اسلام مخالف قوتوں کے خلاف
"دعوت اسلامی کا عالمی احتجاج"
تحریر : عادل نجم حریم
معترضین کے دعوت اسلامی پر اعترضات کے جوابات پر لکھی تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
احتجاج دو طرح ہوتا ہے....ایک ظاہری دوسرا پوشیدہ،
ظاہری احتجاج دشمن کے خلاف ایک آواز ہو کر گلی، محلوں، سڑکوں، میدانوں میں نکل کر احتجاج کیا جاتا ہے، اس احتجاج کا خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آتا، یہ وقتی طور تو مثبت ثابت ہوتا ہے مگر وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر اس کا اثر جلد ختم ہو جاتا ہے،
جبکہ پوشیدہ احتجاج پہلے کے برخلاف ہوتا ہے، اس میں دشمن کے خلاف گلی، محلوں، سڑکوں، پر نکلا نہیں جاتا بلکہ اس احتجاج میں علم و عمل کو ترجیح دی جاتی ہے، خاموشی کے ساتھ دشمن کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور یوں دشمن کو اس علمی و عملی احتجاج کی وجہ سے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
یہ دوسرا احتجاج پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے، اس بات کا اندازہ آپ عالمی طور پر یہود و نصاری کے اس علمی و عملی احتجاج سے لگا سکتے ہیں جو انہوں نے اسلام کے خلاف جاری کیا ہوا ہے،
یہ قومیں بظاہر ایک دوسرے کی دشمن ہیں مگر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے یہ متحد ہو کر اسلام کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں، اسلام کے خلاف ان کا احتجاج شور، شرابے سے پاک پوشیدہ انداز میں ہے، یہ گلی، محلوں، سڑکوں پہ نکل کر مظاہرے نہیں کرتے.
جب انہوں نے اسلام کو صفحہء ہستی سے مٹانے کی کوشش شروع کی، تو اپنے دشمن تک کو اپنا بھائی بنا لیا، اور آج یہ مسلمانوں کے درمیان اس متحدانہ زاویے سے کام کر رہے ہیں کہ ہمیں خبر تک نہیں, اور ہمارے دشمن نت نئے انداز سے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں،
کبھی یہ آزادیء اظہارِ رائے کا چورن مارکیٹ میں لاتے ہیں، تو کبھی انسان کی آزاد خیالی کے نام پر کیچپ کے پیکٹ فری میں خیرات کرتے ہیں، کبھی یہ سیکولر ازم کے نام پر لادین بنانے کا زنگربرگر کھلاتے ہیں تو کبھی لبرل ازم کے نام پر بروسٹ بنا کر لٹاتے ہیں۔۔۔۔۔
جب مسلمان دشمنوں کی تیار کردہ بظاہر خوش ذائقہ اشیاء کا استعمال کرتا ہے جو عام مسلمان کو اچھی لگنے لگتی ہیں، مگر کچھ عرصہ بعد ان اشیاء کے استعمال کا نقصان جب ظاہر ہوتا ہے تو وہ مسلمان سیکولرازم، یا لبرل ازم کے ہاتھوں برباد ہو کر یا تو لادین ہو جاتا ہے یا پھر اسلام سے بیزار ہو کر بے حیا بن جاتا ہے،
اور آج یہ دشمن ہمارے بیچ اسی طرح کا کاروبار کر کے اسلام کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں کہ یہ ہمارے ایمان کے ساتھ کیسا کھلواڑ کر رہے ہیں،
جب مسلمان ان کے جال میں کسنا شروع ہوتا ہے تو یہود و نصاریٰ مسلمانوں کا ایمان چیک کرنے کے لئے ایک ٹیسٹ کرتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ آیا ہماری تیار کردہ اشیاء اپنا اثر دکھا رہی ہیں یا نہیں ،
یہ شیطان صفت دشمن سرعام "ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم" کی شان مبارک میں گستاخی کا بلاسٹ کرتے ہیں، اور کھل کر سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر حملہ کرتے ہیں،
جو مسلمان ان کے ہاتھوں میں نہیں آئے ہوتے وہ غیرت مندانہ جراءت کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ اس گستاخی کے خلاف متحد ہو کر احتجاج کرتے ہیں، جس سے یہ دشمن اپنے ٹارگٹ کو جان لیتے ہیں، اور سمجھ جاتے ہیں کہ ہماری تیار کردہ اشیاء کہاں تک اثر کرچکی ہیں اور کن کن افراد یا ممالک کو اپنے سحر میں لے چکی ہیں،
اور جو مسلمان ان کی تیارکردہ اشیاء کے عادی ہو جاتے ہیں تو وہ جناب والا سیکولرازم یا لبرل ازم کے نام پر ان دشمنوں کی گستاخی کو بھی آزادئ اظہارِ رائے کا بہانہ بنا کر میڈیا پر پیش کرتے ہیں ، اور میڈیا پر اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف زبانیں نکالتے نظر آتے ہیں،اور وہ اسلام اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونے والی سازشیوں کا بھی دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں،
آج ہم یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں اسی احتجاج کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، ایک طرف وہ اسلام کے خلاف صدیوں سے متحد ہو کر سازشیں کرنے میں کامیاب ہوتے جاریے ہیں تو دوسری جانب ہم مسلمان آپس میں ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر اتحاد بین المسلمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں،
آج ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم سب مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہوتی جو دشمنان اسلام کے خلاف صرف احتجاج یا مظاہرہ نہ کرے بلکہ اپنے علم و عمل سے اسلام مخالف عناصر اور گستاخانِ رسول کے لئے چلتا پھرتا احتجاج ہو، اس جماعت کے نزدیک ہر قوم ہر نسل کے لوگ قریب آتے جائیں، حتی کے ان کا علم و عمل،اور اخلاق ایسا جامع ہو کہ دشمن بھی ان کے پاس بیٹھنے کو تیار ہو جائے، اس طرح یہ جماعت اسلام کے بداندیشوں کے بیچ رہتے ہوئے بھی اسلام کا دفاع کرنے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ اور شان عظیمہ بلند کرنے میں کامیاب ہو جائے،اور اغیار کی ہر کارروائی کا جواب اس جماعت کے عمل سے ثابت ہو جائے۔۔۔
تو جناب والا!!
آج اس پر فتن دور میں اللہ نے اسلام اور ناموس رسالت کے دفاع کے لئے امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری مدظلہ العالی کی ذات پاک کا انتخاب فرمایا، قبلہ سیدی امیر اہل سنت نے دعوت اسلامی کی بنیاد رکھ کر ہمیں دفاع اسلام و ناموس رسالت کی فوج عطا فرمائی، جس میں ہر نسل ہر قوم اور ہر ملک کے مسلمانوں کو بلاامتیاز بھرتی کیا گیا، انہیں سنتوں کا چلتا پھرتا آئینہ دار بنایا گیا، اور یوں دعوت اسلامی کا تیار کردہ سپاہی اسلام اور ناموس رسالت کی خاطر اغیار کے لئے چلتا پھرتا احتجاج بن گیا،
امیر اہل سنت کے مخلصانہ کردار اور ذمہ داری نے عالمی طور پر اسلام کے بداندیشوں کے خلاف علمی و عملی وہ احتجاجی طوفان بپا کیا کہ آج دشمن کی ہر کارروائی کا جواب بخوبی ان ہی کے انداز میں انہیں دیا جا رہا ہے، اس طرح امیر اہل سنت شب و روز اسلام اور ناموس رسالت کی حفاظت فرما رہے ہیں،
کچھ نادان لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جناب والا مولانا الیاس قادری مظاہروں اور احتجاجوں میں کیوں نہیں آتے؟
کیوں دعوت اسلامی والے دھرنوں میں شرکت نہیں کرتے؟
دنیا گستاخان رسول کے خلاف سراپا احتجاج ہوتی ہے تو مولانا الیاس قادری مدنی چینل پر بیٹھے ہوتے ہیں،؟
بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اس طرح کی باتیں عام کر کے ایک سیدھے سادھے مسلمان کو دعوت اسلامی سے باغی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔
میرے دوستو!!
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آج اگر کوئی معاندین اسلام کے خلاف ہر گھڑی علمی و عملی احتجاجی کاروائی میں مصروف ہے تو وہ "دعوت اسلامی" ہے جو مخاصمین اسلام کو نقصان میں ڈال کر انہیں سازشیوں سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے،
تو میرے عزیزو!!
اس طرح کے جعل سازوں سے دور رہیں، دعوت اسلامی بظاہر ریلیوں، جلسوں، گلیوں، محلوں میں گستاخ رسول کے خلاف نہ مظاہرے کرتی ہے نہ احتجاج ، لیکن اس بات کا مطلب یہ تو نہیں کہ دعوت اسلامی عاشقان رسول کی جماعت نہیں۔ ۔؟
ارے دعوت اسلامی دشمنوں کے بیچ رہ کر ایسی عالمی کارروائی کر رہی ہے کہ انہیں معلوم تک نہیں، آج گستاخ رسول جس قدر گستاخی میں جلدی کرتے ہیں دعوت اسلامی اس گستاخی کا علمی و عملی جواب اس سے زیادہ جلدی دیتی یے،
دعوت اسلامی نے دنیا بھر میں ہزاروں مدارس و جامعات اسلامیہ بنائے، جن سے ہزاروں، حفاظ،علماء، مفتیانِ کرام پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے جو دین کی حفاظت کرنے اور جہالت کا سدباب کرنے میں مشغول ہیں، کیا دعوت اسلامی کا یہ عمل اغیار کے خلاف احتجاج نہیں؟
دنیا بھر میں مساجد بنائی جارہی ہیں.صرف پاکستان میں ہر سال چار سو کے قریب مساجد دعوتِ اسلامی بنا رہی ہے. دنیا بھر کے لوگوں کے لئے اسلام کی درست تعلیم اور نظریےکی فراہمی کی خاطر مختلف زبانوں میں کتب و رسائل کی نشرواشاعت کا سلسلہ جاری ہے، کیا دعوت اسلامی کا یہ عمل اسلام کے حریفوں کے خلاف احتجاج نہیں۔۔۔؟
میڈیا کی بڑھتی یلغار جو معاشرے میں بے حیائی کا ناسور بنتی جارہی تھی، جس میں اسلام کے نام پر جہالت فروغ پانے لگی تھی، آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر اسلام کے خلاف گورکھ دھندا بڑھتا جارہا تھا، تو دعوت اسلامی نے عالمی طور پر اسلام کی درست عکاسی کرنے کے لیے الیکڑونک میڈیا کی دنیا میں "مدنی چینل" کا افتتاح کیا، جس نے عالمی طور پر بہت جلد شہرت حاصل کی اور دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا پیغام پہنچا دیا، اور اس طرح دعوت اسلامی اسلام کے خلاف الیکڑونک پاور استعمال کرنے والوں کے لئے ایک اور نیا علمی و عملی احتجاج کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔۔ تو جناب!!
کیا دعوت اسلامی کا مدنی چینل کا انعقاد دشمنانِ اسلام کے خلاف احتجاج نہیں؟؟؟
بات کو طول دینے سے بچتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ابھی دعوت اسلامی کے صرف چند شعبہ جات کا ذکر کیا ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ دعوت اسلامی بھی اغیار کے خلاف احتجاج میں آگے آگے ہے، ورنہ دعوت اسلامی ہر اس محاذ پر احیاء سنت کا جزبہ لئے کام کر رہی ہے جس کا احاطہ اس تحریر میں کرنا مشکل امر ہے،
لہذا دعوت اسلامی کو اپنا کام کرنے دیا جائے، دعوت اسلامی جس انداز میں فروغ دین و سنت کے لئے کام کر رہی ہے واللہ شاید ہی دنیا کی کوئی تنظیم یا جماعت کر رہی ہو،
ہو سکتا ہے میری یہ بات بھی کچھ افرادکو سمجھ میں نہ آئے مگر جب دشمنان اسلام کے بارے میں سوچیں گے اور ان کے خلاف دعوت اسلامی کی سرگرمیوں کا صدق دل سے جائزہ لیں گے تو میری بات ضرور سمجھ میں آجائے گی،
آج ہم اتحاد سے عاری ہیں مگر دعوت اسلامی نے ہمیں متحد کیا ہوا ہے، یہ سیاسی سرگرمیوں میں نہیں ہے ، مگر عالمی طور پر اسلام اور ناموس رسالت کے لئے بہترین ڈھال بنی ہوئی ہے،لہذا جو لوگ اس کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ہمیں ان سے دور رہنا چاہئے، اور ہمیں شب و روز اپنے علماء کرام خاص کر امیر دعوت اسلامی اور ہر تنظیم و جماعت اہل سنت کی حفاظت کے لئے دعا گو رہنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تمام تنظیمات اہل سنت بشمول دعوت اسلامی کو شاد و آباد رکھے۔۔۔آمین
کاش کہ دل میں اتر جائے میری بات!!
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔