Pages

Monday, 3 July 2017

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے گستاخ کی پہچان احادیث مبارکہ کی روشنی میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے گستاخ کی پہچان احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ یقول: بعث علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ الی رسول اللہ ﷺ من الیمن بذھیبۃ فی ادیم مقروظ لم تحصل من ترابھا ۔قال:فقسمہا بین اربعۃ نفر بین عیینۃ ابن بدر و اقرع بن حابس و زید الخیل والرابع اما علقمۃ و اما عامر بن الطفیل ،فقال رجل من اصحابہ:کنا نحن احق بھذا من ھٰؤلاء قال:فبلغ ذلک النبی ﷺ فقال: ألا تأ منونی وانا امین من فی السماء یاتینی خبر السماء صباحا و مسائََ ، قال:فقام رجل غائر العینین ،مشرف الوجنتین،ناشز الجبھۃ ،کث اللحیۃ ،محلوق الرأس ،مشمر الازار ،فقال :یارسول اللہ !اتق اللہ ،قال:ویلک أو لست أحق اھل الارض ان یتقی اللہ؟قال: ثم ولی الرجل،قال: خالد بن الولید:یارسول اللہ!ألا اضرب عنقہ قال:لا،لعلہ ان یکون یصلی ،فقال خالد:وکم من مصل یقول بلسانہ مالیس فی قلبہ،قال رسول اللہ ﷺ:انی لم اومر ان انقب عن قلوب الناس ،ولا اشق بطونھم ، قال: ثم نظر الیہ وھو مقف ،فقال: انہ یخرج من ضئضیء ھذا قوم یتلون کتاب اللہ رطبا لایجاوز حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ۔و اظنہ قال: لئن ادرکتھم لأقتلنھم قتل ثمود۔
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا ،جس سے ابھی مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔حضور ﷺنے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فر مادیا، عیینہ بن بدر،اقرع بن حابس ،زید بن خیل،اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔اس پر آپ ﷺ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا:ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔جب یہ بات حضور نبی کریم ﷺتک پہونچی تو آپ ﷺنے فرمایا:کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے ؟حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں ،اس کی خبریں تو میرے پاس صبح وشام آتی رہتی ہیں ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :پھر ایک آدمی کھڑا ہوگیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں ،چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئیں ،اونچی پیشانی،گھنی داڑھی ،سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا،وہ کہنے لگا:یارسول اللہ !اللہ سے ڈرئیے،آپ ﷺنے فر مایا: تو ہلاک ہو،کیا میں تمام اھل زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کا حقدار نہیں ہوں ؟پھر جب وہ آدمی جانے کے لئے پلٹا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا:یا رسول اللہ میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟آپ ﷺنے فر مایا:ایسا نہ کرو ،شاید یہ نمازی ہو،حضرت خالد بن ولید نے عرض کیا:بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگائوں اور ان کے پیٹ چاک کروں ۔راوی کا بیان ہے کہ: وہ پلٹا تو آپ ﷺ نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فر مایا:اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب سے زبان تر رکھیں گے ،لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا ۔دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے،راوی کہتے ہیں :میرا خیال ہے کہ آ پ ﷺنے یہ بھی فر مایاکہ:اگر میں ان لوگوں کو پائوں تو قوم ثمود کی طرح قتل کردوں۔اور ابوداود کی روایت میں ہے کہ:وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بتوں کو پوجنے والوں کو چھوڑیں گے۔
(بخاری ،کتاب المغازی،باب بعث علی بن ابی طالب وخالد بن ولید الی الیمن قبل حجۃ الوداع،حدیث:۴۳۵۱،)(مسلم،حدیث:۱۰۶۳)و فی روایۃ ابی داود،یقتلون اھل الاسلام ویدعون اھل الاوثان)(سنن ابی داود،حدیث:۴۷۶۳)

عن ابی سعید رضی اللہ عنہ قال:بینا النبی ﷺ یقسم جاء عبد اللہ بن ذی الخویصرہ التمیمی فقال: اعدل یا رسول اللہ !قال:ویحک ،ومن یعدل اذا لم اعدل ۔قال عمر بن الخطاب :دعنی اضرب عنقہ ،قال:دعہ فان لہ اصحا با یحقر احدکم صلاتہ مع صلاتہ و صیامہ مع صیامہ یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ ۔
تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: حضور نبی اکرم ﷺمال غنیمت تقسیم فر مارہے تھے کہ عبد اللہ بن ذو الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا :یارسول اللہ !انصاف سے تقسیم کیجئے ،حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون انصاف کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:یارسول اللہ !اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑادوں ،فر مایا:رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے)کہ ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے ۔لیکن وہ لوگ دین سے اس طر ح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔
(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث:۳۶۱۰،و کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم ،حدیث : ۶۹۳۳،مسلم،حدیث:۱۰۶۴)

عن علی رضی اللہ عنہ قال: انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: یاتی فی آخر الزمان قوم حدثاء الاسنان، سفھاء الاحلام،یقولون من خیر قول البریۃ ،یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ ،لا یجاوز ایمانھم حنا جرھم ،فاینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجرا لمن قتلھم یوم القیامۃ ۔
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:میں نے رسول اللہ ﷺکو فر ماتے ہوئے سنا کہ:آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو نو عمر،عقل سے کورے ہوں گے،وہ حضور نبی اکرم ﷺکی حدیث بیان کریں گے ،مگراسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اُترے گا ،پس تم انہیں جہاں کہیں پائو تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن بڑا ثواب ملے گا۔(بخاری،کتاب المنا قب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،حدیث:۳۶۱۱،)(مسلم،حدیث:۱۰۶۶،ترمذی ، حدیث:۲۱۸۸،)(سنن نسائی،حدیث:۴۱۰۲،ابن ماجہ،حدیث:۱۶۸)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

عن ابی سعید الخدری وانس بن مالک عن رسول اللہ ﷺ قال: سیکون فی امتی اختلاف و فر قۃ ،قوم یحسنون القیل و یسیئون الفعل و یقرئو ن القرآن لا یجاوز تراقیھم ،یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ ،لایر جعون حتی یرتد علی فوقہ ،ھم شر الخلق و الخلیقۃ ،طوبی لمن قتلھم و قتلوہ ،یدعون الی کتاب اللہ و لیسوا منہ فی شیی ء ،من قاتلھم کان اولی باللہ منھم ،قالوا : یارسول اللہ ! ماسیماھم ؟قال:التحلیق۔
تر جمہ: حضرت ابو سعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفر قہ بازی ہوگی ،ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ بات کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے ،قرآن پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا ،وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے اور وہ واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ تیر کمان میں واپس نہ آجائے ،وہ لوگ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے ،خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کریں گے اور جسے وہ قتل کریں ،وہ اللہ کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا ،ان کا قاتل ان کی بہ نسبت اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوگا ،صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ !ان کی نشانی کیا ہے؟فر مایا:سر منڈوانا ۔(سنن ابی داود، کتاب السنۃ،حدیث: ۴۷۶۵)

عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ:ان ما اتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی اذا رُئیت بھجتہ علیہ وکان رِدئا للأسلام غیرہ الی ما شاء اللہ فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ وسعی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک ،قال:قلت ُ یا نبی اللہ !ایھما اولی بالشرک المرمی ام الرامی؟ قال: بل الرامی۔
تر جمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:بے شک جس چیز کا مجھے تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا رہا ،پھر وہ اس قرآن سے دور ہوگیا اور اس کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا ،راوی بیان کرتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا :ائے اللہ کے نبی ﷺ!ان دونوں میں کون زیادہ شرک کے قریب تھا ،شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا،آپ ﷺنے فرمایا:شرک کا الزام لگانے والا۔(مسند البزار،جلد :۷،ص :۲۲۰،حدیث:۲۷۹۳)

کان ابن عمر رضی اللہ عنہما یراھم شرار خلق اللہ وقال:انھم انطلقواالی آیات نزلت فی الکفار فجعلوھا علی المومنین۔
ترجمہ: امام بخاری نے باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی کہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج)کو اللہ تعالی کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے(کیونکہ)وہ لوگ اُن آیتوں کو جو کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں مسلمانوں پر چسپاں کرتے تھے۔(بخاری، باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیھم ،ص:۸۲۶)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔