Pages

Monday, 3 July 2017

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ کے متعلق بعض غیر مقلدین کی ہفوات و گستاخیاں اور منصف مزاج علمائے غیر مقلد اہل حدیث کا نظریہ و عمل

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ کے متعلق بعض غیر مقلدین کی ہفوات و گستاخیاں اور منصف مزاج علمائے غیر مقلد اہل حدیث کا نظریہ و عمل ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک طرف ائمہ جرح و تعدیل ہیں جنہوں نے صرف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کے متعلق فضائل ومناقب کو ذکر کیا ہے اورجرح سے بالکل گریز کیا ہے، اسی کے ساتھ علم وفضل کے آفتاب وماہتاب اور علم حدیث فقہ وفتاوی کے درخشندہ ستارے ہیں، جنہوں نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور آپ کو علم حدیث کا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور ورع وتقویٰ کا نیر تاباں قرار دیا ہے، آپ کے فضائل کو ذکر کرتے ہوئے آپ کو آسمان رشد وہدایت کادمکتا ستارہ تسلیم کیا ہے تو دوسری طرف غیر مقلدین کی ایک جماعت ہے جنہوں نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی دریدہ ذہنی کا انہیں وظیفہ ملتا ہے، امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اس طرح کی حرکتیں اور ایسے گندے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے کہ عام انسان کے لیے بھی ان الفاظ کا استعمال روا نہیں ہے، چہ جائے کہ اس عظیم انسان رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں کہی جائے جس کے احسان سے امت کا بہت بڑا طبقہ گراں بار ہے، بعض اساتذہ سے سنا کہ بعض اداروں میں بعض غیر مقلدین طلبہ امام رحمۃ اللہ علیہ کا نام لکھ کر اسے جوتے سے مارتے تھے اور بعض طلبہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام لکھ کر اسے گندے نالے میں ڈال دیتے تھے، بعض غیر مقلدین طلبہ بے ادبی کی ساری حدیں پارکرتے ہوئے ہدایہ جیسی فقہ کی اہم کتاب پر، جس پر صاحب ہدایہ نے دلیل عقلی کے ساتھ ساتھ دلیل نقلی کا بھی حد درجہ اہتمام کیا ہے اور قرآن وحدیث سے یہ کتاب پوری طرح مبرہن ہے، اس کتاب کو کھول کر اس پر بیٹھ جایا کرتے تھے، اس طرح کی دریدہ دہنی او رغیر شائستہ حرکتوں سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں، میں ان کو نقل نہیں کرسکتا ہوں ، یہ وہ حرکتیں ہیں جو ایک عام انسان کے حق میں بھی کسی طرح جائز نہیں ہیں، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اپنے وفات شدہ لوگوں کے محاسن کو یاد کیا کرو۔ ( ابوداؤد، باب النہی عن سب الموتی، رقم الحدیث:4900) یعنی ان کے عیب وکمزوری کے بیان سے گریز کیا کرو۔ یہ حضرات کہنے کو تو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ، لیکن معلوم نہیں کن احادیث پر عمل کرنے کی بنا پر یہ لوگ اہل حدیث کہلاتے ہیں، جب حدیث میں سختی کے ساتھ وفات یافتگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے تو کس جواز کی بنا پر یہ حضرات امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں؟ ابھی تین دن پہلے ایک غیر مقلد نام نہاد مناظر حافظ ابو یحیٰ نور پوری فقیر کے پیج اور ٹائلن پر یزید کی حمایت کرتا رہا اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق غلیظ زبان استعمال کرتا رہا جس سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ یہ لوگ آئمہ اسلام علیہم الرّحمہ سے کتنا بغض رکھتے اور توہین کرتے ہیں اب آیئے مکتبہ فکر غیر مقلد اہل حدیث حضرات کے منصف مزاج علماء کا نظریہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق پڑھتے ہیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

منصف مزاج علمائے اہل حدیث کا طرز عمل

اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  یا فقہ حنفی پر کیچڑ اچھالنا اور امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کرنا تمام اہل حدیث کا شیوہ نہیں ہے، بلکہ بہت سے منصف مزاج اہل حدیث ہیں جو نہ صرف امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کرکے اپنی زبان کو گندہ نہیں کرتے ، بلکہ اپنے اہل حدیث دوستوں کو بھی اس لایعنی اور غیر مہذب عمل سے روکتے ہیں، اس فہرست میں اہل حدیث کے بڑے بڑے علماء ہیں، جنہوں نے امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں ، امام صاحب کا نام بڑی عزت واحترام سے لیا ہے، امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی علمی عبقریت اور فقہ وحدیث میں ان کی امتیازیت کا اعتراف کیا ہے، ان منصف اہل حدیث علماء کا بیان تمام اہل حدیث دوستوں کے لیے آئینہ ہے، جس میں وہ امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح تصویر دیکھ سکتے ہیں او ران کی شان میں گستاخی کرکے انہوں نے امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر کو کس حد تک بگاڑنے کی کوشش کی ہے اس کا بھی معائنہ کر سکتے ہیں ، ذیل میں چنداہل حدیث علماء کے اقوال کو ذکر کیا جاتا ہے، جس سے ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ جس طرح امت کے سواد اعظم اور مذاہب اربعہ کے ائمہ متبوعین علیہم الرّحمہ نے امام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت قدر کا اعتراف واظہار کیا ہے اسی طرح بہت سے منصف اہل حدیث علماء نے بھی امام صاحب کی خدمات کو سراہا ہے، ان اہل حدیث علماء کا بیان تمام غیر مقلدین کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، جس پر وہ بھی عمل کرسکتے ہیں۔

امام صاحب مولانا ابراہیم سیالکوٹی کی نظر میں : مولانا ابراہیم سیالکوٹی اہل حدیث کے ممتاز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں او رعلماء اہل حدیث میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، انہوں نے تاریخ اہل حدیث میں امام صاحب پر تقریباً بیس صفحے لکھے ہیں، جس میں جگہ جگہ امام صاحب کا تذکرہ عقیدت واحترام کے ساتھ کیا ہے اور امام صاحب پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات مدلل طور پر دیے ہیں، امام صاحب پرارجاء کے دفاع میں لکھتے ہیں:بے شک بعض مصنفین نے ( خدا ان پر رحم کرے) امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں امام ابویوسف، امام محمد،امام زفر، حسن بن زیاد کو رجال مرجیہ میں شمار کیا ہے، جس کی حقیقت کو نہ سمجھ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پر نظر نہ رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچھالا ہے، لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئی طریق پر دیا ہے۔ ( تاریخ اہل حدیث:77)

اس کے بعد مولانا موصوف نے علامہ ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ ذہبی، شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ مختلف حضرات علماء کے اقوال نقل کرکے امام صاحب کے دفاع میں مکمل تجزیہ کیا ہے۔ حافظ ذہبی کے اقوال کو نقل کرکے اس پر جو تجزیہ کیا ہے اس کو ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:اسی طرح حافظ ذہبی اپنی دوسری کتاب تذکرة الحفاظ میں آپ کے ترجمہ کے عنوان کو معزز لقب ”امام اعظم“ سے مزین کرکے آپ کا جامع اخلاق حسنہ ہونا ان الفاظ میں ارقام فرماتے ہیں: ”کان إماما ورعا عالما متعبدا کبیر الشان، لا یقبل جوائز السلطان، بل یتجر ویکتب ، تدکرة1/10․“

سبحان الله : کیسے مختصر الفاظ میں کس خوبی سے ساری حیات طیبہ کا نقشہ سامنے رکھ دیا اور آپ کی زندگی کے ہر علمی اور عملی شعبہ اور قبولیت عامہ اور غنائے قلبی اور حکام وسلاطین سے بے تعلقی وغیرہ فضائل میں سے کسی بھی غیر ضروری امر کو چھوڑ کر نہیں رکھا۔ ( تاریخ اہل حدیث:80)

آگے چل کر ”ایک محاکمہ“ کا عنوان قائم کرتے ہیں ،اس کے ذیل میں لکھتے ہیں: جس امر میں بزرگان دین میں اختلاف ہو اس میں ہم جیسے ناقصوں کا محاکمہ کرنا بری بات ہے، لیکن چوں کہ بزرگوں سے حسن تادب کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ان کے کلام کے محمل بیان کرکے ان سے الزام واعتراض کو دور کریں اور محض اپنی شخصی رائے سے نہیں، بلکہ بزرگوں ہی کے اقوال سے جو قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں۔ (تاریخ اہل حدیث:88)

اخیر میں فیض ربانی کا عنوان قائم کرکے اپنے دل کی بات کہی ہے او ربزرگوں کے ساتھ ادب واحترام کی تعلیم وتلقین فرمائی ہے، فیض ربانی کا عنوان ملاحظہ فرمائیں:
”ہر چند کہ میں سخت گنہگار ہوں ، لیکن یہ ایمان رکھتا ہوں او راپنے صالح اساتذہ مولانا ابو عبدالله عبید الله غلام حسن صاحب مرحوم سیالکوٹی اورجناب حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم محدث وزیر آبادی کی صحبت وتلقین سے یہ بات یقین کے رتبے تک پہنچ چکی ہے کہ بزرگان دین خصوصاً حضرات ائمہ متبوعین سے حسن عقیدت نزول برکات کا ذریعہ ہے، اس لیے بعض اوقات خدا تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے کوئی فیض اس ذرے بے مقدار پر نازل کر دیتا ہے، اس مقام پر اس کی صورت یوں ہے کہ جب میں نے اس مسئلے کے لیے کتب متعلقہ الماری سے نکالی اور حضرت امام کے متعلق تحقیقات شروع کی تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر غبار آگیا، جس کا اثر بیرونی طور پر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا یکا یک میرے سامنے گھپ اندیرا چھا گیا”ظلمٰت بعضھا فوق بعض“ کا نظارہ ہو گیا، خدا تعالی نے میرے دل میں ڈال دیا کہ یہ حضرت امام صاحب سے بدظنی کا نتیجہ ہے، اس سے استغفار کرو، میں نے کلمات استغفار دہرانے شروع کیے، وہ اندھیرے فوراً کا فور ہو گئے او ران کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کر دیا، اس وقت سے میری حضرت امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے حسن عقیدت اور زیادہ بڑھی گئی او رمیں ان شخصوں سے، جن کو حضرت امام صاحب سے حسن عقیدت نہیں ہے ،کہا کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ منکرین معارج قدسیہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے :﴿ أفتمارونہ علی مایری﴾میں نے جو کچھ عالم بیداری اور ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے، ھذا والله ولی الھدایہ ․ اب میں اس مضمون کو ان کلمات پر ختم کرتا ہوں اور اپنے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ بزرگان دین سے، خصوصاً ائمہ متبوعین علیہم الرّحمہ سے حسن ظن رکھیں اور گستاخی وشوخی اور بے ادبی سے پرہیز کریں ،کیوں کہ اس کا نتیجہ ہر دو جہاں میں موجب خسران ونقصان ہے ۔(تاریخ اہل حدیث:88)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔