Pages

Saturday, 14 October 2017

يزيد شرابی تھا اور شرابی کا شرعی حکم

يزيد شرابی تھا اور شرابی کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام میں شراب کا حرام ہونا ایسی بات ہے کہ اس پر تمام مکاتب فکر کا اس پر اجماع ہے۔ شراب کے حرام ہونے کو قرآن اور احادیث میں جگہ جگہ پر بیان کیا گیا ہے: يَسْـئَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمهمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا۔
شراب اور جوئے کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دو کہ: ان دونوں میں لوگوں کے لیے بہت بڑا گناہ اور فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ اور بڑا ہے۔(سورہ بقرة آيه 219)

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الاْنصَابُ وَ الاْزْلَـمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَـنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
اے ایمان والو، شراب اور جوا بازی اور بت اور پانسے(قرعے کے تیر) سب شیطانی عمل ہیں، پس تم ان سے دور رہو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔(سورہ مائدہ آيه 90)

إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَـنُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِى الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَ يَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَ عَنِ الصَّلَوةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ۔
بے شک شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی ایجاد کرنا چاہتا ہے اور تم کو ذکر خدا اور نماز سے منع کرنا چاہتا ہے پس کیا تم اس کے روکنے سے منع ہو جاؤ گے ؟(سورہ مائدہ آيه 91)

ان آیات کے علاوہ علماء اسلام نے بھی شراب کے نجس و حرام ہونے کے بارے میں فتوئے دئیے ہیں اور شراب پینے کے عادی بندوں کو شراب کے گناہ اور اس کے عذاب کے بارے میں بتایا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ ؤصحبہ وسلّم نے شراب کے شدید حرام ہونے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:لعن اللّه الخمر و شاربها و ساقيها و بائعها و مبتاعها و عاصرها و معتصرها و حاملها و المحمولة إليه و آكل ثمنها۔
اللہ عز و جل نے شراب کو اور اس کے پینے والے اور اس کے پلانے والے اور بیچنے والے اور اس کے خریدنے والے اور اس کے نچوڑنے والے اور اس کے تیار کرنے والے اور اس کے اٹھانے والے اور اس کے اٹھوانے والے اور اس کی کمائی کھانے والے پر لعنت کی ہے۔(سنن أبی داود، ج 3، ص324، حدیث 3674 )( المستدرک على الصحيحين، ج 2، ص 37، حدیث 2235)

اسلامی معاشرے میں بھی حقیقی و واقعی مسلمان شراب پینے والوں سے نفرت کرتے ہیں اور انکو بے دین اور گناہ گار انسان سمجھتے ہیں۔

یزید شرابی تھا، فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا اور نشے میں رہنے کے باعث تارک الصلوٰۃ بھی تھا۔ اُس کی انہی خصوصیات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی تھی، وہابیوں کے معتمد مصنف علامہ ابن کثیر البدایہ والنھایہ میں لکھتے : ذکروا عن يزيد ما کان يقع منه من القبائح في شربة الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعه فخلعوه. عند المنبر النبوي ۔
ترجمہ:یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی۔(البدايہ و النہايہ، 6 : 234)

حضرت عبداﷲ بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قسم! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا (تاریخ الخلفاء ص 207‘ الصواعق المحرقہ ص 134‘ طبقات ابن سعد جلد 5ص 66)

حضرت منذر بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سنائوں۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہوجاتا ہے کہ وہ نماز ترک کردیتا ہے (ابن اثیر جلد چہارم ص 42‘ وفاء الوفاء جلد اول ص 189)

حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے۔ اﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے (ابن اثیر جلد چہارم ص 40)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نوجوانی کے زمانے سے لے کر مرتے دم تک بہت شراب پیتا تھا اور بعض نے تو لکھا ہے یزید شراب پینے میں مبالغہ آرائی ( یعنی بہت ہی زیادہ شراب پینا ) سے کام لیتا تھا۔

یزید کا نوجوانی سے شراب پینا

علامہ ابن كثير یزید کے حامیوں کے ممدوح اور دیگر ائمہ نے اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شرب.یزید نوجوانی سے ہی شراب کا دوست اور عاشق مشہور تھا۔(البداية و النهاية، ج 8، ص228 )(تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 403)

یزید کا مدینہ منورہ میں سب کے سامنے سر عام شراب پینا

عمر بن شيبة قال: لمّا حجّ الناس في خلافة معاوية جلس يزيد بالمدينة على شراب، فاستأذن عليه ابن عبّاس و الحسين بن عليّ، فأمر بشرابه فرفع.
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کی خلافت کے دور میں اور سفر حج میں اور شہر مدینہ رسول ﷺ کے حرم میں اور گھر کے نزدیک بھی اس نے اسلامی احکام کا مذاق اڑانا نہ چھوڑا اور سب لوگوں کے سامنے اس نے شراب پینا شروع کی لیکن جب اسے بتایا گیا کہ ابن عباس اور حسین ابن علی رضی اللہ عنہم آ رہے ہیں تو اس نے شراب پینا بند کر دیا۔(تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 406)

یزید شراب کا اتنا عاشق اور عادی تھا کہ جب دوسرے شہروں سے بزرگان وفد کی صورت میں اسے ملنے آتے تو یہ تخت پر بیٹھ کر ان سب کے سامنے بھی شراب پیتا تھا۔

کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ:بعث (عثمان بن محمّد بن أبي سفيان، والي مدينة) إلى يزيد منها وفداً فيهم عبد اللّه بن حنظلة الغسيل الأنصاري، و عبد اللّه بن أبي عمرو بن حفص بن المغيرة الحضرمي، و المنذر بن الزبير، و رجال كثير من أشراف أهل المدينة، فقدموا على يزيد، فأكرمهم و أحسن إليهم، و عظّم جوائزهم، ثمّ انصرفوا راجعين إلى المدينة، إلاّ المنذر بن الزبير، فإنّه سار إلى صاحبه عبيد اللّه بن زياد بالبصرة، و كان يزيد قد أجازه بمائة ألف نظير أصحابه من أولئك الوفد، و لمّا رجع وفد المدينة إليها، أظهروا شتم يزيد، و عيبه، وقالوا: قدمنا من عند رجل ليس له دين، يشرب الخمر، و تعزف عنده القينات بالمعازف.و إنّا نشهدكم أنّا قد خلعناه، فتابعهم الناس على خلعه، و بايعوا عبد اللّه بن حنظلة الغسيل على الموت.
کچھ بزرگان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک وفد کہ ان میں جنگ احد میں شھید ہونے والے عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا، یزید سے بعنوان حاکم اسلامی ملنے کے لیے شام میں آئے۔ جب وہ یزید کے دربار میں گئے تو یزید نے ان کا بہت احترام کیا اور ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے ان سب کو بہت تحفے اور ھدیئے دے کر روانہ کیا لیکن انھوں نے پھر بھی مدینہ کے لوگوں کو یزید کی حقیقت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا، انھوں نے کہا کہ ہم ایسے شخص سے مل کر آ رہے ہیں کہ جو بے دین ہے، شراب پیتا ہے، ساز و آواز اس کے دربار میں بجایا اور رقص کیا جاتا ہے تم مدینہ کے سب لوگ گواہ رہو کہ ہم اس کو خلافت سے عزل کرتے ہیں۔ لوگوں نے بھی بزرگان مدینہ کی اس کام میں اطاعت اور حمایت کی اور عبد اللہ بن حنظلہ کی بیعت پر سب جمع ہو گئے۔ (البداية و النهاية، ج 8، ص 235 و 236 ) (الكامل، ابن أثير، ج 4، ص103 )( تاريخ طبرى، ج 7، ص4)

یزید شراب کا اتنا دلدادہ تھا کہ حکم دیا کرتا تھا کہ اس کے لیے دربار میں بہترین قسم کی شراب کو لایا کرو۔

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے زیاد حارثی سے نقل کیا ہے کہ:سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى.
یزید نے مجھے ایسی شراب پلائی ہے کہ آج تک میں نے ویسی شراب نہیں پی تھی۔ میں نے یزید سے کہا کہ میں نے آج تک ایسی شراب نہیں پی۔ یزید نے کہا: شہر حلوان کے انار، شہر اصفہان کی شھد، شہر اہواز کی شکر، شہر طائف کی کشمش اور بردی کے پانی سے یہ شراب خاص طور پر تیار کی گئی ہے۔(سير أعلام النبلاء، ج 4، ص37)

اسلام میں شراب پینے والے کے بارے میں فقہی و شرعی حکم

تمام مکاتب فکر آیات قرآن کی روشنی میں ہر قسم کی نشہ آور چیز کو نجس اور حرام کہتے ہیں اور شراب خوار کو فاسق اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہتے ہیں۔

شارح مسلم امام محى الدين نووى شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب روضۃ الطالبين میں شراب خوار کی حدّ کے بارے میں کہتا ہے کہ:شرب الخمر من كبائر المحرّمات....و يفسق شاربه، و يلزمه الحدّ، و من استحلّه كفر ۔
ابن نجیم مصری نے شراب خواری کو گناہ کبیرہ، شراب خوار کو فاسق، شراب پینے والے پر حد کے جاری کرنے کا کہا ہے اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہا ہے۔(روضة الطالبين، ج 7، ص374)

يكفّر مستحلّها، و سقوط العدالة إنّما هو سبب شربها.
جو شراب کو حلال کہے وہ کافر ہے اور شراب پینے سے انسان کی عدالت ساقط (ختم) ہو جاتی ہے۔(البحر الرائق، ج 7، ص 147)مزید تفصیل کتب احادیث شروح احادیث ، کتب تفاسیر اور کتب فقہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔

کیا ملعون یزید کے شراب خوار ہونے کے با وجود بطی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا جانشین اور خلیفہ بننے کے قابل تھا ؟

کیا اس کا صفت عدالت سے دور ہونا اور سر عام شراب پینا اس کے فاسق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ؟

اللہ تعالیٰ یزید جیسے فاسق و فاجر اور قاتل اہلبیت (رضی اللہ عنہم) کے حامیوں کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔