ماتم شیعہ علماء کی نظر میں زیر نظر مضمون ایک شیعہ عالم کا ہے ہم من و عن پیش کر رہے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مترجم:عبدالحسین کشمیری
خونی ماتم کے حوالے سے امام خامنہ ای کے فتوی پر عمل کرنے پر علماء کی تلقین
ابنا فارسی نے پیش لفظ یوں(یہ اسکا ترجمہ ہے) لکھا تھا:
عزاداری اور ماتم کے مراسم میں قمہ زنی کرنا ، تالوں اور زنجیروں سے جکڑنا، سر اور سینے کو خون آلود کرنا ، زیارت میں سینہ خیز چلنا اور اس قسم کے طریقوں پر مبنی عزاداری کرنا بے شک اسلام اور بالخصوص اپنے مذہب کی اہانت کا سبب بن جاتے ہیں خاص کر موجودہ دور میں جس میں مسلمانوں کے کردار اور رفتار کا باریک بینی کے ساتھ تحقیق کیا جاتا ہے اور اس پر اسلام کے بارے میں قضاوت کی جاتی ہے ۔ اسلئے مقام معظم رھبری دامت برکاتہ نے امت اسلامی کو ارشاد کرتے ہوئے اس قسم کے مسائل کے بارے میں حکم فرمایا کہ ایسا کام مذھب کی توہین ہے اسے ترک کیا جانا چاہئے اور کئ بار قمہ زنی ترک کرنے اور حسینی مجلس میں خرافات کو ترک کرنے کی تاکید کرتے رہے اور سال ۱۳۸۸ ہجری شمسی(مطابق۲۰۰۹م)مبلغوں کے ملاقات کے دوران آپ نے اس موضوع پر ایک بار پھر تاکید فرمائی ہے ۔ اب چونکہ تاسوعا اور عاشورا نزدیک ہے جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے معظم فقہا کی نظر کا بھی دورہ کرتے ہیں ۔ حوزہ علمیہ قم کے چند فاضل طالبعلموں نے مقام معظم رھبری کے بیانات کے سلسلے میں خط کے ذریعہ بعض علما اور جامعہ مدرسین کے ارکان سے استفتا کیا ہوا تھا ، انہوں نے اپنی نظرات کو بشرح ذیل اعلان کیا ۔ آج یاد دہانی کے لئے اور ہر قسم کے خرافات سے پرہیز کرنے کے لئے اور دشمن کے ہاتھوں بہانہ نہ دینے کے غرض سے اسکا گرداں کرتے ہیں۔
حضرت آیت اﷲسیستانی کا فتوی:
حضرت آیت اﷲ العظمی سیستانی مدظلہ العالی کی خدمت میں امام خامنہ ای کی طرف سے عزاداری کے حوالے سے صادر کئے گئے مذکورہ احکامات کے دائرہ کار سے متعلق سوال کیا اور وہاں سے جواب آیا کہ <<حضرت آیت اللہ سیستانی کے مطابق معاشرے کے نظم کے حوالے سے فقیہ عادل مقبول کا حکم تمام مؤمنین کے ساتھ ساتھ باقی مجتہدین پر بھی نافذ العمل ہے >>۔
معظم لہ کا جواب موصول ہونے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ اس میں تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور کہنے والے خود کو حضرت آیت اﷲ العظمی سید علی سیستانی مدظلہ العالی کے مقلد ظاہر کرتے تھے ۔ اور میں نے اس بارے میں ان کے دفتر کے ساتھ مکاتبہ کیا اور وہاں سے تحریری جواب موصول ہوا کہ <<تکلیف شرعی صرف مجتہد بیان کر سکتا ہے اور جو خود مجتہد نہ ہو اس کا فتوی دینا حرام ہے اور اسکے کہے پر عمل کرنا بھی حرام ہے>> ۔
آيت اللہ سید جعفر کریمی
حضرت سید الشہداء علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کے نام کی عزاداری قائم کرنا اللہ کی بارگاہ میں اعظم قربات میں سے ہے ، لیکن مذکورہ کاموں کا عزاداری کے نام پر عزاداری کے عنوان سے کسی قسم کا اشارہ اور تائيد نہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور نہ انکے حواری اور اصحاب سے پہنچی ہے اور ماضی کے فقہاء عظام امامیہ کے درمیاں اس کا کوئی سابقہ نہیں ملتا اور دور حاضر میں ایسا کرنا مذہب کی اہانت ہے ۔ عوام کی نظروں میں فرقہ ناجیہ اثنا عشریہ کو خرافاتی فرقہ ہونے کی تہمت دی جاتی ہے ۔ کسی بھی حال میں اس کام کا کوئی شرعی جواز نہیں بنتا۔ اس کے علاوہ مقام معظم رھبری حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العای کی فقیہانہ نظر کو دیکھتے ہوئے جو انہوں نے اس سلسلے میں ارشاد فرمائی ہے عزاداری کے نام پر ایسا کرنا شرعا حرام ہے اور اس سلسلے میں ولی امر مسلمین کے حکم کی مخالفت کرنا امام زماں علیہ السلام کے کی مخالفت کرنا ہے ۔
سید جعفر کریمی ۔ ۷ محرم الحرام ۱۴۱۵
آیت اللہ ابراھیم امینی
اس کے باوجود کہ مذکورہ امور کی شرعی حیثیت ثابت نہیں ہے اور موجودہ حالات میں اس سےشیعہ مذھب کی توہین ہوتی ہے ۔ امام حسین (ع) کے عزاداروں پر ایسے کاموں سےدوری اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ مقام معظم رھبری دامت برکاتہ نے ایسا کر نےسے منع کیا ہے ان کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔
ابراھیم امینی ۔ ۲۷/۳/۷۳ مطابق ۱۹۹۴
حضرت آیت اللہ سید محمد ابطحی
عزاداری سید مظلومان کو قائم کرنا افضل طاعات میں سے ہے اور جن کاموں سے مذھب کی اہانت ہوتی ہے اس سے دوری کرنی چاہئے اور جو کچھ ولی فقیہ نے حکم دیا ہے اس کی پیروی کرنا واجب ہے ۔
سید محمد ابطحی
آيت اللہ سید محسن خرازی
فوق الذکر کاموں میں ولی فقیہ اور اسلامی حاکم کی پیروی کرنا ضروری اور واجب ہے۔
سید محسن خرازی۔ ۷ محرم الحرام ۱۴۱۵
آیت اللہ سید مھدی الحسینی الروحانی ۔ علی احمدی
چونکہ شیعوں اور اھل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے اعمال توجہ کا مرکز رہتا ہے اور مذکورہ امور مذہب کی اہانت کا سبب بنتے ہیں ، اس سے بلکل دوری کرنی چاہئے اس کے علاوہ ولی امر مسلمین نے ایسا کام کرنے سے منع فرمایا ہے اور انکی اطاعت کرنا واجب ہے ۔
محمدی الحسینی الروحانی ۔ علی ۔ ۷محرم ۱۴۱۵
آیت اللہ محمد یزدی
کسی بھی شک و تردید کے بغیر سوال میں مذکورات اور اس قبیل کے امور بدعت کا حصہ اور مذھب کی اہانت ہے اور ولی امر مسلمین کے حکم کی اطاعت کرنا سبھوں پر لازم ہے اور مخالفت کرنا معصیت اور گناہ اور خلاف ورزی کرنے ولا سزا کا مستحق ہو گا ۔
محمد یزدی ۔ ۷ محرم الحرام ۱۴۱۵۔ ۲۷/۳/۱۳۷۳ ۔ مطابق ۱۹۹۴
آیت اللہ حسن تہرانی
موجودہ حالات میں مذکورہ امور شیعہ مذہب کی اہانت کا سبب ہے جایز نہیں ہے ، اس کے علاوہ مقام معظم رھبری کے حکم کی اطاعت کرنا لازم الامتثال ہے ۔
حسن تہرانی ۔ ۷ محرم الحرام۱۴۱۵
آیت اللہ محسن حرم پناہی
ولی فقیہ کے احکام کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔
محسن حرم پناہی ۔ ۷ محرم الحرام ۱۴۱۵
آیت اللہ محمد مومن
ولی فقیہ کے احکام کی اطاعت کرنا واجب ہے۔
محمد مومن ۔۲۷/۳/۷۳۔ مطابق ۱۹۹۴
آیت اللہ احمد آذری قمی
جو کچھ معظم لہ (امام خامنہ ای) نے مذہب کی اہانت کیلئے تشخیص دیا ہے اور سوال میں اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ولی فقیہ کے حکم کے عنوان سے حرام ہے اور مقام معظم رھبری کے حکم کی مخالفت کرنا گناہ کبیرہ اور مقدس اسلامی حکومت کی کمزوری کا سبب ہے اور اس سلسلے میں کی گئ کسی قسم کی نذر کو ادا کرنا واجب نہیں بلکہ حرام ہے ۔
احمد آذری قمی ۔ ۲۷/۳/۷۳۔ مطابق ۱۹۹۴
آیت اللہ علی مشکینی
بعد التسلیم و التحیہ ، مذکورہ امور بذات خود اسلامی شریعت میں مورد اشکال ہیں اور جبکہ ان میں سے تو بعض ذاتی طور حرام ہیں مسلمانوں کو چاہئے ایسے کاموں کو حضرت حسین علیہ الصلاۃ والسلام کی عزاداری میں جو کہ ایک عبادت ہےمیں شامل کرنے سے بلکل اجتناب کریں ، اس کے علاوہ آنحضرت کی عزاداری سیاسی عبادی کام ہے اس لئے چاہئے ایسے کاموں کو شامل کرنے سے پرہیز کریں جن سے اس کا سیاسی پہلو مخدوش ہو کر رہ جاتا ہے یا تو اور اسلام میں اہانت اور خرافات کا عنوان دیتا ہے دوری کرنی چاہئے ان میں سے جن کاموں کو انجام دینے سے مقام معظم ولایت امر مسلمین نے منع کیا ہے انہیں ترک کرنا چاہئے کیونکہ آپ کا حکم واجب الاتباع ہے خداوند ایران کے عقیدتمند ہوشیار اور سیاست فہم قوم کو الہی احکام کی تبعیت کرنے کی توفیق اور حضرت بقیۃ اللہ کی پسند کی عزاداری کرنا عنایت فرمائے ۔
علی مشکینی ۔ ۸ محرم الحرام ۱۴۱۵
آیت اللہ سید حسن طاھری
سرور و سالار شہیدان حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری قائم کرنا،اعظم قربات الی اللہ میں سے ہے اورمذہب کی بڑی علامتوں اور مکتب اھل بیت کی بقا کی بنیاد میں سے ہےلیکن موجودہ حالات میں عالمی استکبار کا اسلام خاص کر مذھب تشیع کے خلاف تبلیغات کو دیکھتے ہوئے فوق الذکر امور سے مذہب کی اہانت ہوتی ہے اور ایسا کرنے سے دوری کرنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ ولی فقیہ اور رھبر معظم جن مسائل کے بارے میں حکم فرماتے ہیں انکی اطاعت کرنا واجب ہے اور مذکورہ کاموں کے بارے میں آپ (امام خامنہ ای) نے منع کیا ہے اس لئے ایسا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔
سید حسن طاہری ۔ ۷ محرم الحرام ۱۴۱۵
آیت اللہ رضا استادی
مقام معظم رھبری دامت برکاتہ کے بیانات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کے چاہنے والوں کو عزاداری میں ایسا طریقہ اپنانا چاہئے جن سے شعائراللہ کی تعظیم کی جائے اور ایسے کاموں کو کہ جنہیں آپ (امام خامنہ ای)نے مذھب کی اہانت بتایا ہے بلکل دوری کرنی چاہئے ۔ امید ہے کہ ہم سبھی حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے لطف و عنایت میں رہیں ۔
رضا استادی ۔ ۸ محرم ۱۴۱۵
آیت اللہ حسین مظاہر
چونکہ مقام معظم رھبری نے فرمایا ہے کہ عزاداری میں تالوں کا باندھنا ، قمہ زنی کرنا وغیرہ نہیں ہونا چاہئے ،انکے حکم کی پیروی کرنا سبھی پر واجب ہے ۔
حوزہ علمیہ قم۔ حسین مظاہری ۔ ۶محرم الحرام ۱۴۱۵
آیت اللہ راستی کاشانی
حضرت ابی عبداللہ الحسین سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری قائم کرنا افضل قربات الی اللہ تعالی میں سے ہے اور اسلام کے تجدید حیات اور ایمان کا سبب ہے مومنین کے لئے ضروری ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ عظمت کے ساتھ قائم کیا جائے اور ہر اس کام سے دوری کرنا چاہئے جس سے اسلام کی اہانت اور اسلام دشمن عنصر کے لئے بہانہ ہو اور آج چونکہ اسلام کے حاکمیت کا دور ہے اور انقلاب اسلام کے عظیم الشان رھبر ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ خامنہ ای دام ظلہ العالی نے قمہ زنی اور بدن پر تالے چڑھانے وغیرہ سے منع فرمایا ہے اور رھبر کی پیروی کرنا سبھی مومنین پر واجب ہے۔ ایسے کاموں سے دوری کریں اور رھبر کی پیروی کرتے ہوئے متحد رہ کر اسلام دشمن عناصر کو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے سے نا امید کریں ۔ خداوند متعال اھل بیت علیہم السلام کے سبھی عزاداروں کومقام ولایت کے سایے میں قرار دے ۔
حسین راستی کاشانی
آیت اللہ محمد فاضل
ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد اسلام اور تشیع کے نسبت دنیا بھر میں بڑھتے رجحان اور اسلامی ایران کا عالم اسلام کا ام القرای کی پہچان بن جانے اور ایرانیوں کے اعمال اور رفتار کو مثالی کردار اور اسلامی نمونہ کے طور پر دیکھنے کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سالار شہیدان حضرت ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام کی ماتمداری اور عزاداری میں ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے آنحضرت کے مقاصد کے نسبت زیادہ کشش اور محبت پیدا ہو جائے ، یہ بات واضح ہے کہ ان شرایط میں قمہ زنی کرنا نہ صرف ایسا کوئی مقصد پورا نہیں کرتا بلکہ غیر قابل قبول ہونے کے سبب اور کسی قسم کی دلیل نہ ہونے کے سبب اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مکتب امام حسین علیہ السلام کے شیعہ حضرات ایسا کرنے سے دوری اختیار کریں ، اور اگر اس سلسلے میں کسی قسم کی نذر رکھی ہو وہ صحیح اور قابل عمل نہیں ہے ۔
محمد فاضل ۔۴ محرم الحرام ۱۴۱۵
آيت اللہ عباس محفوظی
حسین بن علی علیہ السلام کی عزاداری قائم کرنا افضل طاعات میں سے ہے ، جس کام سے اہانت ہو اس سے دوری کرنا چاہئے اور ولی امر مسلمین کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
محمد عباس محفوظی
آیت اللہ جوادی آملی
جو کام اسلام کی اہانت اور عزاداری کے بے احترامی کا سبب ہے ( وہ کام )جایز نہیں ہے ، امید ہے کہ قمہ زنی اور ایسے کام کرنے سے دوری کی جائے ۔ جواد آملی ۔ ۴ محرم الحرام ۱۴۱۵
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔