Pages

Saturday, 14 October 2017

حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم

حضرت سیّدنا امام  حسین رضی اللہ عنہ کو اذیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں۔خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ.(طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847)
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا (کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے۔

جب حسین رضی اللہ عنہ کا رونا آج برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں آقا علیہ السلام نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی؟ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا مولیٰ علی المرتضی بھی شہید ہوئے۔ سب شہادتیں اکبر و اعظم ہیں مگر کسی کی شہادت کے دن اس کے مشہد پر خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں تشریف لے گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں کہ میری شہادت سے ایک رات قبل آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عثمان آج روزہ رکھ لینا اور افطار میرے پاس آ کر کرلینا جو شہید ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں خود پہنچا اور دوسری طرف یہ عالم کہ کربلا کا دن ہے۔ ادھر شہادتیں ہورہی ہیں اور ادھر آقا علیہ السلام بنفس نفیس صبح سے آخری شہادت تک میدان کربلا میں خود موجود ہیں۔ مشہدِ حسین رضی اللہ عنہ اور میدانِ کربلا میں خود موجود رہنا یہ شرف آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی اور کو نہیں دیا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ ام المومنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کو مٹی دی اور فرمایا کہ جب یہ سرخ ہوجائے تو سمجھ لینا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں حتی کہ میدان کربلا اور سن شہادت کی خبر بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی، کتب حدیث میں کثرت سے اس پر احادیث موجود ہیں۔ صحیح بخاری کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو طرح کی خبریں اور علم سیکھے۔ ایک قسم اس علم کی ہے جو میں مجمع عام میں ہرکس و ناکس کے سامنے بیان کرتا رہتا ہوں۔ وہ علم احکام شریعت اور احکام طریقت کا ہے۔ دوسرا علم ایسے حقائق و واقعات اور خبریں ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے بیان کردوں تو میری گردن حلق سے کاٹ دی جائے۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث کتاب العلم میں ہے اس پر امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ علم جو سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور جسے عوام الناس کے سامنے بیان کرتے کتراتے اور خواص کے سامنے بیان کرتے تھے اس علم میں سے یہ بھی تھا کہ جب دس ہجری کا سن قریب آگیا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے۔

اے اللہ میں سن ساٹھ ہجری اور تخت سلطنت پر نوعمر لونڈوں کے حکمران بن کر بیٹھنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور سن ساٹھ ہجری کا سورج طلوع ہونے سے پہلے مجھے دنیا سے اٹھالینا۔

امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں : یزید کے حکومت پر بیٹھنے سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور انہیں اپنے پاس بلالیا‘‘۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اس علم میں سے ایک یہ بھی تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں مروان بن حکم سے خطاب فرمایا : اے مروان! میں نے صادق المصدوق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قریش کے خاندان میں سے ایک گھرانہ کے نادان، بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت برباد ہوجائے گی‘‘۔ گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری امت کی ہلاکت قرار دیا ہے۔ اس وقت تو مروان نے یہ سن کر کہا کہ ان لونڈوں پر خدا کی لعنت ہو لیکن اسے خبر نہ تھی کہ اس کے ہی خاندان کے لونڈوں کی بات ہورہی ہے ۔ امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قریش کے وہ بیوقوف لونڈے جنہوں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو تباہ کیا تھا ان میں سے پہلا لونڈا یزید تھا۔ صحیح ترمذی میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ بنو امیہ کے لوگ میری قبر پر کھیل رہے ہیں۔ آقا علیہ السلام کا قلب اطہر مغموم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکوثر اور سورۃ القدر نازل کی اور فرمایا کہ یہ ایک رات ایک ہزار مہینے سے افضل ہے‘‘۔ یعنی میدان کربلا میں جو اہل بیت رضی اللہ عنہم نے ایک رات گزاری وہ مثل لیلۃ القدر تھی۔ وہ بنو امیہ کے ہزار مہینوں سے افضل تھی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔