Pages

Monday, 10 October 2016

شیعہ ماتم قرآن اور شیعہ کتب کی روشنی میں اور جو کہتے ہیں اللہ تمام عالم آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنھم کو تفویض کردیئے ہیں ایسئ غالیوں پر لعنت ہو پڑھیئے شیعہ کتاب

شیعہ ماتم قرآن اور شیعہ کتب کی روشنی میں اور جو کہتے ہیں اللہ تمام عالم آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنھم کو تفویض کردیئے ہیں ایسئ غالیوں پر لعنت ہو پڑھیئے شیعہ کتاب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ تو ہے ان لوگوں کا حقیقی کردار، لیکن جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور خاندان ِ اہل بیت نے ان کی مسلسل غداریوں کے باعث ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تو یہ لوگ کف ِ افسوس ملنے لگے اور آج تک افسوس اور غم و اندوہ کی کیفیت ان پر طاری ہے۔ ہر سال محرم کے مہینے میں اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مجالس ِ ماتم منعقد ہوتی ہیں۔ ائمہ کے مناقب اور صحابہ پر سبّ و شتم ہوتا ہے۔ ماتمی جلوس نکلتے ہیں۔ نوحہ و زاری اور بےصبری کا مظاہرہ ہوتا ہے، حالانکہ خود ان کی اپنی کتب اس طرز عمل کی شدت سے نفی کرتی ہیں۔ آئیے اس کا مختصر سا جائزہ لیں:
مرتبہ ٔ شہادت قرآن کی رو سے:​

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ نزول قرآن کے بعد رونما ہوا ہے، اس لیے ہم سابقہ شہداء کے متعلق دیکھیں گے کہ قرآن کریم نے ان پر ماتم کو فرض، واجب یا مباح قرار دیا ہے یا اسے ممنوع ، مقبوح یا مکروہ سمجھا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153) وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ (154) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (156) أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157)﴾ [سورۃ البقرۃ: 157-153]
ان آیات کا ترجمہ ممتاز شیعہ عالم مولانا سید فرمان علی اس طرح کرتےہیں:
اے ایمان دارو! مصیبت کے وقت صبر اور نماز کے ذریعے خدا کی مدد مانگو، بےشک خدا صبر کرنے والوں ہی کا ساتھی ہے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے، انہیں کبھی مردہ نہ کہنا، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کی حقیقت کا) کچھ بھی شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے۔ اور اے رسول! ایسے صبر کرنے والوں کو کہہ دیجئے جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی، تو وہ بے ساختہ پکار اُٹھے: ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ خوشخبری دے دو کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے عنایتیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
ان آیات پر مولانا سید فرمان علی نے ہی یہ حاشیہ لکھا ہے:
”عجیب نہیں کہ ان آیتوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ جو باتیں ان میں مندرج ہیں، ان کا سچا مصداق امام حسین رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا۔“
ان آیات کے شان نزول کے متعلق مولانا فرمان علی لکھتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ﴿إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ﴾ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور یہ کلمہ سب سے پہلے اسلام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی زبان سے نکلا او رپھر صلاۃ بھیجی اور شاید اسی سے نماز میں بھی ان پر صلاۃ بھیجنا واجب کردیا۔
ان آیات کا ترجمہ و شان نزول بزبان کاشانی شیعی بھی سنیے: (تفسیر خلاصۃ المنہج ، جزو اول، پارہ دوم، مطبوعہ ایران، ص : ۸۹ کی فارسی عبارت کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ فارسی عبارت بخوف طوالت چھوڑ رہا ہوں اور یہ ترجمہ بمطابق ِ اصل ہے)
ترجمہ: اے ایمان والو! حقوق کو ٹھیک رکھنے کےلیے صبر و استقلال سے مدد چاہو جو کہ درجات کی کنجی ہے اور نماز سے مدد حاصل کرو جو کہ عبادتوں کی اصل معراج مؤمنین اور مناجات رب العالمین ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ حفاظت، مدد، تمام حالات میں رعایت کرنے ، دعاؤں کے قبول کرنے اور اطاعت کی توفیق بخشنے کے اعتبار سے صابروں کے ساتھ ہے۔ اور بعض لوگوں کے نزدیک صبر سے مراد روزہ ہے کیونکہ اس میں بھی بھوک اور پیاس پر صبر ہوتا ہے۔ایک دوسری جماعت کے نزدیک اس سے مراد کفار سے جہاد ہے، کیونکہ جہاد میں بھی مصائب وتکالیف لازمی ہوتی ہیں اور جب اللہ تعالیٰ نے صبر و صلاۃ سے استعانت کا حکم دیا ہے جو عبادات ہیں، تو عبادتوں میں جہاد بہت افضل عبادت ہے۔ اس لیے صبر سے مراد جہاد ہے۔ اسی لیے تو اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو۔ مروی ہے کہ غزوہ بدر کے بعد صحابہ نے شہیدوں کا ذکر کیا جو چھ مہاجرین اور آٹھ انصاری تھے اور بعض نے برسبیلِ حسرت یہ کہا کہ فلاں بیچارے نے تو بدر میں اپنی جان ِعزیز بھی دے دی اور دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے محروم ہوگیا، تو حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ ہمارے حضور زندہ ہیں، لیکن تم ان کی حیات کی کیفیت نہیں جانتے، کیونکہ عقل سے اس کی کیفیت کا معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہید اپنے ارواح و اجسام کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں زندہ ہیں، اور انہیں صبح و شام روزی پہنچتی ہے اور وہ اس چیز سے خوش و خرم ہیں جو اللہ انہیں دیتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شہید کو بزرگی کی چھ خصلتیں عطا فرماتا ہے: اول: یہ کہ شہید کے بدن سے جب خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو رب العزت اس کے تمام گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ دوسرے :یہ کہ اس کےلیے بہشت میں ایک عالی منزل نامزد کرتا ہے۔ تیسرے: یہ کہ اس کی خدمت کےلیے ستر حوریں متعین کرتا ہے۔ چوتھی: یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر اور قیامت کی گھبراہٹ سے بےخوف کردیتا ہے۔ پانچویں: یہ کہ سرخ یاقوت سے بنا ہوا شرف و بزرگی کا تاج اس کے سر پر رکھتا ہے۔ چھٹی: یہ کہ اس کی سفارش اس کے قبیلہ کے ستر افراد کے حق میں دعا قبول فرماتا ہے۔“
بندوں کو عبادات ِ شاقہ پر صبر کی تلقین کرنے کے بعد ان امور کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کی مصیبتوں سے ان کی آزمائش کی جائے گی۔ ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ﴾ فرماتےہیں کہ بہرحال ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے یعنی تمہارے ساتھ آزمانے والوں کا سا معاملہ کریں گے۔ اگرچہ ہم پر تمہاری کوئی حرکت پوشیدہ نہیں ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہر آدمی کا معاملہ امتحان کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ جہان کو معلوم ہوجائے کہ تم میں سے کون ہے جس نے مصائب پر صبر کیا اور ان پر سر تسلیم خم کیا ہے اور کون اشخاص ہیں جنہوں نے بےصبری کی ہے اور قضاء وقدرت پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے تاکہ ان دونوں کے درمیان امتیاز ہوجائے اور یہ آزمائش چند قسم کی ہیں: ایک تو جہاد میں خدا تعالیٰ دشمن کا تھوڑا سا خوف دے کر آزمائیں گے۔ رب العزت اس مقام پر تقلیل کا ذکر اس لیے فرماتے ہیں کہ جہاد میں اللہ تعالیٰ ان پر نگاہ ِ رحمت ڈالتا ہے تاکہ ان کو لڑائی کی مصیبتوں میں خاص تخفیف محسوس ہو اور فرمایا: تمہیں تھوڑی سی بھوک دے کر آزمائیں گے۔ بھوک سے مراد یا تو قحط ہے یا روزہ۔ اور بعض احوال سے نقصان پہنچا کر آزمائش کریں گے، یعنی مال کو حوادثات کی لوٹ کھسوٹ اور زمانہ کی آفات سے نقصان کریں گے اور تمہاری جانوں کو جنگوں ، بیماری اور ضعف ِ پیری سے نقصان پہنچائیں گے یا اس سے مراد اولاد کا مرنا ہے کیونکہ اولاد بھی انسان کے دل کا پھل ہے۔ مروی ہے کہ جب بندہ ٔ مؤمن کا فرزند مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ جب تم نے میرے بندے کے بیٹے کا روح قبض کیا تو اس وقت میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتےہیں کہ اس نے تیری حمد کی۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اشارہ ہوتا ہے کہ تم اس کا گھر بہشت میں بناؤ اور اس کا نام ”بیت الحمد“ رکھو۔ ” وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ“ اے محمدﷺ! ان مصائب و آلام پر صبر کرنے والوں کو بےشمار ثواب کی خوش خبری دے۔ حقیقتاً یہی لوگ بشارت کے مستحق ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی انہیں کوئی مصیبت یا تکلیف یا مکروہ چیز پہنچتی ہے، تو وہ اللہ کے فیصلے کو مانتے ہوئے اس کی رضا پر سر ِ تسلیم خم کردیتے ہیں ”إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ“ یعنی ہم یقیناً اللہ کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں، جو کچھ بھی بندہ کو مولیٰ کی جانب سے پہنچتا ہے ، سوائے تسلیم ورضا کے کوئی چارہ نہیں ہے، بےشک ہم بدلہ و جزا کےلیے اس کی طرف پھرنے والے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے آباء واجداد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بھی چار چیزوں پر عمل کرے گا، وہ اہل بہشت میں سے ہوگا۔ اول: جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے۔ دوم: جب بھی اسے کوئی نعمت اللہ تعالیٰ کی جانب سے پہنچے تو الحمد للہ کہے۔ سوم: جب کوئی گناہ کرے تو استغفر اللہ کہے۔ چہارم: جب بھی اسے کوئی تکلیف پہنچے تو انا للہ وانا الیہ راجعون کہے۔ “ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کے صحابی کا ایک لڑکا فوت ہوگیا۔ تو وہ بہت رویا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ۔ وہ حاضر ہوا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے مرد ِ خدا! بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اور دوزخ کے سات۔ کیا تو اس بات سے خوش نہیں ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے، داخل ہووے۔ تو اس شخص نے کہا: اے پدر ِ من! میں تو آپ کے بغیر بہشت میں نہیں جاؤں گا۔ تو وہ آدمی خوش ہوگیا اور اس کا غم جاتا رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ بزرگی خاص اسی کےلیے ہے یا ہر اس شخص کےلیے جو اللہ تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضامندی کا اظہار کرے؟ مصیبتوں پر صبر کرنے والے اس گروہ پر اللہ کی رحمتیں جن سے مراد بہشت ہے، نازل ہوتی ہیں اور یہی گروہ ہدایت یافتہ ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ”بشر الصابرین“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہے کہ آپ کو اپنے بھائی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ کی زبان ِ مبارک سے یہ کلمہ ”انا للہ وانا الیہ راجعون“ جاری ہوا۔ اس سے قبل کسی نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کلمہ کو سنت قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد ہر مصیبت زدہ جو اس سنت پر عمل کرے گا، میں اس کو غیر متناہی صلواتوں اور رحمتوں سے نوازوں گا۔

ماتم حرام ہے:​ محترم قارئین : ان آیات ِ کریمہ کے ترجمہ و تفسیر کے بعد جو معتبر شیعی کتب سے نقل کی گئی ہیں، معاملہ بالکل صاف نظر آتا ہے کہ موجود ماتم نہ صرف ممنوع ہے بلکہ حرام ہے کیونکہ ان آیات کی ابتدا صیغہ امر ”استعینوا سے ہوتی ہے جس سے واضح ہے کہ استعانت بالصبر واجب ہے کیونکہ اصطلاح ِ شرعی میں امر وجوب کےلیے ہوتا ہے اور ساتھ ہی وجوب کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے: ”طلب الفعل مع المنع عن النقیض“ تو جس طرح استعانت بالصبر مطلوب ہے، ویسے ہی بےصبری ممنوع ہے، تو ممنوع فعل کا کرنا حرام ہے۔ ایسے ہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر ماتم اور جزع فزع کرنا حرام ٹھہرا۔ بقول مولانا فرمان علی تو آیات کا صحیح مصداق ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ ایک عجیب بات ملاحظہ کیجئے کہ شیعوں کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے، بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف بظاہر قتل کیے گئے تھے ، جیسا کہ ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلاء العینین میں لکھتے ہیں: ”ابن بابویہ نے بسند ِ معتبر روایت کی ہے کہ ابوالصلت ہروی نے امام رضا کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک جماعت کوفہ میں ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے اور خدا نے حنظلہ بن اسعد شامی کو ان کی مشابہ بنادیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اس آیت کو حجت پیش کرتے ہیں: ” وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً [النساء : 141] “ یعنی خدا نے کافروں کو مؤمنوں پر دسترس نہیں دی ہے۔ حضرت نے فرمایا: جھوٹ کہتے ہیں، ان پر خدا کی لعنت اور غضب ہو۔ وہ لوگ پیغمبر ِ خدا کی تکذیب کرنے سے کافر ہوگئے کیونکہ رسول خدا ﷺ نے خبر دی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوں گے۔ پس بخدا امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہیں اور وہ شہید ہیں جو ان سے بہتر تھے، یعنی جناب امیر اور امام حسن رضی اللہ عنہما۔“ (ترجمہ اردو جلاء العیون،ج: 2، ص: 161)
اسی صفحہ پر مذکور ہے ، راوی نے کہا: یا ابن رسول اللہ! آپ شیعوں کی ایک جماعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جن کو یہ اعتقاد ہے؟ فرمایا: وہ ہمارے شیعہ نہیں ہیں اور میں ان سے بیزار ہوں۔ پس حضرت نے فرمایا: خدا ان غالیوں پر لعنت کرے جو کہ ہم اہل بیت کے حق میں غلو کرتے ہیں اور حد سے گزر جاتے ہیں۔“
اگر آپ کا بھی یہی عقیدہ ہو تو بصد خوشی جو چاہیں، سو کریں۔ لیکن اگر آپ حضرت امام رضی اللہ عنہ کو شہید مانتے ہیں جیسا کہ ان کے آباء و اجداد کو، تو جب آپ ان پر کسی قسم کا ماتم حرام سمجھتے ہیں تو آپ کو یقیناً حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر بھی ایسا ہی سمجھنا چاہیے ، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول ِ خدا ﷺ کی وفات پر یہ فرمان پڑھیں: ولولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشؤون[/FONT]“ اے رسول! اگر آپ نے ہمیں صبر کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا اور جزع فزع سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آنکھوں کا پانی رو رو کر ختم کردیتے۔ (نہج البلاغۃ، جلد سوم مصری، ص: ۲۵۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔