Pages

Wednesday, 5 October 2016

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مختصر مضمون ضرور پڑھیئے

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مختصر مضمون ضرور پڑھیئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(١) فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ (النساء ٦٥) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں۔ اس آیت مبارکہ میں حاکمیت مصطفی کا بیان کیا ہے۔ کیا بے اختیار شخص کو حاکم و فیصل بنایا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں طالبان نے حکومتی کمیٹی کو پہلے فیصل ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ کمیٹی بے اختیار ہے۔ (٢) وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا۔ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔ مذکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لیئےیہ ضروری ہے کہ نبی پاک جو بھی حکم فرما دیں اس پر دل وجان سے عمل کیا جائےاور آپ کے سامنے کسی مسلم کو انکار کا کوئی اخیار حاصل نہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ بے اختیار کا حکم چہ دارد ؟ (٣) وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں یہ بات واضح ہے کہ آقا کریم کو کسی چیز کو حلال اور حرام قرار دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ (٤) قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ (التوبہ ٢٩) جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو۔ اب جہاں بھی الله نے اپنا ذکر بیا ن کیا ہے ساتھ ہی اپنے حبیب کا بھی اختیار کیا ہے۔ اگر شرک ہوتا تو خالق کائنات اپنے ساتھ یوں متصل ذکر نہ کرتا۔ قرآن، آذان کیا جہاں بھی دیکھو اے ایمان والو ۔ پس ذکر حق ہے ذکر مصطفی کا۔ قرآن کی بے شمار آیات اس مضمون کے حوالے سے نقل کی جا سکتی ہیں طوالت کے خوف سے چند احادیث بیان کر کے مضمون کو سمیٹتا ہوں۔ نماز دین کےستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے۔ اور فرض ہے پوری دنیا کے قاضی و مفتیان کرام مل کر بھی کسی کو ایک نماز معاف نہیں کر سکتے مگر ذرا آنکھوں سے تعصب اور مسلکی عینک کو اتار کر غور فرمائیں کہ آمنہ کے لال میرے آقا و مولا حضرت محمد صل الله علیہ وسلم نے الله کے دیے ہوئے اختیار سے ایک شخص کو تین نمازیں معاف فرما دیں اور نہ جانے اور اختیار کس چیز کا نام ہے ؟ یہ ایک طویل حدیث ہے دوبارہ کالم کی تنگی ء داماں کی وجہ سے صرف حوالہ و ریفرنس نقل کر کے آگے بڑھتا ہوں ۔ ابو داؤد شریف کتاب الصلوت جلد ا ، صفحہ ٦٧۔ نوحہ کرنا سخت منع ہے اور رسول الله صل الله علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے وقت خاص طور پر نوحہ نہ کرنے کی بھی بیعت لیا کرتے تھے لیکن آپ نے ام عطیہ کو ایک قبیلے پر نوحہ کرنے کی اجازت مرحم فرمائی حوالے کےلیے ملاحظہ فرمائیں مسلم شریف کتاب الجنائز ج ١ ص ٣٠٤ ۔۔۔۔۔ حضرت جابر بن عبدالله بیان کرتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسل الله صل الله علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے نہیں فرمایا ہو ( بخاری کتاب الآداب ج ٢ ص ٨٩١)۔ احادیث سے یہ واضع ہے کہ الله نے اپنے حبیب صل الله علیہ وسلم کو مالک و مختار بنا کر بھیجا۔ حضرت ابو ہریرہ نے آقا صل الله علیہ وسلم سے قوت حافظہ مانگ لی اگر انکا عقیدہ ہوتا کہ یہ تو خالی دامن و بے اختیار ہیں تو کبھی سوال نہ کرتے ۔ مگر انھوں نے حافظہ مانگ کر اپنا عقیدہ واضع کر دیا ۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا میں نے عرض کی یارسول الله صل الله علیہ وسلم میں آپ سے بہت سی احادیث سنتا ہوں پھر انھیں بھول جاتا ہوں ، آپ صل الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ ، آپ صل الله علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر کچھ ڈال دیا اور فرمایا اسے اپنے اوپر لپیٹ لو ، میں نے چادر کو لپیٹ لیا اس کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ۔ (بخاری کتاب المناقب ج ١ ص ٥١٤) ، ( مسلم شریف کتاب الفضا ئل ج ٢ ص ٣٠١)۔۔ اسی طرح مختار نبی سے حضرت ربیعیہ نے جنت میں رفاقت مانگ لی مکمل حدیث کے لیے دیکھو مسلم کتاب الصلوات ج ١ ص ١٩٣)۔ اور پتہ نہیں لوگوں نے کس زہریلی سوچ سے کتابوں میں لکھ دیا کہ محمد صل الله علیہ وسلم تو اپنی سگی بیٹی کو نہیں بخشوا سکتا ، شائد انکی نظر سے وہ حدیث نہیں گذری جس میں میرے آقا نے فرمایا کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔ اور حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ جب آقا نے دونوں شہزادوں کو جنتی جوانوں کا سردار فرمایا انکی عمریں کیا تھیں ؟ انھوں نے کتنے حج و عمرے کیے تھے ؟کتنے فرائض و نوافل ادا کیے تھے ؟ اب بھی سمجھ نہ آئے تو اسکا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ میرے آقا کی ملک دیکھنا چاہتے ہو تو ملاحظہ کرو ، حضور صل الله علیہ وسلم نے فرمایا اعطیت مفاتیح خزائن الارض مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ ( بخاری کتاب المغاذی ج ٢ ص ٥٨٥ ) اور امام مسلم نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے ( مسلم ج ٢ ص ٢٥٠ )۔۔ اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں ( مشکوات شریف ص ٥٢١ )۔ قارئین موت ایک اٹل حقیقت ہے اس میں کسی کو کوئی اختیار نہیں مگر انبیاء کرام وہ الله کی چنی ہوئی ہستیاں ہیں جنکو خالق کائنات نے موت وحیات میں اختیار دے رکھا تھا ۔ یہ حضرات جس وقت اور جس جگہ چاہیں انکی روح مبارک قبض کی جاتی ہے ۔ ایک طویل حدیث ہے حوالہ درج کر کے اسکی شرح بیان کر دیتا ہوں ، بخاری شریف کتاب الانبیاء ج ١ ص ٤٨٤ : امام بدرالدین عینی عمدہ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت موسی کو جب موت کا اختیار دیا گیا تو تو انھوں نے اپنے رب سے ملاقات کے شوق میں موت کو اختیار کیا ، جیسا کہ ہمارے نبی صل الله علیہ وسلم نے موت کو اختیار کرتے ہوئے فرمایا تھا الرفیق الاعلی ( عمدہ القاری شرح صحیح بخاری ج ٦ ص ٢٠٣ )۔۔۔ دلائل تو بے شمار ہیں مگر وقت کی کمی و طوالت کے ڈر سے آخری حدیث بیان کر کے ختم کرتا ہوں ۔ میں نے کوشیش کی ہے کہ اکثر احادیث بخاری و مسلم سے پیش کروں کیونکہ میرے اہلحدیث دوستوں کی عادت ہے جو بھی حدیث انکے عقیدے کے خلاف ہو اسے بغیر سوچے ضعیف کھ دیتے ہیں، خیر سمجھنے کے لیے ایک دلیل ہی کافی ہوتی ہے نہ سمجھنا ہو تو لائبریریاں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ جناب رسول الله صل الله علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ الله نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کو لے لے یا اس چیز کو جو الله کے پاس ہے ۔ صدیق اکبر رونے لگے تو ہمیں ان کے رونے پر بڑا تعجب ہوا کہ جناب رسول صل الله علیہ وسلم نے تو کسی بندے کی خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا جسے اختیار دیا گیا تھا وہ تو رسول الله ہی تھے ۔ اور حضرت ابوبکر ہم میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ ( بخاری کتاب المناقب ج ١ص ٥١٦ ) اور ( مسلم کتاب الفضائل ج ٢ ص ٢٧٢) ۔اصل میں لوگ اس سب کو توحید کے منافی سمجھتے ہیں اور بتوں کے حق میں نازل شدہ آیات کو انبیا پر چسپاں کر کے خود بھی کنفیوز ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ عبدالله ابن عباس کا فرمان ہے کہ اس سے بڑا بدبخت کوئی نہیں جو بتوں والی آیات نبیوں پر چسپاں کرتا ہے۔ بابا اپنی توحید کو تھوڑا تگڑا کرو ۔ وہ نشہ ہی کیا تلسی اتار دے جسے ۔ الله خالق ہے حضور مخلوق اور تقابل خالق و مخلوق کا ہو ہی نہیں سکتا۔ زندگی نے وفاکی تو توحید بھی بیان کروں گا اور شرک اور اس الزام کا بھی ازالہ کرنا چاہوں گا جو ہم پہ لگتا ہے کہ ہم حضور صل الله علیہ وسلم کو حد سے زیادہ بڑھاتے ہیں ۔ الزام لگانے والے قرآن و حدیث سے آقا صل الله علیہ وسلم کے مقام کی حد بندی بتا دیں ہم اس حد سے تجاوز نہیں کریں گئے ۔ ہمارے بزرگ علامہ بوصیری فرما گئے ہیں کہ حضور صل الله علیہ وسلم کو خدا نہیں کہنا اسکا بیٹا و شریک نہیں ٹھرانا باقی جو بھی شان بیان کرو گئے وہ کما کان حقہ نہیں ہوگی بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ الله نے اپنے حبیب کو شان اور مقام عطا کیا ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
علامہ محمد اقبال نے بھی آقا کو نبی مختار صلی الله علیہ وسلم کہا۔
کون ہے تارک آئین رسول مختار ؟۔ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار ؟۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔