنہ إذا کان لعدم الماء جاز لہ الوطء للحاجۃ وإلا فلا۔ قال وروی أحمد بسند ضعیف أن رجلا قال یا رسول اللہ الرجل یغیب لا یقدر علی الماء أیجامع أہلہ قال نعم اھـ(رد المحتار ج۱ص۸۹۲)
کلماتِ بالا کا حاصل یہ ہے کہ:اگر مرد کے ذکر پہ نجاست لگی ہو، چاہے صرف اتنا ہی ہوکہ پیشاب کیا اور سرے سے استنجاء نہیں کیا، پھر بھی جب تک اپنے آلہئ تناسل کو دھو کر پاک نہ کر لے اس کا بیوی سے ہمبستری کرنا حلال نہیں ……کیونکہ اگر وہ ایسی ہی حالت میں بیوی کے قریب جاتا ہے تو بلاحاجت بیوی کی شرمگاہ مرد کے آلہئ تناسل پہ لگی نجاست سے لتھڑے گی، اور بیوی کی فرج کی رطوبت سے مل کر وہ نجاست مرد کے آلہئ تناسل کو مزید آلودہ کرے گی، اور چونکہ بلاعذر نجاست سے لتھڑنا جائز نہیں، لہذا ایسی حالت میں مرد کا اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا حرام ہے۔
اللہ اکبر۔کہاں عورت کی شرمگاہ جو قریب کہ قذی کی نجاست سے پہلے ہی لتھڑی ہو اور مرد کا ناپاک آلۂ تناسل……اور کہاں انسان بلکہ مسلمان کے ذکر الہی کرنے والے پاک دہن وزبان ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جس پاک شریعت کو بلاعذر عورت کی شرمگاہ کا ناپاکی سے لتھڑنا اور مرد کے ناپاک ذَکَر پہ ناپاکی کا پھیلنا پسند نہیں وہ بدن کے ان اکرم اعضاء کو یوں نجاستوں سے آلودہ کرنے کی اجازت دے گی؟؟؟
واللہ ہر گز نہیں ۔ یہ دین دے کر بھیجے جانے والی ذاتِ مقدسہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا رب جل وعلا ان کے بارے میں فرماتا ہے : ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث۔
(الاعراف ۷۵۱)
اس کریم آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خبیث چیزوں کو حرام فرمایا اور اس سے بڑھ کر خبث کیا ہو گا کہ انسان جان بوجھ کر اپنے منہ پہ ناپاکی ملے اور اسے زبان سے چاٹے ۔
اور رہی نجاسات کے کھانے پینے کی حرمت تو وہ محتاجِ بیان نہیں، کیونکہ حکمِِ نجاست میں حکمت ہی یہ ہے کہ ہر حال میں اس چیز سے اجتناب کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ نجس کی حرمت علماء کے بیچ متفقہ ہے۔ابنِ حزم ظاہری نے اس پہ اتفاق ذکر کرتے ہوئے لکھا:واتفقوا علی ان اکل النجاسۃ وشربھا حرام حاشا النبیذ المسکر۔(مراتب الاجماع ص۹۱)
علامہ ابن عابدین تحریر فرما ہیں:والحرمۃ فرع النجاسۃ۔(رد المحتار ج۶ص۲۳۷)
پس جب نجاستوں کو کھانا پینا حرام ہے تو اعضاءِ تناسلیہ کو چوسنا اور چاٹنا کیسے حلال ہو سکتا ہے کہ جس فعلِ شنیع میں نجاست کے پیٹ میں چلے جانے کا قوی احتمال، بلکہ مقامِِ وجوبِِ احتیاط میں کالمتحقق اور متحقق کے حکم کا مستحق۔اور کم سے کم نجاست سے لتھڑنا تو یقینی ……تو کیا اثباتِِ حرمت کے لیے یہ برائی کافی نہیں؟؟؟
حق تو یہ ہے کہ ہر طبیعتِ سلیمہ اس فعلِ شنیع کو برا اورخبیث جانتی رہی ہے۔اہلِ عرب گالی دیتے وقت کہا کرتے تھے:امصص بظر امک۔(عمدۃ القاری ج۰۲ ص۹۹۴، فتح الباری ج۵ص۰۴۳)
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:اذا سمعتم من یعتزی بعزاء الجاہلیۃ فأعضوہ ولاتکنوا۔(مسند احمد بن حنبل حدیث رقم ۱۷۲۱۲، ۲۷۲۱۲، ۳۷۲۱۲)
اور بعض روایات میں ہے:کنا نؤمر اذا الرجل تعزی بعزاء الجاہلیۃ فأعضوبھن ابیہ ولاتکنوا۔(مسند احمد بن حنبل حدیث رقم ۴۷۲۱۲، ۵۷۲۱۲)
شرح السنۃ میں ہے:قولہ: بھن ابیہ یعنی:ذکرہ، قلت:یرید یقول لہ:اعضض بأیر ابیک۔
(شرح السنۃ للبغوی ج۳۱ص۱۲۱)
غریب الحدیث لابن الجوزی اور النھایۃ فی غریب الاثر میں ہے:فأعضوہ بہن أبیہ ولا تکنوا أی قولوا لہ أعضض بأیر أبیک ولا تکنوا عن الأیر بالہن تنکیلا۔(غریب الحدیث لابن الجوزی ج۲ص۳۰۱، النھایۃ فی غریب الاثر ج۳ص۴۹۴)
”بھن ابیہ“ کے تحت علامہ عبد الرؤف مناوی لکھتے ہیں:ای قولوا لہ:اعضض بھن ابیک او بذکرہ۔(فیض القدیر ج۱ص۹۵۴)
آگے چل کر ”أعضوہ“ کے تحت فرمایا:ای قولوا لہ:اعضض بظر امک۔
(فیض القدیر ج۱ص۹۸۴)
جب عروۃ بن مسعود نے دربار رسالت میں مسلمانوں سے متعلق اپنا یہ تأثر ظاہر کیا کہ یہ لوگ ٹکنے والے نہیں اور آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کرم اللہ تعالی وجھہ نے فرمایا:امصص ببظر اللات انحن نفر عنہ وندعہ؟
(صحیح البخاری حدیث رقم ۱۳۷۲، ۲۳۷۲، مسند احمد ۰۳۹۸۱، مسند ابی یعلی حدیث رقم ۲۴، السنن الکبری للبیہقی حدیث رقم ۰۸۲۹۱، المعجم الکبیر للطبرانی حدیث رقم ۵۴۴۶۱، دلائل النبوۃ للبیہقی ج۴ص۳۰۱، صحیح ابن حبان حدیث رقم ۲۷۸۴، مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث رقم ۰۱۰۸۳، مصنف عبد الرزاق حدیث رقم ۰۲۷۹)
ان کلمات کا سب وشتم ہونا اور مقابل کی مذمت وتخسیس میں ان کا ذکر کیا جانا واضح ثبوت ہے کہ اربابِ عقولِِ سلیمہ واصحابِ طبائع مستقیمہ کے ہاں یہ فعل قباحت وشناعت سے خالی نہیں۔پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ماں، باپ کے ذکر کے بجائے ”بظر اللات“ کہنا دلیلِ بین ہے کہ مدلولِ جملہ کی شناعت ماں اور باپ کی طرف نسبت پر موقوف نہیں بلکہ مص کی بظر کی طرف نسبت ہی مذمت وتحقیر کے لیے کافی ہے۔
ایک ایسا فعل کہ جسے ہرصاحبِ عقلِ سلیم برا جانے، شریعتِ مطہرہ اسلامیہ اس کو کب جائز ٹھہرائے گی؟، اس کا ارتکاب نہیں کیا مگر کالانعام یہود ونصاری اور ان کے امثال نے، وہ لوگ جو سرِ راہ زنا کو ترقی جانتے اور اپنی ماؤں بہنوں سے زنا کو فکرِ نو مانتے ہیں۔پھر ان انسانیت کے دشمنوں نے ان افعالِِ شنیعہ کی اشاعت کر کے انسانیت دشمنی کا حق اداء کیا، اورپھر مسلمانوں میں سے بعض نے ان کی پیروی کی اور یہ نہ سوچا کہ یہ کام سراسر جانوروں کا ہے اور وہی وہ ہیں جو اپنی مادہ کی فرج کو چاٹتے ہیں۔اور شریعتِ مطہرہ اسلامیہ کو ہر گز پسند نہیں کہ انسانِ مکرم جانوروں کے برے اسالیب اپنائے بھلے وہ قضاءِ شہوت ہی سے متعلق کیوں نہ ہوں۔سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا اتی احدکم اہلہ فلیستتر ولا یتجرد تجرد العیرین۔(سنن ابن ماجہ حدیث رقم ۱۲۹۱ مسند البزار حدیث رقم ۱۰۷۱، السنن الکبری للبیقہی حدیث رقم ۵۷۴۴۱، المعجم الکبیر للطبرانی حدیث رقم ۲۶۷۳۱)
اور فرمایا:فبینما ہم کذلک إذ بعث اللہ ریحا طیبۃ فتأخذہم تحت آباطہم فتقبض روح کل مؤمن وکل مسلم ویبقی شرار الناس یتہارجون فیہا تہارج الحمر فعلیہم تقوم الساعۃ۔
(صحیح مسلم حدیث رقم ۰۶۵۷، سنن ابن ماجہ حدیث رقم ۵۷۰۴، مسند احمد حدیث ۶۶۶۷۱)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو سے موقوفا ہے:فاذا کان ذلک اشتد غضب اللہ علی اہل الارض فاقام الساعۃ۔(مستدرک علی الصحیحین رقم الحدیث ۷۰۴۸)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ جل مجدہ کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:لایقع احدکم علی اہلہ مثل البہیمۃ علی البہیمۃ۔
(الغرائب الملتقطۃ من مسند الفردوس حدیث رقم ۱۴۳۱)
جب شریعتِ طیبہ اسلامیہ مطہرہ جانوروں کا سا تجرد پسند نہیں کرتی تو کیا جانوروں کا سا ایک دوسرے کی فروج کو چاٹنا جائز ٹھہرائے گی؟؟؟
اس سب سے ہٹ کر اگر اس فعلِ قبیح وشنیع کے انسانی طبیعت پہ برے اثرات دیکھے جائیں تو اس کا ارتکاب نہ کرے گا مگر اپنے آپ کو ہلاکت پر پیش کرنے والا۔جدید سائنسی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ منہ، گلے وغیرہ کے کینسرز کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب منہ کے ذریعے جنسی عمل کی ادائیگی ہے۔یعنی مرد کا اپنا ذَکَر عورت کے منہ میں ڈالنا، یا دونوں کا ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کو چوسنا یا چاٹنا ۔
ہماری اس کلام کی تصدیق کے لیے نیٹ پہ شائع ہونے والے لاتعداد مضامین کی طرف رجوع کی جا سکتی ہے، یا کم از کم ڈاکٹرز حضرات سے رجوع کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ اصحابِ فن ہیں اور اس باب میں بہتر جانتے ہیں۔انگلش میگزین New Scientist 09 May 2007 میں ایک مضمون بعنوان ”Oral sex can cause throat cancer“ کے ابتدائی کلمات کچھ یوں ہیں:
People who have had more than five oral-sex partners in their lifetime are 250% more likely to have throat cancer than those who do not have oral sex, a new study suggests.
The researchers believe this is because oral sex may transmit human papillomavirus (HPV), the virus implicated in the majority of cervical cancers.
ویکیپیڈیا پر نشر مضمون بعنوان ”Oral Sex“ میں ہے:
Links have been reported between oral cancer and oral sex with HPV-infected people. In 2005, a research study at the College of Malmo" in Sweden suggested that performing unprotected oral sex on a person infected with HPV might increase the risk of oral cancer. The study found that 36 percent of the cancer patients had HPV compared to only 1 percent of the healthy control group.
Another recent study suggests a correlation between oral sex and head and neck cancer. It is believed that this is due to the transmission of human papillomavirus (HPV), a virus that has been implicated in the majority of cervical cancers and which has been detected in throat cancer tissue in numerous studies. The New England Journal of Medicine study concluded that people who had one to five oral-sex partners in their lifetime had approximately a doubled risk of throat cancer compared with those who never engaged in this activity and those with more than five oral-sex partners had a 250% increased risk.
جب جدید تحقیقات سے یہ امر ثابت ہوگیا کہ یہ فعلِ شنیع وقبیح امراضِ مہلکہ کے بڑا سبب ہے تو اب شریعتِ مطہرہ کے احکام اور ان کی حِکَم پر مطلع شخص ہرگز اس فعلِ شنیع وقبیح کے شناعت وقباحت میں شک نہ کرے گا۔اس دین میں تو حلال نہیں مگر صرف طیب، رہا خبیث تو اس کی کوئی گنجائش نہیں:ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث۔(الاعراف ۷۵۱)
شریعتِ اسلامیہ اس کام سے روکتی ہے جس میں ضرر ہو۔اللہ کریم جل مجدہ کے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا:لا ضرر ولاضرار۔(رواہ ابن ماجہ عن عبادۃ ابن الصامت برقم ۰۴۳۲، وعن ابن عباس برقم ۱۴۳۲)اور شریعتِ مطہرہ کے احکام اور ان کی حِکَم پر مطلع جانتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے لاتعداد ایسے کاموں سے روک دیا جن میں انسان کو نقصان ہے۔خود رب جل مجدہ نے فرمایا:
شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا الآیۃ ۔ (الشوری ۳۱)
یہ دین نفعِ عباد کے لیے ہے، اسے عباد کا نقصان پسند نہیں۔اگر عباد کا نقصان پسند ہوتا تو بیوی اور کنیز کے اگلے مقام کو حلال فرمانے کے باوجود پچھلے مقام کو حرام فرمانے اور پھر حیض کے دوران ”ھو اذی“ فرما کر اگلے مقام سے بھی روک دینے کا کوئی قابلِ فہم سبب نظر نہیں آئے گا۔کتبِ فقہ کی طرف توجہ کی جائے تو فقہاء کرام کسی کام سے روکتے ہوئے جابجا فرماتے نظر آتے ہیں:لا ضرر ولاضرار فی الاسلام۔
میں ان احکام کا نہ تو احصاء چاہوں گا اور نہ ہی مثال، کیونکہ احصاء متعذر ہے اور مثال موہمِ انحصار۔بہر حال خلاصۂ کلام یہ ہے کہ:جنسی عمل کی منہ کے ذریعے ادئیگی کی صورت میں ازروئے شرع کثیر خرابیوں کے ساتھ ساتھ منہ، گردن وغیرہ کے کینسر کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے لہذا اس سے اجتناب لازم اور اس کا ارتکاب اخروی بدنصیبی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی نقصان کا باعث۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔