Pages

Thursday, 6 July 2017

اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنا ( حصّہ دوم )

اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنا ( حصّہ دوم )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ شامی قدس سرہ السامی کی بھی یہی تحقیق ہے کہ اذان کے بعد سرکار مدینہﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑڑھنا بدعت حسنہ (اچھی بدعت ہے) (ردالمحتار جلد 2، ص 52، دارالحیاء التراث العربی بیروت 1419ھ)
ابریز میں ہے اذان کی فضیلت میں حدیث پاک میں آتا ہے کہ اذان کی آواز سن کر شیطان گوز مارتا ہوا چھتیس میل دور بھاگ جاتا ہے۔ اس کی وجہ علماء نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اذان ایک نور ہے اور نور میں ٹھنڈک ہے جبکہ شیطان نار سے ہے جس میں تپش ہے جوکہ ٹھنڈک سے ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے شیطان مقام اذان سے بھاگ جاتا ہے (الابریز شیخ عبدالعزیز دباغ)
نیز اذان کی یہ بھی فضیلت ہے کہ جہاں جہاں تک اذان کی آواز جاتی ہے قیامت کے دن ہر شے موذن کی ایمان کی گواہی دے گی اور موذن کی گردن قیامت کے دن سب سے بلند ہوگی یعنی اس کی شان و عظمت بہت اونچی ہوگی۔
کتاب کنزالعباد وصلوٰۃ نخشی و کتاب السعادۃ و جامع الرموز شرح مختصر وقایہ و رد المحتار علی الدر المختار و فتاویٰ صوفیہ میں تصریح ہے کہ جب موذن پہلی مرتبہ اشہد ان محمدً رسول اﷲ کہے تو سننے والے کو صلی اﷲ علیک یا رسول اﷲ کہنا مستحب ہے اور جب دوسری مرتبہ کہے تو قرۃ عینی بک یا رسول اﷲﷺ کہنا مستحب ہے۔ اس عبارت پر حضرت علامہ مولانا غلام دستگیر ہاشمی قصوری (متوفی 1315ھ) تبصرہ کرتے ہوئے ارقام کرتے ہیں۔
اب غٹور کرو کہ یہ حکم کتب معتبرہ فقہ درود کی ساتھ اور بغیر درود کے بھی اذان کے وقت یا رسول اﷲ کہنا مستحب (رسالہ الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ ص 27، مطبوعہ دارالاسلام لاہور)
شرح شفاء فی حقوق المصپطفی میںہے کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ کا پائوں سست اور بے حس ہوگیا تھا تو ان کو کسی نے کہا کہ محبوب (یعنی جس سی آپ کو سب سے زیادہ محبت ہو) کو یاد کر! تب آپ نے اونچی آواز سے پکارا۔ یا محمداہ
علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں گویا ابن عمنر رضی اﷲ عنہ نے فمن استعانت میں اپنی محبت کے اظہار کا قصد کیا۔ دیکھئے شرح الشفاء ملا علی قاری، اس سے وہ لوگ درس عبرت حاصل کریں جو اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃ و سلام پڑھنا بدعت کہتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین کے دور میں نہ تھا۔ ابھی بھی ایسے بہت سے امور پائے جاتے ہیں جو قرون ثلثہ میں نہ تھے تو ان کا کیا کیا جائے جیسے کسی صحابی کے دور میں موٹر سائیکل، کار، بس، جہازوغیرہ ہ تھے تو مخالفین کو چاہئے کہ ان چیزوں کو ترک کرے۔ اس لئے کہ یہ قرون ثلثہ میں نہ تھی اور گھوڑوں اونٹوں پر سفر کیا جائے۔ لائوڈ اسپیکر پر اذان و نماز پڑھنا پڑھانا کانفرنس وغیرہ کرنا یہ سب معاملات ترک کردیئے جائیں کہ قرون ثلثہ میں نہ تھے، بریانی قورمے، کولڈرنگ بوتلیں اور دیگر اشیاء بھی ترک کردی جائیں کہ قرون ثلثہ میں نہ تھی۔اور قرون ثلثہ میں آپ جیسے ناواقف بھی نہ تھے تو آپ کا کیا کیا جائے اور قرون ثلثہ میں بجلی، گیس، موبائل، ٹیلی فون، بلند و بالا عمارتیں بھی نہ تھیں۔ان کو بھی ترک کردیا جائے اور اگر ان تمام تر اشیاء کا استعمال ترک نہیں کرسکتے تو پھر یہ پاگلوں جیسا اعتراض کیوں؟
قل ہاتو برہانکم ان کنتم صادقین : حرمت ثابت کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جائز بتانے والے کو کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ خود حدیث پاک میں ہیں۔ یہ اصول مقرر فرمایا : مشکوٰۃ شریف ص 367 میں ابن ماجہ و ترمذی سے نقل کیا۔ الحلال ماحل اﷲ فی کتابہ والحرام ماحرم اﷲ فی کتابہ و ما سکت عنہ فہو مما عفی عند ۔ ترجمہ : حلال وہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال بیان فرمایا اور حرام وہ ہے جس کو اﷲ تعالی ٰنے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جن کاموں سے سکوت فرمایا۔یہ ان کاموں سے ہیں جن پر موخذہ نہیں ہے یعنی مباح ہیں۔ لہذا جو لوگ صلوٰۃ و سلام کو ناجائز کہتے ہیں انہیں قرآن و حدیث اور فقہ سے دلیل لانا چاہئے۔ ہم سے دلیل مطالبہ غلط ہے۔قل ہاتو برہانکم ان کنتم صادقین ۔
در مختار میں موجود ہے۔ ویثوب بین الاذان والاقامۃ فی الکل
یعنی اذان و اقامت کے درمیان ہر نماز کے لئے تشویب ہے۔
(در مختار علی حاشیۃ الشامی جلد 1، ص 86، ومکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
بدرسیمائے عالم علامہ شہاب الدین احمد خفاجی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں۔
المنقول افہم کانو یقولون فی تحیۃ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲﷺ
ترجمہ: منقول ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نبی پاکﷺ سے ملاقات کے وقت الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ کے الفاظ سے سلام و تحیت پیش کرتے تھے (نسیم الریاض جلد 3، ص 454، دارالفکر بیروت)

اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃ و سلام دعا (وہ دعا جو احادیث میں وارد ہوئیں) کے بیشمار فضائل و برکات ہیں۔ مخالفین یہ کہہ کر عوام اہلسنت پر افتراء باندھتے ہیں کہ تم اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃ و سلام پڑھنے ہو۔ کیا حضورعلیہ الصلوٰۃ و سلام کے دور میں کسی صحابی نے پڑھا (وغیرہ وغیرہ) ان تمام بے بنیاد سوالات کے جوابات ہم دے چکے ہیں۔ یاد رکھئے کسی معاملے میں عدم جواز کی دلیل نہ ہوناخود دلیل جواز ہے۔ یقینا ہر وہ نئی چیز جس کو شریعت مطہرہ نے منع نہیں کیا، وہ بدعت حشنہ اور مباح یعنی اچھی بدعت اور جائز ہے اور یہ امر مسلم ہے کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں منع نہیں کیا گیا لہذا منع نہ ہونا خود بخود اجازت بن گیا۔ جیسا کہ اشباہ والنظائر میںمذکور ہے۔

الاصل فی الاشیاء الابحۃ : یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل میں امام شفاعی اور احناف میں حصرت امام کرخی کے نزدیک ہے (الاشباہ والنظائر الغن الاول، القواعد الکلیہ النسوع الاول القاعدۃ الثالثہ ص 51,56، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)
متاخرین احناف نے بھی اس کوتسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے بھی اس کو سند لائے ہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اﷲ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ۔ ہوالذی خلق لکم مافی الارض جمیعا (البقرہ 29)
اﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے، پیدا فرمایا۔
لہذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو۔ صاحب ہدایہ کا بھی یہی مسلک ہے (الہدایہ کتاب الطلاق باب العدۃ، ج 1،ص 278، مطبوعہ دارالحیاء التراث العربی بیروت)
حدیث شریف میں ہے۔ الحلال مااحل اﷲ فی کتابہ والحرام ماحرم اﷲ فی کتابہ و ماسکت عنہ فہو مما عفا عنہ ۔ حلال وہ ہے جو اﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جو اﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت فرمایا وہ معاف ہیں اور مباح ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باباکل المجین ولاحسن الحدیث 3367، ج 4، ص 56، مطبوعہ دارالعرفہ بیروت 1420ھ)
یہ امر بھی ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ حضورﷺ کا قول و فعل اور صحابہ کرام کا قول و فعل توحجت شریعہ ہے مگر ان کا عدم قول اور عدم فعل عدم جواز کے لئے حجت شرعیہ نہیں وہ اسی قاعدہ کے مطابق جائز و مباح ہے کہ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ بلکہامر مباح بہ نیت خیر باعث اجرو ثواب ہے اور مستحسن کہ الاعمال لابنیات حدیث صحیح ہے۔ بلکہ وہ تمام امور مباح جن سے دین کی ترقی یا تعلیمات اسلام کی اشاعت اورشریعت کا تحفظ ہوتا ہے، سب مستحسن ہیں۔
(بہار شریعت، جلد 3، ص 1071، قاعدہ نمبر 10، القواعد الفقیہ مکتبۃ العربیہ)
اصول الشاش میں یہ قاعدہ مذکور ہے کہ المطلق یجری علی اطلقہ یعنی مطلق اپنے مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن عظیم میں مومنوں کو اپنے حبیبﷺ پر درود سلام پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا اور اپنی رحمت واسع سے اس حکم کو مطلع رکھا یعنی اس زمان و مکانو صیغہ و ہیئت کی کوئیقید نہیں لگائی لہذا مومنین درود وسلام جب چاہیں، جس وقت چاہیں اور جس ہیئت و صیغہ کے ساتھ چاہیں پڑھ کرحکم خداوندی پر عمل کی سعادت پاسکتے ہیں (ہکذا فی الحسامی)ماراہ المسلمون حسنا فہو عنداﷲ حسن ۔ (المسندء الامام بن حنبل، مسند عبداﷲ بن مسعود، الحدیث 3600، جلد 2، ص 16، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1414ھ) یعنی وہ چیز جس کو مسلمان (اہل علم و اہل تقویٰ) اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔
یہ حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے جس کو حضرت امام احمد رحمتہ اﷲ نے اپنی مسند میں روایت کی ہے بعض محدثین اسے مرفوع کہتے ہیں اور بعض اس کو موقوف کہتے ہیں(کشف الخفاء حرف الصحیح الحدیث 2212 ، جلد 2،ص 168، مطبوعہ دارلاکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)
یہ حدیث اس قدر عمدہ اور جامع ہے کہ اس کے تحت وہ تمام امور آجاتے ہیں جنہیںمسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور مبارک میں یا اس کے بعد اچھاسمجھ کر کرتے آئے ہیں جیسے اذان سے پہلے یا بعد میں صلوٰۃو سلام، میلاد و قیام، ایصال ثواب، اعراس بزرگان دین، وغیرہ کوان بدامور کو اہل ایمان فدایان خیرالانامﷺ اچھا سمجھ کر بجا لاتے اور ثواب پاتے ہیں (عامہ کتب اصول الفقہ) (تلخیص اصولی الثاثی ص 124، بتغیر مطبوعہ مکتبتہ المدینہ)
ان تمام تر اصول و قواعد سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اذان سے قبل اور اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام جائز وامر مستحسن ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ عقل سلیم عطا فرمائے اور حق سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ ویٰسین
اس سے وہ لوگ درس عبرت حاصل کریں جنہوں نے شرک و بدعت کو اپنا تکیہ کلام بنایا ہوا اور شرکو بدعت کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں حالانکہ ان بے وقوفوں،عقل کے اندھوں، دل کے گندھوں سر سے گنجوں کو صحیح طرح شرک و بدعت کی تعریف بھی معلوم نہیں ہوتی اور صحیح العقیدہ سنی اسلامی بھائیوں پر شرک و بدعت کے تیر برساتے ہیں اور اصول الاصول فخر الرسول بی بی آمنہ کے مہکتے پھولﷺ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے یا رسول پکارنے کو شرک کہتے ہیں۔
سلطان العارفین قدوۃ السالکین سیدنا سلطان باہو رحمتہ اﷲ فرماتے ہیں جو شخص حیات النبیﷺ کو نہیں مانتا بلکہ موت جانتا ہے، اس کے منہ میں خاک اور وہ دونوں جہاں میں سیاہ رو (یعنی سیاہ چہرے والا) ہے اور ضرور بالضرور شفاعت مصطفیﷺ سے محروم رہے گا۔ (عقل بیدار ص 289، ملتقطا مطبع پروگریسو بکس لاہور)

لہذا ہر وہ چیز جس سے اﷲ عزوجل نے سکوت فرمایا، وہ جائز و مباح ہے۔ اگر کوئی شخص اسے ناجائز یا حرام یا گناہ کہے اس پر لازم ہے کہ وہ دلیل شرعی لائے۔ کیونکہ سکوت عنہا (جس سے سکوت کیا گیا) کو مباح و جائز کہنے کے لئے یہ حدیث ہی کافی ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت اس مفہوم کو ثابت کرنے والی اوپر بیان ہوچکی ہے۔ دوسری آیت جس میں یہ مفہوم اور زیادہ وضاحت سے ثابت ہونا ہے یہ ہے۔
یاایھا الذین امنوا لاتسئلوا اعن اشیاء ان تبدلکم تسؤ کم(المائدہ 101)
اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کا حکم نازل نہیں کیا گیا کہ اگر ان کا حکم ظاہر کردیا جائے تو تمہیں تکلیف پہنچے۔
اسی لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرعی احکام میں کثرت سوال سے منع فرمایا کہ اس سے شریعت کے احکام کے سخت ہونے کا اندیشہ ہے۔اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا وہ عفو میں داخل ہیں۔ اگر ان کی ممانعت یا فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو تمہیں تکلیف پہنچے گی۔ لہذا جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ وہ آیت مذکورہ (ہوالذی خلق لکم مافی الارض جمیعا) کی رو سیجائز و مباح ہیں (تلک حدود اﷲ فلا تعتدوہا (البقرہ 29) اور یہ اﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو لہذا جو ان مسکوت عنہا کو ناجائز یا حرام یا بدعت سیئہ یا فرض یا واجب کہے وہ قرآن و حدیث یا قواعد فقیہ سے دلیل لائے ورنہ یہ اﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود سے آگے بڑھنا ہے اور اﷲ عزوجل اور رسول اﷲﷺ اور شریعت کاملہ پر افتراء ہوگا جس کی قرآن میں شدید مذمت آئی ہے اور سخت ممانعت و تہدید کی گئی ہے۔ لہذا میت کو ایصال ثواب کے لئے تعین وقت کے ساتھ قرآن خوانی یا سوا لاکھ بار کلمہ شریف پڑھنا یا پڑھوانا فاتحہ و درود انعقاد محافل میلاد شریف اور صلوٰۃ و سلام اور بیعت وارادت وغیرہا کے عدم جواز و بدعت کے قائلین کوقرآن یا احدیث یا اقوال صحابہ یا اقل درجہ میں قواعد فقیہہ سیان کے عدم جواز پر دلیل لانا چاہئے ۔ بلا دلیل شرعی ان کے عدم جواز کا قول اﷲ عزوجل اور رسول اﷲﷺ پر افتراء والعیاذ باﷲ وتعالیٰ ۔ ان اﷲ وملائکۃ یصلون علی النبی یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلمہ تسلیما ۔ صیغہ مضارع (یصلون کے راز) ۔ حافظ سخاوی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ مضارع (یصلون) لایا گیا جو دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ دیکھو القول البدیع ۔
اس آیت بینہ میں درود و سلام کا مطلق حکم ہوا کسی وقت، کسی مقام کی کوئی قید نہیں۔
صلوا وسلموا … دو امر کے صیغے بیان فرمائے ہیں کہ جن میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اپنے محبوبﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود وسلام بھیجنے کا حکم فرمایا کہ اے ایمان والو میرے نبی پر درود وسلام بھیجو اور خوب بھیجو لیکن اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی کوئی شرط و قید لگائی کہ صرف فلاں درود پڑھو اور فلاں درود نہ پڑھو اور فلاں وقت میں پڑھو، فلاںجگہ پڑھو اور فلاں جگہ نہ پڑھو۔ صبح پڑھو اور شام نہ پڑھو، فلاں دن پڑھو اور فلاں دن نہ پڑھو۔ اذان سے پہلے اور بعد میں نہ پڑ؎و، ایسا کسی آیت میں ارشاد نہیں فرمایا تو پھر اذان سے پہلے یا اذان کے بعد الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ پڑھنے والوں پر اعتراض کیسا؟
اب ہم الصلوٰۃ والسلام یارسول پڑھنے کے مطلق چند اقوال ذکر کریں گے۔ ملاحظہ فرمائیں۔مفسرقرآن حضرت اسماعیل حقی بروسی نے اپنی تفسیر روح البیان میں 40 صیغوں کے ساتھ یہ درود لکھا۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ ، الصلوٰۃ والسلام علیک یاحبیب اﷲ ۔ (تفسیر روح البیان، جلد7، ص 235)
نورالایضاح و مراتی الفلاح معہ طحطاوی ۔ السلام علیک یاسیدی یا رسول اﷲ
السلام علیک یا نبی اﷲ ، السلام علیک یا حبیب اﷲ ۔ (طحطاوی مع المراتی ص 430 جلد 2، مطبوعہ قاسم پبلی کیشنز)(فتح القدیر میں ہے۔ السلام علیک یارسول اﷲ یاخیر خلق اﷲ فتح القدیر جلد 3 ص 95 )(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔