Pages

Monday, 3 July 2017

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح کی حقیقت غیر مقلدین کی جہالت کا جواب

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح کی حقیقت غیر مقلدین کی جہالت کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعض سوانح نگاروں نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہکی طرف عقائد و فروعات سے متعلق بعض ایسی باتیں نقل کی ہیں جن سےامام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بالکل بری ہیں، بہت سے منصف اہل قلم نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے دفاع کیا ہے اور اس کے جوابات لکھے ہیں ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف خلق قرآن ، قدر وارجاء وغیرہ کے الزامات لگائے گئے ہیں، شیخ طاہر پٹنی صاحب ”مجمع البحار“ اس کے متعلق فرماتے ہیں:امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایسے اقوال منسوب کیے گئے ہیں جن سے ان کی شان بالاتر ہے ،وہ اقوال خلق قرآن، قدر، ارجا، وغیرہ ہیں، ہم کو ضرورت نہیں کہ ان اقوال کے منسوب کرنے والوں کا نام لیں، یہ ظاہر ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا دامن ان سے پاک تھا، الله تعالیٰ کا ان کو ایسی شریعت دینا جو سارے آفاق میں پھیل گئی اور جس نے روئے زمین کو ڈھک لیا اور ان کے مذہب وفقہ کو قبول عام دینا ان کی پاک دامنی کی دلیل ہے، اگر اس میں الله تعالیٰ کا سر خفی نہ ہوتا نصف یا اس سے قریب اسلام ان کی تقلید کے جھنڈے کے نیچے نہ ہوتا۔ (مجمع البحار)

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جس طرح کا بھی جرح کیا گیا ہے اس کی حقیقت معاصرانہ چپقلش، غلط فہمی اور جہالت، یا تعصب وحسد ہے، ورنہامام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی ان الزامات سے آئینہ کی طرف صاف وشفاف ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جن جن حضرات نے کلام کیا ہے یا تو وہ محض تعصب اور عناد وحسد کی پیداوار ہے، جس کی ایک پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں ہے اور بعض حضرات نے اگرچہ دیانةً کلام کیا ہے، مگر اس رائے کے قائم کرنے میں جس اجتہاد سے انہوں نے کام لیا ہے وہ سرسرا باطل ہے، کیوں کہ تاریخ ان تمام غلط فہمیوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ رہی ہے، اس لیے ان حوالجات سے مغالطہ آفرینی میں مبتلا ہونا یا دوسروں کو دھوکہ دینا انصاف ودیانت کا جنازہ نکالنا او رمحض تعصب اور حسد وغیبت جیسے گناہ میں آلودہ ہونا ہے۔

خطیب نے عبد بن داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے:”الناس فی أبی حنیفة رجلان: جاھل بہ، وحاسد لہ․“امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں یا تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فضل وکمال سے ناواقف ہیں یا ان سے حسد کرتے ہیں۔ (تاریخ بغداد:13/346)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

خطیب بغدادی کے جرح کی حقیقت : امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جن لوگوں نے جرح کیا ہے او رامام صاحب کی طرف مطاعن ومعایب کو منسوب کیا ہے اس میں سر فہرست خطیب بغدادی ہیں، بعد میں زیادہ تر حضرات نے خطیب کی عبارتوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن خطیب کے جرح کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ خطیب نے مدح وذم کی تمام روایات کو ذکر کرکے اپنے مؤرخانہ فریضہ کو انجام دیا ہے، اس میں انہوں نے روایت کی صحت وغیرہ پر زور نہیں دیا ہے ، خود خطیب ان کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی یہ خطیب کی اپنی رائے تھی، بعض جرح کو نقل کرکے خطیب نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا دفاع بھی کیا ہے، مثلاً جنت وجہنم کے غیر موجود ہونے کی جرح نقل کرکے خطیب کہتے ہیں: قول بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ خودراوی ابو مطیع اس کا قائل تھا، ابوحنیفہ نہ تھے، جب کہ بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ یہ خطیب کی اپنی رائے نہیں، لیکن خطیب کو ان اقوال کے نقل کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا، انہو ں نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ان باتوں کو لکھ کر گویا اپنی کتاب کی استنادی حیثیت کو کم کر دیا ہے، حافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی ۔ (المتوفی942ھ) فرماتے ہیں:حافظ ابوبکر خطیب بغدادی نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں جو مخل تعظیم باتیں نقل کی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھانا، خطیب بغدادی نے اگرچہ پہلے مدح کرنے والوں کی باتیں نقل کی ہیں، مگر اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتیں بھی نقل کی ہیں، سو اس وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کو بڑا دغ دار کر دیا ہے او ر بڑوں او رچھوٹوں کے لیے ایسا کرنے سے وہ ہدف ملامت بن گئے ہیں اورانہوں نے ایسی گندگی اچھالی ہے، جو سمندر سے بھی نہ دھل سکے۔ (عقودالجمان)

قاضی القضاة شمس الدین ابن خلکان الشافعی(م861ھ) خطیب بغدادی کی اس غلط طرز گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:خطیب نے اپنی تاریخ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بہت سے مناقب ذکرکیے، اس کے بعد کچھ ایسی ناگفتہ بہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا بہت ہی مناسب تھا؛ کیوں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کے متعلق نہ تو دیانت میں شبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ورع وحفظ میں ، آپ پر کوئی نکتہ چینی بجز قلت عربیت کے اور نہیں کی گئی ہے۔ (تاریخ ابن خلکان2/165)

خطیب اور چند دیگر حضرات کے علاوہ زیادہ تر مصنفین اور مؤرخین ائمہ جرح وتعدیل اور ائمہ حدیث نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل ومناقب کو انصاف کے ساتھ ذکرکیا ہے اور کسی قسم کی جرح کو ذکر نہیں کیا ، بلکہ صرف مناقب پر اکتفا کیا ہے، نمونے کے طور پر چند اسماء الرجال کی کتابوں اور چند ائمہ حدیث کے اقوال کو یہاں مختصرا ذکر کیا جاتا ہے، امام ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں ، حافظ صفی الدین خزرجی نے خلاصة تذہیب تہذیب الکمال میں ، علامہ نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں ، امام یافعی نے مرآة الجنان میں امام صاحب کے حالات او رمناقب کو ذکر کیا ہے، لیکن کسی نے کوئی جرح نہیں کی ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک امام صاحب پر جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اب چند معتمد ترین اور ائمہ علم وفضل کے اقوال یہاں ذکر کیے جاتے ہیں، تاکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بے داغ اور تقویٰ وطہارت سے لبریز زندگی اور آپ کے فضل وکمال کی مختلف نوعیتیں ہمارے سامنے آسکیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

(فضیل بن عیاض م187ھ) فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ مشہور صوفیاء میں ہیں ، ان کی زندگی زہد وتقویٰ اور عبادت وریاضت سے عبارت تھی ، وہ فرماتے ہیں:امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مرد فقیہ تھے، فقہ میں معروف، پارسائی میں مشہور، بڑے دولت مند، ہر صادروو ارد کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرنے والے، شب وروز صبر کے ساتھ تعلیم میں مصروف ، رات اچھی گزارنے والے، خاموشی پسند ، کم سخن تھے، جب کوئی مسئلہ حلال وحرام کا پیش آتا تو کلام کرتے اور ہدایت کا حق ادا کر دیتے، سلطانی مال سے بھاگنے والے تھے۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین، ص:44)

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ م161ھ ابوبکر بن عیاش کا قول ہے کہ سفیان کے بھائی عمرو بن سعید کا انتقال ہوا تو سفیان کے پاس ہم لوگ تعزیت کے لیے گئے مجلس لوگوں سے بھری ہوئی تھی، عبدالله بن ادریس بھی وہاں تھے، اسی عرصہ میں ابوحنیفہ اپنے رفقاء کے ساتھ وہاں پہنچے، سفیان نے ان کو دیکھا تو اپنی جگہ خالی کر دی اور کھڑے ہو کر معانقہ کیا، اپنی جگہ ان کو بٹھایا، خود سامنے بیٹھے، یہ دیکھ کہ مجھ کو بہت غصہ آیا، میں نے سفیان سے کہا ابوعبد الله! آج آپ نے ایسا کام کیا جو مجھ کو برا معلوم ہوا،نیز ہمارے دوسرے ساتھیوں کو بھی، انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا آپ کے پاس ابوحنیفہ آئے، آپ ان کے لیے کھڑے ہوئے، اپنی جگہ بٹھایا، ان کے ادب میں مبالغہ کیا ،یہ ہم لوگوں کو ناپسند ہوا، سفیان ثوری نے کہا تم کو یہ کیوں ناپسند ہوا؟ وہ علم میں ذی مرتبہ شخص ہیں، اگر میں ان کے علم کے لیے نہ اٹھتا تو ان کے سن وسال کے لیے اٹھتا اور اگر ان کے سن وسال کے لیے نہ اٹھتا تو ان کی فقہ کے واسطہ اٹھتا اور اگر ان کے فقہ کے لیے نہ اٹھتا تو ان کے تقویٰ کے واسطے اٹھتا۔ ( اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص:73)

علامہ محمد بن اثیر الشافعی م606ھ : علامہ محمد بن اثیر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر الله تعالیٰ کا کوئی خاص لطف اور بھید اس میں مضمر نہ ہوتا تو امت محمدیہ کا تقریباً نصف حصہ کبھی امام ابوحنیفہ کی پیروی نہ کرتا او راس جلیل القدر کے مسلک پر عامل ہو کر اور ان کی تقلید کرکے کبھی قرب خدا وندوی حاصل کرنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ ( حامل الاصول بحوالہ مقام ابی حنیفہ :73)

علامہ ابن ہارون م206ھ : علامہ بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ کو شیخ الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اپنے وقت کے عابد وزاہد حضرات میں شمار ہوتے تھے، علم حدیث میں بڑی شان کے مالک تھے، ان سے پوچھا گیا آدمی فتوی دینے کا کب مجاز ہو سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایاجب ابوحنیفہ کے مثل او ران کی طرح فقیہ ہو جائے۔ ان سے سوال کیا گیا اے ابو خالد! آپ ایسی بات کہتے ہیں ؟ فرمایا ہاں! اس سے بھی زیادہ کہتا ہوں ،کیوں کہ میں نے ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ اور متورع نہیں دیکھا، میں نے ان کو دھوپ میں ایک شخص کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے سوال کیا آپ دیوار کے سائے میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہنے لگے کہ مالک مکان پر میرا قرضہ ہے، میں نہیں پسند کرتا کہ مدیون کے مکان اور دیوار کے سائے کے نیچے بیٹھ کر اس سے منتفع ہوں، اس سے زیادہ تقویٰ اور ورع کیا ہو گا؟! ( مناقب موفق1/141)
ان کا ہی بیان ہے میں نے ایک ہزار اساتذہ سے علم لکھا اور حاصل کیا ہے ، لیکن خدا کی قسم! میں نے ان سب میں ابوحنیفہ سے بڑھ کر صاحب ورع اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا او رکوئی نہیں دیکھا۔ ( مناقب موفق1/195)

وکیع بن جراح رحمۃ اللہ علیہ م198ھ : علم حدیث کے بڑے اماموں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور امام شافعی کے استاذ ہیں، ان کی مجلس میں کسی نے امام ابوحنیفہ کی غلطی بیان کی، اس پر وکیع نے کہا امام صاحب کس طرح غلطی کر سکتے ہیں؟ حالاں کہ امام ابویوسف اور زفر جیسے صاحب قیاس اور یحییٰ بن ابی زائدہ اور حفص بن غیاث اور حبان ومندل جیسے حفاظ حدیث اور قاسم بن معن جیسا لغت وادب کا جاننے والا اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زاہد وپارسا ان کے ساتھ ہیں، جن کے ایسے ہم نشین ہوں وہ غلطی نہیں کرسکتا، اگر کبھی غلطی کر جائے تو اس کے جلیس ان کو رد کردیں گے۔ ( امام ابوحنیفہ او ران کے ناقدین، ص:48)

علامہ الخوارزمی رحمۃ اللہ علیہ  665ھ پوری روایت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:پھر امام وکیع نے فرمایا جو شخص امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ کہتا ہے وہ تو جانوروں کی مانندیا اس سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہے۔ (جامع المسانید1/23)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔