Pages

Thursday, 6 July 2017

اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنا ( حصّہ اوّل )

اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنا ( حصّہ اوّل )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اذان سے پہلے درود و سلام پڑھنا مستحب ہے اور پڑھنے والے کو اس کا ثواب بھی ملے گا۔ اگر کوئی اذان سے پہلے درود وسلام نہیں پڑھتا تو کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ یہ فرض واجب نہیں مستحب ہے لیکن جو خوش نصیب عاشقان رسولﷺ اذان سے پہلے یا بعد میں پڑھتے ہیں۔ ان کو بدعتی نہیں کہنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے : یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ۔
ترجمہ : اے ایمان والو تم اپنے نبیﷺ پر خوب صلوٰۃ و سلام بھیجا کرو۔
اس آیت میں درود و سلام حکم علی الاطلاق وارد ہوا اور اسے مطلق حکم پر رکھنا چاہئے۔ ہمارے دور کے ایک دیوبندی عالم نے ہم سے مباحثہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ صلوٰۃ و سلام کو اذان سے پہلے مسلسل پڑھ کر مقید کرتے ہو حالانکہ مطلق پر جب عمل کرنا ممکن ہو تو اسے خبر واحد یا قیاس کے ذریعے بھی مقید نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے کہا اگر ایک شخص ہر جمعہ کے روز تسلسل سے صلوٰۃ و سلام پڑھتا ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ تم جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ یہ ایسا مبارک دن ہے کہ فرشتے اس میں حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ درود اس کے فارغ ہوتے ہی مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے عرض کی یارسول اﷲﷺ آپ کے وصال کے بعد بھی۔ فرمایا ہاں۔ بے شک اﷲ عزوجل نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو کھائے۔ جبکہ صاحبِ مشکوٰۃ کی روایت میں یہ بھی ہے۔ پس اﷲ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 1 صفحہ 76 قدیمی کتب خانہ کراچی)
اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں بہت سے اوقات مخصوصہ میں صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے حتی کہ شب و روز صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا ثبوت بھی موجود ہے اور امام سخاوی علیہ الرحمہ نے القول البدیع میں 75 مقامات شمار کئے ہیں جن میںصلوٰۃ و سلام پڑھنا چاہئے تو کیا امام سخاوی نے ایک مطلق حکم کو 75 قیود کے ساتھ مقید کردیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں اور نہ ہی احادیث میں مقید کیا ہے بلکہ یہاں پر خاص اوقات میں فضیلت کا بیان کیا گیا لہذا اوقات مخصوصہ میں صلوٰۃ و سلام کو پڑھنے کے احکام کو فضیلت کی طرف منسوب کریں گے نہ کہ مطلق پر مقید کا الزام لگائیں گے اور یاد رہے کہ کسی بھی مباح کام کے بار بار کرنے سے اس کے مقید ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا تو پھر اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام پر مقید ہونے کا حکم لگانا بھی جائز ہے۔ نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد نفلی نماز پڑھنا مباح ہے اگر کوئی شخص اس وقت میں ہمیشگی کے ساتھ نفل پڑھے تو کیا اس پر مقید کا الزام لگاتے ہوئے اسے نماز سے منع کرو گے۔ ماشاء اﷲ ۔

اذان سے قبل صلوٰۃ و سلام کا ثبوت : صلوٰۃ و سلام کا مطلب: یاد رہے یہاں پر ہم تفصیل میں جائے بغیر یہ بیان کررہے ہیں کہ یہ بات تمام فقہائے اسلام اور جمہور علمائے اسلام کے نزدیک متفق ہے کہ سید عالمﷺ کے لئے صلوٰۃ و سلام کا مطلب دعا ہے۔
ابن قیم لکھتے ہیں کہ جب ہم صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ عزوجل جانِ عالمﷺ پر نزول رحمت فرمائے (جلاء الافہام ص 87، دارالکتب العربی)
تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کیا سید عالم ﷺ کے لئے دعا کرنا جائز ہے یا نہیں تو اس کا ثبوت ہم فراہم کررہے ہیں۔ کیونکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر حکم نص سے ثابت ہے تاہم تسلی کے لئے ہم اس کا جزیہ بھی بیان ہیں۔
حضرت: حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ عنہ بنی نجار کی ایک عورت سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرا گھر اونچے گھروں میں سے تھا اور مسجد کے گردونواح میں سے تھا۔ پس حضرت بلال رضی اﷲ عنہ فجر کی اذان کے لئے سحری کے وقت آتے اور میرے مکان پر بیٹھ جاتے اور فجر کا انتظار کرتے تھے اور جب وہ دیکھ لیتے تو یہ کہتے اے اﷲ عزوجل میں تیری حمد کرتا ہوں اور تجھ سے مدد مانگتا ہوں اس بات کی کہ قریش سرور دوعالمﷺ کے دین پر قائم رہیں۔ انہوں نے کہا پھر وہ اذان دیتے (بنی نجار کی اس عورت نے کہا) خدا کی قسم میں نہیں جانتی کہ کسی بھی رات میں آپ نے یہ کلمات پڑھنے ترک کئے ہوں (ہر رات اذان سے پہلے پڑھتے تھے)
(سنن ابو دائود، جلد 1، ص 77، مطبوعہ دارالحدیث، ملتان)
انتباہ اذان سے پہلے دعا بروایت ثابت ہے اور صلوٰۃ و سلام دعا ہے لہذا اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام ثابت ہوا کیونکہ وہ دعا ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی جائز ہے۔
نوٹ: جمہور علماء کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بھی نہ صرف قبول بلکہ قابل عمل ہوتی ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے جب اور عموم کی تصریح کے ساتھ ہو تو تمام از مسند تحت امر داخل ہوتے ہیں (فتاویٰ رضویہ جلد 9، ص 243، رضا فائونڈیشن)
اس قاعدے کے مطابق کہ جب امر کا صیغہ عموم کی تصریح کے ساتھ ہو اور یہاں صلوٰۃ و سلام میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس کا عموم کسی سے مخفی نہیں اور جب عموم ہے تو اس میں تمام اوقات داخل ہیں لہذا نماز واذان سے قبل و بعد کا وقت لامحالہ (ضروری طور پر) داخل حکم امر ہوگا یعنی جو شخص ان اوقات میں صلوٰۃ و سلام پڑھے گا تو یہ قرآن کے اس حکم پر عمل ہوگا۔ (قواعد فقیہ معہ فوائد رضویہ ص 298 تا 301، مطبوعہ شبیر برادرز)

یاایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ۔ ترجمہ : اے ایمان والو تم بھی اس غیب بتانے والے نبیﷺ پر خوب درود و سلام بھیجو۔ مفتی احمد یار خان علیہ رحمتہ اﷲ الحنان جاء الحق میں ارقام کرتے ہیں ۔ یہ آیت کریمہ مطلق وعام ہے۔ اس میں کسی قسم کی قید و تخصیص نہیں ہے یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ بس فلاں وقت میں ہی پڑھا کرو یا فلاں وقت میں درود و سلام نہ پڑھا کرو بلکہ مطلق رکھا تاکہ تمام ممکن اوقات کو شامل رہے (جاء الحق: ص 781، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ)
اسی لئے حضرت علامہ علی قاری علیہ رحمتہ اﷲ الباری فرماتے ہیں:انہ تعالیٰ لم یوقت ذلک یشمل سائر الاوقات
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے اس امر صلوٰۃ (درود و سلام کا حکم) کا وقت معین نہیں کیا تاکہ تمام اوقات شامل رہیں (شرح الشفاء للقاری، جلد 3، ص 447)
سیدنا ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے۔ فی صلوتکم ومساجد کم و فی کل موطن ۔ یعنی اپنی نمازوں اور مساجد اور ہر مقام میں نبی کریمﷺ پر درود شریف پڑھو (جلاء الافہام، ص 252)
زکریا کاندھلوی دیوبندی نے لکھا ہے جن اوقات میں بھی (درود شریف) پڑھ سکتا ہو، پڑھنا مستحب ہے (تبلیغی نصاب فضائل، درود شریف ص 67)
لہذا مطلقا ہر جگہ اور ہر وقت نبی کریمﷺ پر درود وسلام پڑھنا جس میں اذان کا مقام بھی داخل ہے کلام الٰہی عزوجل سے مامور و ثابت ہے۔ لہذا روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ اذان سے پہلے درود شریف پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔
غیر مقلدوں کے امام ابن قیم لکھتے ہیں۔ المواطن السادس من مواطن الصلوٰۃ علی النبیﷺ بعد اجابتہ الموذن وعنہ الاقامۃ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ: یعنی حضور سید عالمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مواقع میں چھٹا موقع ہے موذن کی اذان سننے کے بعد اور اقامت سے پہلے (جلاء الافہام، ص 308)
امام قاضی عیاض مالکی رحمتہ اﷲ علیہ رقم طراز ہیں۔ ومن مواطن الصلوٰۃ علیہ عند ذکر و سماع اسمہ و کتابہ او عند الاذان ۔
ترجم: نبی کریمﷺ پر درود شریف بھیجنے کے مقامات میں سے یہ ہے کہ آپﷺ کے ذکر کے وقت آپﷺ کا نام مبارک سننے کے وقت یا آپﷺ کے نام مبارک لکھنے کے وقت یا اذان کے وقت۔ (شفاء شریف فصل فی المواطن الخ جلد 2، ص 43، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
علامہ علی قاری فرماتے ہیں:عند الاذان ای الاعلام الشامل للاقامۃ ۔
ترجمہ: اذان سے مراد اعلام ہے جو اذان شرعی و اقامت دونوں کو شامل ہے (شرح الشفائ، جلد 2، ص 114)
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں: یستفاد منہ بظاہرہ استحبابہ عند شروع الاقامۃ کما ہو معارف فی بعض البلاد
(الاسعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ باب الاذان ج 2، ص 41، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور) امام سید ابی بکر المشہور باسید البکری رحمتہ اﷲ لکھتے ہیں:
ای الصلوٰۃ والسلام علی النبیﷺ قبل الاذان والاقامۃ
ترجمہ: اذان و اقامت سے پہلے رسول اﷲﷺ پر درود و سلام بھیجنا مسنون و مستحب ہے (امانۃ الطالبین علی فتح المعین جلد 1، ص 232، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح میں علامہ شیخ احمد طحطاوی فرماتے ہیں: وفی الدرۃ المنیقۃ: اول من احدث اذان اثنین معابنو امیۃ واول لازیدت الصلوٰۃ علی النبی ﷺ بعد الاذان علی المنارۃ فی زمن حاجی بن الاشراف شعبان بن حسین بن محمد بن قلاون، باامر المستحب نجم الدین الطنبدی وذلک فی شعبان سنۃ احدی وتسعین وکذا فی الاوئل للسیوطی(حاشیۃ الطحطاوی جلد 1، ص 271، مطبوعہ قاسم پبلی کیشنز کراچی)

مومن وہ ہے جو ان کی عزت پہ مرے دل سے
تعظیم بھی کرتا ہے نجدی تو مرے دل سے

اب ہم فتاویٰ امجدیہ سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جس سے اظہر من الشمس وابین من الامس، روز روشن سے زیادہ ظاہر گزشتہ کل سے زیادہ واضح ہوجائے گا۔
اذان و اقامت سے پہلے اور بعد میں درود و دعا و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے۔ صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمتہ اﷲ القوی لکھتے ہیں: اذان کے بعد جو دعا احادیث میں وارد ہے۔ اس کا پڑھنا اتباع سنت و موجب برکات ہے۔ اس کے پڑھنے کے لئے احادیث میں شفاعت کا وعدہ فرمایا گیا۔ انبیاء علیہم السلام پر درود و سلام پڑھنا موجب ثواب و برکات اور درود کے ثواب جو احادیث میں وارد ہیں، اس کا مستحق ہے۔ احادیث میں درود پڑھنے کی فضیلت موجود ہے اور اذان کے بعد درود کی ممانعت نہیں۔مزید لکھتے ہیں کہ اس کو (درود و سلام اذان و اقامت سے پہلے یا بعد میں پڑھنے کو) ناجائز و بدعت قبیحہ کہنے والے ایمان و انصاف سے بولیں کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنا کس حدیث میں منع کیا۔ کس صحابی نے منع کیا یا تابعین و تبع تابعین یا ائمہ مجتہدین میں سے کس نے ناجائز کہا۔ اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو یہ حکم احداث فی الدین و بدعت قبیحہ ہے یا نہیں ضرور ہے اور وہ تمام احادیث جو مجوزین کے حق میں ذکر کی گئیں۔ سب مانعین کے حق میں ہیں۔ بالجملہ صلوٰۃ وسلام (اذان واقامت سے پہلے ہو یا بعد میں) پڑھنا جائز ہے کسی دلیل شرعی سے اس کی ممانعت نہیں۔
اب نجدیوں نے موقوف کردیا ہے ورنہ صدیوں سے حرمین طیبین مکہ و مدینہ دیگر بلاد اسلامیہ میں رائج و معمول بنارہا اور علماء و مشائخ بنظر استحسان دیکھتے رہے اور عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ماراہ المسلمون حسنا فہو عنہ اﷲ حسن لہذا یہ جائز و مستحسن ہے۔
در مختار و ہدایہ، فتاویٰ قاضی خان، عالمگیری و غیرہ کتب فقہ میں اس کے جواز بلکہ استحسان کی تصریح ہے۔ التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخر سنۃ سبع مانۃ واحدی وثمانین فی عشاء لیلۃ الاثنین ثم یوم الجمعۃ ثم بعد عشر سنین حدث فی الکل الا المغرب ثم فیہا مہ تین وہو بدعۃ حسنۃ ۔
علماء جب اسے اس ہیئت خاصہ کے ساتھ بدعت حسنہ کہتے ہیں تو اسے بدعت سیئہ قرار دے کر منع کرنا سخت غلطی ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، ص 67, 66, 65 مطبوعہ مکتبہ رضویہ)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اذان کے بعد یا اذان سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود بھیجنا جائز و مستحب امر مستحسن ہے کما حردناہ فی اوائلہ ۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا :
تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں درود

امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ متوفی 974ھ اپنی مایہ ناز تصنیف الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود میں ارقام کرتے ہیں کہ نماز جمعہ اور نماز فجر و مغرب کے سوا باقی سب نمازوں سے پہلے اور اذان کے بعد مساجد کی میناروں پر رسول اﷲﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی جو عادت اہل اسلام میں رائج ہے۔ ا سکو سلطان صلاح الدین بن ایوب رحمتہ اﷲ علیہ نے جاری کیا تھا۔ نماز جمعہ اور نماز فجر میں اذان سے پہلے پڑھا جاتا تھا اور نماز مغرب کا وقت تنگ ہونے کی وجہ سے اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھا جاتا تھا۔ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ اس عمل کی ابتداء مصر اور قاہرہ میں 791ھ سے ہوئی ہے کہ بعض معتقدین نے خواب میں اس کو دیکھا تھا۔ ان مورخین کا یہ بیان اس طریقہ کے اس سے قبل جاری ہونے کے مخالف نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سلطان صلاح الدین بن ایوب کی وفات کے بعد مذکورہ تاریخ تک اس کو ترک کردیا گیا ہو اور اس تاریخ کے بعد دوبارہ اس پر عمل کیا گیا ہو یا سلطان صلاح الدین نے صرف جمعتہ المبارک کی رات اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہو اور مذکورہ تاریخ کے بعد باقی ایام میں بھی اس کو معمول بنادیا گیا ہو۔ مزید لکھتے ہیں کہ بعض متاخرین نے اس عمل کو درست قرار دیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ اس پر عمل کرنے والے کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔ حضرت امام احمد بن محمد بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ کے شیخ حضرت شیخ الاسلام ذکریا رحمتہ اﷲ علیہ کا قول اس کے قریب ہے۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا ہے کہ اس کی اصل مستحب ہے اور کیفیت بدعت (حسنہ) ہے (انظرنی الدر المنصور فی الصلوٰۃ والسلام علی صاحب المقام المحمود ص 325)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نیز اسی میں ہے کہ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا جس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا۔ اس کا کوئی دین نہیں۔اس حدیث کو المروزی نے تخریج کیا۔ اس کی سند میں ایک راوی کا نام ذکر نہیں (الدر السمنن ص 308)
انداز لگایئے کہ درود پاک نہ پڑھنے والے پر اس وعید شدید ارشاد فرمائی گئی۔ ان بدبختوں کا انجام کیا ہوگا جو اپنے دقیانوسی خیالات فاسدہ جاہلانہ اعتراضات کے تیر برسا کر اذان سے پہلے اور بعد میں درود سلام پڑھنے کو منع کرتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ آخرت میں ان کا انجام کیا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو سمجھنے اور حق توفیق عطا فرمائے۔
خدام الدین ستمبر 1963ء میں لکھا ہے کہ اس درود سے منع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حاجی امداد اﷲ صاحب نے فرمایا ہے کہ اس کے جواز میں شک نہیں (مولانا محمد صدیق ملتانی) (تقاریری نکات ص 463 بتغیر مطبوعہ کرانوالہ بک شاپ لاہور)
حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہ الکریم فرماتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رحمت کونین نانائے حسنینﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ایک طرف کو نکلا تو میں نے دیکھا کہ جو درخت اور پہاڑ سامنے آتا ہے۔ اس سے السلام علیک یارسول اﷲ کی آواز آتی ہے اور میں خود اس آواز کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا (سنن الترمذی الحدیث 3464، ج 5ً ص 359)

اللہم لک حمد و بک امنت وعلیک توکلت و علیٰ رزقک افطرت یہ دونوں بدعت ہیں۔
اور خطبہ کی اذان داخل مسجد کہنا یہ بھی بدعت ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب ابو دائود جلد اول ص 162 میں ہے عن السائب بن یزید قال کان یوذن بین یدی رسول اﷲﷺ اذا جلس علی الممبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر یعنی حضرت سائب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اﷲﷺ جمعہ کے روز منبر پر تشریف فرما ہوتے تو حضورﷺ کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کے زمانہ میں اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنے کی مخالفت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ ان بدعتوں کی بھی مخالفت کریں مگر وہ لوگ ان بدعتوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ جس سے انبیاء کرام و بزرگان دین کی عظمت ظاہر ہو، صرف اسی کی مخالفت کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کیباتیں نہ سنیں کہ عظمت نبی کا دشمن ابلیس جنت سے نکال دیا گیا اور یہ لوگ عظمت نبی کی مخالفت کرکے جنگ میں جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 ص 181 بتغیر مطبوعہ شبیر برادراز)
شامی مصری جلد اول ص 381 تا 382 میں ہے : قولہ (مستحبۃ فی کلاوقات الامکان) ای حیث لا مانع و نص العلماء علی استحبابہا فیمواضع یوم الجمعۃ ولیلتھا وعند الاقامۃ واول الدعا واوسطہ و آخرہ وعند ذکر ۔
ترجمہ : ان کا کہنا (درود مستحب ہے ہر غیر مکروہ وقت مین) یعنی جہاں کو شرع مانع نہ ہو۔ علماء نے فرمایا ہے کئی مواقع پر درود شریف مستحب ہے۔ خطبہ کے وقت جمعہ کے دن میں اور رات میں اقامت کے وقت۔ دعا کے شروع میں اس کے درمیان میں اور اس کے اخیر میں بھی نیز اﷲ کے ذکر کے وقت۔
در مختار مصری ص 228 میں ہے۔ ومستحبۃ فی کل اوقات الامکان ۔
ترجمہ : ہر جائز اوقات میں درود شریف مستحب ہے۔
حنفیہ کا اصول فتاویٰ میں لکھا ہے۔ علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حمکفی متوفی 1088ھ نے الدر المختار میں لکھا ۔ الاصل فی الاشیاء الابحۃ یعنی چیزوں میں اصل اباحت جائز ہونا ہے (حاشیہ شامی جلد 1، ص 77، مکتبۃ رشیدیہ کوئٹہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے قبل چاہئے یا درود شریف کی آواز آواز اقامت سے ایسی جدا ہوکر امتیاز رہے اور عوام کو درود شریف جزء اقامت نہ معلوم ہو (فتاویٰ رضویہ جلد 5، ص 386، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
اسی فتاویٰ رضویہ میں الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول کے بارے میں دلائل ملاحطہ فرمائیں۔ امام اہلسنت فرماتے ہیں۔الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ کہنا باجماع مسلمین جائز و مستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر و باہر الستحیان میں السلام علیک ایہا النبی و رحمتہ اﷲ وبرکاتہ ہے اور اس کی سوا صحاح کی حدیث میں یامحمد انی اتوجہ بک ابی ربی فی حاجتی ہذہ (جامع ترمذی میں اسی طرح ہے) اے محمدﷺ میں اپنی اصل حاجت میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کو وسیلہ بناتا ہوں۔ موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالمﷺ کے حضور پکارنا اور حضور سے مدد لینا ثابت ہے (فتاویٰ رضویہ جلد 23، ص 680، مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)
اس سے معلوم ہوا کہ اذان سے قبل یا بعد میں درود شریف بالخصوص الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ کہنا بھی جائز ہے۔
فتاویٰ فیض رسول میں ہے۔ اگر مخالفین اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں اور صحابہ کرام کے عہد میں اذان و اقامت سے پہلے درود شریف نہیں پڑھا جاتا تھا تو مخالفین سے کئے کہ مسلمان بچوں کو جو ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرایا جاتا ہے، ایمان کی یہ دو قسمیں ہیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں۔ کلموں کی تعداد ان کی ترتیب اور ان کے سب نام بدعت ہیں۔ قرآن شریف کا تیس 30 پارے بنانا، ان میں رکوع قائم کرنا اس پر اعراب زبر زیر وغیرہ لگانا اور آیتوں کا نمبر وغیرہ لگانا سب بدعت ہے۔ حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا حدیث کی قسمیں بنانا پھر ان کے احکام مقرر کرنا سب بدعت ہیں۔ اصول حدیث، اول فقہ کے سارے قاعدے قانون سب بدعت ہیں۔ نماز کے لئے زبان سے نیت کرنا یہ بھی بدعت ہے، روزہ کی نیت اسی طرح زبان سے کہنا نویت ان اصوم غداۃً ﷲ تعالیٰ اور افطار کے وقت ان الفاظ کو زبان سے
جب اذان اتنا بابرکت کام ہے تو ہر بابرکت کام سے پہلے جس طرح بسم اﷲ شریف پڑھنی چاہئے (کل امر ذی بال لویبد بسم اﷲ فہو اقطع) اسی طرح ہربابرکت کام سے پہلے اپنے آقا و مولیٰﷺ پر درود و سلام پڑھنا چاہئے جن کے صدقے ہمیں یہ عظیم الشان نعمت ملی جیسا کہ جامع صغیر میں حدیث بھی ہے۔
القول البدیع فی الصلوٰۃعلی حبیب الشفیع میں علامہ سخاوی علیہ الرحمہ (جوکہ ابن کثیر کے وہ ابن قیم کے وہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں اور ابن تیمیہ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ہیں مخالفین کے) فرماتے ہیں۔ اذان سے پہلے سلام پڑھنا جائز ہے۔ ویوم بحسن نیتہ حسن نیت پر ثواب بھی ملے گا۔ یہی درود و سلام جو اذان سے پہلے صدیوں سے پڑھا جارہا ہے اور ادفتحیہ میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویرضی اﷲ عنہ نے اس کو چودہ سو اولیاء کا وظیفہء قرار دیا اور فرمایا جو اس کو پڑھے گا، چودہ سو اولیاء کا فیض پائے گا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
شکر النعمہ میں سید السفہاء مولوی اشرفعلی تھانوی کا واقعہ ہے کہ کانپور میں وعظ کے دوران ایک شخص نے خواب میں حضورﷺ کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا۔ اشرف علی کو میرا سلام دینا، اس شخص نے بیدار ہونے کے بعد مجلس وعظ میں ہی سلام عرض کیا تو تھانوی صاحب کہنے لگے۔ آج تو میرا دل چاہ رہا ہے کہ کثرت سے سلام عرض کرو۔ الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲﷺ۔
ضیاء القلوب میں ہے حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ نے حضورﷺ کی زیارت کے لئے یہی درودشریف بتایا ہے۔
الشہاب الثاقب میں حسین احمد مدنی (ٹانڈوی) نے لکھا ہے کہ ہمارے علماء تو کثرت سے یہ درود شریف (الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ) پڑھتے ہیںجبکہ وہابڑے (یعنی وہانی کا معنی ہے نمک حرام) منع کرتے ہیں۔ تبلیغی نصاب میں لکھا ہے کہ میرے نزیک دور ہو یا قریب یہی درود شریف پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں صلوٰۃ بھی ہے اور سلام بھی (اور اﷲ تعالیٰ نے صلوا علیہ وسلموا تسلیما)میں صلوٰۃ و سلام دونوں پڑھنے کا حکم دیا ہے)
اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنے کے متعلق فقہاء احناف کی تصریحات
علامہ عمر بن ابراہیم ابن نجیم الحنفی المتوفی 1005ھ لکھتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی شافعی متوفی 911 نے حسن الصحاضرہ میں لکھا ہے کہ ربیع الاخر 781ھ پیر کے دن عشاء کی اذان کے بعد سید عالمﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا شروع ہوا پھر اس کے دس سال بعد مغرب کے سوا ہر اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنا شروع ہوا۔ پھر میں نے علامہ عبدالرحمن سخاوی متوفی 906ھ کے القوال البدیع میں یہ پڑھا کہ شعبان 791ھ میں قاہرہ اور مصر کے موذنوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر اذان سے فارغ ہونے کے بعد کئی مرتبہ یہ پڑھیں۔
الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ اور یہ معلوم ہے کہ صلوٰۃ و سلام پڑھنا قرب کا ذریعہ ہے اور بہت احادیث میں اس کی ترغیب دی گئی۔ خصوصا اذان کے بعد کی دعا سے پہلے (کما فی ضحیح مسلم) اور صحیح یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے (للستفصیل بدعۃ الحسنۃ انظر فی اشعۃ اللمعات ج 1ص 25، مطبوعہ کوئٹہ)
اور اس کے فاعل کو اس کی حسن نیت کی وجہ سے اجر دیا جائے گا (القول البدیع ص 280، ملخصاً مکتبہ الموید الطائف) ۔ اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں کئی اقوال ہیں اور صحیح قول یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے (الحنر الفائق ج 1، ص 172، قدیمی کتب خانہ کراچی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

3 comments:

Science Foundation Welfare Society نے لکھا ہے کہ

اگر اذان سے پہلے اور بعد میں بھی درود و صلوۃ پڑھنا جائز ہے تو جس طرح حدیث میں جمعہ کے دن اور ویسے بھی عام اوقات میں بھی درود و صلوۃ پڑھنے کے مرتبے کو بتایا گیا اور جس کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کرتے تھے، اسی طرح کسی حدیث کی کتاب یا قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے کہ درود و صلوۃ کو اذان سے پہلے پڑھنا جائز ہے؟ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین اس کو کرتے تھے؟ اگر ہے تو اس کا حوالہ بتا دیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں،
اور اگر نہیں ہے تو پھر یہ خود سے ایڈیشن ہے جو کہ دین اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا

Science Foundation Welfare Society نے لکھا ہے کہ

اور دوسرا یہ کہ اگر آپ اس کو جائز کہتے، اپنا ہی کوئی فتویٰ لگا کر
تو اس طرح یہ بھی جائز ہوگا کہ اذان کی سب سے آخر پر
"لا الہ الا اللہ"
کے ساتھ
"محمد الرسول اللہ"
بھی ملا سکتے ہیں

Science Foundation Welfare Society نے لکھا ہے کہ

جواب کا منتظر
محمد علی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔