خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الحمد للہ اب اس موضوع پر دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔ ان شاء اللہ عزوجل اس مضمون کے مطالعہ سے آپ کو اصل وجہ تکفیر سمجھنے میں نہایت آسانی ہو گی۔ اس مضمون میں ایک سوال کا جواب پیش کیا جائے گا جو کہ قاسم نانوتوی کے معتقدین اور حامیان نظریہ تحذیرالناس بہت زور و شور سے اٹھاتے ہیں۔ وہ سوال یہ ہے : بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب'' تحذیر الناس''کی مندرجہ ذیل دونوں عبارتوں کے متعلق بالفرض کے لفظ کے ساتھ جو بات کہی گئی ہے اس پر اعتراض کیوں کر درست ہے؟۔ جب کہ محض کسی چیز کے فرض کر لینے پر حکم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ! لو کان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا
عبارت تحذیر الناس یہ ہے!
١۔اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔
٢۔اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔''
(الجواب)
یہ عبارت کفر یوں ہے کہ اس عبارت میں اس بات کا انکار ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہیں۔ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے۔ اس پر اجماع امت ہے۔ اور اس عبارت میں اس کا انکار ہے۔ نانوتوی یہ کہتے ہیں کہ! آپ سب سے آخری نبی نہیں اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے نہیں۔ بلکہ خاتم بالذات کے ہیں۔ یعنی نبوت آپ کو بلا واسطہ ملی۔ اس لیے اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حالانکہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہیں تو آپ کے زمانہ میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا بلکہ آپ خاتم ہی نہ ہوں گے کہ جب خاتم بمعنی آخر لیا تو دوسرے کا سوال ہی نہیں۔
اس کو اور آسان الفاظ میں یوں سمجھیے ۔ ایمان یہ ہے کہ حضور ؐ خاتم النبیین ہیں اس معنی میں آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو یہ خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اگر منافی نہ ہوتا تو کفر نہ ہوتا۔تو جو بات کفر ہے اسکو قرآن کے معنی بتا دیا ہے۔ اس لیے یہ کلمہ کفر ہوا۔اگر مطلقاً یہ شرط وجزا ایمان ہے تو اس معترض سے پوچھیے اگر کوئی اس سے سیکھ کے یہ کہے۔
''اگر بالفرض زمین و آسمان میں چند خدا ہیں تو بھی اللہ عزوجل کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا''۔یہ کلمہ کفر ہے یا ایمان ؟
اگر ایمان بتائے تو دیوبند بھیج کر اس کا دماغ درست کیجیے اور اگر کفر مانے تو اس سے پوچھیے یہاں بھی اگر ہے یہاں بھی بالفرض ہے۔ یہ کیوں کر کفر ہوا اور تحذیر الناس میں ''اگر ''اور ''بالفرض''ہونے کی وجہ سے وہ کیسے دیوبندیوں کا ایمان ہوا؟۔
معترض نے تحذیر الناس کی عبارت آیۃ کریمہ:لوکان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا۔کے مثل مان کر تحذیر الناس کی عبارت کے کفر کو قبول کیا۔اس لیے کہ حسب قاعدہ نحو ''لو'' اپنے مدخول کے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت بنا دیتا ہے۔اسی وجہ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں نہ چند معبود ہیں اور نہ زمین و آسمان میں فساد۔اب اس قاعدے کی روح سے تحذیر الناس کی عبارت کا مطلب یہ ہوا۔کہ آپ کے زمانے میں کہیں کوئی نبی نہیں اور آپ کی خاتمیت باقی نہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور خاتمیت محمدی میں فرق آگیا۔حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ کی خاتمیت کا باقی رہنا اور اس میں فرق ماننا کفر ہے۔
بات اصل یہ ہے کہ قاتل ایک قتل چھپانے کے لیے دس قتل کرتا ہے،چور پکڑے جانے کے اندیشے سے قتل کر ڈالتا ہے،ایک کفر پر پردہ ڈالنے کی ہر کوشش دوسرے کفر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ صدق شرطیہ کے لیے صدق مقدم و تالی لازم نہیں۔ یہ حق ہے۔ مگر وجود علاقہ لازم ہے۔ اور قضیہ شرطیہ میں علاقے ہی پر مدار حکم ہے۔ یہ کہنا سچ ہے ''انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے دم ہوتی''مگر یہ کہنا غلط ہے کہ'' انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے سینگ ہوتے''۔اس لیے کہ پہلے میں علاقہ درست دوسرے میں نہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے زید بالفرض اگر گدھا ہوتا تو خدا ہوتا کلمہ کفر ہے۔اس لیے کہ یہاں قائل نے جو علاقہ ثابت کیا ہے وہ کفر ہے۔
اسی طرح تحذیر الناس میں ''اگر ''اور''بالفرض'' ہوتے ہوئے بھی وہ عبارت اس لیے کفر ہے کہ اسمیں جو علاقہ بتایا گیا ہے وہ کفر ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد نبی ہونے کو خاتمیت محمدی کے منافی نہیں جانا۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اور یہ اجلی بدیہیات اور ضروریات سے ہے۔ جسے ہر بے پڑھا لکھا سمجھدار مسلمان بھی جانتا ہے۔ کسی مسلمان سے پوچھیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے بعد کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا کہ نہیں؟تو وہ فوراً کہے گا ضرور فرق آئے گا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ خاتم النبیین کیسے ؟
'' اگر''اور بالفرض ''کی آڑ تو کسی عیار کی ایجاد ہے کہ عوام اس میں الجھ کر شک میں پڑ جائیں۔ ورنہ بات صاف ہے تحذیر الناس کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس کا قائل حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کے پیدا ہونے کو ممکن مانتا ہے اور یہ کفر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا بعد میں نبی پیدا ہونا محال شرعی ہے۔ یہ آیۃ کریمہ خاتم النبیین کے منافی ہے اس لیے صریح کفر ہے۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ممکن ہونا ماننا بھی کفر ہے جیسے۔اللہ عزوجل کا شریک ممکن ماننا۔ قرآن کے بعد کسی آسمانی کتاب کا نزول ممکن ماننا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کو ممکن ماننا کفر ہے۔اور تحذیر الناس کی عبارت کا یہی صریح مطلب ہے۔اس لیے یہ عبارت بلا شبہ کفر صریح ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم
اس کالم کو نائب حضور مفتی ء اعظم ہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر جو کہ ماہنامہ اشرفیہ ۱۹۹۸ کے صفحہ نمبر ۹ اور ۱۰ پر شائع ہوئی، سے اخذ کیا گیا ہے۔(جاری ہے)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔