خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تحذیرالناس کے مصنف قاسم نانوتوی ہیں جن کو بانی دارالعلوم دیوبند بھی کہا جاتا ہے ان کی اس کتاب کا تعارف کروانا نہایت ضروری اس لئے بھی ہے کہ اس کتاب میں خاتم النبیین کے ایک نیا اور بالکل الگ تھلگ معنی پیش کیا گیا جس کا پوری تاریخ اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں ملتا، اس کتاب کی وجہ سے کافی فتنہ بڑھا اور یہاں تک کہ اسی کتاب کے معانی کی آڑ میں قادیان سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کردیا۔
قصہ مختصر اب جانیئے کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا
اول تو میں قارئین کی معلومات کے لئے تحذیر الناس کی دو جھلکیاں پیش کر دوں
آغاز کتاب میں ہی یہ لکھا ہے
سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیا سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔
اس کے بعد صفحہ نمبر ۲۵ پر لکھتے ہیں
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا
یہ تحذیرالناس کی وہ عبارات ہیں جن کے رد میں برصغیر کے علماء نے بکثرت کتب تحریر فرمائیں ان عبارات پر علماء عرب و عجم نے حکم صادر فرمایا ۔ جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
آئیے اس کتاب اور اس کے مصنف کا حال قاسم نانوتوی کے مکتب فکر ہی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی سے ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ جس وقت سے مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے بحوالہ الاضافات الیومیہ جلد چہارم ص ۵۸۰ زیر ملفوظ ۹۲۷
یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی بھی کتاب ابطال اغلاط قاسمیہ کی اشاعت کے بعد اس مسئلہ میں قاسم نانوتوی کے موافق نہ رہے اور تکفیر کے قائل ہو گئے۔ حوالہ کے لئے قاسم نانوتوی ہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خالد محمود کی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۳ ص ۳۰۰
تحذیرالناس کی اشاعت کے بعد قاسم نانوتوی کی حالت کیا تھی آئیے ان ہی کے ایک ہم مکتب کی تحریر کردو کتاب ارواح ثلاثہ کی حکایت نمبر ۲۶۵ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں
اب مولانا نانوتوی گارڈ رکھتے چھپ کر رہتے سفر کرتے تو نام تک بتانے کا حوصلہ نہ رکھتے ، خورشید حسین بتاتے یہ کتاب مولانا نانوتوی کے لئے مصیبت بن گئی تھی۔
ایک اور حوالہ قاسم العلوم از نورالحسن راشد کاندھلوی ص ۵۵۰ سے ملاحظہ کریں چنانچہ تحریر ہے کہ
پر خدا جانے ان کو کیا سوجھی جو اس کو چھاپ ڈالا جو یہ باتیں سننا پڑیں۔
اگر تحذیرا لناس کی عبارات کفریہ نہیں تو پھر اس میں تحریف کیوں کی گئی لیجئے بطور نمونہ ایک حوالہ پیش ہے اصل قدیم تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کے صفحہ نمبر ۲۵ پر اصل عبارت یوں ہے۔
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
اب مکتبہ راشد کمپنی دیوبند یو پی کی شائع کردہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا۔
یعنی عبارت میں نبی پیدا ہو کی جگہ نبی فرض کیا جائے کر دیا اس کارستانی سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہم فکر علما ء کے نزدیک بھی یہ عبارت کفریہ تھی جبھی تو اس میں تحریف کر دی۔
اب آئیے ایک لرزہ خیز انکشاف کی طرف جو کہ انھی کہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کیا ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا پر کفر کے فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
حوالہ کے لئے ملاحظہ کریں الاضافات الیومیہ جلد ۴ ص ۲۹۳ زیر ملفوظ ۴۵۷
احسن نانوتوی جن کا قاسم نانوتوی کے مکتب فکر میں بڑا مقام ہے انھوں نے بھی مفتی نقی علی خان قادری برکاتی کی طرف سے فتوی کفر صادر ہونے کے بعد مفتی نقی علی خان کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجدیم پس از سلام مسنون التماس ہے مگر مولوی صاحب نے براہ مسافر نوازی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرما دیا اور تما م بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے ۔ خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے میں عنداللہ کافر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاصی محمد احسن
حوالہ کے لئے کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی ص ۸۸ اور تنبیہ الجہال ص ۱۶
اب آئیے ذرا ذکر ان حضرات کا بھی ہو جائے جن پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی تائید کی تھی چنانچہ ان میں سے اول مولانا عبد الحئی کا ذکر اوپر گزر چکا اب کچھ دیگر حضرات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے الطاری الداری کی اشاعت کے بعد اپنے سابقہ موقف سے توبہ کی اور امام احمد رضا کے فتوائے تکفیر سے اتفاق کر لیا ۔ بحوالہ اخبار ہمدم لکھنو ۲۰ مئی ۱۹۲۱
مولانا معین الدین اجمیری نے ۱۹۱۹ میں مفتی حامد رضا خان سے خط و کتابت میں فتویٰ کفر کی حمایت کی بحوالہ کتاب محدث اعظم ج ۱ ص ۱۱۱
اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب نے غلط فہمی کا شکار ہو کر کتاب کی تعریف اولاً کردی بعد میں ماہنامہ ضیائے حرم شمارہ اکتوبر ۱۹۸۶ کے ص ۴۹ پر ندامت و افسوس کا اظہار کیا اور ص ۴۴ پر نانوتوی کی عبارت کو خاتم النبیین کے اجماعی مفہوم کے مخالف قرار دیا ۔ مزید ۱۹۷۷ میں سورۃ طلاق کی تفسیر کرتے ہوئے اثر ابن عباس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا بحوالہ تفسیر ضیاء القرآن ص ۳۰۸۲
پیر کرم شاہ صاحب کے موقف میں آنے والی تبدیلی کی تصدیق ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۱ ص ۴۱۳ پر بھی کی ہے چنانچہ انھوں نے لکھا کہ آخر کار پیر کرم شاہ صاحب نے سابقہ موقف چھوڑ کر دیوبندی حضرات کو تکفیر کا صدمہ پہنچایا ہے۔
حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی کے حوالہ سے بھی یہ مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قاسم نانوتوی کی کتاب کے مؤید تھے حالانکہ اس کے حوالے سے آپ کے تکفیری فتویٰ موجود ہیں مزید کتاب دعوت فکر ص ۱۱۰ پر تحریر ہے کہ آپ کو تحذیرالناس پیش کی گئی تو آپ نے قاسم نانوتوی کی تکفیر کر دی۔(اس کے متعلق ہم فوز المقال کے اسکن پیش کر چکے ہیں ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔