حضرت سیّدنا امام حسین اور شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کی شہادت کے بعد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وجود مبارک یزید کی بے قیدیوں کیلئے ایک زبردست محتسب تھا، وہ جانتا تھا کہ آپ کے زمانۂ مبارک میں اس کوبے مُہاری کا موقع میسر نہ آوے گا اور اس کی کسی کَجْ رَوی اور گمراہی پر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبر نہ فرمائیں گے، اس کو نظر آتاتھا کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے دیندار کا تازیانۂ تعزیر ہروقت اس کے سر پر گھوم رہاہے اسی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جان کا دشمن تھا اور اسی لیے حضرت اما م رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اس کیلئے باعث مسرت ہوئی۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سایہ اٹھنا تھا، یزید ُکھل کھیلا اور انواع و اقسام کے معاصی کی گرم بازاری ہوگئی۔ زنا، لواطت، حرام کاری، بھائی بہن کا بیاہ، سود، شراب، دھڑلّے سے رائج ہوئے، نمازوں کی پابندی اٹھ گئی، تَمَرُّد و سرکَشی انتہا کوپہنچی، شَیْطَنَت نے یہاں تک زور کیاکہ مسلم ابن عقبہ کو بارہ ہزاریا بیس ہزار کا لشکرگراں لے کرمدینہ طیبہ کی چڑھائی کیلئے بھیجا۔ یہ ۶۳ھ کاواقعہ ہے۔ اس نامراد لشکر نے مدینۂ طیبہ میں وہ طوفان برپاکیا کہ العظمۃ للہ، قتل، غارت اور طرح طرح کے مظالم ہمسائیگانِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ و بارک وسلم پرکیے۔ وہاں کے ساکنین کے گھرلوٹ لیے، سات سو صحابہ علیہم الرضوان کو شہید کیا اور دوسرے عام باشندے ملاکر دس ہزار سے زیادہ کو شہیدکیا، لڑکوں کو قید کرلیا، ایسی ایسی بد تمیزیاں کیں جن کا ذکر کرنا ناگوار ہے۔ مسجدنبوی شریف کے ستونوں میں گھوڑے باندھے، تین دن تک مسجد شریف میں لوگ نماز سے مشرف نہ ہوسکے۔ صرف حضرت سعید ابن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجنوں بن کر وہاں حاضرر ہے۔ حضرت عبداللہ ابن حنظلہ ابنِ غَسِیْل رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ یزیدیوں کے ناشائستہ حرکات اس حد پرپہنچے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہونے لگا کہ ان کی بدکاریوں کی وجہ سے کہیں آسمان سے پتھر نہ برسیں۔ پھریہ لشکر ِشرارت اثر مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں امیرِ لشکر مرگیا اور دوسراشخص اس کا قائم مقام کیاگیا۔ مکہ معظمہ پہنچ کر ان بے دینوں نے مِنْجَنِیْق سے سنگ باری کی (منجنیق پتھر پھینکے کا آلہ ہوتا ہے جس سے پتھر پھینک کر مارا جاتا ہے اس کی زد بڑی زبردست اور دور کی مار ہوتی ہے) اس سنگ باری سے حرم شریف کاصحن مبارک پتھروں سے بھر گیا اور مسجد ِ حرام کے ستون ٹوٹ پڑے اور کعبہ مقدسہ کے غلاف شریف اورچھت کو ان بے دینوں نے جلادیا۔ اسی چھت میں اُس دنبہ کے سینگ بھی تبرک کے طور پر محفوظ تھے جو سیدنا حضرت اسمٰعیل علی نبینا و علیہ الصلوٰۃوالسلام کے فدیہ میں قربانی کیا گیا تھا وہ بھی جل گئے کعبہ مقدسہ کئی روز تک بے لباس رہا اور وہاں کے باشندے سخت مصیبت میں مبتلا رہے۔(البدایۃ والنہایۃ ، سنۃ ثلاث وستین ، سنۃ اربع وستین ، ترجمۃ یزید بن معاویۃ ، ج۵، ص۷۲۹۔۷۵۰ملتقطاً وتاریخ الخلفاء، یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی، ص۱۶۶۔۱۶۵)
آخرکار یزید پلید کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک فرمایا اور وہ بدنصیب تین برس سات مہینے تختِ حکومت پر شَیْطَنَت کرکے ۱۵ربیع الاول ۶۴ھ کو جس روز اس پلید کے حکم سے کعبۂ معظمہ کی بے حر متی ہوئی تھی ، شہر حمص ملک شام میں انتالیس برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ ہنوز قتال جاری تھا کہ یزید ناپاک کی ہلاکت کی خبر پہنچی، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ندافرمائی کہ اہل شام! تمہارا طاغوت ہلاک ہوگیا۔ یہ سن کر وہ لوگ ذلیل و خوار ہوئے اور لوگ ان پرٹوٹ پڑے اور وہ گر وہِ ناحق پژوہ خائب وخاسر ہوا۔ اہل مکہ کو ان کے شر سے نجات ملی۔ اہل حجاز،یمن وعراق وخراسان نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کی اورا ہل مصر و شام نے معاویہ بن یزید کے ہاتھ پر ربیع الاول ۶۴ھ میں۔ یہ معاویہ اگرچہ یزید پلید کی اولاد سے تھا مگر آدمی نیک اور صالح تھا، باپ کے ناپاک افعال کو براجانتا تھا، عِنان حکومت ہاتھ میں لیتے وقت سے تادم مرگ بیمار ہی رہا اور کسی کام کی طرف نظر نہ ڈالی اور چالیس دن یا دوتین ماہ کی حکومت کے بعد اکیس سال کی عمر میں مرگیا۔ آخر وقت میں اس سے کہا گیا کہ کسی کو خلیفہ کرے اس کا جواب اس نے یہ دیا کہ میں نے خلافت میں کوئی حلاوت نہیں پائی تو میں اس تلخی میں کسی دوسرے کو کیوں مبتلا کروں۔(تاریخ الطبری، سنۃ اربع وستین، ذکر خبر وفاۃ یزید بن معاویۃ، خلافۃ معاویۃ بن یزید، ج۴، ص۸۷۔۹ ۔ وتاریخ الخلفاء، یزید بن معاویۃ ابوخالد الاموی، ص۱۶۷۔۱۶۸)
معاویہ بن یزید کے انتقال کے بعد اہل مصر و شام نے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کی پھر مروان بن حکم نے خروج کیا اور اس کو شام و مصر پر قبضہ حاصل ہوا۔ ۶۵ھ میں اس کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عبدالملک اس کا قائم مقام ہوا۔ عبد الملک کے عہد میں مختار بن عبید ثقفی نے عمر بن سعد کو بلایا، ابن سعد کا بیٹا حفص حاضر ہوا۔ مختار نے دریافت کیا: تیراباپ کہاں ہے ؟ کہنے لگا کہ وہ خلوت نشین ہوگیا ہے ،گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ اس پر مختار نے کہاکہ اب وہ رے کی حکومت کہاں ہے جس کی چاہت میں فرزند ِرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے وفائی کی تھی، اب کیوں اس سے دست بردار ہوکر گھرمیں بیٹھا ہے۔ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے شہادت کے روز کیوں خانہ نشین نہ ہوا۔ اس کے بعد مختار نے ابن سعد اور اس کے بیٹے اور شمرناپاک کی گردن مارنے کا حکم دیا اور ان سب کے سر کٹواکر حضرت محمد بن حنفیہ برادر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دئیے اور شمر کی لاش کو گھوڑوں کے سُمُوں سے روند وادیا جس سے اس کے سینہ اور پسلی کی ہڈیاں چکنا چور ہوگئیں۔ شمر حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قاتلوں میں سے ہے اور ابن سعد اس لشکر کاقافلہ سالاروکماندارتھا جس نے حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہپر مظالم کے طوفان توڑے آج ان ظالمانِ ستم شعار و مغرور انِ نابکار کے سرتن سے جدا کرکے دشت بدشت پھرائے جارہے ہیں اور دنیا میں کوئی ان کی بیکسی پر افسوس کرنے والا نہیں۔ ہر شخص ملامت کرتاہے اور نظر ِحقارت سے دیکھتا ہے اور ان کی اس ذلت و رسوائی کی موت پرخوش ہوتاہے۔ مسلمانوں نے مختار کے اس کارنامہ پر اظہار فرح کیا اور اس کودشمنانِ امام سے بدلہ لینے پر مبارکباد دی۔(تاریخ الخلفاء، عبد اللّٰہ بن الزبیر، ص۱۶۹، والکامل فی التاریخ، سنۃ ست وستین، ج۴، ص۲۷۔۴۹)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اے ابن سعد! رے کی حکومت تو کیا ملی ظلم و جفا کی جلد ہی تجھ کو سزا ملی
اے شمر نابکار! شہیدوں کے خون کی کیسی سزا تجھے ابھی اے ناسزا ملی
اے تشنگانِ خونِ جوانانِ اہلِ بیت دیکھا کہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
کتوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کئے گُھورے پہ بھی نہ گور کو تمہاری جا ملی
رسوائے خلق ہوگئے برباد ہوگئے مردودو! تم کو ذلتِ ہر دو سرا ملی
تم نے اُجاڑا حضرتِ زہرا کا بوستاں تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بد دعا ملی
دنیا پرستو! دین سے منہ موڑ کر تمہیں دنیا ملی نہ عیش و طرب کی ہوا ملی
آخر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے سر کٹ گئے اماں نہ تمہیں اک ذرا ملی
پائی ہے کیا نعیم انہوں نے ابھی سزا
دیکھیں گے وہ جحیم میں جس دم سزا ملی
اس کے بعد مختار نے ایک حکمِ عام دیا کہ کربلا میں جوجو شخص عمر بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مارڈالا جائے۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورمابصرہ بھاگنا شروع ہوئے، مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیاجس کو جہاں پایا ختم کردیا، لاشیں جلاڈالیں ،گھرلوٹ لیے۔ خولی بن یزیدوہ خبیث ہے جس نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہکا سرِ مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا، یہ روسیاہ بھی گرفتار کرکے مختار کے اس لایا گیا۔ مختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سولی چڑھایا، آخر آگ میں جھونک دیا۔ اس طرح لشکر ِابن سعد کے تمام اشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا۔ چھ ہزار کوفی جو حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کردیا۔ (الکامل فی التاریخ، سنۃ ست وستین، ج۴، ص۲۷۔۴۹)
ابن زیاد کی ہلاکت
عبیداللہ ابن زیاد ، یزید کی طرف سے کوفہ کاوالی (گورنر) کیاگیاتھا۔ اسی بدنہاد کے حکم سے حضرت امام اور آپ کے اہل بیت علیہم الرضوان کو یہ تمام ایذا ئیں پہنچائی گئیں ، یہی ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوج کے ساتھ اترا۔ مختار نے ابراہیم بن مالک اشترکو اس کے مقابلہ کیلئے ایک فوج کولے کر بھیجا موصل سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر دریائے فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا اور صبح سے شام تک خوب جنگ رہی۔ جب دن ختم ہونے والا تھا اور آفتاب قریب غروب تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آئی، ابن زیادکوشکست ہوئی،اس کے ہمراہی بھاگے۔ ابراہیم نے حکم دیا کہ فوجِ مخالف میں سے جو ہاتھ آئے اس کوزندہ نہ چھوڑا جائے۔ چنانچہ بہت سے ہلاک کیے گئے۔ اسی ہنگامہ میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کی دسویں تاریخ ۶۷ھ میں مارا گیا اور اس کا سر کا ٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گیا، ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ میں بھجوایا، مختار نے دار الامارت کوفہ کو آ راستہ کیا اوراہل کوفہ کو جمع کرکے ابن زیاد کا سرناپاک اسی جگہ رکھوایا جس جگہ اس مغرورِحکومت و بندۂ دنیانے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِ مبارک رکھا تھا۔ مختار نے اہل کوفہ کو خطاب کرکے کہا کہ اے اہل کوفہ! دیکھ لوکہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خونِ ناحق نے ابن زیادکو نہ چھوڑا، آج اس نامراد کا سر اس ذلت و رسوائی کے ساتھ یہاں رکھا ہوا ہے، چھ سال ہوئے ہیں وہی تاریخ ہے ،وہی جگہ ہے ،خدواند ِ عالَم نے ا س مغرور، فرعون خصال کو ایسی ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا، اسی کوفہ اور اسی دار الامارت میں اس بے دین کے قتل وہلاک پر جشن منایا جارہاہے۔ (الکامل فی التاریخ، سنۃ سبع وستین، ذکر مقتل ابن زیاد، ج۴، ص۶۰۔۶۲ملخصاً والبدایۃ والنہایۃ، سنۃ سبع وستین، وترجمۃ ابن زیاد، ج۶، ص۳۷۔۴۳ ملخصاً وروضۃ الشہداء (مترجم)، دسواں باب، فصل دوم، ج۲، ص۴۵۷)
ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ جس وقت ابن زیاد اور اس کے سرداروں کے سر مختار کے سامنے لاکر رکھے گئے توایک بڑاسانپ نمودار ہوا، اس کی ہیبت سے لوگ ڈر گئے وہ تمام سروں پر پھرا جب عبیداللہ ابن زیاد کے سر کے پاس پہنچا اس کے نتھنے میں گھس گیا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر اس کے منہ سے نکلا، اس طرح تین بار سانپ اس کے سر کے اندر داخل ہوا اور غائب ہوگیا۔(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی محمد الحسن۔۔۔الخ، الحدیث:۳۸۰۵، ج۵، ص۴۳۱)
ابن زیاد، ابن سعد،شمر، قیس ابن اشعث کندی ، خولی ابن یزید، سنان بن انس نخعی، عبداللہ بن قیس ، یزید بن مالک اور باقی تمام اشقیا جو حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قتل میں شریک تھے اور ساعی تھے طرح طرح کی عقوبتوں سے قتل کیے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کرائی گئیں۔(روضۃ الشہداء (مترجم)، دسواں باب، فصل دوم، ج۲، ص۴۵۵)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حدیث شریف میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ خونِ حضرتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے بدلے سترہزار شقی مارے جائیں گے۔(المستدرک للحاکم ، کتاب تواریخ المتقدمین ۔۔۔الخ، قصۃ قتل یحیی علیہ السلام، الحدیث: ۴۲۰۸، ج۳، ص۴۸۵)
وہ پور اہوا، دنیا پرستارانِ سیاہ باطن اور مغرورانِ تاریک دروں کیاامیدیں باندھ رہے تھے اورحضرت امام علیٰ جدہ وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت سے ان دشمنان حق کو کیسی کچھ توقعات تھیں۔ لشکریوں کو گراں قدر انعاموں کے وعدے دئیے گئے تھے، سرداروں کو عہدے اورحکومت کا لالچ دیا گیا تھا، یزید اور ابن زیاد وغیرہ کے دماغوں میں جہانگیر سلطنت کے نقشے کھنچے ہوئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ فقط امام رضی اللہ تعالیٰ عنہہی کاوجود ہمارے لیے عیشِ دنیا سے مانع ہے ، یہ نہ ہوں تو تمام کرۂ زمین پر یزیدیوں کی سلطنت ہوجائے اورہزاروں برس کے لئے ان کی حکومت کاجھنڈا گڑجائے مگر ظلم کے انجام اور قہر الٰہی عزوجل کی تباہ کن بجلیوں اور درد رسید گانِ اہل بیت کی جہاں برہم کُن آہوں کی تاثیرات سے بے خبر تھے۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خونِ شہداء رنگ لائے گا اور سلطنت کے پرزے اڑجائیں گے، ایک ایک شخص جو قتلِ حضرتِ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہمیں شریک ہواہے طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگا، وہی فرات کا کنارہ ہوگا، وہی عاشورہ کا دن، وہی ظالموں کی قوم ہوگی اور مختار کے گھوڑے انھیں روندتے ہوں گے، ان کی جماعتوں کی کثرت ان کے کام نہ آئے گی، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں گے، گھرلوٹے جائیں گے، سولیاں دی جائیں گی، لاشیں سڑیں گی،دنیا میں ہر شخص تُف تُف کرے گا، اس ہلاکت پر خوشی منائی جائے گی، معرکہ جنگ میں اگرچہ ان کی تعداد ہزاروں کی ہوگی مگر وہ دل چھوڑکر ہیجڑوں کی طرح بھاگیں گے اور چوہوں اور کُتّوں کی طرح انھیں جان بچا نی مشکل ہوگی، جہاں پائے جائیں گے ماردئیے جائیں گے، دنیا میں قیامت تک ان پر نفرت و ملامت کی جائے گی۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکی شہادت حمایت ِحق کے لئے ہے اس راہ کی تمام تکلیفیں عزت ہیں اور پھروہ بھی اس شان کے ساتھ کہ اس خاندان عالی کا بچہ بچہ شیر بن کر میدان میں آیا، مقابل سے اس کی نظرنہ جھپکی، دمِ آخر تک مبارزطلب کرتارہا اور جب نامردوں کے ہجوم نے اس کو چاروں طرف سے گھیرلیاتب بھی اُس کے پائے ثبات واِسْتِقْلال کو لغزش نہ ہوئی، اُس نے میدان سے باگ نہ موڑی نہ حق و صداقت کا دامن ہاتھ سے چھوڑا نہ اپنے دعوے سے دست برداری کی، مردانہ جانبازی کا نام دنیا میں زندہ کردیا، حق و صداقت کا ناقابلِ فراموشی درس دیا اور ثابت کردیا کہ فیوضِ نبوت کے پرتَو سے حقانیت کی تجلیاں اُن پاک باطنوں کے رگ وپے میں ایسی جاگزیں ہوگئی ہیں کہ تیر و تلوار اور تیر و سناں کے ہزارہا گہرے گہرے زخم بھی اُن کو گزند نہیں پہنچا سکتے۔ آخرت کی زندگی کا دلکش منظر اُن کی چشمِ حق بیں کے سامنے اِس طرح روکش ہے کہ آسایشِ حیاتِ دنیوی کووہ بے التفاتی کی ٹھوکروں سے ٹھکرا دیتے ہیں۔
حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے، زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔اس پر امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ
کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور تَذَکُّرہےاور عذابِ الٰہیعزوجل کی یادہے۔ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔(المنتظم، سنۃ اربع وتسعین، ۵۳۰۔علی بن الحسین۔۔۔الخ، ج۶، ص۳۳۰)
یہ اختیارات ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کرامۃً انھیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسایشِ وجود ، گھر بار،مال و متاع سب سے رضائے الٰہیعزوجل کیلئے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعا لیٰ ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔آمین۔(ماخوذ ۔ سوانح کربلا ، اوراق غم ، آل رسول ، شہادت نواسئہ سیّد الابرار ، روضۃ الشہداء ، کتب احادیث ، کتب سوانح ، کتب تاریخ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔