ضعیف احادیث پر ایک اہم مضمون : ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مضمون کا ابتدائی حصّہ پوسٹ میں لکھ دیا گیا ہے اب اس سے آگے مضمون پڑھیں
دوم :احکام :ان میں حدیث کم از کم حسن لغیرہ ہونی چاہیے ،جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے ۔البتہ جب کسی حدیث ضعیف میں احتیاط ہو تو اس پر بھی عمل کیا جائے گا ،جیسے حدیث ضعیف میں آیا ہے بد ھ اور ہفتے کے دن پچھنے لگوانے سے برص کا مرض ہوجاتا ہے(الکامل لابن عدی )اور بدھ کے دن ناخن کاٹنے سے برص کا مرض ہو جاتا ہے۔( حدیث علامہ خفاجی نے نسیم الریاض میں نقل فرمائی )
امام سیوطی تدریب الراوی میں فرماتے ہیں :(یعمل بالضعیف ایضا فی الاحکام اذا کان فیہ احتیاط )حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل کیا جائے گا جب اس میں احتیاط ہو ۔
امام سیوطی اللائی المصنوعۃ میں فرماتے ہیں :ایک صاحب نے کہا حدیث ضعیف ہے ،اور بدھ کے دن فصد لگوائے تو انھیں فورا برص کا مرض ہو گیا ،رات میں خواب میں حضور تشریف لائے اور فرمایا (ایاک والاستھانۃ بحدیثی )خبردار میری حدیث کو ہلکا نہ سمجھنا ۔
سوم :فضائل و مناقب :یہاں باتفاق علماء ضعیف حدیث بھی کافی ہے ،مثلا کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی جو ایسا کرے گا اتنا ثواب پائے گا ،یا کسی نبی یا صحابی کی کوئی خوبی بیان ہوئی کہ اللہ نے انھیں یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے ،توایسی جگہ حدیث ضعیف بھی کافی ہے ۔
فتح القدیر میں ہے :حدیث ضعیف جو موضوع نہ ہو ،اس پر فضائل اعمال میں عمل کیا جائے گا ۔
علماء کرام کی عادت مبارکہ بھی یہی ہے:علماء کرام جب حلال و حرام میں حدیث روایت کرتے ہیں تو سختی کرتے ہیں ،مگر فضائل میں نرمی کرتے ہیں ۔
حدیث غیر صحیح کا مطلب کیا ہے:مقدمہ ابن الصلاح میں ہے :محدثین جب کسی حدیث کو غیر صحیح کہتے ہیں ،تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ یقینی طور پر کذب ہے ،بلکہ کبھی یہ سچ بھی ہوسکتی ہے ،محدثین کے قول یہ حدیث صحیح نہیں سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس کی اسناد شرائط صحت پر پوری نہیں اترتی ،جو محدثین نے مقرر کی ہیں ۔
فتح القدیر میں ہے :حدیث کو حسن یا صحیح یا ضعیف کہنا (انما ھو باعتبار السند ظنا )صرف سند کے لحاظ سے ظنی ہوتا ہے ۔
موضوعات کبیر میں ہے :حدیث پر صحیح ،حسن ،ضعیف کا حکم بنظر ظاہر ہے (مع احتمال کون الصحیح موضوعا وعکسہ)یہ بھی احتمال ہے کہ (کوئی )صحیح موضوع ہو اور (کوئی )موضوع صحیح ہو ۔ تدریب الراوی میں ہے :لجواز صدق الکاذب کیونکہ ہوسکتا ہے،جھوٹے نے (اس حدیث میں )سچ بولا ہو ،اورجھوٹے راوی کی یہ حدیث صحیح ہو ۔
فضائل میں ضعیف پر عمل کرنے کی وجہ:ایک راوی جس کا کذب یقینی نہیں ،وہ ایک حدیث بیان کرتا ہے ،اس میں کتاب و سنت و اجماع امت کی مخالفت نہیں تو اسے نہ ماننے کی کیا وجہ ہے ؟؟
فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل اس لیے درست ہے ،کیونکہ اگر یہ حدیث حقیقت میں صحیح ہوئی تو اس کاحق تھا کہ اس پر عمل کیا جائے ،اور وہ عمل کرنے سے ادا ہو جائے گا ،اگر حقیقت میں صحیح نہ ہوئی تو اس پر عمل کرنے میںتحلیل و تحریم یا کسی کی حق تلفی نہیں ہے ۔
اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کی روایت کردہ بعض احادیث :کیونکہ حدیث پر ضعیف کا حکم ظنی ہوتا ہے ،اس لیے بعض احادیث کو محدثین ضعیف و نامعتبر کہہ دیتے ہیں ،مگر اولیاء کرام اسے اپنے کشف کی وجہ سے معتبرجان کر اس پر عمل کرتے ہیں
میزان کبری میں ہے :(اصحابی کالنجوم) اس حدیث میں اگرچہ محدثین کے نزدیک مقال ہے مگر اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے 75بار بیداری میں حضور کا دیدار کیا اور حضور اقدس سے تحقیقات حدیث کی دولت پائی ،بہت سی ایسی احادیث جو محدثین کے طریقہ پر ضعیف تھی ،ان کی تصحیح فرمائی ۔
مستحب ہونے کیلئے حدیث ضعیف ہی کافی ہے:فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے ۔فتح القدیر میں ہے:( الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع )استحباب حدیث ضعیف غیر موضوع سے بھی ثابت ہوجاتا ہے ۔
لہذا اگر کوئی حدیث ضعیف ہو ،اور وہ کتا ب اللہ ،سنت ،اور اجماع امت کے خلاف نہ ہو تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ، جو ایسی بات پر عمل کریں گے انھیں حسن نیت کا ثواب ملے گا ،حدیث میں ہے:اللہ تعالی فرماتا ہے :میں بندے کے گمان کی طرح معاملہ فرماتا ہوں ۔ علماء کرام کی چند عبارات تو آپ نے ملاحظہ فرمائی ،یہ حکم تو خود حدیث مبارکہ میں ہے ۔
مسنداحمد کی حدیث میں حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے (ما جاء کم عنی
من خیر او لم اقلہ فانی اقولہ )تمھیں جس بھلائی کی مجھ سے خبر پہنچے خواہ وہ میں نے فرمائی ہو یا نہ فرمائی ہو ،میں اسے فرماتا ہوں ۔
ابن ماجہ کی حدیث میں ہے :(ما قیل من قول حسن فانا قلتہ )جو نیک بات بھی کی گئی ہے ،میں اس کا قائل ہو ں۔
مسند ابو یعلی میں ہے :(من بلغہ عن اﷲ تعالی فضیلۃ ،فلم یصدق بھا لم ینلھا )جسے اللہ تعالی سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے تو وہ اس فضیلت سے محروم رہے گا ۔
فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل اس لیے درست ہے ،کیونکہ اگر یہ حدیث حقیقت میں صحیح ہوئی تو اس کاحق تھا کہ اس پر عمل کیا جائے ،اور وہ ادا ہو جائے گا ،اگر حقیقت میں صحیح نہ ہوئی تو اس پر عمل کرنے میں کسی حرام کو حلال کرنے یا حلال کو حرام کرنے یا کسی کی حق تلفی نہیں ہے ۔
فتح القدیر میں ہے :حدیث ضعیف جو موضوع نہ ہو ،اس پر فضائل اعمال میں عمل کیا جائے گا ۔
علماء کرام جب حلال و حرام میں حدیث روایت کرتے ہیں تو سختی کرتے ہیں ،مگر فضائل میں نرمی کرتے ہیں ۔فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے ۔
فتح القدیر میں ہے:( الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع )استحباب حدیث ضعیف غیر موضوع سے بھی ثابت ہوجاتا ہے ۔
ایک راوی جس کا کذب یقینی نہیں ،وہ ایک حدیث بیان کرتا ہے ،اس میں کتاب و سنت و اجماع امت کی مخالفت نہیں تو اسے نہ ماننے کی کیا وجہ ہے ؟؟
بلکہ خود مسنداحمد کی حدیث میں حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے (ما جاء کم عنی من خیر او لم اقلہ فانی اقولہ )
تمھیں جس بھلائی کی مجھ سے خبر پہنچے خواہ وہ میں نے فرمائی ہو یا نہ فرمائی ہو ،میں اسے فرماتا ہوں
ابن ماجہ کی حدیث میں ہے :(ما قیل من قول حسن فانا قلتہ )جو نیک بات بھی کی گئی ہے ،میں اس کا قائل ہو
مسند ابو یعلی میں ہے :(من بلغہ عن اللہ تعالی فضیلۃ ،فلم یصدق بھا لم ینلھا )جسے اللہ تعالی سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے تو وہ اس فضیلت سے محروم رہے گا ،
مقدمہ ابن الصلاح میں ہے :محدثین جب کسی حدیث کو غیر صحیح کہتے ہیں ،تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ یقینی طور پر کذب ہے ،بلکہ کبھی یہ حقیقت میں سچ بھی ہوتی ہے ،اس قول سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس کی اسناد شرط صحت پر پوری نہیں اترتی ۔
تدریب الراوی میں ہے :لجواز صدق الکاذب کیونکہ ہوسکتا ہے ،جھوٹے نے (اس حدیث میں )سچ بولا ہو ،
فتح القدیر میں ہے :حدیث کو حسن یا صحیح یا ضعیف کہنا (انما ھو باعتبار السند ظنا )صرف سند کے لحاظ سے ظنی طور پر ہوتا ہے
موضوعات کبیر میں ہے :حدیث پر صحیح ،حسن ،ضعیف کا حکم بنظر ظاہر ہے (مع احتمال کون الصحیح موضوعا وعکسہ)یہ بھی احتمال ہے کہ (کوئی )صحیح موضوع ہو اور (کوئی )موضوع صحیح ہو ۔
اس لیے بعض احادیث کو محدثین ضعیف و نامعتبر کہہ دیتے ہیں ،مگر اولیاء کرام اسے معتبرجان کر اس پر عمل کرتے ہیں
میزان کبری میں ہے :اصحابی کالنجوم اس حدیث میں اگرچہ محدثین کے نزدیک مقال ہے مگر اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے،
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے 75بار بیداری میں حضور کا دیدار کیا اور حضور اقدس سے تحقیقات حدیث کی دولت پائی ،بہت سی ایسی احادیث جو محدثین کے طریقہ پر ضعیف تھی ،ان کی تصحیح فرمائی ۔عام لوگ جو ایسی بات پر عمل کریں گے انھیں حسن نیت کا ثواب ملے گا ،حدیث میں ہے:میں بندے کے گمان کی طرح معاملہ فرماتا ہوں
(یہ تمام مواد امام احمد رضابریلوی کے رسالہ الھاد الکاف فی حکم الضعاف سے لیا گیا ہے، جو انھوںنے اسم محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم پر انگوٹھے چومنے کے بارے میں لکھا تھا ،یہ رسالہ فتاوی رضویہ ،ج٥میں ہے ،یہ ضمنی رسالہ ص ٤٧٧تا ٥٣٧پر موجود ہے ،البتہ ہم نے عوام کی آسانی کیلئے اس کے الفاظ بدل دیے اورمختصر خلاصہ بیان کر دیا ۔)(ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔