امام ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی ہیں (حصّہ اوّل)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تابعی کسے کہتے ہیں : تابعي اس شخص كو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی ہو(معرفۃ علوم الحدیث ص42)
اصول حدیث میں جمہورمحدثین اورفقہاء علیہم الرّحمہ نے تابعی کی تعریف یہی کی ہے اس نے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کودیکھاہو، ہاں کچھ علمائ کی شاذ رائے یہ ضرور ہے کہ وہ صحابی کی طویل صحبت اٹھائے یاروایت کرے ۔ الکمال فی اسمائ الرجال،للمزی، تہذیب الکمال للحافظ الذہبی، یاحافظ ذہبی کی سیرت پر لکھی گئی کوئی بھی کتاب حافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب سب میں اس بات کا ذکرملے گاکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس کو دیکھاہے اور اورجب جمہور محدثین اورفقہاء کے نزدیک محض دیکھنے سے ہی تابعیت ثابت ہوتی ہے تواس لحاظ سے وہ تابعی ہیں۔جیساکہ حافظ زین الدین عراقی اورحافظ ابن حجر کے فتوی اورجواب سے بھی ظاہر ہوتاہے جوکہ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تبییض الصحیفہ میں ذکر کیاہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب''سیر أعلام النبلاء''(٦/٣٩٠) میں خطیب بغدادی کی کتاب "تاریخ بغداد" کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب وہ کوفہ آئے تھے تو انہیں دیکھا تھا ۔
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 463ھ) لکھتے ہیں کہ : حضرت نعمان بن ثابت، ابو حینفہ رحمۃ اللہ علیہ نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے (روایات وغیرہ کو) سنا ہے ۔(بحوالہ : تاریخ بغداد ، جلد 13 ، صفحہ 323 )۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللّہ تعالٰی عنہ کے تابعی ھونے پر ان آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ نے لکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تابعی ہیں۔
(ابو نعیم،مسند ابی حنیفۃ 186))(موفق، مسند ابی حنیفۃ 25:1)(قزوینی، الےدوین فی اخبار قزوین 153:3)(ذھبھی ، تذکرۃالحافظ 168:1)(ابن عبدالبر، جامع بیان العلم و فضللہ 101:1)(ابن ندیم، الفھرست 255)(ابن جوزی، العل المتنا ھیۃ 136:1)(سیوطی، تبییض الصحیۃ بمنا قب ابی حنیفۃ 34)(خطیب بغدادی، تاریخ بغداد 324:13)(سمعانی، الانساب 37:3)(ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الموک والامم 129:8)(ابن حلکان، وفیات الدعیان 406:5)(ذھبی، سیراعلام انبلاء 391:6)(ذھبی، الکاشف فی معرفۃ من لہ رویۃ فی الکتب السنۃ 322:2)(ذھبی، مناقب الام ابی حنیفۃ وصاحبہ ابی یوسف و محمد بن الحسن :7)(صفدی، الوافی بالوفیات 89:27)(یافعی، مرآۃ الجنان والیقظان 310:1)(ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ 107:10)(زین الدیدین عراقی، التقییدوالایضاح:332)(عسقلانی، تھذیب التھذیب 401:10)(بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البحاری کتاب البیوع،باب مایکرہ من الحلف فی البیع 206:11)(بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البحاری کتاب الحج، باب متی یحل المعتمر 128:10)(بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البحاری کتاب الزکاۃ، باب صلوۃالامام ودعائہ الصاحب الصدقۃ 95:9)(سخاوی، فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث للعراقی 337:3)(سیوطی، طبقات الحفاظ 80:1 رقم 152)(قسطلانی، ارشاد الساری صحیح البخاری کتاب الوضوء باب من لم یرالوضوءالدمن المخرجین)(قسطلانی، ارشاد الساری صحیح البخاری کتاب الصلوۃ، باب الصوۃ فی الثوب الواحد 390:1)(دیار بکری، تاریخ الخمیس فی مناقب الامام اعظم ابی حینفۃ : 32)(ابن حجر مکی، الخیرات الحسان فی مناقب الامام اعظم ابی حینفۃ النعمان : 32)(ابن حجر ھیتمی، الخیرات الحسان:33)(ابن عماد، شذرات الذھب فی اخبار من ذھب 227:1)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرسورہ جمعہ (کی یہ آیت) نازل ہوئی ’’اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لئے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کون حضرات ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب ارشاد نہ فرمایا تو میں نے تین مرتبہ دریافت کیا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے درمیان موجود تھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس حضرت سلمان رضی اللہ عنہ (کے کندھوں) پر رکھ کر فرمایا : اگر ایمان ثریا (یعنی آسمان دنیا کے سب سے اونچے مقام) کے قریب بھی ہوا تو ان (فارسیوں) میں سے کچھ لوگ یا ایک آدمی (راوی کو شک ہے) اسے وہاں سے بھی حاصل کر لے گا۔ ‘‘
(أخرجه البخاري في الصحيح، 16 / 298، کتاب : التفسير / الجمعة، باب : قوله : وآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ : 3، 4 / 1858، الرقم : 4615، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل فارس، 4 / 1972، الرقم : 2546، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل العجم، 5 / 725، الرقم : 3942، وفي کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : وَمِنْ سُورَةِ محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 384، الرقم : 3260. 3261، وفي باب : ومِنْ سَوْرةِ الجُمَعَةِ، 5 / 413، الرقم : 3310، وابن حبان في الصحيح، 16 / 298، الرقم : 7308، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 367، الرقم : 7060، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 64، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 642، الرقم : 4615، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 170، الرقم : 1399، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 364، الرقم : 4797، والطبراني في جامع البيان، 28 / 96، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 18 / 93)
حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب " تنییض الصحیفۃ میں امام اعظم کے حق میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت کے بارے میں عنوان باندھا ہے جس میں انھوں نے لکھا ھے کہ " اس حدیث میں امام ابو حنیفہ کی بشارت دی گئی ہے ۔ (تبییض الصحیفۃ بمناقب ابی حنیفۃ 33:31)
امام ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " الخیرات الحسان " میں باب باندھا ہے جیس کا عنوان ہے " امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حق میں وارد ہونے والی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش خبری" امام ہیتمی نے اس باب کے ابتدائیہ میں امام جلال الدین سیوطی کی درج بالا تحقیق درج کرکے لکھا ہے کہ " یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث پاک سے امام ابو حنیفہ مراد ہیں کیونکہ آپ کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی شخض بھی آپ کے مبلغ علم اور آپ کے شاگردوں کے درجہ علم تک نہیں پہنچا ۔(الخیرات الحسان :24)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس حدیث کے اولین مصداق صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔کیونکہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل فارس سے کوئی بھی آپ کے علم وفضل تک نہ پہونچ سکا۔ (تذکرۃ المحدثین۔ مولانا غلام رسول سعیدی ٤٨)
غیر مقلد وھابی حضرات امام نواب صدیق حسن خاں بھوپالوی کو بھی اس امر کا اعتراف کرناپڑا ۔لکھتے ہیں : ہم امام دراں داخل ست ۔ ترجمہ :امام اعظم بھی اس حدیث کے مصداق ہیں۔( اتحاف النبلائ ٢٢٤ )امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و دیگر محدثین علیہم الرّحمہ کی اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے یہ بشارت نہ تھی کہ آیت میں ،لمایلحقوبہم ،کے بارے میں سوال تھا اورجواب میں آئندہ لوگوں کی نشاندھی کی جارہی ہے ،لہذا وہ لوگ غلط فہمی کا شکارہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حدیث تو حضرت سلمان فارسی کیلئے تھی اوراحناف نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ پر چسپاں کردی ۔ محترم قارئین غور کریں کہ یہ دیانت سے کتنی بعید بات ہے۔(بقیہ حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔