مسلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم غیر مقلد وہابی مولوی اسماعیل سلفی کی بد ترین تحریف و جہالت کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غیرمقلدین کے مولوی اسماعیل سلفی گوجرانوالہ نے اپنی ایک کتاب تحریک آزادیء فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی ۔ میں بہت سی خرافات لکھی ہیں اور حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ (انبیاء کی حیاتِ دنیوی اہل بدعت کا مذہب ہے) اور اس سرخی کے نیچے لکھا ہے (ابن القیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حیات دنیوی اہل بدعت اور معطلہ کا مذہب ہے قصیدہ نونیہ ص ۱۴۰ ملاحظہ فرمائیں: ۔(تحریک آزادیء فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی صفحہ نمبر ۲۹۲)۔
یعنی تمام تر آئمہ علیہم الرّحمہ کے مقابلے میں اپنے اپنے ایک امام الوہابیہ ابن القیم جوزی کے قول کو پیش کررہا ہے ۔
تو جواب میں ہم اہلسنت کے ایک عظیم امام تقی الدین علی السبکی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان پیش کر رہے ہیں آپ علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں (نوٹ: یہاں صرف ایک امام کا ذکر کررہے ہیں ورنہ ساروں کا یہی عقیدہ ہے)۔
واما حیاۃ الانبیآٗ اعلی واکمل واتم من الجمیع لانھا للروح والجسد علی الدوام علی ما کان فی الدنیا علی ما تقدم عن جماعۃ من العلماء (بحوالہ الشفاء السقام)۔
ترجمہ : اور بہرحال حضرات انبیائے کرام علیھم السلام کی حیات تمام اعلیٰ اکمل اور اتم ہے کیونکہ ان کی حیات جسم اور روح دونوں کو دوامی طور پر حاصل ہے جسطرح کہ دنیا میں تھی۔
یہی عقیدہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الحاوی الفتاویٰ ۲: ۱۵۲ میں بیان فرمایا اور امام نورالدین علی بن احمد السمھودی رحمۃ اللہ علیہ وفاٗ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ ج ۴ ص ۱۳۵۵ پر حضرت علامہ بدرالدین زرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے زرقانی علی المواھب ج ۵ ص ۳۹۵ پر، حضرت امام ملا علی قاری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح الشفاٗ طبع علی نسیم الریاض ج ۳ ص ۴۹۴ پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ باب حیات الانبیا ج ۲ ص ۴۴۷ و مکتوبات شریف برحاشیہ اخبار الاخیار ص ۱۵۵ پر بعینہہٖ یہی فرمایا ہے۔
یعنی اہلسنت وجماعت ۱۳۰۰ سال سے انبیاء علیہم السّلام کی جسمانی اور دنیوی حیات بعد از وفات کے قائل ہیں ۔ اگر کوئی نہی ہےتو غیرمقلدین کا بدعتی گروہ ہے جسکے سرخیل ابن تیمیہ مجسمی اور اسکا مشہور پیروکار ابن القیم جوزیہ ہے۔ اور اسکی کی اندھی تقلید مین غیرمقلدین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم و دیگر انبیاء کرام علیہم السّلام کی دنیوی حیات کا قرآنی عقیدہ سے انکار کرتے ہوئے اسکو (برزخی دنیا) کی حیات قرار دیا ہے اور اپنے اندھے غیرمقلد مقلدین کو یہی بتاتے ہیں۔
اب مولوی اسماعیل سفلی اور اسکے حواری یہ بتائیں کہ مذکورہ بالا شخصیات اہل سنت ہیں یا نہیں ؟ اور ان کی کتابوں میں حیاتِ جسمانی دنیوی کی صراحت ہے یا کہ نہیں اور جہاں تک ابن القیم کا تعلق ہے تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ ابن القیم کا اپنا کلام اس سلسلے میں متضاد ہے ، کتاب الروح میں تو حیات جسمانی دنیوی کا قائل نظر آتا ہے جبکہ قصیدہ نوننیہ مین اس کا منکر ہے۔ جو شخص خود کسی مسئلہ پر مطمئن نہ ہو اس کے کسی غیرمعروف اور امت کے علماء کے خلاف قول پر عقیدہ رکھنا اور اسکو بطور دلیل علمائےا مت کے خلاف پیش کرنا کہاں کی دیانت ہے؟۔ ابن القیم کتاب الروح میں لکھتا ہے : ان الموت لیس بعدم محض وانما ھو انتقال من حال الی حال ویدل علی ذلک ان الشھداء بعد قتلھم وموتھم احیاء عند ربھم یرزقون فرحین مستبشرین وھذہ صفۃ الاحیاء فی الدنیا واذا کان ھذا فی الشھداء کان الانبیآء بذالک احق و اولیٰ مع انہ قد صح عن النبی ﷺ ان الارض لاتاکل اجساد الانبیآء۔ترجمہ : بے شک موت عدم محض نہیں ہے بلکہ وہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال کرنا ہے اور اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ شہداء قتل اور موت کے بعد اپنے رب کے پاس زندہ ہیں وہ رزق دیئے جاتے ہیں خؤش ہیں اور خوشخبریاں دیتے ہیں اور یہ ہی صفت دنیا میں زندہ لوگوں کی ہے۔ جب یہ (دنیوی صفات) شھداء کو حاصل ہیں تو انبیآء تو اس کے زیادہ حقدار ہیں اور اولیٰ ہیں اسکے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ بے شک زمین انبیاء کرام کے اجسام کو نہیں کھاتی ۔ (کتاب الروح ص 57)
تو جب ابن القیم خود اس چیز کا قائل ہے تو پھر دیگر حضرات پر اعتراض کیوں کررہا ہے؟ اور اگر ابن قیم کو اس حیات کے منکرین میں شمار کرلیا جائے جیسا کہ مولوی اسماعیل سفلی نے کہا ہے تو پھر ابھی ابن القیم کی حضرت علامہ امام تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کیا حیثیت ہے جو کہ حیاتِ دنیوی کے بڑے زور و شور سے قائل ہیں۔ کہاں امام تقی الدین السبکی رحمتہ اللہ علیہ اور کہاں ابن القیم۔ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ کا مقام کیا ہے؟(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اس بارے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں۔ وہ اس فاضل یگانہ روزگار شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں : علی بن عبدالکافی السبکی: وکان صادقاً مثبتاً خیرًا دیناً متواضعاً حسن السمعت من اوعیۃ العلم یدری الفقہ ویقررہ و علم الحدیث و یحررہ والاصول و یقرئھما والعربیۃ ویحققھا ثم قرا بالروایات علی تقی الدین الصائع وصنف التصانیف المتقنۃ وقد بقی فی زمانہ الملحوظ الیہ بالتحقیق والفضل ۔ ترجمہ: اور آپ سچے ۔ چھان بین کرنے والے بہت دین والے متواضع اور اچھے ارادے والے آپ علوم کے برتنوں میں سے ایک برتن تھے۔ فقہ جانتے اور اسکی تقریر کرتے تھے اور علم حدیث جانتے اور اسکی تحریر کرتے تھے اور آپ اصول جانتے اور پڑھتے تھے عربی جانتے اور اسکی تحقیق کرتے تھے پھر روایات کو تقی الدین الصائع سے پڑھا اور بہت پائیدار کتابیں تصنیف کیں اور اپنے زمانہ مین تحقیق و فضل کے لحاظ سے منظورِ نظر تھے۔ (المعجم التخصص بالمحدثین للذھبی ص ۱۶۶)
ایک دوسری جگہ یہی امام ذہبی فرماتے ہیں : وکان تام العقل متین الدیانۃ مرضی الاخلاق طویل الباع فی المناظرۃ قوی المواد جزل الرای ملیح التصنیف ۔ ترجمہ : وہ مکمل عقل کے مالک متین الدیانت اچھے اخلاق والے فن مناظرہ میں درک کامل رکھنے والے بہت سارے قوی مواد والے اچھی رائے اور بہترین تصانیف والے شخص تھے ۔ (معجم الشیوخ الکبریٰ ص ۳۷۳)
امام سبکی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق امام حافظ جلال الدین سیوطی الشافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وکان محققاً مدققاً نظارًا جدلیاً بارعاً فی العلوم لہ فی الفقہ وغیرہ الاستنباطات الجلیلۃ والدقائق اللطیفۃ والقواعد المحررۃ التی لم یسبق الیھا وکان مصنفا فی البحث ۔
ترجمہ : آپ (سبکی رحمۃ اللہ علیہ) محقق مدقق بہترین مناظر اور علوم میں کامل دسترس رکھنے والے اور فقہ میں ان کی جلیل القدر تالیفات اور دقائق لطیفہ ہیں اور بہترین قواعد لکھے ہیں کہ ان سے پہلے ایسے دقائق کسی نے نہ لکھے اور بحث و مناظر میں صاحبِ انصاف تھے ۔ (بغیۃ الوعاۃ فی طبقات اللغویین والنحاۃ ۲: ۷۷)
ذیل الطبقات الحفاظ ص ۳۵۳ للسیوطی رحمۃ اللہ علیہ میں امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ب : ولیس بعد المزی والذھبی احفظ منہ ۔ ترجمہ : اور امام مزی رحمۃ اللہ علیہ اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد کوئی بھی امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ حافظہ والا نہیں ہے۔
حضرت امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ کی شان رفیع کے جلوے اگر مزید دیکھنے ہوں تو ملاحظہ فرمائیں : ذیل تذکرۃ الحافظ للذھبی للحافظ ابی المحاسن الحسنی الدمشقی ص ۳۹ تا ص ۴۱۔ ذیل العبر اللحسنی ۴: ۱۶۸۔ الوفیات لابن رافع ۲: ۱۸۵ و ۱۸۷۔ الدررالکامنہ لابن حجر عسقلانی ۳:۱۳۴۔ طبقات الشافعیہ الکبریٰ للتاج الدین السبکی ج ۶۔ النجوم الذاھر لابن تغری بردی ج۱: ص ۳۱۹۔ طبقات الشافعیۃ لابن قاضی ج ۳: ص ۴۷ تا ۵۳)
تو اب ان کے مقابلہ میں ابن القیم کے بارے میں دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا کسی بھی مسئلہ میں ابن القیم ، امام تقی الدین السبکی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم پلہ ہوسکتا ہے؟ اور کیا ابن القیم کے قول سے علامہ سبکی و دیگر حضرات محدثین علیہم الرّحمہ کے اقوال رد کیئے جاسکتے ہیں ؟ ۔ جیسا کہ سفلیوں کے مولوی اسماعیل سلفی صاحب نے لکھا ہے : امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وکان یشتغل فی الفقہ و یجید تقریرہ وفی النحو ویدریہ و فی الاصلین وقد جبس مدۃ و اُوذی لا فکارہ شدہ الرحل الی قبر الخلیل واللہ یصلحہ ویوفقہ سمع معنی من جماعۃ وتصدر للاشتغال و نشر العلم ولکنہ معجب برا یہ (سیی العقل) جری علی الامور غفراللہ لہ ۔ ترجمہ : وہ فقہ میں مشغول اور اسکی خوب تقریر کی نحو کو خوب جانچا اور ان دونوں اصلوں پر کام کیا۔ اور حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیئے سفر کرنے کے انکار پر کچھ مدت قید ہوا اور تکلیف دیا گیا اللہ اسکی اصلاح فرمائے اور اس کو نیکی کی توفیق بخشے اس نے میرے ہمراہ علماٗ کی جماعت سے سماعت کی پھر نشر علم اور اشتغال میں خوب محنت کی لیکن یہ بڑا متکبر کم عقل (ردی العقل) اور خودسر تھا ۔ المعجم المختص بالمحدثین ص ۲۶۹)
نوٹ: چونکہ سلفیوں کی کتاب کا ناشر اور نام نہاد محقق نجدی ذہنیت کا مالک ہے اسلیئے اس نے (یحرفون الکلم عن مواضعہ) کے تحت مذکورہ عبارت سے (سیی العقل) کے الفاظ حذف کردیئے اور اس تحریف کا جواز یہ پیش کیا کہ : لا یتوقع ان یقول الذہبی عن ابن قیم الجوزیہ انہ (سیی العقل) بعد ان نکر من صفاتہ ما ذکر خلال ھذہ الترجمۃ مما جعلنا نشک فی صحۃ نسبۃ ھذا الحکم للذھبی۔
ترجمہ : امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ابن قیم جوزیہ کو یہ کہیں کہ وہ ردی عقل کا آدمی ہے ۔ اس ترجمہ میں اسکی صفات بیان کرنے کے بعد اسکے لیئے اس حکم کو ذہبی کی طرف نسبت کرنے میں ہمیں شک ہے۔
نوٹ: ملاحظہ فرمایا آپ نے؛ حالانکہ علامہ عبدالحی لکھنوی بھی (سی العقل) کے الفاظ علامہ ذہبی سے نقل کرتے ہیں (حوالہ؛ السعی المشکور ص ۸۸)۔
سبحان اللہ کیسی نرالی و پختہ دلیل دی ہے کیا ایسی دلیل کسی اور شخص کے بارے میں قبول ہوسکتی ہے ۔ ایسے نرالے استدلال صرف نجدی ذہن کو ہی زیب دیتے ہیں۔
بہرحال یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت علامہ امام تقی الدین السبکی رحمۃ اللہ علیہ ، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ، امام سمہودی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کے مقابلے میں ابن قیم جوزی کی علمی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے اور جہاں تک علم حدیث کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں تو بالکل ہی ان حضرات اور ابن قیم کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اور جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے تو ہرشخص یہ جانتا ہے کہ ابن القیم عقیدہ مین اپنے شیخ ابن تیمیہ کی طرح مجسمی (یعنی اللہ تعالیٰ کےلیئے جسم کے قائل ہے) اور بدعتتی ہے جبکہ مذکورہ بالا ائمہ میں سے کسی ایک پر بھی بدعتی ہونے کی تہمت نہیں ہے۔
مقالاتِ کوثری ۳۱۲ میں حضرت علامہ زاہد بن حسن الکوثری المصری فرماتے ہیں : وابن القیم علی بدعتہ قلیل البضاعۃ فی علم الرجال۔
ترجمہ : اور ابن قیم بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ علم اسماٗ الرجال میں بھی قلیل البضاعت ہے۔
تو ایسا شخص (ابن قیم) جو بتصریح ائمہ دین سیی العقل ، جری علی الامور، قلیل البضاعۃ فی الرجال۔ بدعتی، جیسے اوصاف سے متصف ہو ائمہ اہلسنت کا مقابلہ کرنے کی کہاں سکت رکھتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ حیاۃ الانبیاٗ فی القبور حقیقی جسمانی دنیوی کا عقیدہ اہلسنت کی اکثریت کا ہے اور صرف روحانی برزخی زندگی کا عقیدہ نجدیوں وہابیوں جیسے بدعتیوں کا ہے ۔
اسکے علاوہ مولوی احمد رضا بجنوری دیوبندی نے بھی لکھا ہے کہ حافظ ابن القیم تو بقول علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے خود ضعیف فی الرجال ہے۔ (ملفوظات محدث کشمیری ص ۲۰۵)۔
لہٰذا مولوی اسماعیل سلفی اور اسکے اندھے غیرمقلد مقلدین کو چلو بھر پانی میں (منہ دھو لینا چاہیئے)
قارئین محترم : اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ : غیر مقلد وہابی نجدی حضرات بغض رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ قرآن کی آیات کے ترجموں ، کتب احادیث کے ترجموں ، آئمہ اسلام علیہم الرّحمہ کی کتابوں اور خود اپنے مولویوں کی کتابوں میں تحریف کر دیتے ہیں اور یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ کسی عالم کا قول ہمارے لیئے حجت نہیں مگر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیئے ملت اسلامیہ کے آئمہ اکابرین علیہم الرّحمہ کے مقابلے ابن تیمیہ و ابن قیم جیسے لوگوں کے آدھے اقوال پیش کرتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن کے ساتھ کرتے ہیں بتوں و کفار کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات انبیاء علیہم السّلام ، صالحین اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور مسلمانان اہلسنت پر چسپاں کرتے ہیں ۔ وہابیہ کی تحریفات و بد دیانتیوں کو بے نقاب کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ان شاء اللہ ۔ اس سے پہلے ہم وہابیہ کے بڑے محدث ناصر البانی کی احادیث میں تحریفات و بد دیانتی پیش کر چکے ہیں جس کا جواب آج تک نہیں سوائے غیر مقلدوں کی طرف سے گالم گلوچ اور اوٹ پٹانگ باتوں کے ۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو ان کے شر سے بچائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔