علم غیب ِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم احادیث مبارکہ کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عن عمر رضی اللہ عنہ یقول:قام فینا النبی ﷺ مقاما۔فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلھم،و اہل النار منازلھم ،حفظ ذلک من حفظہ ،و نسیہ من نسیہ۔
(بخاری ،کتاب بد ء الخلق، باب ماجاء فی قول اللہ تعالی:ھوالذی یبدؤا الخلق ثم یعید و ھو اھون علیہ،حدیث:۳۱۹۲)
ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺہمارے درمیان ایک مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ ﷺنے مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے تک کی خبر دی۔اب جو اسے یاد رکھا ، یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔
عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال:قام فینا رسول اللہ ﷺمقاما ،ما ترک شیئا یکون فی مقامہ ذلک الی قیام الساعۃ الا حدث بہ حفظہ من حفظہ و نسیہ من نسیہ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۱)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ ہمارے در میان ایک مقام پر کھڑ ے ہوئے ۔آپ ﷺ نے اپنے اس دن کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی،جس کو آپ نے بیان نہ فر مایا ہو۔جس نے اسے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔
عن عمروبن اخطب رضی اللہ عنہ قال:صلی بنا رسول اللہ ﷺالفجر و صعد المنبر فخطبنا حتی حضرت الظہر فنزل فصلی ثم صعد المنبر ،فخطبنا حتی حضرت العصر ،ثم نزل فصلی ثم صعد المنبر ،فخطبنا حتی غربت الشمس ،فاخبرنا بما کان و بما ھو کائن ،فاعلمنا احفظنا۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۲)
تر جمہ:حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ بیان فر ماتے ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فر مایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا ،پھر آپ ﷺنیچے تشریف لائے ،نماز پڑھائی،اس کے بعد پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فر مایا ،یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا،پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی ،پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فر مایا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔تو آپ ﷺ نے ہم لوگوں کو ان تمام باتوں کی خبر دی جو ہو چکا تھا اور جو کچھ ہونے والا تھا
عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ انہ قال:اخبرنی رسول اللہ ﷺ بما ھو کائن الی ان تقوم الساعۃ ۔فما منہ شییء الا قد سأ لتہ الا انی لم اسألہ ما یخرج اھل المدینۃ من المدینۃ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اخبار النبی ﷺفیما یکون الی قیام الساعۃ،حدیث:۲۸۹۱)
ترجمہ:حضرت حذیفہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور ﷺنے مجھے قیامت تک ہونے والی ہر ایک بات بتادی ،اور کوئی ایسی بات نہ رہی جسے میں نے آپ ﷺسے پوچھا نہ ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ اہل مدینہ کو کون سی چیز مدینہ سے نکالے گی۔
عن انس رضی اللہ عنہ ۔فی روایۃ طویلۃ و منھا:ان رسول اللہ ﷺ شاور ،حین بلغنا اقبال ابی سفیان ،وقام سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ فقال والذی نفسی بیدہ ،لو امرتنا ان نخیضھا البحر لا خضناھا ،ولو امرتنا ان نضرب اکبادھا الی برک الغماد لفعلنا ۔قال:فندب رسول اللہ ﷺ الناس،فانطلقوا حتی نزلوا بدرا ،فقال رسول اللہ ﷺ ھذا مصرع فلان قال:و یضع یدہ علی الارض ،ھا ھنا و ھاھنا ۔قال:فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللہ ﷺ۔
(مسلم ،کتاب الجھاد والسیر،باب غزوۃ بدر،حدیث:۱۷۷۹)
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہمیں ابو سفیان کے (قافلہ کی شام سے )آنے کی خبر پہونچی تو حضور نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ فر مایا ۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا :(یا رسول اللہ!)اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے،اگر آپ ہمیں برک الغماد پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے کو ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے ۔تب حضور نبی اکرم ﷺنے لوگوں کو بلایا اور چلے یہاں تک کہ بدر کی وادی میں اُترے۔تو حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:یہ فلاں شخص کے مر نے کی جگہ ہے(یہ کہتے جاتے تھے)اور اپنے ہاتھ کو زمین پر اِدھر اُدھر رکھتے جاتے تھے۔راوی کہتے ہیں :کوئی کافر حضور ﷺکی بتائی ہوئی جگہ سے ذرّابرابر بھی ادھر اُدھر نہیں مرا۔
عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال یوم خیبر :لاعطین ھذہ الرایۃ غدا رجلا یفتح اللہ علی یدیہ ،یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ ورسولہ۔قال:فبات الناس یدوکون لیلتھم :ایھم یعطاھا؟فلما اصبح الناس غدوا علی رسول اللہ ﷺ کلھم یر جو ان یعطاھا ،فقال:این علی،بن ابی طالب؟فقیل ھو یا رسول اللہ یشتکی عینیہ ،قال:فارسلوا الیہ ،فاتی بہ فبصق رسول اللہ ﷺ فی عینیہ و دعا لہ فبرأ حتی کان لم بہ وجع فاعطاہ الرایۃ۔فقال علی یارسول اللہ !اُقاتلھم حتی یکونوا مثلنا ،فقال :اُنفذعلی رسلک حتی تنزل بساحتھم ،ثم ادعھم الی الاسلام و اخبرھم بما یجب علیھم من حق اللہ فیہ ،فواللہ لأن یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر لک من ان یکون لک حمر النعم۔
(بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر،حدیث:۴۲۱۰)
ترجمہ:حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :حضور ﷺنے خیبر کے دن ارشاد فر مایا:کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی فتح عطا فر مائے گا،وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔راوی بیان کرتے ہیں کہ :وہ رات سارے لوگوں کی اس فکر میں گزری کہ دیکھیں حضور ﷺ جھنڈا کسے عطا فر ماتے ہیں؟ جب صبح ہوئی تو سارے لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس امید کے ساتھ کہ جھنڈا انہیں کو ملے۔مگر حضور ﷺ نے فر مایا :علی بن ابو طالب کہاں ہیں؟عرض کیا گیا ،یارسول اللہ ﷺ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔فر مایا،انہیں بلا لاؤ،توجب وہ لائے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا دیا اور ان کے لئے دعا فر مائی۔تو وہ ایسے ٹھیک ہوگئے جیسے انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں جھنڈا عطا فر مایا۔تو حضرت علی نے کہا:یارسول اللہ! میں ان لوگوں سے لڑو یہاں تک وہ لوگ ہماری ہی طرح ہوجائے؟حضور ﷺ نے فر مایا :چلتے رہو۔یہاں تک ان کے میدان میں اُترو ،پھر انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ ان پر اللہ کا کیا حق ہے۔قسم بخدا ،اگرتمہارے ذریعے ایک شخص بھی ہدایت پا گیا تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہوگا۔
عن انس رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ نعی زیدا و جعفرا وابن رواحۃ للناس قبل ان یأتیھم خبرھم فقال:اخذ الرایۃ زید فاصیب ثم اخذ جعفر فاصیب ثم اخذ ابن رواحۃ فاصیب ۔وعینان تذرفان ۔حتی اخذ الرایۃ سیف من سیوف اللہ حتی فتح اللہ علیھم۔
(بخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام،حدیث:۴۲۶۲)
ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:حضور ﷺ نے حضرت زید،حضرت جعفر،حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہوجانے کے متعلق لوگوں کو بتادیاتھا۔چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا:اب جھنڈا زید نے سنبھا لا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے ۔اب جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺکی چشمان مبارک سے آنسو ٹپک رہے تھے۔یہاں تک اب اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار(خالد بن ولید)نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے کافروں پر فتح عطا فر مائی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ خرج حین زاغت الشمس فصلی الظہر،فلما سلم قام علی المنبر فذکر السا عۃ و ذکر ان بین یدیھا اموراعظاما،ثم قال :من احب ان یسأل عن شیء فلیسأل عنہ،فواللہ لا تسألونی عن شیء الا اخبرتکم بہ ما دمت فی مقامی ھذا۔قال انس : فاکثر الناس البکاء و اکثر رسول اللہ ﷺ ان یقول:سلونی،فقال انس :فقام الیہ رجل فقال:این مدخلی یا رسول اللہ!قال:النار۔فقام عبد اللہ بن حذافۃ ،فقال:من ابی ؟یارسول اللہ!قال:ابوک حذافۃ۔قال:ثم اکثر ان یقول :سلونی سلونی،فبرک عمر علی رکبتیہ فقال:رضینا باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد ﷺرسولا۔قال:فسکت رسول اللہﷺ حین قال عمر ذلک ۔ثم قال رسول اللہ ﷺ :اولی والذی نفسی بیدہ ،لقد عرضت علیّ الجنۃ والنار آنفا فی عرض ھذہ الحائط ،وانا اصلی فلم ار کالیوم فی الخیر والشر۔
(بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب مایکرہ من کثرۃ السوال،حدیث:۷۲۹۴،مسلم،حدیث:۲۳۵۹)
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:نبی کریم ﷺسورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرنے کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے،تو قیامت کا ذکر فرمایااور یہ کہ اس سے پہلے بڑے بڑے معاملات ہوںگے۔پھر آپ ﷺ نے کہا:جسے کسی چیز کے بارے میں پوچھنا ہو تو وہ پوچھ لے ،قسم بخدا،تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھوگے مگر میں اس کے بارے میں بتادوںگا اسی جگہ میں جب تک میں ہوں۔ تو لوگ رونے لگے اور حضور نبی کریم ﷺبار بار فر ماتے رہے :مجھ سے پوچھو، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا:تو ایک شخص کھڑا ہوا اور پوچھا کہ:یارسول اللہ!میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ حضور ﷺنے فر مایا:جہنم۔ پھر عبد اللہ بن حذافہ کھڑے ہوئے اور پوچھا کہ:یارسول اللہ !میرے باپ کون ہیں؟ فرمایا:تمہارے باپ حذافہ ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ:پھر حضور ﷺباربار فرمانے لگے :مجھ سے پوچھو،مجھ سے پوچھو۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوئے اور عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!ہم اللہ کے رب،اور اسلام کے دین ،اور محمد ﷺکے رسول ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :تب حضور ﷺخاموش ہوئے۔پھرآپ ﷺنے ارشاد فر مایا:قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ابھی اس دیوار کی چوڑائی میں مجھ پر جنت وجہنم پیش کیا گیا تو میں نے آج کی طرح خیر وشر کبھی نہیں دیکھا۔
عن ابن عمران رسول اللہ ﷺ قال:اللھم بارک لنا فی شامنا ،اللھم بارک لنا فی یمننا،قال:قالوا: وفی نجدنا،قال:قال:ھناک الزلازل والفتن،وبھا یطلع قرن الشیطان۔
(بخاری،کتاب الاستسقائ،باب ما قیل فی الزلازل والایات،حدیث:۱۰۳۷،ترمذی،حدیث: ۳۹۵۳)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ:حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا:ائے اللہ!ہمارے لئے برکت دے ہمارے شام میں ،ائے اللہ!ہمارے لئے برکت دے ہمارے یمن میں،راوی نے کہا:صحابہ کرام نے عرض کیا:اور ہمارے نجد میں ،حضور ﷺ نے فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کی سینگ ظاہر ہوگی۔
عن ابی سعید الخدری قال:اخبرنی من ھو خیر منی ان رسول اللہ ﷺ قال لعمار حین جعل یحفر الخندق و جعل یمسح رأسہ و یقول: بؤس ابن سمیّۃ تقتلک فئۃ باغیۃ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۱۵)
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :جب حضرت عمار خندق کھود رہے تھے تورسول اللہ ﷺان کے سر پر ہاتھ پھیر کر فر مارہے تھے :ائے ابن سمیّہ !تم پر کیسی مصبیت پڑے گی جب تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
عن ابی ھریرۃ قال :قال:رسول اللہ ﷺ قد مات کِسری فلا کسری بعدہ واذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزھما فی سبیل اللہ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۱۸)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺنے فرمایا:کسِریٰ مر گیا اس کے بعد کوئی کسِریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا ،اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے تم ان کے خزانوں کو اللہ کے راہ میں خرچ کروگے۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ان رسول اللہ ﷺ قال :تقتتلون انتم و یھود حتی یقول الحجر یا مسلم !ھذا یھودی ورائی تعال فقتلہ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۲۱)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا :تم اور یہود آپس میں لڑتے رہوگے یہاں تک کہ پتھر یہ کہے گا کہ: ائے مسلمان!یہ یہودی میرے پیچھے ہے۔آ ،اور اس کو قتل کردے۔
عن ابی ھریرۃ قال :قال:رسول اللہ ﷺ یخرب الکعبۃ ذو السویقتین من الحبشۃ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۰۹)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فر مایادو چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی کعبہ کو گرا دے گا۔
عن ابی ھریرۃ قال:قال النبی ﷺ والذی نفسی بیدہ لیا تین علی الناس زمان لایدری القاتل فی ای شیء قتل و لا یدری المقتول علی ای شیء قُتل۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۰۸)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:قسم ہے اس ذات جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے۔لوگوں پر ضرور ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ قتل کرنے والے کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے ؟اور نہ قتل کئے جانے والے کو یہ معلوم ہوگا کہ وہ کیوں قتل کیا گیا؟۔
عن یسیر بن جابر فی حدیث طویلۃ ومنھا:فجاء ھم الصریخ ان الدجال قد خلفھم فی ذراریھم فیر فضون مافی ایدیھم و یقبلون فیبعثون عشرۃ فوارس طلیعۃ قال رسول اللہ ﷺ انی لاعرف اسماء ھم واسماء آبائہم و الوان خیولہم ھم خیر فوارس علی ظہر الارض یو مئِذِِ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اقبال الروم فی کثرۃ القتل عند خروج الدجال،حدیث:۲۸۹۹)
تر جمہ: حضرت یسیر بن جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :ملک شام میں جنگ ہوگی اور مسلمانوں کو فتح ہوگی پھر اچانک ایک چیخ سنائی دے گی کہ مسلمانوں کی اولاد میں دجّال آچکا ہے۔تو ان کے ہا تھوں میں جو کچھ ہوگا ان کو چھوڑ دیں گے اور دس گھوڑ سواروں کا ہراول دستہ بھیجیں گے ،رسول اللہ ﷺنے فر مایا :بے شک میں ان سواروں کے نام ،ان کے باپ دادا کے نام اور ان کے گھوڑے کا رنگ جانتا ہوں
وہ روئے زمین کے بہترین گھوڑے سواروں میں سے ہوںگے۔
عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال:قال النبی ﷺ :انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلھم یزعم انہ نبی اللہ و انا خاتم النبیین لانبی بعدی۔
(مشکوۃ،کتاب الفتن،ص:۴۱۵)
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فر مایا:میری امت میں تیس جھوٹے نبوت کے دعوی کرنے والے پیدا ہوں گے ،ان میں سے ہر ایک دعوی کرے گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے ۔حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
عن عوف بن مالک قال:قال رسول اللہ ﷺ:والذی نفس محمد بید ہ لتفتر قن امتی علی ثلاث و سبعین فرقۃ فواحدۃ فی الجنۃ و ثنتان و سبعون فی النار ،قیل :یارسول اللہ!من ھم؟قال:الجماعۃ۔(ابن ماجہ،کتاب الفتن ،باب افتراق الامم ،حدیث:۳۹۹۲)
ترجمہ: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :ضرور میری امت تہتر فر قوں میں بٹ جائے گی ، تو ایک جنت میں ہوگی اور بہتّر جہنم میں ،پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! وہ کون ہیں ؟ فر مایا:جماعت۔یعنی اہل سنت و جماعت۔
عن عبد اللہ قال:صلی بنا رسول اللہ ﷺ لیلۃ صلاۃ العشاء ،وھی التی یدعون الناس العتمۃثم انصرف،فاقبل علینا فقال:ارأیتم لیلتکم ھذہ۔فان رأس مائۃ سنۃ لایبقی ممن ھو علی ظہر الارض احدا۔(بخاری،کتاب مواقیت الصلوۃ،باب ذکر العشاء والعتمۃ ومن راہ واسعا، حدیث:۵۶۴)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے ایک رات ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی (وہی نماز جسے لوگ عتمہ بھی کہتے ہیں )پھر نماز سے فارغ ہوکر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم لوگ اس رات کو یاد رکھنا۔کیو نکہ آج جو لوگ بھی زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے گا۔
عن ابی ھریرۃ قال:قال رسول اللہ ﷺ:لاتقوم الساعۃ حتی تقتتل فئتان عظیمتان و تکون بینھما مقتلۃ عظیمۃ و دعواھما واحدۃ۔
(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب اذاتوجہ المسلمان بسیفیھما،حدیث:۲۸۸۸)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ دو عظیم جماعتوں کے درمیان جنگ نہ ہوجائے،ان کے درمیان عظیم جنگ ہوگی حالانکہ ان دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہوگا۔
عن ابی ھریرۃ :ان رسول اللہ ﷺ قال:لاتقوم الساعۃ حتی یحسر الفرات عن جبل من ذھب یقتتل الناس علیہ فیقتل من کل مائۃ تسعۃ و تسعون ویقول کل رجل منھم لعلی اکون انا الذی انجو۔(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یحسر الفرات عن جبل من ذھب،حدیث:۲۸۹۴)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک دریائے فرات سے ایک سونے کا پہاڑ نہ نکل آئے ،جس پر لوگوں کا قتال ہوگا اور ہر سو آدمیوں میں سے ننانوے آدمی مارے جائیں گے ،اور ان میں سے ہر آدمی یہ سوچے گا کہ شاید میں ہی وہ شخص ہوں جس کو نجات مل جائے۔
عن ابی سعد الخدری رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال:یخرج ناس من قبل المشرق ویقرء ون القرآن لایجاوز تراقیھم ،یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ ،ثم لایعودون فیہ حتی یعود السھم الی فوقہ ،قیل:سیماھم التحلیق ۔او قال :التسبید۔ (بخاری ،کتاب التوحید، باب قراء ۃ الفاجر و المنافق
و اصواتھم و تلاوتھم لا تجاوز حنا جرھم،حدیث:۷۵۵۹
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا:کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا،وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ،پھر وہ لوگ نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر (خود)کمان میں نہ لوٹ آئے۔پوچھا گیا :ان کی نشانی کیا ہوگی؟فرمایا:سر منڈوانا۔
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال:صعد النبی ﷺ الی احد و معہ ابو بکر و عمر و عثمان ،فرجف بھم فضربہ برِجلہ قال:اثبت احد،فما علیک الانبی او صدیق او شھیدان۔
(بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،حدیث:۳۶۸۶)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :حضور نبی کریم ﷺاحد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم تھے۔ احد پہاڑ لرزنے لگا،تو آپ ﷺنے اپنے پائے اقدس سے اُسے ٹھوکر مارا،فر مایا:ٹہر ۔تجھ پر نہیں ہے مگر ایک نبی ،ایک صدیق اور دوشہید۔
عن عائشۃ قالت :قال رسول اللہ ﷺ:یا عثمان ُ!ان ولاک اللہ ھذاالامر یوما فارادک المنافقون ان تخلع قمیصک الذی قمصک اللہ فلا تخلعہ ،یقول ذلک ثلاث مرات۔
(ابن ماجہ ،باب فضل عثمان رضی اللہ عنہ ،حدیث:۱۱۲)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فر مایا:ائے عثمان!بے شک اللہ تعالی تمہیں ایک دن خلافت کا جامہ پہنائے گا تو منافقین تم سے اس جامہ کو اُتارناچاہیں گے جو تمہیں اللہ نے پہنا یا ،تو تم نہ اُتارنا۔حضور ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔
عن الحسن سمع ابا بکرۃ سمعت النبی ﷺ علی المنبر والحسن الی جنبہ ینظر الی الناس مرۃ والیہ مرۃ ویقول:ابنی ھذا سید ،و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین من المسلمین۔
(بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،حدیث:۳۷۴۶)
ترجمہ: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :حضور نبی کریم ﷺمنبر پر تشریف فرماتھے اور آپ ﷺ کے پہلو میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے ۔آپ ﷺ ایک مرتبہ لوگوں کی طرف دیکھتے اور ایک مرتبہ ان کی طرف اور فرماتے:یہ میرا بیٹا سردار ہے۔اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہ میں صلح فرمائے گا۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا :ان رسول اللہ ﷺ دعا فاطمۃ ابنتہ فسارھا فبکت ثم فسارھا فضحکت فقالت عائشۃ:فقلت لفاطمۃ :ما ھذاالذی سارّکِ بہ رسول اللہ ﷺ فبکت،ثم سارَّکِ فضحکت ؟قالت:سارَّنی فأخبرنی بموتہ فبکیتُ ،ثم سارَّنی فأخبرنی انی اول من یتبعہ من اھلہ فضحکت ُ۔(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنھم،باب فضائل فاطمۃ بنت النبی علیھا الصلاۃ والسلام،حدیث:۲۴۵۰)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا،اور ان کو سر گوشی میں کوئی بات کہی ،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رونے لگیں،آپ ﷺ نے پھر سر گوشی میں کوئی بات کہی تو ہنسنے لگیں،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا :رسول اللہ ﷺنے آپ سے سر گوشی میں کیا کہا تھا جو آپ رونے لگیں، اور دوبارہ سرگوشی میں کیا کہا جو آپ ہنسنے لگیں؟حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:رسول اللہ ﷺپہلی بار سرگوشی میں اپنی وفات کی خبر دی تو میں رونے لگی،اور دوسری بار سر گوشی میں یہ خبر دی کہ آپ ﷺکے گھر والوں میں سے سب سے پہلے میں آپ ﷺ کے ساتھ لاحق ہوںگی،یعنی انتقال کروںگی ،تو میں ہنسنے لگی۔
عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہﷺ قال:ھل ترونی قبلتی ھا ھنا؟واللہ مایخفی علی رکوعکم ولاخشوعکم وانی لاراکم من وراء ظہری۔
(بخاری ،کتاب الاذان،باب الخشوع فی الصلاۃ،حدیث: ۷۴۱)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں صرف سامنے دیکھتا ہوں،قسم بخدا !مجھ پر تمہارے نماز کی ظاہری حالت پوشیدہ ہوتی ہے نہ ہی باطنی خشوع وخضوع ۔بے شک میں تمہیں اپنے پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔
عن ابن عباس قال:مرّ النبی ﷺ بحائط من حیطان المدینۃ او مکۃ فسمع صوت انسانین یعذبان فی قبورھما ۔فقال النبی ﷺ: یعذبان ،وما یعذبان فی کبیر ثم قال:بلی،کان احدھما لایستتر من بولہ ،وکان الاخر یمشی بالنمیمۃ ،ثم دعا بجریدۃ فکسرھا کسرتین ،فوضع علی کل قبر منھما کسرۃ ،فقیل لہ:یا رسول اللہ !لِمَ فعلتَ ھذا؟قال:لعلہ ان یخفف عنھما ما لم تیبسا۔(بخاری،کتاب الوضوئ،باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ،حدیث:۲۱۶)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ:حضور ﷺ مدینہ یا مکہ کے کسی باغ سے گذر ے تو دو شخصوں(مردوں) کی آواز سنی جن پر ان کی قبر میں عذاب ہورہا تھا،تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:دونوں کو عذاب ہورہاہے مگر کسی بڑی بات پر نہیں ۔پھر فرمایا:ہاں،ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور اس کے دو ٹکرے کئے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکرا رکھ دیا۔حضور ﷺ سے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ!آپ نے ایسا کیوں کیا؟آپ ﷺ نے فر مایاکہ:جب تک یہ ٹہنیاں تر رہیں گی ان دونوں پر عذاب میں کمی رہے گی۔
عن ابی سعید و جابر بن عبد اللہ قالا:قال رسول اللہ ﷺ:یکون فی آخر الزمان خلیفۃ یقسم المال ولایعدہ۔(مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی ان یکون مکان ا لمیت من البلائ،حدیث:۲۹۱۴)
ترجمہ: حضرت ابو سعید اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھم نے کہاکہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:آخری زمانے میں ایک خلیفہ (امام مہدی )ہوگا جو مال بغیر شمار کئے ہوئے تقسیم کرے گا۔
عن حذیفۃ قال:قال رسول اللہ ﷺ لانا اعلم بما مع الدجال منہ معہ نہران یجریان ،احدھما رأی العین مء ابیض ،والاخر رأی العین نار تأجج ،فاماادرکن احد فلیات النھر الذی یراہ ناراََ وَلْیغمِّض ،ثم لیطأطی ء رأسہ فیشرب منہ فانہ ماء بارد و ان الدجال ممسوح العین علیھا ظفرۃ غلیظۃ مکتوب بین عینیہ کافر یقرؤہ کل مومن کاتب وغیر کاتب۔ (مسلم،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب ذکر الدجال و صفتہ وما معہ،حدیث:۲۹۳۴)
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :میں ضرور جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہوگا ۔
اس کے ساتھ دو بہتے ہوئے دریا ہوں گے ،ایک دیکھنے میں سفید پانی ہوگا ،دوسرا دیکھنے میں بھڑ کتی ہوئی آگ ہوگی ،پھر اگر کوئی اس کو پالے تو اس دریا میں جائے جو بھڑکتی ہوئی آگ دکھائی دے اور اپنی آنکھ بند کرکے اور سر جھکا کر اس سے پئے بے شک وہ ٹھنڈا پانی ہوگا ،اور بلاشبہ دجال کی ایک آنکھ کانی ہوگی اس پر ایک موٹی پھلی ہوگی ،اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ’کافر‘ لکھا ہو اہوگا،اس کو ہر مسلمان پڑھے گا خواہ اسے لکھنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔
عن ابن عباس عن النبی ﷺ قال:اتانی ربی فی احسن صورۃ فقال:یا محمد!قلت لبیک ربی و سعدیک ،قال:فیم یختصم الملاء الاعلی؟ قلتُ :ربی لا ادری فوضع یدہ بین کتفی فوجدت بردھا بین ثدیی فعلمت ما بین المشرق والمغرب۔
(ترمذی،کتاب التفسیر ،باب ومن سورۃ ص،حدیث:۳۲۳۴)
تر جمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ :نبی ﷺ نے فر مایا:میں نے(خواب میں)اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا ،میرے رب نے کہا:ائے محمد!میں نے کہا :حاضر ہوں یارب!فر مایا :ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟میں نے کہا :یا رب ! میں نہیں جانتا ہوں ،پھر رب تبارک و تعالی نے اپنا دست قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیا ن رکھاجس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی ،پھر میں جان لیا جو کچھ مشر ق و مغرب میں ہے۔
عن النواس بن سمعان فی حدیث طویلۃ و منھا:قال النبی ﷺ فبینھما کذلک اذ بعث اللہ ریحا طیبۃ فتأخذھم تحت اباطھم فتقبض روح کل مومن وکل مسلم و یبقی شرار الناس یتھارجون فیھا تھارج الحمر فعلیھم تقوم الساعۃ۔
(مسلم ،کتاب الفتن و اشراط الساعۃ،باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ،حدیث:۲۹۳۷)
تر جمہ: حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث مروی ہے اسی میں یہ ہے کہ:نبی ﷺ نے فر مایا: اسی درمیان اللہ تعالی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو لوگوں کے بغلوں کے نیچے سے گذرے گی جو تمام مسلمانوں کی روح قبض کر لے گی ،اور برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کھلے عام زنا کریں گے ،تو انہیں لوگوں پر قیامت ہوگی۔
عن انس بن مالک عن النبی ﷺ قال:المدینۃ یاتیھا الدجال فیجد الملائکۃ یحرسونھا فلا یقربھا الدجال و لا الطاعون ان شاء اللہ۔
(بخاری،کتاب الفتن ،باب لاید خل الدجا ل المدینۃ،حدیث:۷۱۳۴)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا:دجال مدینہ تک آئے گا تو فر شتوں کو اس کی نگرانی کرتے ہوئے پائے گا ،چنانچہ اس میں نہ دجال آسکتا ہے اور نہ ہی طاعون ۔انشاء اللہ۔
عن انس بن مالک قال:قال النبی ﷺ:یجیی ء الدجال حتی ینزل فی ناحیۃ المدینۃ ،ثم ترجف المدینۃ ثلاث رجفات فیخرج الیہ کل کافر ومنافق۔
(بخاری،کتاب الفتن ،باب ذکر الدجال،حدیث:۷۱۲۴)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :دجال آئے گا اور مدینہ کے ایک کنارے قیام کرے گا ،پھر مدینہ طیبہ کی زمین تین مرتبہ کانپے گی تو ہر کافر اور منافق نکل کر اس کی طرف چلا جائے گا۔
عن حارثۃ بن وھب قال:سمعت رسول اللہ ﷺ یقول:تصدقوا فسیا تی علی الناس زمان یمشی الرجل بصدقتہ فلا یجد من یقبلھا۔(بخاری ،کتاب الفتن ،حدیث:۷۱۲۰)
تر جمہ : حضرت حارثہ بن وھب رضی اللہ نے کہا کہ :میں نے رسول اللہ ﷺ کو فر ماتے ہوئے سنا کہ:تم لوگ صدقہ کرو ،کیو نکہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر چلے گا پھر کسی ایسے آدمی کو نہ پائے گا جو اس کا صدقہ قبول کرے۔
عن شقیق قال:کنت مع عبد اللہ و ابی موسی فقالا: قال النبی ﷺ:ان بین یدی الساعۃ لایاما ینزل فیھا الجھل و یرفع فیھا العلم و یکثر فیھا الھرج ،والھرج ،القتل۔
(بخاری،کتاب الفتن،باب ظہور الفتن،حدیث:۷۰۶۲)
تر جمہ: حضرت شقیق سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ :میں حضرت عبد اللہ اور ابو موسی رضی اللہ عنھما کے ساتھ تھا تو دونوں حضرات نے بیان کیا کہ:نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا:قیامت سے پہلے ایسے دن آئیں گے جس میں جہالت اُتر پڑے گی اور علم اٹھا لیا جائے گا اور ہر ج بہت زیادہ ہو جائے گا۔اور ہرج کا مطلب قتل ہے۔
عن جابر ان رسول اللہ ﷺ قدم من سفر فلما کان قرب المدینۃ ھاجت ریح شدیدۃ تکاد ان تدفن الراکب فزعم ان رسول اللہ ﷺ قال:بعثت ھذہ الریح لموت منافق فلما قدم المدینۃ فاذا منافق عظیم من المنافقین قد مات۔(مسلم،کتاب صفات المنافقین ، حدیث:۲۷۸۲)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺ ایک سفر سے آرہے تھے جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو بڑے زور سے آندھی چلی کہ سوار زمین میں دھنسنے کے قریب ہوگیا ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :یہ آندھی ایک منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے ، جب آپ ﷺ مدینہ شریف پہونچے تو منافقوں میں سے ایک بہت بڑا منافق مر چکا تھا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عن انس بن مالک عن النبی ﷺ قال:یقول اللہ تبارک و تعالی لاھون اھل النار عذابا لو کانت لک الدنیا و ما فیھا اَ کنت مفتدیا بھا فیقول نعم ،فیقول :قد اردت منک اھون من ھذا و انت فی صلب آدم ان لا تشرک ،احسبہ قال:ولا ادخلک النار فابیت الا الشرک۔
(مسلم، کتاب صفات المنا فقین ،باب فی الکُفّار ،حدیث:۲۸۰۵)
تر جمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:نبی کریم ﷺنے فرمایا:جس شخص کو جہنمیوں میں سب سے کم عذاب ہوگا اس سے اللہ تعالی فر مائے گا :اگر تمہیں دنیا اور اس کی سب چیزیں مل جائیں تو کیا تم ان سب کو اس عذاب سے نجات پانے کے لئے فدیہ دے دوگے ؟وہ کہے گا :ہاں ! اللہ تعالی فر مائے گا :جس وقت تم آدم کی پشت میں تھے اس وقت میں نے تم سے اس کی بہ نسبت کم چیز کا ارادہ
(مطالبہ)کیا تھا ،وہ یہ کہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو(راوی کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ)آپ نے فر مایا :تو میں تم کو جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تم نے شرک کے سوا کوئی بات نہیں مانی۔
عن ابی ھریرۃ قال:کنا مع رسول اللہ ﷺاذ سمع وَجْبۃََ فقال النبی ﷺ تدرون ماھذا؟قال :قلنا اللہ ورسولہ اعلم ،قال:ھذا حجر رُمِیَ بہ فی النار منذ سبعین خریفا فھو یھوی فی النار الاٰن حتی انتھی الی قعرھا۔(مسلم،کتاب الجنۃ و صفتہ نعیمھا،حدیث:۲۸۴۴)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ ﷺ نے ایک گڑ گڑ اہٹ کی آواز سنی ، آپ نے فر مایا :تمہیں معلوم ہے کہ یہ کیسی آواز تھی ؟ہم نے کہا :اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ۔آپ ﷺ نے فر مایا :یہ ایک پتھر ہے جس کو ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا تھا یہ اب تک اس میں گِر رہاتھا اور اب اس کی گہرائی میں پہو نچا ہے۔
عن انس بن مالک ان رسول اللہ ﷺ قال:ان فی الجنۃ لسوقا یأ تونھا کل جمعۃ فتھیب ریح الشمال فتحشو فی وجوھہم وثیابھم فیزدادون حسنا وجمالا فیرجعون الی اھلیھم وقد ازدادو حسنا و جمالا فیقول لھم اھلوھم :واللہ لقد ازددتم بعدنا حسنا وجمالا فیقولون و انتم واللہ لقد ازددتم بعدنا حسنا وجمالا۔(مسلم،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا،حدیث:۲۸۳۳)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:جنت میں ایک بازار ہے جس میں جنتی ہر جمعہ کو آیا کریں گے ،پھر شمال کی ہوا چلے گی جس سے ان کے چہرے اور کپڑے بھر جائیں گے اور ان کا حُسن وجمال اور بڑھ جائے گا ،پھر جب وہ اپنے اہل کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو وہ کہیں گے بخدا ہمارے پاس سے جانے کے بعد تمہارا حُسن اور جمال بہت زیادہ ہوگیا ہے ،وہ کہیں گے بخدا ہمارے بعد تمہارا حُسن اور جمال بھی بہت زیادہ ہوگیا ہے۔
عن عبد اللہ بن مسعود قال:قال رسول اللہ ﷺ :انی لاعلم آخر اھل النار خروجا منھا وآخر اھل الجنۃ دخولا الجنۃ رجل یخرج من النار حبوا فیقول اللہ تبارک وتعالی لہ:اذھب فادخل الجنۃ فیاتیھا فیخیّل انہا ملأی فیرجع فیقول یارب وجدتہا ملأی فیقول اللہ تبارک وتعالی لہ اذھب فادخل الجنۃ قال:فیاتیھا فیخیّل الیہ انھا ملأی فیرجع فیقول یارب وجد تھا ملأی فیقول اللہ لہ اذھب فادخل الجنۃ فاِنَّ لک مثل الدنیا وعشرۃ امثالھا ،او اِنَّ لک عشرۃ امثال الدنیا قال:فیقول اَ تسخر بی ،او اَ تضحک بی و انت الملک ،قال:لقد رأیت رسول اللہ ﷺ ضحک حتی بدت نواجذہ ،قال فکان یقال:ذاک ادنیٰ اھل الجنۃ منزلۃ۔
(مسلم،کتاب الایمان،باب آخر اھل النار خروجا،حدیث:۱۸۶)
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ:مجھے یقینا معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم میں سے کون نکلے گا اور سب کے بعد جنت میں کون داخل ہوگا ،وہ ایک ایسا شخص ہوگا جو کولھوں کے بل گھسٹتا ہو ا جہنم سے نکلے گا ،اللہ تعالی اس سے فر مائے گا:جا،جنت میں داخل ہوجا،جب وہ جنت میں داخل ہوگا تو وہ یہ سمجھے گا کہ جنت بھر چکی ہے ،وہ واپس لوٹ آئے گا اور اللہ تعالی سے عرض کرے گا :ائے میرے رب! جنت تو بھر چکی ہے،اللہ تعالی اس سے فر مائے گا :جا،جنت میں داخل ہوجا ،پھروہ جنت میں آئے گا تو اس کو خیال ہوگا جنت تو بھر چکی ہے وہ پھر لوٹ آئے گا اور عرض کرے گا :ائے میرے رب!میں نے تو جنت کو بھرا ہوا پایا ہے۔تو اللہ تعالی اس سے فر مائے گا :جا،جنت میں داخل ہو،تجھے جنت میں دنیا اور اس کی دس گنا جگہ مل جائے گی ،وہ شخص عرض کرے گا ائے اللہ !تو مالک ہوکر مجھ سے مذاق کرتا ہے،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے اس موقع پر حضور ﷺکو ہنستے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ کی مبارک داڑہیں ظاہر ہو گئیں،پھر حضور ﷺ نے فرمایا:یہ ایک جنتی کا سب سے کم درجہ ہے۔
عن عبد اللہ بن عمر :ان رسول اللہ ﷺقال:اذا صار اھل الجنۃ الی الجنۃ وصار اھل النار الی النار اُتی بالموت حتی یجعل بین الجنۃ والنار ،ثم یذبح ،ثم ینادی منادِِ،یااھل الجنۃ !لاموت و یا اھل النار!لاموت،فیزداد اھل الجنۃ فرحا الی فر حھم ویزداد اھل النار حزنا الی حزنھم ۔(مسلم،کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا ،باب النار ید خلھا الجبارون والجنۃ ید خلھا الضعفائ،حدیث:۲۸۵۰)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان فر ماتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو پھر موت کو لایا جائے گا اور اس کو جنت وجہنم کے درمیان رکھ کر ذبح کر دیا جائے گا ،پھر اعلان کر نے والا یہ اعلان کرے گا ،ا ئے اہل جنت اب موت نہیں اور ائے اہل دوزخ اب موت نہیں، تو جنتیوں کو خوشی پر خوشی ہوگی اور جہنمیوں کو غم پر غم ہوگا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔