نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کواے حبیب کہنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابن وھاب نجدی کے پیروکاروں کی فطرت ہے ہر اس بات پر اعتراض کرینگے جس میں نبی کریم ﷺ کی شان کا اظھار ھو یا ادب و احترام مصطفیٰ ﷺ کی بات ہو ایسے ہی لقب یاحبیب ﷺ پر آل نجد اعتراض کرتے ہیں کہ اے حبیب کہنے کا ثبوت کہاں ہے آیئے ذرا اس کے متعلق پڑھتے ہیں : شکوٰۃ المصابیح میں باب فضائل سید المرسلین میں سنن دارمی اور جامع ترمذی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک طویل حدیث نقل کی گئی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ’’(ترجمہ) رسول اللہ علیہ وسلم کے کچھ احباب بیٹھے ہوئے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، باہر تشریف لائے یہاں تک کہ ان کے قریب ہوگئے۔ آپ نے سنا کہ صحابہ آپس میں مذاکرہ کررہے تھے، ان میں سے کسی نے کہا بیشک اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل (دوست) بنایا ہے، دوسرے نے کہا:موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کلام کیا ہے ، ایک اور نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی (جانب سے مقدس) روح ہیں۔ ایک اور نے کہا: آدم کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا: میں نے تم سب کی گفتگو سن لی ہے اور (اس امر پر) تمہاری حیرت کو بھی نوٹ کیا کہ ابراہیم خلیل اللہ ہیں، ہاں ہاں وہ اسی شان کے( مالک) ہیں اور موسیٰ اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز کی باتیں کرنے والے ہیں ان کی بھی یہی شان ہے، عیسیٰ اللہ کی جانب سے روح اور اس کا کلمہ ہیں اور بلاشبہ ان کی یہی شان ہے، اور آدم اللہ کے برگزیدہ و چنیدہ (Selected) ہیں اور ان کی یہی شان ہے، مگر سنو! میں اللہ کا حبیب ہوں۔‘‘ تو اس حدیث مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں، واضح رہے کہ ’’حبیب‘‘ اور ’’محبوب‘‘ ہم معنی ہیں۔ اسی طرح قرآن نے متعدد مقامات پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ متقین، متوکلین، صابرین، مقسطین، توابین، محسنین، مطہرین سے محبت فرماتا ہے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو ان سب کے سردار و امام ہیں بلکہ ان سب کو یہ شرف حضور کی نسبتِ غلامی سے ملا ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب درجے میںمحبوب ہیں۔ اس لیے حضور کو اللہ تعالیٰ کا حبیب یا محبوب کہنا درست ہے۔ کیونکہ جس سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کے حبیب یا محبوب کا اطلاق بالکل درست ہے۔
حدیث مبارکہ انا حبیب اللہ : عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:جلس ناس من اصحاب رسول اللہ ﷺ ینتظرونہ قال: فخرج،حتی اذا دنا منھم سمعھم یتذاکرون فسمع حدیثھم ،فقال بعضھم:عجبا ان اللہ اتخذ من خلقہ خلیلا ،اتخذ ابراہیم خلیلا ،وقال آخر:ماذا باعجب من کلام موسی کلمہ تکلیما ،وقال آخر: فعیسی کلمۃ اللہ وروحہ ،وقال آخر :آدم اصطفاہ اللہ ،فخرج علیھم فسلم وقال:قد سمعت کلامکم و عجبکم ان ابراھیم خلیل اللہ وھو کذالک و موسی نجی اللہ وھو کذالک و عیسی روح اللہ وکلمتہ وھو کذالک ،وآدم اصطفاہ اللہ وھو کذالک ،الا وانا حبیب اللہ ولا فخر ،وانا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ ولا فخر وانا اول شافع واول مشفع یو م القیامۃولا فخروانا اول من یحرک حلق الجنۃ فیفتح اللہ لی فید خلنیھا و معی فقراء المومنین ولا فخر و انا اکرم الاولین والاخرین ولا فخر۔
تر جمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:چند صحابہ کرام حضور ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ،اتنے میں حضور نبی کریم ﷺتشریف لے آئے جب ان کے قریب پہونچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا ۔ان میں سے بعض نے کہا :تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا،دوسر ے نے کہا:یہ حضرت موسی علیہ السلام کے کلیم اللہ ہونے زیادہ تعجب خیز تو نہیں ہے،ایک نے کہا: حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کا کلمہ اور روح ہیں ،کسی نے کہا :اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا،حضور نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لائے ،سلام کیا اور فرمایا:میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہار تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں ،بے شک وہ ایسے ہی ہیں حضرت موسی علیہ السلام نجی اللہ ہیں،بے شک وہ ایسے ہی ہیں ،حضرت عیسی علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں ،واقعی وہ اسی طرح ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا ،وہ بھی یقینا ایسے ہی ہیں ۔ سن لو!میں اللہ کا حبیب ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے ،قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں ہے ،اور سب سے پہلے جنت کی کنڈی کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں اللہ تعالی میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میر ے ساتھ غریب و فقیر مومنین ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے،میں اولین وآخرین میں سب سے زیادہ عزت والا و شرف والا ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں ہے۔(تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ،باب فضل النبی ﷺ،حدیث:۳۶۱۶)
باقی ’’یٰٓاَ یُّھاالنّبِیُّ!‘‘ کا معنیٰ کسی نے ’’اے حبیب!‘‘ یا ’’اے محبوب!‘‘ نہیں کیا، بلکہ اُس کا ترجمہ سب نے ’’اے نبی!‘‘ کیا ہے، بعض مفسرین و مترجمین کرام نے اس کا ترجمہ ’’اے (غیب بتانے والے) نبی! کیا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ لفظ ’’نبی‘‘ کے ایک معنی ہیں ’’غیب کی خبر دینے والا۔‘‘ البتہ جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’قُل‘‘ کے کلمے کے ساتھ مخاطب فرمایاجس کے معنی ہیں کہو، کہہ دو،کہئے، کہہ دیجئے، اس میں ضمیر مخاطب مستتر (پوشیدہ) ہے، یعنی ’’اَنْتَ‘‘ (تو، تم) اور ظاہر ہے اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو اس کا ترجمہ کہہ دیجئے ’’اے نبی!‘‘ ’’اے رسول!‘‘، ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!‘‘ یا ’’اے حبیب!‘‘ یا ’’اے محبوب!‘‘ کرنا درست ہے اور صرف کہو یا کہہ دو یا کہہ دیجئے کردیں تو تب بھی درست ہے۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔