Pages

Saturday, 1 July 2017

مسافر کے لئے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا جائز ہے یا ناجائز

مسافر کے لئے دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنا جائز ہے یا ناجائز
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایمان لانے کے بعد تمام فرائض میں نماز سب سے اہم فر ض ہے۔قرآن و احادیث میں ہر نماز کے لئے الگ الگ وقت مقرر کیا گیا ہے ،اور ان اوقات کی پابندی مسلمانوں پر لازم کر دی گئی ہے کہ اگر وقت سے پہلے پڑھا تو نماز ہو گی ہی نہیں جیسے اگر کوئی نمازِ فجر رات ہی میں پڑ ھ لیں تا کہ آرام سے سوتے رہیں گے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور فجر کا وقت آنے پر اس کا ادا کر نا ضروری ہوگا،اور اگر جان بوجھ کر نماز میں تا خیر کیا یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آگیا تو وہ شخص گنہگار ہوگا۔کیو نکہ یہ جان بوجھ کر نماز وں کا قضا کرنا ہے۔البتہ صرف دو ایسے مقام ہیں جہاں یہ صورت جائز ہے،پہلا مقام عرفات ہے جہاں حا جیوں کے لئے (چاہے وہ حاجی مسافر ہو یا وہیں کا رھنے والا)حج کی وجہ سے عصرکو ظہر کے وقت میں پڑ ھنا ،اور دوسرا مقام ِ مزدلفہ ،جہاں مغرب کو عشاء کے وقت میں پڑ ھنا جائز ہے۔اس کے علاوہ اور کو ئی صورت نہیں جہاں پر ایک نماز کو اس کا وقت آنے سے پہلے یا جان بوجھ کر کسی بھی وجہ سے نماز کو وقت گزار کر پڑ ھنا جائز ہو۔جگہ جگہ قرآن و حدیث میں نماز کو اس کے وقت پر ادائیگی کی تا کید اور وقت گزار کر پڑ ھنے کو گناہ ِ عظیم قرار دیا گیا ہے ۔ یہ مسئلہ ہر قرآن و احادیث کے مطالعہ کر نے والے پر واضح ہے مگر افسوس اب یہ مسئلہ بھی مسلمانوں کے درمیا ن جھگڑ ے کی وجہ بن چکا ہے اس لئے ہم یہاں پر قرآن و حدیث سے اس کی حقانیت پر روشنی ڈالتے ہیں ۔اللہ تعالی قبول حق کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین

دو نمازوں کو جمع کر کے پڑ ھنے کی دو صورتیں ہیں۔پہلی صورت یہ ہے کہ پہلی نماز کو اس کے آخر ِ وقت میں اور بعد والی کو اس کے اوّلِ وقت میںادا کر یںمثلا ظہر کی نماز کو آخر وقت میں اور عصر کو اوّل وقت میں ادا کریں۔اس صورت میں دونوں نمازیں بظاہر ایک ساتھ ادا ہو رہی ہیں مگر اپنے اپنے وقت میں اس کو ’ جمعِ صوری‘کہا جا تا ہے۔اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک نماز کی ادائیگی میں اتنی تا خیر کرے کہ دوسری نماز کا وقت آجا ئے پھر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ادا کریں ۔مثلا مغرب کی نماز میں اتنی تا خیر کرے کہ اس کا وقت ختم ہو جائے اور عشاء کا وقت آجائے اور پھر مغرب اور عشاء ایک ساتھ عشاء کے وقت میں ادا کر ے۔اس طرح سے دونمازوں کو جمع کر نے کو ’ جمع ِ حقیقی ‘کہا جاتا ہے۔

حاجیوں کے لئے مقام عرفات اور مزدلفہ کے سوا کبھی بھی کسی کے لئے اس طر ح سے دو نماز وں کا جمع کر نا جا ئز نہیں ہے۔کیو نکہ ہر نماز کا وقت شر یعت نے الگ الگ مقرر کر دیا ہے اور ان اوقات کی پابندی کو ہر حال میں لازم قرار دیا ہے۔چنا نچہ یہاں پر مختصرا کچھ آیات کر یمہ اور احادیث مبارکہ تحر یر کی جاتی ہیں۔

آیت ۔ نمبر 1 :ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتا با موقوتا۔بے شک نماز مسلمانوں پر فر ض ہے وقت بند ھا ہوا۔(سورہ ،آیت:) یعنی نہ وقت سے پہلے صحیح اور نہ وقت گزار کر پڑھنا جا ئز بلکہ فر ض ہے کہ نماز اپنے وقت پر ادا ہو۔

آیت ۔ نمبر 2 : حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی وقومو للہ قانتین۔محافظت کرو سارے نمازوں کی اور خاص طور سے بیچ والی نماز(یعنی عصر )کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہو۔(سورہ،آیت:)۔قاضی بیضاوی اس آیت کی تفسیر کر تے ہو ئے تحر یر فر ماتے ہیں۔حافظوا علی الصلوۃ ،بالاداء لوقتھا والمداومۃ علیھا ۔نمازوں کی محافظت کرو،یعنی وقت پر ادا کرو اور ہمیشہ کرو۔(انوار التنزیل المعروف تفسیر البیضاوی،تحت آیت:حا فظو اعلی الصلوات)

آیت ۔ نمبر 3 : ھم علی صلاتھم یحٰفظون۔اولٰئک ھم الوارثون۔الذین یر ثون الفردوس ھم فیھا خالدون۔اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں (کہ اسے وقت سے بے وقت نہیں ہونے دیتے)وہی وارث ہیں کہ جنت کی وراثت پا ئیں گے وہ اس میں ہمیشہ رھنے والے ہیں ۔(سورہ ،آیت:)امام بغوی شافعی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ۔یحافظون،ای یداومون علی حفظھا و یراعون اوقاتھا ،کرکر ذکر الصلوۃ لیتبین المحافظۃ علیھا واجبۃ۔نمازوں کی حفا ظت کرتے ہیں،،یعنی ہمیشہ نگہبانی کرتے ہیں اور ان کے اوقات کا خیا ل رکھتے ہیں ۔اس آیت میں نماز کا ذکر مکرر کیا گیا ہے تا کہ واضح ہو جائے کہ اس کی محافظت واجب ہے۔(تفسیر البغوی،المعروف معالم التنزیل مع الخازن،تحت آیت مذکورہ)

آیت۔ نمبر 4 : والذین ھم علی صلاتھم یحا فظون ،اولٰئک فی جنّٰت مکرمون ۔اور وہ لوگ جو نمازوں کی محافظت کرتے ہیں (یعنی ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں )وہ جنتوں میں عزت کئے جا ئیں گے۔(سورہ،آیت:)امام جلال الدین شافعی اس آیت کے تحت فر ماتے ہیں۔یحا فظون،بادائھا فی اوقاتھا ۔محا فظت کرتے ہیں ،یعنی وقت پر ادا کرتے ہیں۔(تفسیر جلالین ،تحت آیت مذکورہ)تفسیر نسفی میں ہے۔المحافظۃ علیھا ان لا تضیع عن مواقیتھا۔نماز کی محافظت یہ ہے کہ اپنے اوقات سے ضائع نہ ہو۔(تفسیر النسفی،تحت آیت مذکورہ

آیت۔ نمبر 5 : ثم خلف من بعدھم خلف اضاعو االصلوۃ۔پھر آئے ان کے بعد وہ بُرے لوگ جنھوں نے نمازیں ضائع کیں۔(سورہ،آیت:) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فر ماتے ہیں :اخر وھا عن موا قیتھا و صلوھا لغیر وقتھا۔وہ لوگ جن کی مذمت اس آیت کر یمہ میں کی گئی وہ ہیں جو نمازوں کو ان کے وقت سے ہٹا تے اور غیرِ وقت پر پڑ ھتے ہیں ۔(عمدۃ القاری شرح البخاری،باب تضییع الصلوۃ،حدیث:۸)
افضل التا بعین سیدنا سعید بن المسیب رضی اللہ عنھما فر ماتے ہیں :ھو ان لا یصلی الظہر حتی اتی العصر۔نماز کا ضائع کر نا یہ ہے کہ ظہر نہ پڑ ھی یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا ۔(تفسیر البغوی المعروف بمعالم التنزیل ،تحت آیت مذکورہ)

آیت۔ نمبر 6 : فو یل للمصلین الذین ھم عن صلا تھم ساھون۔خر ابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں ۔(سورہ ،آیت:)تفسیر جلالین میں ہے:ساھون،غافلون یؤخرون عن وقتھا۔اپنی نمازوں سے غا فل ہیں ،یعنی نمازوں کو اس کے وقت سے تا خیر کر کے پڑ ھتے ہیں۔(تفسیر جلالین تحت آیت مذکورہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ان تمام آیتوں میں اللہ تعالی نے نمازوں کو اس کے اوقات پر ادا کر نے کی تا کید اور ان اوقات کی پابندی کر نے والے کے لئے جنت کی خو شخبری سنائی اور وقت ٹال کر پڑ ھنے والے کے لئے وعید شدید کا ذکر فر مایا۔لہذا اب ہر مسلمان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ جمع حقیقی یعنی ایک نماز میں اتنی تا خیر کر نا کہ دوسری نماز کا وقت آجائے پھر ان دونوں نمازوںکو ایک ساتھ ادا کر نا جا ئز ہے یا ناجائز؟

اب اس سلسلے میں کچھ احادیث مبارکہ پڑ ھ لیں تا کہ فیصلہ کر نے میں اور زیا دہ آسانی ہو جائے۔یوں تو اس بارے میں پچاس سے زائد صحابہ کرام سے حدیثیں مروی ہیں ان میں سے کچھ نام یہ ہیں۔حضرت عمر فاروق،حضرت علی ،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت عبد اللہ بن مسعود ،حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت عبد اللہ بن عمر،حضرت جا بر بن عبد اللہ،حضرت ابو ذر غفاری،حضرت ابو قتادہ انصاری، حضرت ابو دردائ،حضرت ابو سعید خدری،حضرت ابو مسعود بدری،حضرت عبادہ بن صا مت ،حضرت بو مو سی اشعری، حضرت انس بن مالک،حضرت بر یدہ اسلمی ،حضرت ابو ہر یرہ ،ام المو منین حضرت عائشہ صدیقہ صلی اللہ تعالی علی بعلھا و ابیھا و علیھا و علیھم اجمعین و بارک وسلم۔مگر یہاں بنظر اختصار صرف پانچ حدیثیں بیان کی جاتی ہیں۔اور تما م حدیثیں پڑھنی ہو تو فتاوی رضویہ شر یف جلد ، نمبر 5 ؍رسالہ حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین کا مطالعہ کر یں ۔

حدیث۔ نمبر 1 : حضرت عبادہ بن صا مت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا :پانچ نمازیں اللہ تعالی نے فر ض کی ہیں جو ان کا وضو اچھی طر ح کرے اور انھیں ان کے وقت پر پڑ ھے اور ان کا رکوع اور خشوع پورا کرے اس کے لئے اللہ عزو جل پر عہد ہے کہ اُسے بخش دے اور جو ایسا نہ  کریں اس کے لئے اللہ تعاکی پر کچھ عہد نہیں چاہے تو بخش دے اور چاہے تو عذاب کرے۔
(ابوداود،حدیث:۴۲۵)

حدیث ۔ نمبر 2 : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا:جو پانچوں نمازیں اپنے اپنے وقتوں پر پڑ ھے ان کا وضو ،
قیام،خشوع،رکوع اور سجود پورا کرے وہ نماز سفید روشن ہو کر یہ کہتے نکلی کہ اللہ تیری نگہبانی فر مائے جس طر ح تو نے میری حفا ظت کی اور جو غیرِ وقت پر پڑ ھے اور وضو،خشوع،رکوع اور سجود پورا نہ کرے وہ نماز سیاہ ہو کر نکلے کہ اللہ تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا یہاں تک اس مقام پر پہونچے جہاں تک اللہ تعالی چاہے پُرانے چیتھڑے کی طرح لپیٹ کر اس کے منہ پر مار دی جائے۔
(المجمع الزوائد ،باب المحافظۃ الصلوۃ لو قتھا،جلد:۱؍ص:۳۰۲)

حدیث۔ نمبر 3 : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں نے حضور سید المر سلین ﷺ سے پو چھا :اللہ تعالی کو سب کاموں سے زیا دہ کو نسا کام پسند ہے ؟فرمایا:نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔(بخاری ،حدیث:۵۲۷،)(ابوداود،حدیث:۴۲۶،شعب الایمان،حدیث:۲۸۰۷)

حدیث۔ نمبر 4 : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور سید المر سلین ﷺ نے میری ران پر ہاتھ مار کر فر مایا:تیرا کیا حال ہوگا جب تو ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز کو اس کے وقت سے تا خیر کر یں گے ،میں نے عرض کی حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا:تو وقت پر پڑ ھ لینا۔
(ابوداود،حدیث:۴۳۱،مسلم۔حدیث:۶۴۸)

حدیث۔ نمبر 5 : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز اس کے وقت میں پڑھا کرتے تھے ،سوائے مزدلفہ اور عر فات کے۔(سنن نسائی،حدیث:۳۰۱۰،صحیح بخاری،حدیث:۱۶۸۲،صحیح مسلم،حدیث:۱۲۸۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بحمدہ تعالی و تقدس ،ان پانچوں حدیثوں سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ نمازوں کو اس کے وقت ہی میں پڑ ھنا ضروری ہے اور اتنی تا خیر کر نا کہ دوسری نماز کا وقت آجائے سخت گناہ ہے۔اور آپ ﷺ نے ہمیشہ چاہے سفر میں ہو یا حضرمیں نمازوں کو اس کے وقت ہی پر ادا فر مایا کرتے تھے سوائے مزدلفہ اور عر فات کے۔جیسا کہ حدیث نمبر ۵ ؍سے ظاہر ہوا ،اس لئے جو اس بات کا دعوی کر ے کہ حضور ﷺ سفر میں یا کسی اور موقع پر سوائے مزدلفہ اور عرفات کے ایک نماز کو ٹال کر اُسے دوسری نماز کے وقت میں پڑ ھا یعنی جان بوجھ کر آپ ﷺ نے نماز قضا کیا ،یا نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی نماز پڑھ لیا ،وہ صحیح حدیث کا انکار کر نے والا اور سخت جھوٹا ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں : آپ ﷺ کے حالات سے صحابی زیادہ واقف تھے یا آج کا کو ئی انسان؟

دو نمازوں کوضرورت کے وقت مثلا سفر یا مخصوص بیماری وغیرہ کی وجہ سے جمع کر نا بلا شبہ جائز ہے۔کیو نکہ اس طرح سے دونمازوں کو جمع کرکے پڑ ھنے پر متعدد احادیث ہیں۔

حدیث۔ نمبر 1 : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ : اللہ کے رسول ﷺ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تومغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑ ھتے۔
(مسلم،حدیث:۷۰۳)

حدیث۔ نمبر 2 : حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو جب سفر میں جلد ی ہوتی تو غروبِ شفق کے بعد مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ کو بھی جب جلدی جا نا مقصود ہو تا تھا تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔(مسلم،حدیث:۷۰۳)

حدیث۔ نمبر 3 : سعید بن جبیر کہتے ہیںکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فر مایاکہ:رسول اللہ ﷺ نے غزوئہ تبوک کے سفر میں دو نمازوں کو جمع  فر مایا،اور ظہر و عصر،اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھا۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس سے پو چھا کہ حضور نے ایسا کیوں کیا تھا ؟تو انہوں نے کہا تاکہ آپ ﷺ کی امت دشواری میں نہ پڑے۔(مسلم،حدیث:۷۰۵)
ان احادیث طیبہ سے ثابت ہواکہ مذکورہ طریقے سے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑ ھناجائز ہے۔اور ان حدیثوں میں جو آیا کہ حضور ﷺ نے دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا ،یا ظہر ،عصر،مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا اس سے مراد یہی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک نماز کو اس کے آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے شروع وقت میں پڑھا تو صورتاََ جمع ہوئی مگر ہر نماز اپنے اپنے وقت ہی میں ہوئی۔جیساکہ دوسری احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
مگر کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ نہیں، ان حدیثوں میں جو آیا کہ حضور ﷺ نے نمازوں کو جمع فر مایا ،اس مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جان بوجھ کر ایک نماز کو وقت گزار کر دوسری نماز کے وقت میں پڑھا ۔یعنی آپ ﷺ نے جمع حقیقیی فر مایا ۔اسی وجہ سے وہ حضرات کہتے ہیں کہ مسافر کے لئے جائز ہے کہ وہ ایک نماز کی ادائیگی میں جان بوجھ کر دیر کرتا رہے یہاں تک جب دوسری نماز کاوقت آجائے تو اب دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑ ھ لے۔اور اسی طرح سے یہ حضرات اس بات کو بھی مسافر کے لئے جائز مانتے ہیں کہ ایک نماز کا وقت ابھی آیا بھی نہیں اور اس کو ادا کر لے تو نماز ہو جائے گی،مثلا ظہر کے وقت میں عصر کی نماز پڑ ھ لے تو عصر کی نماز ہو جائے گی۔مگر ان حدیثوں میں جو ’جمع‘ کا لفظ وارد ہوا ،اس سے جمع حقیقی مراد لینا کئی وجہوں سے صحیح نہیں۔
وجہ اول:سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ خود صحیح احادیث مبارکہ میں اس کی تفصیل مذکور ہے جو ان روایات کے معنی ومراد کو واضح کر تا ہے۔اس لئے جب خود حدیث ہی سے ظاہر ہے کہ اس جگہ مراد جمع صوری ہے نہ کہ حقیقی تو پھر حدیث پاک میں وارد،مراد کو چھوڑ کر اپنی طرف سے اس کا معنی و مراد متعین کر نا یہ حدیث کی پیروی نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی میں حدیث کا ترک کر نا ہے۔رہی بات وہ کونسی حدیث ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں جمع حقیقی نہیں بلکہ جمع صوری مراد ہے۔تو وہ یہ ہیں۔

حدیث۔ نمبر 1 : حضرت نافع اور عبد اللہ بن واقد فر ماتے ہیں کہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے موذن نے نماز کا تقاضا کیا ،تو انہوں نے فر مایا :
چلو،یہاں تک کہ شفق ڈوبنے سے پہلے اُتر کر مغرب کی نماز پڑ ھی ۔پھر انتظار فر مایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گیا اس وقت عشاء پڑھی ،پھر فر مایا :حضور سید عالم ﷺ کو جب جلدی ہوتی تو ایسا ہی کیا کرتے تھے۔(سنن ابو داود، حدیث:۱۲۱۲)اور سنن ابو داود ہی کی دوسری روایت میں ’عند ذھاب الشفق‘ کا لفظ بھی آیا ہے ۔یعنی جب شفق ڈوبنے کے قریب ہوا تو سواری سے اُتر کر مغرب کی نماز پڑ ھی پھر جب ڈوب گیا اور عشاء کا وقت آیا تو عشاء کی نماز پڑھی۔یہ حدیث صحیح ہے۔
یہی حدیث بخاری میں ،اسمٰعیلی اور ذہلی نے لیث بن سعد کے طریقے سے یونس سے اور انہوں نے زہری سے روایت کی ہے۔نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے۔اس کے علاوہ متعدد طرق سے خود امام ابوداود ، امام نسائی ،امام طحاوی اور عیسی ابن ابان نے اس کی روایت کی ہے۔
اس حدیث میں صاف صاف واضح طور پر بیان کیا گیا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حالت سفر میں مغرب میں تا خیر فر مایا یہاں تک کہ جب مغرب کا وقت ختم ہونے پر آیا تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھی اس کے بعد جب شفق ڈوب گیا یعنی مغرب کاوقت ختم ہو گیا تب عشاء کی نماز ادا فر مائی اور کہا کہ:اللہ کے رسول ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔یعنی آپ ﷺ ایک نماز کو جان بوجھ کر قضا کر کے دوسرے نماز کے وقت میں اس کو نہیں پڑ ھتے تھے بلکہ پہلی نماز اس کے آخرِ وقت میں پڑ ھتے اور دوسری اس کے شروع وقت میں جس سے ظاہر ہوتاہوتا دونوں نماز کو آپ نے جمع فر مایا۔ اس بات کی تائید بخاری ،مسلم،ابوداود،نسائی کے دیگر روایتوں سے بھی ہوتی ہے۔چنانچہ ان میں سے ایک روایت یہ ہے۔جابر بن زید روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہ انہوں نے کہا :میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آٹھ رکعتیں(یعنی ظہر اور عصر)اور سات رکعتیں(یعنی مغرب اور عشائ)جمع کر کے پڑھی۔راوی کہتے ہیں میں نے کہا ائے ابو شتائ!میرا گمان ہے کہ آپ نے ظہر کو موخر اور عصر کو مقدم کیا تھا اور مغرب کو موخر اور عشاء کو مقدم کیا تھا ۔ابو شتاء نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے۔(مسلم،حدیث:۷۰۵) اور سنن نسائی کے الفاظ یہ ہیں:حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں میں نے مدینہ شریف میں حضور ﷺ کے ساتھ آٹھ اور سات رکعتیں جمع کر کے پڑھی،تو آپ ﷺ نے ظہر کو موخر کیااور عصرکو جلدی پڑھا ،مغرب کو موخر کیا اور عشاء کو جلدی پڑھا۔(سنن نسائی،حدیث:۵۸۹)

حدیث۔ نمبر 2 : حضرت نافع بیان کر تے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما اپنی ایک زمین کی طرف تشریف لے جارہے تھے ،کسی نے آکر کہا
:آپ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول ہے شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں ۔یہ سن کر تیزی سے چلنے لگے اور ان کے ساتھ ایک قریشی مرد تھا ،سورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی حالانکہ میں نے ہمیشہ ان کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فر ماتے تھے ،جب دیر لگائی تو میں نے کہا :نماز،خدا آپ پر رحم کرے ۔انہوں نے میری طرف پِھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہوئے جب شفق کا اخیر حصہ رہا (یعنی مغرب کا آخری وقت)تو سواری سے اُتر کر مغرب کی نماز پڑھی پھر عشاء کی تکبیر اس حال میں کہی کہ شفق ڈوب چکا تھا(یعنی مغرب کا وقت ختم ہو چکا تھا )اس وقت عشاء پڑھی اور ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا :رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو ایسے ہی کرتے تھے۔(یہ حدیث صحیح ہے۔سنن نسائی،باب :الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء حدیث:۵۹۵؍ص:۱۰۳)اور سنن نسائی کی دوسری روایت میں ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:جب تم میں سے کسی کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے تو اسی طر ح نماز پڑھ لیا کرو۔(یہ روایت حسن ہے۔(سنن نسائی،حدیث:۵۸۸)

حدیث۔ نمبر 3 : حضرت سالم کہتے ہیں کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو ان کی بیوی کے بارے میں خبر دی گئی(اور جب آپ گھر جانے لگے)تو مغرب کی نماز موخر کیا (سالم کہتے ہیں )تو میں نے کہا :نماز،انہوں نے کہا :چلو،پھر میں نے کہا :نماز،تو انہوں نے کہا :چلو،یہاں تک کہ دو یا تین میل چلے پھر اُترکر نماز پڑھی پھر کہا:ایسے ہی میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑ ھتے ہوئے دیکھا جب آپ ﷺ کو جلدی ہوتی ۔اور حضرت عبد اللہ نے کہا :جب حضور ﷺ کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز میں تا خیر کرتے پھر تین رکعت نماز(مغرب)پڑھ کر سلام پھیرتے پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشاء کی اقامت فرما کر دو رکعت عشاء کی نماز پڑھتے۔(بخاری،حدیث:۱۰۹۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یہ تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سفر کی حالت میں ایک نماز کا وقت گزار کر اُسے دوسری نماز کے وقت میں نہیں بلکہ ایک نماز کو اس کے آخر وقت میں اور دوسری کو اس کے شروع وقت میں پڑھتے تھے،یعنی ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا فر ماتے تھے۔خلاصہ یہ کہ جمع صوری فر ماتے تھے نہ کہ جمع حقیقی۔
جب احادیث طیبہ سے خود سفر کی حالت میں جمع صوری ثابت ہوگیا تو اب احادیث کی تصریحات کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے مذکورہ حدیثوں میں وارد لفظِ’ جمع ‘سے جمع حقیقی مراد لینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اور اگر کوئی ضد کرے تو آپ خود غور کریں ،یہ حدیثوں کو ماننا ہے یا انکار کرنا ۔لہذا ثابت ہواکہ جن حدیثوں میں آیا کہ حضور ﷺ نے سفر کی حالت میں نماز جمع فر مایااور تفصیل نہیں آئی ان جگہوں پر جمع صوری ہی مراد ہے جمع حقیقی نہیں ۔اس لئے مسافر کے لئے دو نمازوں کو حقیقتا جمع کر نا ہر گز درست نہیں۔

وجہ دوم: اگر مان ہی لیا جائے کہ نہیں ،حدیث میں جہاں آیا کہ حضور ﷺ نے دو نمازوں کو جمع فر مایا،اس سے مراد جمع حقیقی ہی ہے۔تو قارئین مندر جہ ذیل حدیث پڑ ھئے۔حضرت عبد اللہ بن عباس فر ماتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے بغیر خوف اور سفر کے (یعنی مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے)ظہر اور عصر  ،مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا۔(مسلم،حدیث:۷۰۵)
اب غور کریں کہ جب حدیث میں لفظِ ’جمع ‘ سے مراد ،جمع حقیقی ہے تو گویا حضور ﷺ نے بغیر سفر کے مدینہ شریف میں رھتے ہوئے نمازوں کو جمع فر مایایعنی ایک نماز کا وقت جان بوجھ کر گزار دیا اور جب دوسری نماز کا وقت آیا تب اس کو ادا فر مایا۔تو اب اس میں مسافر کی کیا تخصیص رہی ایسا کرنا مقیم کے لئے بھی جائز ماننا چاہئے۔اور خوب فائدہ اٹھانا چاہئے کہ صبح سے عصر تک آرام سے کام کرتے رہے اور جب عصر کا وقت آئے تو ایک ساتھ ظہر اور عصر پڑھ لے۔پھر آرام سے رہے اور جب عشاء کا وقت ہو تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھ لے۔اور جب ایک نماز کو دوسرے نماز کے وقت میں پڑ ھنا جائز ہی ہو گیا تو اکٹھے ایک ہفتہ کی نماز پڑھ لے اور مستی کرتا رہے۔نعوذبااللہ من ذالک۔ حالانکہ اسے کو ئی نہیں مانتا ۔الحاصل جب یہاں پر سب جمع صوری مانتے ہیں تو دوسری جگہ پہ کیوں نہیں؟؟؟

وجہ سوم:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ جو آپ کے ساتھ سفر و حضر میں رہ کے آپ ﷺ کی خدمت انجام دیا۔فر ماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے
سوائے مزدلفہ اور عرفات کے کبھی بھی دو نمازوں کو (حقیقتا) جمع نہ فر مایا۔
(سنن نسائی،حدیث:۳۰۱۰،صحیح بخاری،حدیث:۱۶۸۲،صحیح مسلم،حدیث: ۱۲۸۹)
اوراہل حدیث اس بات کے قائل ہیں کہ نہیں حضور ﷺ سفر میں نمازوں کو حقیقتا جمع فر ماتے تھے۔گو یا وہ مقدس صحابی جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ اپنی زندگی گزاری اور آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور آج کا پیدا ہونے والا اہل حدیث سچ بول رہا ہے۔(نعوذ بااللہ من ذلک بغیر حساب)

وجہ چہارم: قرآن واحادیث میں بار بار نماز کے اوقات کی پابندی کرنے کا حکم دیا گیا جس میں نہ مسافر کا بیان ہے نہ مقیم کا بلکہ مطلق ہے جیسا کہ شروع میں ہم نے آیات واحادیث کا ذکر کیا۔لہذا جس طرح مقیم کے لئے وقت کی پابندی ضروری اسی طرح مسافر کے لئے بھی ضروری ہے۔ کیا ان تمام روشن آیات اورواضح احادیث کو چھوڑ دیا جائے گامحض ایک ایسی تا ویل کی وجہ سے جس کی حدیث سے تائید بھی نہیں ہوتی۔؟اس کے علاوہ متعدد وجوہات ہیں جس کو طوالت کے خوف سے تر ک کیا جارہاہے،انصاف پسندوں کے لئے ایک دلیل ہی کافی ہوتی ہے ۔مگر کوئی ضد کرے تو وہ معجزہ کا بھی انکار کر سکتا ہے۔لہذا ہمیں ایسے لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔
در اصل ان لوگوں کچھ روایتوں سے غلط فہمی ہو ئی ہے ۔پہلے ہم ان روایات کو بیان کر دیتے ہیں ۔پھر حقیقت کیا ہے قارئین کی عدالت میں رکھیں گے اس امید کے ساتھ کہ وہ یقینا حق کو قبول اور غلط سے اپنی دستبرداری ظاہر کر یں گے۔

حدیث۔ نمبر 1 : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب سفرمیں رسول اللہ ﷺ ارادہ فر ماتے کہ دو نمازوں کو جمع کرے تو ظہر کو موخر فر ماتے یہاں تک کہ عصر کا اول وقت داخل ہو جاتا،پھر دونوں نمازوں کو جمع فر ماتے۔(مسلم،حدیث:۷۰۴)

حدیث۔ نمبر 2 : حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھماکو جب سفر میں جلدی ہو تی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے شفق کے غائب ہو نے کے بعد،اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی جب جلدی ہوتی توآپ ﷺ مغرب اور عشاء کو جمع کر کے ادا فر ماتے۔(مسلم،حدیث:۷۰۳)
پہلی حدیث میں آیا کہ’’ ظہر کو موخر فر ماتے یہاں تک کہ عصر کا اول وقت داخل ہوجاتا۔‘‘اور دوسری حدیث میں آیا کہ’’ مغرب اور عشاء جمع کرکے پڑھتے شفق کے غائب ہونے کے بعد‘‘۔یہی وہ الفاظ ہیں جس سے کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی۔حالانکہ اگر وہ خود غور و فکر کرتے اور احادیث کے متعدد طرق کو اوراس سلسلے میں جو دوسری احادیث آئیں ان کو دیکھتے تو یہ غلط فہمی دور ہوجاتی۔ہم یہاں پراپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے شارحین حدیث کے اقوال  پیش کرتے ہیں جس سے مسئلہ اور حدیث کا مطلب خوب ظاہر ہوجائے گا۔
امام عسقلانی شافعی نے فتح الباری پھر امام قسطلانی شافعی نے ارشاد الساری شرح بخاری میں اس حدیث کا مطلب واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ظہر کی تا خیر عصر کے ابتدائی وقت تک کا مطلب یہ کہ جب ظہر سے فارغ ہو ،عصر کا وقت داخل ہوجائے ،یہ نہیں کہ ایک ہی وقت میں دونوں کو جمع کرے۔(ارشاد الساری،جلد:۱؍ص:۴۹۱)۔امام قسطلانی کے الفاظ یہ ہیں:مراد یہ ہے کہ ظہر سے فارغ ہوتے ہی عصر کا وقت داخل ہوگیا۔(فتح الباری شرح البخاری،باب تاخیر الظہر الی العصر،جلد :۲؍ص:۱۹)ملا علی قاری فر ماتے ہیں:ظہر وعصر کو جمع کیا ،یعنی قیام گاہ میں ظہر کو آخر وقت تک موخر کیا اور عصر میں جلدی کر کے اول وقت میں پڑھا۔مغرب اور عشاء کو جمع فر مایا،یعنی جائے قیام میں اسی طرح جیسے پہلے گزرا۔(مرقاۃ شرح مشکوۃ ،باب صلوۃ السفر ،جلد :۳؍ ص:۲۲۵)
شارحین احادیث کے اقوال سے ظاہر ہو گیا کہ اس جگہ حدیث میں یہ مراد نہیں ہے کہ دونوں نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھا بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت میں پڑھا اور صورتا جمع فر مایا۔گویا حدیث شریف میں جو آیا کہ ظہر کو عصر کے اول وقت تک موخر کیا تو یہ قرب کی بنیاد پر اس طرح تعبیر کیا گیا ہے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ حقیقتا ظہر کو عصر کے وقت میں پڑھا ۔اور قرب کی بنیاد پر اس طر ح تعبیر کرنا عر بی زبان میں عام ہے۔جیسے،حضرت عاصم روایت کرتے ہیں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ،راوی کہتے ہیں ہم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ :آپ نے کس وقت اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ سحری کھایا:فر مایا:ھو النھار الا ان الشمس لم تطلع۔دن ہی تھا مگر یہ کہ سورج نہ چمکا تھا۔(نسائی ،حدیث:۲۱۵۲)
اس حدیث میں سارے لوگ کہتے ہیں کہ ’دن ‘ سے مراد یہ نہیں ہے کہ دن ہو چکا تھا تب سحری کھائی بلکہ رات کی ایک دم آخرِحصے میں کھائی اور چونکہ اس کے بعد فورا دن شروع ہوگیا تو قرب کی وجہ سے اس رات کے آخری حصے کو دن کہہ دیا۔
سبحان اللہ!شارحین حدیث کہتے ہیں اسی طرح یہاں بھی چو نکہ ظہر کو اس کے آخرِ وقت میں پڑ ھا اور اس کے فورا بعد عصر کا وقت شروع ہو ا،تو چونکہ یہ ظہر عصر کے وقت سے مل گیا اس قربت کی بنیاد پر کہہ دیا گیا کہ عصر کے وقت تک یا عصر کے اول وقت تک تا خیر فر مایا۔اور اس سے یہ مراد نہیں کہ حقیقتا ظہر کو عصر کے وقت میں پڑھا۔ اور اس طرح کی بہت ساری مثالیں قرآن و احادیث میں مذکور ہے ۔تفصیل کے لئے ۔رسالہ :حاجز البحرین الواقی جمع بین الصلاتین،مصنفہ اعلی حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ مطالعہ کیجئے۔
تعجب کی بات:جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صاف صاف آپ کے بیٹے حضرت سالم نے صفیہ بنت ابی عبید والے قصے میں بتایا کہ جب میں نے سورج ڈوبنے کے بعد آپ سے کہا نماز،تو آپ نے کہا،چلو اور چلتے رہے یہاں تک کہ جب مغرب کا آخر وقت ہوا تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھی اور عشاء کی تکبیر اس وقت کہی جب کہ مغرب کا وقت ختم ہوگیا ۔جیساکہ یہ حدیث مع حوالہ اوپر گزرا۔اس سفر میں جو آپ کے ساتھ تھے جب انہوں خود پوری تفصیل بتا دیا تو ظاہر ہے کہ ان کی بات ان لوگوں کے مقابل جو آپ کے ساتھ نہ تھے زیادہ راجح ہوگی۔مگر تعجب ہے کہ اس طرح کی ساری روایتیںجس میں مکمل تفصیل ہے چھوڑ کر ان روایتوں سے چمٹنا جس میں تفصیل نہیں ۔تعجب خیز بات ہے۔
الحمد للہ ! یہ جواب ہر انصاف پسند کے لئے کافی ہے۔مگر کوئی سورج دیکھ کر بھی انکار کرے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔اب آخر میں ہم کچھ اس سلسلے کی مزید مفید باتیں قارئین کے نذرکرتے ہیں : امام العادلین ناطق بالحق والصواب عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا:بے شک دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر نا گناہِ کبیرہ ہے۔  (موطا امام محمد،باب الجمع بین الصلوتین فی السفر والمطر،ص:۱۳۲)کنز العمال کے الفاظ اس طر ح سے ہیں۔حضرت ابو قتادہ عدوی کہتے ہیں :میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان سنا کہ تین باتیں گناہ کبیر ہ میں سے ہیں ،دو نمازیں (ایک ہی وقت میں )جمع کرنا،جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھا گنااور کسی کا مال لوٹ لینا۔(کنز العمال،باب :الجمع بین الصلوتین،حدیث:۲۲۷۶۵)
یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے سب راوی صحیح مسلم کے راویوں سے ہیں۔
آخری بات چلو مان بھی لیا جائے کہ حدیث میں مراد جمع حقیقی ہے ،حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے جیسا کہ اوپر کی باتوں سے ظاہر ہوا لیکن پھر بھی ایک منٹ کے لئے مان لیا جائے کہ حقیقی ہی ہے ۔مگر یہ سب مانتے ہیں کہ سفر میں نماز جمع کرنا ضروری نہیں اور یہ بھی سب کو تسلیم ہے کہ وقت پر نماز ادا کرنا ضروری ہے اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے اور وقت گزار کر پڑ ھنے والے کی مذمت کی گئی ہے اور عذاب سنایا گیا ہے۔لہذا ایک غیر ضروری کام کی وجہ سے ضروری کام کو چھوڑنا جس کی بڑی فضیلت ہو کہا ں کی عقلمندی ہے؟اور کیا یہ قول تقوی کے ذرا بھی قریب ہے۔ہر انصاف پسند کا جواب نفی میں ہو گا تو پھر ہم کیوں نہیں اس قول کو اپنائے جو حدیثوں کے بھی موافق ہو اورتقوی سے قریب بھی ہو مزید اس میں ہمارے لئے اطمینان بھی ہو۔نیزحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی نمازوں کو حقیقتا جمع کر کے نہ پڑھا بلکہ آپ ﷺ ہمیشہ وقت ہی پر نماز ادا فر ماتے تھے۔جیسا کہ یہ حدیث مع حوالہ اوپر گذرچکا۔ تو کیا نعوذ بااللہ من ذالک انہوں نے جھوٹ کہا؟ہر گز نہیں ۔مگر اس قول کو ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم ایک جلیل القدر صحابی کو جھوٹا مانے ۔ تو ہم ایسا قول کیوں اختیار کریں۔وہ بھی مسلمان ہوکر!نعوذ باللہ من ذالک۔ فیصلہ۔ انصاف کی امید کے ساتھ محترم قارئین پر چھوڑتا ہوں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔