Pages

Friday, 14 October 2016

امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ذکر اہلبیت رضی اللہ عنہم

امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ذکر اہلبیت رضی اللہ عنہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہل بیت عظام و سادات کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت، ان سے نسبت و وابستگی بلا شبہ ایک گنج گراں مایہ ہے،بیش بہا ذخیرہ ہے، صحابہ کرام نے اس نسبت کا احترام کیا، عظمت دی، سروں پر رکھا، دلوںمیں بٹھایا، مصنفین و مولفین نے جن کو موضوع سخن و عنوان باب منتخب کیا، مقررین و خطبا نے ان کی عظمتوں کو سراہا، ادبا و شعرا نے جن کی ارادت کو باعث فخر اور تو شۂ آخرت مانا، اپنے اپنے انداز میں انہیں خراج تحسین و تبریک پیش کیا، بندگان خدا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے ا نہیں وسیلہ بنایا، دعائیں کیں، التجائیں کیں، دینی محافل میں ان کے تذکرے ہوئے، ان کے محاسن و کمالات بیان کیے گئے، قرآن و حدیث میں ان کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، کیا قرآن مجید نے اعلان نہیں کیا، اللہ عزوجل نے ارشاد نہیں فرمایا؟سنو!

’’تم فرمائو میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، مگر قرابت کی محبت‘‘ (۱)

اور حضور اقدس نور مجسم سر ور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی تو ارشاد فرماتے ہیں:

’’خدا کی قسم! میری قرابت دنیا و آخرت میں پیوستہ ہے‘‘(۲)

ایک دوسری روایت میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            ’’کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ زعم کرتے ہیں کہ میری قرابت نفع نہ دے گی، ہرعلاقہ و رشتہ قیامت میں قطع ہوجائے گا ،مگر میرا رشتہ و علاقہ کہ دنیا و آخرت میںجڑا ہوا ہے‘‘(۳)

            ہر دور میں ان کی محبت و عقیدت کو دلوں میں بٹھانے کی جد و جہد ہوئی، نسبت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حصول اور اس میں استحکام و پائیداری کے لیے عابد بھی کوشاں نظر آئے، زاہد بھی، غلام بھی، آقا بھی، بادشاہ بھی، رعایا بھی، استادبھی، شاگرد بھی، پیر بھی، مرید بھی۔ در اصل یہی نسبت و قرابت دخول جناں کا سبب ہے، ذریعہ ہے، وسیلہ ہے، رسول اعظم علیہ التحیۃ و الثنا کی بارگاہ میں برگزیدگی و تقرب کا موثر اور قابل اعتماد واسطہ ہے، خوب صورت ہتھیار ہے، جبھی تو کہنا پڑا، ماننا پڑا، اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا   ؎

لے کے جائے گی جناں میں پاک نسبت آپ کی

کہہ رہی ہے خود غلاموں سے یہ جنت آپ کی

            شاعر نے یہ بات دلیل کے بغیر نہ کہی، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود  ارشاد فرمایا اور اہل بیت اطہار کی نسبت والفت کو واشگاف کیا :

            ’’ہم اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ تعالیٰ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں جائے گا‘‘(۴)

            چودہویں صدی کے مجدد اعظم، امام اہل سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی علیہ الرحمۃ و الرضوان واقعی سچے عاشق رسول تھے، مومن کامل تھے، محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کومعمولی ٹھیس پہنچے،جان ایمان کو ذرہ برابر ضرب لگے، وہ ایمان و ایقان کے لیے زہر قاتل ہے، ضرر رساں ہے۔

            امام احمد رضا قدس سرہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں ادنیٰ گستاخی ناقابل برداشت تھی، جس کا علمی مظاہرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب و رسائل و فتاویٰ و خطوط و مکتوبات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔

            امام احمد رضا قدس سرہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک نسبت و ارادت کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی معراج جانا، حیات سرمدی کا عظیم سرمایہ تسلیم کیا، اعلان کیا، پھیلایا، لوگوں کو بتایا، سمجھایا، جبھی تو سب پکار اٹھے   ؎

ڈال دی قلب میں عظمت مصطفی

سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام

            امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنے ملفوظ وصایا میں ارشاد فرمایا:

’’جس سے اللہ و رسول کی شان میں ادنیٰ توہین پائو پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیار کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جائو، جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینک دو‘‘(۵)

            امام احمد رضا قادری برکاتی کو اہل بیت و سادات سے بڑی محبت تھی، عقیدت تھی، لگائو تھا، ان کی جوتیوں کو اپنے سر کا تاج سمجھتے تھے، ان کی دل جوئی کو باعث فخر و ایمان کا لازمہ گردانتے، ان کی محبت کو شفاعت کا ذریعہ تسلیم کرتے تھے، کیا انہوں نے نہیں فرمایا:

            ’’یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالیٰ حضرات سادات کرام کا ادنی غلام و خاک پا ہے، ان کی محبت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے ،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سید اگر بدمذہب بھی ہو جائے اس کی تعظیم نہیں جاتی ،جب تک بدمذہبی حد کفر تک نہ پہونچے ۔ہاں بعد کفر سیادت نہیں رہتی ،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے اور یہ بھی فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں ،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ۔ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ،نہ سیادت کی سند مانگنے کاہم کو حکم دیا گیا ہے اور خواہی نہ خواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو برا کہنا ،مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں ‘‘(۶)

            اپنے فتاویٰ میں متعدد مقامات پر سادات کرام کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی، حکم دیا اور ان کی ناقدری کو حرام قرار دیا، اپنے ایک فتویٰ میں یوں رقم طراز ہیں:

            ’’سادات کرام کی تعظیم فرض ہے‘‘(۷)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

            ’’سنی سید کی بے توقیری سخت حرام ہے اور اس میں شک نہیں کہ جو سید کی تحقیر بوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافر ہے‘‘(۸)

            امام احمد رضا قدس سرہ شاعری میں امام، اقلیم سخن کے تاج دار نظر آتے ہیں، تحدیث نعمت کے بطور جبھی تو ارشاد فرمایا:

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم

جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں(۹)

            نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ حمد، منقبت، رباعی وغیرہا اصناف سخن میں خامہ فرسائی کی اور خوب لکھا، اپنے قصیدۂ سلامیہ کے اندر سیرت رسول، سراپائے رسول کا اس انداز سے نقشہ کھینچا کہ دل باغ باغ ہو جاتا ہے، مولانا کوثرؔ نیازی نے جس کے بارے میں کہا:

            ’’میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ تمام زبانوںاور زمانوں کا پورا نعتیہ کلام ایک طرف اور شاہ احمد رضا کا سلام ’’مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ ایک طرف، دونوںکو ایک ترازو میں رکھا جائے تو احمد رضا کے سلام کا پلڑا پھر بھی جھکا رہے گا‘‘(۱۰)

            حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل بیت اطہار و سادات کرام کی شان والا صفات میں بڑے اچھے انداز و اسلوب میں گلہائے عقیدت پیش کیا، انوکھے لب و لہجے میں ان کا ذکر جمیل کیا، ارشاد فرماتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا (۱۱)

            امام احمد رضا قدس سرہ کو سادات کرام سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی، آپ کا دل حب اہل بیت سے سرشار رہتا، اپنے اشعار میںبے شمار جگہوں پر ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ فرمایا۔

            نبی محترم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی لخت جگر،نور نظر خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی عظمت و بزرگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جن کے مقام و مرتبہ کو ناپا نہیں جا سکتا، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا:

            ’’ان کا نام فاطمہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرما دیا‘‘(۱۲)

            دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:

             ’’اللہ عزوجل نے اس کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اسے اور اس سے محبت کرنے والوں کو آتش دوزخ سے آزاد فرما دیا‘‘(۱۳)

            امام احمد رضا نے آپ کی شان اقدس میں یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا:

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام (۱۴)

سیدہ ، زاہرہ ، طیبہ ، طاہرہ

جان احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام (۱۵)

            اسی طرح اور کئی اشعار آپ کے مناقب میں پیش فرمائے، طوالت کے خوف سے بطور نمونہ دو پر اکتفا کیا گیا ، مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت کیا کہنا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            ’’اے علی! سب سے پہلے وہ چار کہ جنت میں داخل ہوں گے میں ہوں اور تم اور حسن و حسین اور ہماری ذریت ہماری پس پشت ہوگی‘‘ (۱۶)

            حضرت علی مرتضیٰ کو حسنین کریمین کے والد ہونے، جگر گوشۂ بتول کا خاوند ہونے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے، شجاعت و بہادری میں آپ کی مثال پیش کی جاتی ہے، آپ کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            ’’حضرت علی کے مقابل کوئی جوان نہیں اور ان کی تلوار ذوالفقار کے سامنے کوئی تلوار نہیں‘‘(۱۷)

            مولائے کائنات کی شان عالی میں امام اہل سنت یوں لب کشائی فرماتے ہیں   ؎

مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعیں

ساقی شیر وشربت پہ لاکھوں سلام (۱۸)

اصل نسل صفا ، وجہ وصل خدا

باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام (۱۹)

امام احمد رضا نہایت عجز و انکسار کے ساتھ اہل بیت کی شان میں مدح سرائی کرتے ہیں   ؎

پارہ ہائے صحف غنچہ ہائے قدس

اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام(۲۰)

آب تطہیر سے جس میں پورے جمے

اس ریاض نجابت پہ لاکھوں سلام(۲۱)

            جنتی جوانوں کے سردار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فضائل و مناقب میں بے شمار اقوال رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم موجود ہیں، ارشاد رسالت ہے:

’’حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے افضل ہیں‘‘(۲۲)

مزید فرماتے ہیں ’’حسن و حسین دونوں میرے دنیاوی پھول ہیں‘‘(۲۳)

            امام احمد رضا قدس سرہ نے احادیث کی ترجمانی کرتے ہوئے کس خوب صورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا اور میدان حشر میں ان کا صدقہ مانگا، فرماتے ہیں   ؎

ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں

کیجئے رضاؔ کو حشر میں خنداں مثال گل(۲۴)

کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی

زہراہے کلی جس میں حسین اورحسن پھول (۲۵)

            ان کے علاوہ الگ الگ کئی مقام پر شہید کربلا امام حسین اور حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جناب میں نذرانۂ عقیدت نچھاور کیا اور ان پر سلام کا گلدستہ پیش کیا۔

            فخر السادات حضور غوث اعظم سید شاہ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں آپ نے کئی منقبتیں تحریر فرمائیں، کئی قصائد لکھے، ہاشمی گھرانے کے ا س عظیم چشم و چراغ سے التجائیں کیں، استعانت و استمداد کی، ارقام فرماتے ہیں   ؎

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا(۲۶)

اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے

حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا(۲۷)

نسبت قادری پر آپ کو بے حد ناز تھا، جبھی تو ارشاد فرماتے ہیں:

قادری کر، قادری رکھ، قادریوں میں اٹھا

قدر عبدالقادر قدرت نما کے واسطے(۲۸)

            قصیدہ سلامیہ میں بھی حضور غوث کا ذکر جمیل کیا اور سلام محبت پیش فرمایا۔ مارہرہ مقدسہ کے بزرگ سادات، اپنے آقائوں کی بارگاہ میں، پیر و مرشد کی جناب میں قصیدہ سلامیہ میں، شجرۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں خراج تحسین و محبت پیش کیا، فرماتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں عرض گزار ہیں:

دوجہاں میں خادم آل رسول اللہ کر

حضرت آل رسول مقتدیٰ کے واسطے

کیسے آقائوں کا بندہ ہوں رضاؔ

بول بالے میرے سرکاروں کے

            کلام رضاؔ میں ذکر سادات،اور احترام سادات کے جابجا نمونے ملتے ہیں، چند کا یہاں تذکرہ کیا گیا،قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

٭٭٭

مأ خذ ومراجع

            (۱)القرآن الکریم ، شوریٰ ۴۲، آیت ۲۳

            (۲)امام احمد بن حنبل ،مسند احمد بن حنبل، ص۱۸؍۳

            (۳) البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، ص۸۱؍۷

            (۴) امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، ص۵۹۴؍۴

            (۵)مولانا ظفرالدین رضوی ،حیات اعلیٰ حضرت، ممبئی، ص۲۸۴؍۳ 

            (۶)امام احمد رضا قادری،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ص۱۲۵؍۱۲

            (۷) امام احمد رضا قادری ،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ص۱۶۶؍۹

            (۸)امام احمد رضا قادری ،فتاویٰ رضویہ، ممبئی، ۱۳۱؍۹

            (۹)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۴۴؍۱

            (۱۰) مولانا کوثر نیازی ،امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت، ص۲۳

            (۱۱)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۱۱۴؍۲

            (۱۲) امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، ص۵۹۵؍۴

            (۱۳)امااحمد رضا قادری ،جامع الاحادیث ص۵۹۷؍۴         

            (۱۴)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۱۴۵؍۲

            (۱۵)امام احمد رضا قادری ، حدائق بخشش، دہلی، ص۱۴۵؍۲

            (۱۶)امام احمد رضا قادری ، جامع الاحادیث، ص۵۹۲؍۴

            (۱۷)امام احمد رضا قادری ،جامع الاحادیث، ص ۵۸۳؍۴

            (۱۸)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش دہلی، ص۱۴۷؍۲

            (۱۹)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۱۴۷؍۲

            (۲۰)امام احمد رضا قادری حدائق بخشش ص ۱۴۵؍۲

            (۲۱)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۱۴۵؍۲          

            (۲۲)امام ابو عیسیٰ، محمد بن عیسیٰ ،ترمذی شریف ص۲۱۸؍۲

            (۲۳)امام محمد بن اسماعیل ،بخاری شریف، ص۵۳۰؍۱

            (۲۴)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، دہلی، ص۳۳؍۱

            (۲۵)امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش، ص۳۴؍۱          

            امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص ۷؍۱(۲۶)

            امام احمد رضا قادری ، حدائق بخشش ص۸؍۱  (۲۷)

            امام احمد رضا قادری حدائق بخشش ص۶۶؍۱(۲۸)

            امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۶۷؍۱(۲۹)

            امام احمد رضا قادری ،حدائق بخشش ص۱۶۹؍۲(۳۰)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔